donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Islamic Articles -->> Islamiyat
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Moulana Md Ajaz Urfi Qasmi
Title :
   Woh Nabiyon Me Rahmat Laqab Pane Wala


 

نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم


وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا


 مولانا محمد اعجاز عرفی قاسمی

قومی صدر آل انڈیا تنظیم علماء حق دہلی


چھٹی صدی عیسوی تاریخ انسانی کی نہایت تاریک ترین صدی رہی ہے ، ایسی صدی جس میں ہر طرف ظلم وستم، نفرت و تشدد اورقتل وغارت گری کا بازار گرم تھا۔ ضلالت و کج روی، فحاشی و عریانیت اور شرک وبت پرستی کا خوفناک سایہ انسانی آبادی پر دراز ہوتا جارہا تھا۔ لوٹ مار، چوری، شراب نوشی، عیاشی، زنا کاری، انسانی حقوق کی علانیہ پامالی، کون سی ایسی برائی تھی، جو اس وقت کے انسان کی رگوں میں سرایت نہ کیے ہوئے تھی۔ انسانی قافلہ اپنی غیر انسانی حرکتوں کے سبب رو بہ ہلاکت تھا۔ انسانی اور سماجی قدریں ایک ایک کرکے رخصت ہو تی جارہی تھیں۔ روئے ارضی شرور و فتن کی آماجگاہ بنی ہوئی تھی۔ فتنہ و فساد کے اندھیرے ہر طرف پھیلتے جارہے تھے۔ انسانی اقدار، اخلاق حسنہ، ایک انسان کا دوسرے انسان پر حق ، مالک و آقا کے حدود ہیں اورحاکم و رعایا کے باہمی حقوق و فرائض اور اس قسم کے سارے اقدار و معیار قصئہ پارینہ بن چکے تھے۔ اپنے ظاہری ڈھانچے اور چہرے بشرے کے ساتھ انسان زندہ تھا۔ لیکن انسانی روح غائب ہو گئی تھی۔انسانی معاشرہ تھا مگر صحیح رہ نمائی کے فقدان کی وجہہ سے ہر طرف جنگل کا قانون رائج تھا۔ ایک آدمی دوسرے کے خون کا پیاسا تھا۔ ایک بھائی دوسرے بھائی کا جانی دشمن بنا ہوا تھا،اس گھٹا ھوپ اندھیرے میں دور دور تک کوئی بندۂ خدا ایسا نظر نہ آتا تھا جس کے اندر معاشرے کی قیادت کا حوصلہ اور جذبہ ہو اور دنیا انسانوں کی خدا فراموشی، بتان ہزرا رنگ کی پرستش اور جہالت و شرک کے اندھیروں کی وجہ سے لگاتار تباہی کی طرف بڑھتی جارہی تھی۔اس وقت کے عرب معاشرے کی حالت زار سیرت النبی کے مؤلف علامہ شبلی کی زبانی سن لیجیے:

’’بتوں پر آدمیوں کی قربانی چڑھائی جاتی تھی، باپ کی منکوحہ بیٹے کو وراثت میں ملتی تھی، حقیقی بہنوں سے ایک ساتھ شادی جائز تھی، ازدواج کی کوئی حد نہ تھی۔ قمار بازی، شراب خوری، زناکاری کا رواج عام تھا۔ بے حیائی کی یہ حالت تھی کہ سب سے بڑا نامور شاعر امرؤ القیس، جو شاہزادہ بھی تھا، قصیدہ میں اپنی پھوپھی زاد بہن کے ساتھ اپنی بدکاری کا واقعہ مزے لے لے کر بیان کرتا ہے اور یہ قصیدہ در کعبہ پر آویزاں کیاجاتا ہے۔ لڑائیوں میں لوگوں کو زندہ جلادینا، مستورات کے پیٹ چاک کردینا، معصوم بچوں کو تہ تیغ کرنا عموما جائز تھا۔‘‘

