donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Islamic Articles -->> Islamiyat
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Mufti Md Arif Billah Qasmi
Title :
   Ulmaye Deoband Aur Ishqe Rasool

علماء دیوبند اور عشق رسول ﷺ


 مفتی محمد عارف باللہ القاسمیؔ



رسول اکرم ﷺ پر ایمان لا نا ، آپ کی عظمت کو دل میں بسانا ، آپ کی محبت سے دل کو معمور کرنا اور آپ کے عشق میں سرمست رہنا دین اسلام کی بنیادوں میں سے ایک اہم بنیادہے جس کے بغیر ایمان میں کمال پیدا نہیں ہوسکتا، اور تقرب ولایت کا مقام حاصل نہیں ہوسکتا۔رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے :

لا یومن احدکم حتی اکون احب اليه من والده  وولده والناس اجمعین۔(بخاری

’’تم میں کا کوئی اس وقت تک مؤمن کامل نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے والد ، اس کی لڑکے اور سارے لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجائوں‘‘
اسی حقیقت کو شاعر اسلام علامہ اقبال ؒنے ان الفاظ میں بیان کیا ہے :

محمدؐ  کی محبت  د ین حق کی شرط اول  ہے
اگراس میں ہے کچھ خامی تو ایماں نامکمل ہے

اسی لئے سب سے پہلے صحابہ کرام نے عشق رسول کا حیرت انگیز کارنامہ پیش کیا اور پھر ان کو نمونہ بنا تے ہوئے تابعین ، تبع تابعین اور ہردور کے علماء حق نے عشق رسول کو ہی اپنا نصب العین بنایا اور سرکار دوعالم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں زبان حال سے یہ کہتے ہوئے دنیا اور دنیاکی تمام لذتوں سے اپنا رشتہ توڑ لیا :

روز اول  سے  مرا دل ہے فدائے مصطفی
تاج سر میرے لئے ہے نقش پائے مصطفی
توڑ نادان غیر سے رشتہ  یہیں  تحقیق کر
دولت کون ومکاں ہے  زیر پائے مصطفی

رسول اکرم ﷺ سے عشق ومحبت اور شیفتگی ووارفتگی میں کمال کو پہونچنے والے علماء حق میں جہاںامام غزالیؒ ، جنید بغدادیؒ ،شبلیؒ ، رومیؒ ، سعدیؒ ،رازیؒ،جامیؒ ،شیخ عبد القادر جیلانیؒ، حافظ شیرازیؒ ، شیخ فرید الدین عطارؒ ،شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒاورشاہ عبد العزیز دہلویؒ وغیرہ کے نام لئے جاتے ہیں وہیں عشاق رسول کی فہرست میں نمایاں نام علماء دیوبند کا بھی آتا ہے ۔کہ انہوں نے عشق رسول کی راہ میں ایسے نمونے چھوڑے ہیں کہ دنیا اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ سچ یہ ہے کہ انہوں نے برصغیر ہندوپا ک میں عشق نبی کی تخم ریزی کی ہے ،انہوں نے زنگ آلودہ اور دنیاوی لذتوں میں محو دلوں کو اپنی تعلیم وتربیت کے ذریعہ عشق رسول کا مرکز و محور بنایا ہے، انہوں نے گستاخاں رسول کو محبان رسول بنایاہے،انہوں نے نبوت کی توہین کرنے والوں کو قدردانان نبوت بنایاہے اوربدعات رسومات میں کھوئی ہوئی قوم کومحبوب رب العالمین  ﷺ کی مٹی ہوئی سنتوں سے واقف کرایاہے اور شمع نبوت کو چپہ چپہ میں ایسا روشن کیا ہے کہ پورا عالم ضیابار ہوگیا ، اور بالآخر جن کی زبانوں پر کلمات کفر وشرک جاری تھے ان کی زبانوں سے کلمہ توحیداور نعت نبوت کی صدا آنے لگی۔علماء دیوبند کی انہیں خدمات کو دیکھ کر شور ش کاشمیری نے انہیں ان الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا :

اس میں  نہیں  کلام کے دیوبند کا وجود
ہندوستاں کے  سر پہ ہے  احسان مصطفی
تا  حشر  اس  پہ  رحمت  پروردگار  ہو
پیدا  کئے  ہیں  جس  نے فدایان مصطفی
گونجے گا چار کھونٹ میں نانوتوی کا نام
بانٹا  ہے جس نے   بادۂ عرفان  مصطفی