 ایسے پر آشوب حالات میں دنیا کے بھٹکے ہوئے انسانی قافلے کو کھویا ہوا مقام واپس دلانے کے لیے خالق کائنات مالک دو جہاں اللہ تبارک وتعالی نے آپ ﷺ کو روئے ارضی پر مبعوث فرمایا۔ آج سے چودہ سو سال قبل جب آپ ﷺ نے آمنہ کی گود میں آنکھیں کھولی تھیں۔مؤرخین کی روایت کے مطابق وہ یہی ربیع الاول کا مبارک مہینہ تھا۔ آپ ﷺ کی بعثت ایک معجزہ تھی، اس لیے آپﷺ کے اس دنیائے آب و گل میں آتے ہی قیصر و کسری کے ایوانوں میں ہل چل مچ گئی۔ شرک و بت پرستی کے ایوانوں میں کہرام برپا ہوگیا،بتان ہزار رنگ اوندھے منہ گر پڑے۔رو بہ زوال انسانیت نے ٹھہر کر سانس لی اور فراموش کردئہ راہ انسانی قافلے نے اپنی سمت سفر درست کی۔ عاشق رسول اور سیرت نگار مولانا عبد الماجد دریابادی آپ کی ولادت باسعادت کے بعد روئے ارضی پر رونما ہونے والی تبدیلی کا نقشہ اس طرح کھینچا ہے:

’’زمین خشک اور پیاسی پڑی ہوتی ہے، بارش کے فیض سے افسردہ چمن لہلہانے لگتا ہے، مردہ کھیتی میں جان پڑتی ہے، سویا ہوا سبزہ جاگ اٹھتا ہے۔ باغ سنسان پڑا ہوتا ہے، بہار کی ہواچلتے ہی نئی اور ہری پتیاں نکل آتی ہیں، اور اجڑا ہوا باغ پھر سر سبزو شاداب ہوجاتا ہے۔ عالم پر شب کی سیاہی چھائی ہوتی ہے، ہر شے تاریکی میں گم ہوتی ہے۔ صبح کے طلوع ہوتے ہی، ہر طرف اجالا پھیل جاتا ہے، اور ہر ذرہ روشن ہونے لگتا ہے۔ ایک پاک روح دنیا میں اصلاح و تزکیہ کے لیے آتی ہے اور اپنے فیض صحبت سے ، بہت سے اندھوں کو بینا، بہت سے بیماروں کو تندرست اور بہت سے مردوں کو زندہ کردیتی ہے۔‘‘ (ذکر رسولﷺ، ص:۱۹

آقائے دو جہاں، سرکارمدینہ تاج دار بطحاآپ ﷺ ہماری ہی طرح کے ایک انسان تھے، مگر وہ ہادی عالم اور رہ بر انسانیت کا اعلی منصب دے کر مبعوث کیے گئے تھے، چالیس سال کی عمر میں ہی سب سے بڑی دمہ داری کار نبوت کا پروانہ مل جاتا ہے،اس لیے خدا کی طرف سے مفوضہ ذمے داری کی ادائیگی اور انسانی معاشرے کو صحیح خطوط پر لانے کے لیے شبانہ روز جدو جہد کی۔ راہ میں مشکلات آئیں، مصائب نے دامن تھاما، مسائل نے سنگ گراں کا رول ادا کیا،اپنوں نے بے نیازی دکھائی، دشمنوں نے دشمنی سے کام لیا، لیکن کیا مجال کہ آپﷺنے ناسازگار حالات اور مصائب و مسائل کے سامنے سپر ڈالی دی ہو۔ بلکہ تاریخ نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ حالات نے جتنی مخالفت کی، کفر وشرک اور حیوانیت و درندگی کی لہروں نے جس قدر تیور دکھائے، آپ ﷺ اس سے زیادہ عزم و ہمت ، جرأت و استقلال اور محنت کے ساتھ اپنے فرض منصبی کی ادائیگی میں منہمک رہے۔ آپ ﷺ نے خدا کے حکم پر انسانی آبادی کو اس کا کھویا ہوا مقام یاد دلایا، انھیں انسانی رشتوں کی پاسداری کا واسطہ دیا۔ انسانیت کے اوپر سے ضلالت اور گمراہی کابوجھ اتارا۔ انسانیت کو یہ یاد دلایا کہ ان کی تخلیق کا اصل مقصد کیا ہے، اور اس وسیع وعریض کائنات کی تخلیق کی پشت پر کون سا مقصد کار فرما ہے۔انسان جو اپنے خالق ومالک کو فراموش کرکے ہزاروں قسم کی دنیاوی رسومات کی بیڑیاں اپنے پیروں میں ڈالے ہوئے تھا،رسم و رواج کے تنگ نائے میں بند تھا، آپ ﷺ نے انھیں ان غیر انسانی رسم ورواج کی زنجیروں سے آزاد کرایا۔ انھیں ہزاروں خداؤوں کے سامنے سجدہ کرنے سے منع کیا اور انھیں ایک خدا کی بندگی کا درس دیا۔ انھیں یہ سبق یاد دلایا کہ پورا انسانی کنبہ خدا کا کنبہ ہے۔ انسانوں کے درمیان نسل اور علاقائیت کی بنیاد پر کوئی تفریق نہیں۔ اسلام میں قوم وقبیلہ اور کالے گورے کی کوئی تمیز نہیں،آپﷺ نے انسانیت و شرافت ، اخوت و بھائی چارگی،ایک دوسرے کے احترام اور محبت کی بنیاد پروہ انسانی نظام برپا کیا کہ دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا کی کایا پلٹ ہوگئی۔