سچ یہ ہے کہ علماء دیوبند نے عشق رسول کا حق ادا کیا ہے ،اور دین کی راہ میں ایسی ایسی قربانیاں پیش کی ہیں جوان کے کمال عشق کی دلیل ہیں،کوئی بتائے کہ رسول اللہ کے لائے ہوئے دین کو جب کفروشرک اوریہودیت و عیسائیت نے نشابہ بنانا چاہا تو جان ومال نثار کرکے تحفظ دین کے لئے کون میدا ن میں آیا؟ رسول اللہ ﷺ کی ازواج مطہرات اورآپ کے اصحاب کو لعن وطعن کرنے والوں سے مقابلہ اور مناظرہ کس نے کیا ؟ختم نبوت کی حفاظت کس نے کی ؟ قادیانیت کے سیل رواں کے آگے کون سد سکندری بنارہا؟بدعتوں کے ہجوم میں مار کھا کراور گالیاں سن کر کس نے نعرۂ سنت بلند کیا ؟بت کدوں کے ماحول میں مشن نبوت کس نے کو آگے بڑھا یا اور کس نے لا الہ الا اللہ کی صدائیں بلند کیں؟……عشق نبوی میں سرمست علماء دیوبند ہی کے سران تمام بے لوث کارناموں کا سہرا جاتا ہے ۔جنہوں خود کوتوقربان کردیا ،لیکن دین محمدی اور مشن پیغمبری کے خلاف دشمنوں کی سازش کو کامیاب نہ ہونے دیااور تحفظ دین کی خاطر یہ کہتے ہوئے جام شہادت نوش کرلیا:

خوشاوقتیکہ کہ میری موت ترے کوچہ میں آجائے
یہی  تو  زندگی کا  آخری  ارمان  ہے  ساقی

اکابر دیوبند کی نمایاں خصوصیات میں سے ایک ممتاز خصوصیت رسول اللہ ﷺ کی ذات گرامی سے والہانہ شیفتگی ہے ،اور یہ ان کے قول وعمل دونوں میں بکثرت نمایاں طور پر موجود ہے ،سرخیل علماء دیوبند مولانا قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ عشق نبوی میں اس مقام پر فائز تھے کہ
جس سرزمین پر نبی اکرم ﷺ کے قدم مبارک پڑے ہیں ان کی عظمت ومحبت بھی ان کے دل میں اس قدر راسخ تھی کہ جب آپ حج کے لئے تشریف لے گئے تو مدینہ منورہ سے کئی میل کی دوری پر ہی برہنہ پاہوگئے، اور آپ کی ضمیر نے یہ گوارا نہ کیا کہ سرزمین رسول پر جوتے پہن کر چلیں۔اور یہی نہیں بلکہ ان قلب انور میں تعظیم نبوت اس قدر بھر ی ہوئی تھی کہ آپ کی زبان سے عشق محبت میں ڈوبے ہوئے یہ اشعار نکلتے ہیں:

امیدیں لاکھوں ہیں لیکن بڑی امید یہ ہے
کہ  ہو  سگان مدینہ  میں  میرا نام  شمار
جیوں تو ساتھ سگان حرم کے تیرے پھروں
مروں تو کھائیں مدینہ کے مجھ کو  مورومار
اڑا کے باد مری مشت خاک کو  پس مرگ
کرے حضور کے روضہ کے آس پاس غبار
ولے یہ رتبہ کہاں مشت خاک قاسم کا
کہ جائے کوچۂ اطہر کو تیرے بن کے غبار

یہ وہ اشعا ر جن کے ایک ایک لفظ سے عشق نبی میں فنائیت کا وصف نمایاں ہوتا ہے ۔ مولانا رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ جو سرخیل علماء بھی تھے اور سرتاج اولیاء بھی،ان کے عشق رسول میں فنائیت کا اندازہ اس سے لگا یا جاسکتا ہے کہ مدینہ کے کھجورکی گٹھلیاں پیس کر صبح وشام کھایا کرتے تھے،کسی نے اس پر تعجب کا اظہار کیا تو آپ نے فرمایا کہ تم گٹھلیوں کی بات کرتے ہو،مجھے تو یقین ہے کہ مدینہ کی مٹی میں بھی شفا ہے۔

مدینہ کی مٹی  بھی خاک  شفا  ہے   ٭  یہاں  تک ہے  دل میں  وقار مدینہ
لگائیں گے آنکھوں میں سرمہ سمجھ کر   ٭ ملے  گر  ہمیں  کچھ   غبار   مدینہ

انہیں علماء دیوبند میں علم وفن میں ممتاز مولانا حسین احمد مدنی بھی ہیں جنہوں نے اٹھارہ سال تک مسجد نبوی میں درس حدیث دیا،اور پھر ایک وقت وہ آ یا جب اس دیار محبوب سے جدائیگی پر مجبور ہونا پڑا توروضہ اقدس کی جالی کو دیکھتے ہوئے پر نم آنکھوں کے ساتھ یہ اشعار کہتے ہوئے رخصت ہوئے:

چمکتا رہے تیرے روضہ کا منظر  ٭   سلامت رہے تیرے روضہ کی جالی
ہمیں بھی عطا ہووہ شوق ابوبکر  ٭   ہمیں  بھی عطا ہو  و ہ جذبہ  بلالی