آپ ﷺ نے چالیس سال کی عمر میں نبوت پائی اور محض ۲۳؍ سال کی مختصر مدت میں تہذیب و تمدن سے ناآشنا عرب بدووں میں وہ انسانی روح بیدار کردی کہ بڑے بڑے فلاسفر ، مصلح اور تحریک سازاور تاریخ داں انگشت بدنداں ہیں۔ یہ عالم انسانیت پر آپﷺ کا بڑا احسان ہے کہ آپ ﷺ نے اپنی ذات کی پروانہ کرکے عالم انسانیت کو اجتماعی ذلت اور خواری کی طرف بڑھنے سے بچا لیا۔ اانسانی قافلے کو صراط مستقیم پر گامزن کرکے اس قافلے کے ارکان کو ادھر ادھر مارے مارے پھرنے اور ذلت کی زندگی جینے سے تحفظ عطا کیا۔ یہی وجہہ ہے کہ ہم لوگ آپ کی ولادت با سعادت سے موسوم اس مبارک مہینے ربیع الاول میں آپﷺ کی یاد تازہ کرتے ہیں، ان کی زندگی کے گوشوں کے تذکرے سے اپنے اندر کی تاریکی کو روشنی سے منور کرتے ہیں۔ اور ان کے عالمی پیغامات اور انسانی ہدایات کی از سر نو تجدید کرتے ہیں کہ ہم انسان بڑے زود فراموش اور غفلت شعار واقع ہوئے ہیں۔ اگرہم ربیع الاول کے اس مبارک مہینے میں بھی آپﷺ کی زندگی ، اور ان کے شب وروز اور ان کے عالمی انسانی پیغامات کی یاد تازہ نہ کریں تو ہماری زندگی سے پیغام نبوی کی معنویت اور ا س کی اثر اندوزی کا مادہ بھی رخصت ہو جائے۔

آپ ﷺ کو اس دنیا کے لیے رحمت بناکر مبعوث کیا گیاہے۔ اور رحمۃ للعالمین کایہ لقب خود خالق ارص و سما نے عطا کیا ہے،عربی داں جانتے ہیں کہ رحمت بڑا ہی جامع لفظ ہے، جس میں محبت، شفقت، ہمدردی، اخوت و بھائی چارگی اور فضل واحسان کے سارے پہلو بیک وقت سماجاتے ہیں۔ پھر عالمین کے لفظ میں جو نکتہ پوشیدہ ہے۔ وہ بھی اہل علم پر مخفی نہیں کہ آپﷺ صرف عالم انسانیت کی طرف ہی مبعوث نہیںہوئے تھے، بلکہ جن و بشر اور چرند و پرند جیسی دوسری مخلوقات کو بھی آپﷺ کی رحمت اور فضیلت کا دائرہ محیط ہے۔ آپﷺ کی ذات صرف انسانوں کے لیے ہی نہیں، بلکہ جانوروں کے لیے بھی رحمت بن کر نمودار ہوئی ہے۔آپﷺ نے انسانوں کے ساتھ ہی نہیں، جانوروں کے ساتھ بھی نرم روی اور رحم دلی کا رویہ اپنانے کی تلقین کی ہے۔ آپﷺنے کیا چھوٹا اور کیا بڑا، کیا بیگانہ اور کیا رشتہ دار،کیا عربی اور کیا عجمی، کیا مسلم اور کیا غیر مسلم سبھی کے ساتھ رحمت اور نرمی کا برتاو کرنے کی اپنے اصحاب کو تعلیم دیاکرتے تھے کہ نرمی اور حسن سلوک سے پتھر دل بھی پسیج جاتے ہیں۔ آپﷺ کا ارشاد ہے کہ اے اہل زمین تم خدا کی مخلوق پر رحم کرو، خدا تم پر حم کرے گا۔ حالی کی زبان میں اس مفہوم کو اس طرح ادا کیا گیا ہے:

کرو مہربانی تم اہل زمین پر
خدا مہرباں ہوگا عرش بریں پر

اسلام اور اسلامی تعلیمات کسی خاص ملک یا کسی خاص قوم کے ساتھ مخصوص نہیں ہے، یہ تو پوری انسانیت کی صلاح و فلاح کا عالمی مذہب بن کر آیا ہے، ہمارے پیغمبرآپ ﷺ نے اسلام کوایک جامع نظام حیات کے طور پر متعارف کرایا ، جس میں عبادت وعقائدسے لے کر معاملات، اور انسانی معاشرت کے تمام اصول وآداب اور قوانین و ضوابط بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کردیے ہیں۔ تعلیم، معاش، سیاست، زراعت ،تجارت،غرض انسانی زندگی کا کوئی ایسا شعبہ نہیں ہے جس کے بارے میں آپﷺ نے وضاحت کے ساتھ روشنی نہ ڈالی ہو۔ میاں بیوی کے کیا حقوق ہیں، غیر مسلموں سے کس طرح پیش آنا چاہیے، اولاد اور والدین کے درمیا ن رشتوں کی کیا نوعیت ہے، ایک مسلمان اور صاحب ایمان کو کن اوصاف کا حامل ہونا چاہیے،ایک جمہوری ملک میں رعایا اور حکمراں کے درمیان حقوق و فرائض کی کیا حدود ہیں، غرض انفرادی زندگی سے لر کر اجتماعی زندگی کے تمام اسرار و رموز کو بڑے شرح وبسط کے ساتھ بیان کردیا ہے۔ لیکن کیا ہم نے کبھی اپنے باطن کو ٹٹول کر دیکھا کہ ہم نے ان اسلامی تعلیمات کو عملی جامہ پہنانے کی کس حد تک کوشش کی، کیا ہم نے صدق دلی کے ساتھ آپﷺ کے اسوئہ حسنہ کے اتباع اور حیات نبوی کی پیروی کی کوشش کی۔حقیقت تو یہ ہے کہ ہماری اجتماعی اور انفرادی زندگی سے اسلامی روح اس طرح غائب ہوگئی اور ہم اس طرح مغربیت کے طوفان کے شکار ہوتے جا رہے ہیں کہ ہمیں دیکھ کر مسلمان تو بڑی بات ہے، اہل یہود بھی شرماتے ہیں۔علامہ اقبال نے ایسے ہی مسلمانوں کی مذہبی حالت کی صحیح ترجمانی اس طرح کی تھی۔

وضع میں تم ہو نصاری تو تمدن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں جنھیں دیکھ کے شرمائیں یہود

آپ ﷺ اخلاق حسنہ اور حسن سلوک کا مجسمہ تھے۔ آپ نے ارشاد فرمایا کہ میں مکارم اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہوں۔ لیکن ہم میں ایسے کتنے ہیں جن کے حسن اخلاق اور خوش خلقی سے دوسرے متأثر ہوں اور ہماری عادت واطوار اور حرکت و عمل سے سبق لے کر اسلام کی آفاقیت کا نقش غیر مسلموں کے دلوں پر قائم ہوسکے۔ آج ہماری بد اخلاقی ، بد سلوکی ، اسلام فراموشی اور حیا سوز حرکتوںکی وجہ سے انسانیت اور آدمیت جیسے قیمتی اقدار دنیا سے عنقا ہوتے جا رہے ہیں۔ ہم انسانیت کی بنیاد پر ایک دوسرے سے ہمدردانہ معاملہ نہیں کرتے ، بلکہ اس کے حسب نسب، قوم و علاقہ اور اس کے سیاسی اور سماجی پس منظر کے اعتبار سے معاشرت ومعاملت کرتے ہیں۔ ذات پات کی تفریق، علاقائیت کی وباء ، رنگ و نسل کا عفریت ہمارے اعصاب پر بری طرح سوار ہے۔ کہیں فرقہ بندی ہے تو کہیں ذاتیں ہیں۔ ہمارے بیچ میں خود ساختہ امتیازات اور تفریق کی وہ دیوار حائل ہے کہ مخلوق خدا اس کی وجہ سے نفرت اور عصبیت کا شکار ہوتی جارہی ہے۔ جب کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا تھا کہ تمام مخلوق خدا کا کنبہ ہے اور خدا کا سب سے زیادہ محبوب بندہ وہ ہے، جو اس کے بندوں کے ساتھ بھلائی کے ساتھ پیش آتا ہے۔آپ ﷺ تو اہل ایمان سے حسن سلوک سے پیش آتے ہی تھے، غیر مسلموں اور جانی دشمنوں کے ساتھ بھی بڑی مروت سے پیش آتے تھے۔آپﷺ صلح و عفو اور درگزر کرنے کے عمل کو بہت پسند فرماتے تھے ۔ حدیث نبوی ہے۔ جو تجھ سے قطع تعلق کرے، اس سے بھی ملتے رہو، جو تم پرظلم کرے، اس کو معاف کردو، جو تمھارے ساتھ برا سلوک کرے اس کے ساتھ بھی بھلائی کرو۔  صحابۂ کرام ؓ نے ایک بار کفار مکہ کی ایدا رسانی سے تنگ آکر دربار نبوت میں جب یہ عرض کیا کہ ان کے لیے بد دعا فرمادیں، تو آپ نے بس اتنا فرمایا کہ بار الہ! ہماری قوم کو راہ راست دکھا دیجیے کہ یہ لوگ نادان ہیں۔غزوئہ بدر، غزوئہ احد، فتح مکہ اور صلح حدیبیہ کے موقع پر آپ ﷺ نے کفار و مشرکین کے ساتھ جو برتاؤ کیا اس نے پتھر دل پر بھی تیر کا سا اثر کیا۔ وہ کون سی اذیت اور مصیبت تھی جس سے آپﷺ کو نہ گزارا گیا ہو، طائف تشریف لے گئے، تو وہاں کے شرارت پیشہ لڑکوں نے پتھروں سے جسم اطہر کو لہو لہان کردیا، خدائی پیغام لے کر جہاں بھی گئے ، آپ کا استقبال گالیوں، لاٹھیوں اور ڈنڈوں سے کیا گیا، قسم قسم کے الزامات کا ٹھیکر اآپ کے سر پھوڑا گیا، مجنوں، پاگل، دیوانہ اور ساحر کہا گیا، اپنے مقصد سے پھر بھی باز نہ آئے تو شعب ابی طالب میں نظر بندی کا دشوار گزار مرحلہ عبور کرنا پڑا، غرضیکہ مختلف طریقہ سے آپ پر عرصئہ حیات تنگ کرنے کی کفار مکہ نے کوشش کی، لیکن آپ ﷺ ہر موقع پر صبر وتحمل کے پیکر بنے رہے۔ آپﷺ کے اسی صبر و سکون نے خدا معلوم کتنے کفار مکہ پر تیر کا سا اثر کیا اور اس نے اسلام  اور ایمان کی آغوش میں پناہ لی۔ جس طرح پھول کی پتی سے ہیرے کا جگر کٹ جاتا ہے، اسی طرح اخلاق کی غیر مرئی تاثیر انسانی دلوں پر اثر انداز ہوتی ہے۔ آپﷺ کے اخلاق کریمانہ آج بھی ہمیں دعوت عمل دیتے ہیں، تاکہ اسلام کا آفاقی پیغام پتھر دل انسانوں پر جادو کا اثر کر سکے۔ لیکن آج کا المیہ ہے کہ نہ ہمارے قلب میں سوز ہے ، نہ روح میں کوئی احساس باقی ہے اور نہ ہی ہمیں پیغام محمد کا کوئی پاس ہے۔ آج ہمارے اندر سے اخلاق کا جنازہ نکل چکا ہے اور ہماری بد اخلاقی اور بے مروتی کو دیکھ دیکھ غیروں کی زبان سے یہ طنزیہ جملہ نکلتا ہے:

تھے تو وہ آباء تمھارے مگر تم کیا ہو

آج مشرق و مغرب اور پوری دنیا چیخ چیخ کر مساوات او ربرابری کا نعرہ لگا رہی ہے، حالاں کہ دنیا والوں نے خود ایسے غیر منصفانہ اصول اور ضابطے بنا رکھے ہیں، جس میں انسانیت ایک مرکزی نقطے پر جمع ہونے کے بجائے مزید دھڑوں اور گروہوںمیں منقسم ہوتی جارہی ہے۔ یہاں تو ہر جگہ اور ہر شعبئہ میںشہ زوروں کا دخل ہے، اس انسانی دنیا میں کمزوروں کا کوئی فریادرس نہیں اور کون ہے جو سماج کے پسماندہ اور دبے کچلے طبقے کی خیر خبر لے۔ جب کہ اگرآپﷺ کے اسوئہ حسنہ پر غور کیا جائے تو آپ ﷺ نے اپنی زندگی کے ہر موڑ پر مساوات اور انسانی برابری کا در س دیا ہے۔ عدل و انصاف ہی آپ کا نعرہ تھا۔آپﷺ کا ارشاد ہے کہ میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ سارے انسان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ بخاری شریف کی ایک حدیث میں یہ مضمون وارد ہواہے کہ تم آپس میں نہ بغض وعناد کا مظاہرہ کرو، نہ پشت پھیرو ، بلکہ برادرانہ تعلقات کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو۔ اور آپﷺ نے عرفات کے میدان میں کھڑے ہوکر عالم انسانیت کو برابری اور مساوات کا جو منشور دیا تھا، وہ آج بھی ہمیں غور و فکر کی دعوت دیتا ہے۔ آپﷺ نے جابرانہ نظام کے ایک ایک ستون کو اپنے پیروں تلے روند دیا تھا۔  اور مسلمانوں کی ایک بڑی جمعیت کے سامنے علی الاعلان یہ کہا تھاکہ نہ کسی عربی کو غیر عربی پر فضیلت حاصل ہے اور نہ کسی گورے کو کالے پر کوئی فضیلت حاصل ہوگی۔ بیسویں صدی میں دنیا کے نقشے پر نمودار ہونے والی اقوام متحدہ نے برابری اور مساوات کے جو اصول قائم کیے ، اس کا واضح اعلان آپﷺ نے آج سے چودہ سو سال قبل کردیا تھا۔

آج پھر دنیا انھی حالات سے گزر رہی ہے، جو آپﷺ کی پیدائش کے وقت عالم انسانیت پر چھائے ہوئے تھے۔ ہم اپنے گرد وپیش کا جائزہ لیں ہمیں اچھی طرح اندازہ ہوجائے گا کہ چوری، لوٹ مار، قتل وغارت گری، فحاشی و عریانیت، ہوس رانی ، زناکاری اور علانیہ بد کاری کا وہ کونسا شعبہ ہے جو آج کے انسانوں کی رگوںمیں خون بن کر نہیں گردش کر رہا ہے۔عورت، شراب، قمار، شہوت پرستی، سود خواری کی ہر طرف حکمرانی نظر آتی ہے۔ انسانوں نے ایک خدا کوچھوڑ کر کئی خدا تراش لیے ہیں۔پورے انسانی معاشرے پر مردنی کی کیفیت چھائی ہوئی ہے۔ ہر جگہ تاریکیوں نے اپنے ڈیرے ڈال رکھے ہیںڈ کہیں روشنی کا نام و نشان نظر نہیں آتا۔ انسان اپنے ظاہری جسمانی ڈھانچے کے ساتھ ضرور موجود اور زندہ ہے، مگرحقیقت میں اس کے اندر کا انسان مر چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ معمولی باتوں کے لیے اپنے دوسرے بھائی کی جان اور مال کا دشمن بنا ہواہے۔اس کے اندر سے اچھائی اور برائی کی تمیز رخصت ہوچکی ہے۔ انسانی حقوق کی پامالی اب چند لمحوں کا کھیل بن کر رہ گئی ہے۔ جس طرح ولادت نبوی سے پہلے قیصر و کسری کی جابرانہ اور ظالمانہ حکومت ظلم و ستم کا فرمان جاری کرتی تھیں، اسی طرح آج بھی چند بڑی طاقتیں اپنی جھوٹی شان و شوکت اور اسلحہ و طاقت پر اترا رہی ہیں اور وہ علی الاعلان چھوٹے اور کمزور ممالک کی موت کا فرمان جاری کرتی ہیں اور اگر کوئی سرمو بھی ان عالمی طاقتوں کے فرمان سے انحراف کریں تو ان کے خلاف اپنے حواریوں کی تعاون سے وہ سازش کی جاتی ہے کہ خدا کی پناہ۔ امریکہ کے ہاتھوں پہلے افغانستان او رپھرعراق کی تباہی اس کی گواہ ہے۔لاقانونیت اور جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا قانون آج اتنا زور پکڑتا جارہا ہے کہ سارے کمزور ممالک اور وہاں کے باشندے خوف کی چادر میں لپٹے نظر آتے ہیں۔

 انسانیت اجتماعی طور پر دکھی اور زخمی ہے، اس کے دکھوں اور ززحموں کا مداواکرنے والا کوئی نہیں،وہ بے چین اور بے کل ہے ، اس کو کوئی جائے سکون و قرار نہیں مل رہی ہے۔ اگر کوئی سکون اور عافیت کی جا ہے، تو وہ پیارے آقا تاجدار مدینہ محمد ﷺ کا اسوئہ حسنہ ہے کہ وہیں تمام امراض کی دوا موجود ہے۔ آپﷺ نے قر آن وحدیث پر مبنی جو نظام خداوندی چھوڑا تھا، آج پھر ضرورت ہے کہ ہم اس کی طرف جست لگائیں اور آپﷺ کی ذات اقدس سے محبت کا ثبوت دیتے ہوئے اسی نظام کو اپنی اجتماعی اور انفرادی زندگی میں برپاکرنے کی کوشش کریں جس نے آج سے چودہ سو سال قبل بھٹکے ہوئے انسانی قافلے کی انگلی پکڑ کر اس کو صحیح راہ دکھائی تھی۔ ہم مسلمانوں کو خاص طور سے اپنے قول وعمل کے ذریعے اسلام کا مکمل نمونہ بناکر اپنے کو دنیا کے سامنے پیش کرنا چاہیے ۔ ہم اپنی قولی اور عملی زندگی کی دوبارہ تجدید کریں، مال و دولت کی بے جا ہوس چھوڑ دیں، بلا وجہ جاہ و منصب کے پیچھے نہ بھاگیں، رشوت ستانی اور سود خوری کی لعنت سے باز آجائیں، انسانوں کے ساتھ بد خوئی اور بد معاملگی سے پیش آنا چوڑدیں، عورتوں، بچوں اور کمزروں پر ظلم نہ کریں، اپنے ملک و قوم کے ساتھ وفاداری کا ثبوت دیں۔ یہی اعمال آپ ﷺ سے سچی محبت اور بے ریادوستی کا عین تقاضا ہے۔ ہماری حرکت و عمل سے ہی اسلام کا آفاقی پیغام غیروں کے قلب و نظر پر اثر انداز ہوسکتا ہے۔ماہ ربیع الاول کا یہ مبارک و مسعود مہینہ ہر سال اسی لیے آتا ہے کہ ہم اپنے گریباں میں جھانکیں،اپنا محاسبہ کریں، اپنی انفرادی زندگی کا جائزہ لیں،اور پھر ایک نئے جوش اور ولولے کے ساتھ زندگی کے میدان میں اسلام کے ترجمان بن کر دکھا ئیں کیوں کہ اسی طرح آفتاب سعادت کی کرنیں پھوٹیں گی اور ہرگھر میں نیکی اور خوش بختی کا اجالا پھیلے گا۔

اللہم صل علی محمد وعلی آل محمد

****************************

 


    

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 679