مولانا حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ کے شاگر خاص مفتی محمود حسن گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ کا عشق رسول میں یہ عالم تھا کا جب بھی نعت پڑھتے تھے یا ان کے سامنے نعت پڑھی جاتی توآپ پر عجیب وغریب والہانہ کیفیت طاری ہوجاتی اور وفور شوق اور جذبہ محبت سے مغلوبیت کے عالم میں بے اختیار آپ کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوجاتے۔

مسلک دیوبند کے ترجمان اوربرصغیر میں اہلسنت والجماعت اور فقہ حنفی کے علمبردار مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کو دیکھئے، ان کی زندگی کا ہر لمحہ اطاعت رسول اور محبت رسول کا مظہر تھا ،وہ صرف ایک عاشق رسول ہی نہیں تھے بلکہ عشاق رسول کے مربی اور عشاق گرتھے ، انہیں کی تربیت کا اثر تھا کہ خواجہ عزیز الحسن مجذوبؒ ،حضرت مولانا اسعد اللہ صاحب ؒ، حضرت مولانا شاہ ابرار الحق صاحبؒ جیسے عاشق رسول اور سنت نبویہ کے سچے علمبردار پیدا ہوئے ،جنہوں نے اپنی روزوشب کی محنت سے عوام و خواص کو بھی حب نبی سے سرشار کردیااور نبی کی سنتوں کا عامل بنادیا۔

آپ ہی کے مرید اور آپ کی صحبت سے مستفیض علامہ سید سلیمان ندوی ؔ علیہ الرحمۃ کی تحریر وتقریر کو دیکھئے ، وہ اس بات کی گواہ ہیں کہ عشق رسول میں ان کی حالت ایک عاشق زار کی سی تھی ، کہ ان کو رسول اللہ ﷺ کی ہرادا بے حد پسند تھی اور وہ آپ ﷺ کی ہرادا کے اسیر تھے۔ اور آپ کی ادا ہی نہیں بلکہ آپ سے وابستہ تمام چیزوں کی محبت وعظمت ان کے دل میں پیوست تھی،اسی کمال محبت اور اعتراف عظمت کو ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں:

توہے مجموعہ خوبی وسراپائے کمال
کون سی تیری ادا دل کی طلب گار نہیں
ہرقدم بادصباء حسن ادب سے رکھنا
بوئے گیسوئے نبی نافہ تاتار نہیں
شک نہیں مطلع والشمس ہے بطحا کی زمیں
کون سا ذرہ وہاں مطلع انوار نہیں

حکیم الامت حضرت تھانوی ؒ کے شیخ ومربی حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ کو رسول اللہ کی محبت میں ایسا مقام نصیب ہوچکا تھا کہ دیدار محبوب کے لئے بس ذرا سا نظروں کا جھکانا اور بند کرنا کافی تھا۔آپ کی شیفتگی و سرشاری، جاں نثاری وجاں سپاری کا سوز وگداز آپ کے ان اشعار میں نمایاں نظر آتا ہے ، کہتے ہیں:

کرکے نثار آپ پر گھر بار یا رسولؐ
اب آپڑا ہو آپ کے دربار یا رسولؐ
ذات آپ کی تو رحمت وشفقت ہے سربسر
میں گرچہ ہوں تمام خطاوار یارسولؐ
ہو آستانہ آپ کا امدادؔ کی جبین
اور اس سے زیادہ کچھ نہیں درکار یا رسولؐ

حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری طیب صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی کے اوراق پڑھئے ،ان کی زندگی کا ہر ورق یہ گواہی دیتا ہوا نظر آئے گاکہ ان کے پیکر میں سنت نبویہ حلول کرچکاتھااور وہ عشق رسو ل میں کتنے ہی عاشقین کو پیچھے چھوڑ چکے تھے۔چناں نبوت کے اس پروانہ کی زبان سے حقیقت حال کچھ اس طرح بیان ہوتی ہے :

عروج قاسمی کی انتہاء ہے
کہ ہے خاکِ کفِ پائے محمد

بحرعشق رسو ل میں غرقاب یہ چند علماء دیوبند ہیں،ورنہ یہاں تو ہرفرد جام عشق کو پی کر کمال عشق کی لذت پاچکا ہے ،حضرت شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ ، سیرۃ المصطفی کے مصنف حضرت مولانا ادریس صاحب کاندھلویؒ، حضرت مولا یعقوب صاحب نانوتویؒ ،حضرت مولانامفتی الہی بخش کاندھلوی ؒ ، مولانا حبیب الرحمن عثمانیؒ، مفتی شفیع صاحب عثمانی ؒ ، علامہ شبیر احمد عثمانی ؒ ، حضرت مولانا ظفر احمد تھانوی ؒ، حضرت مولانا بدر عالم میرٹھی ؒ، حضرت مولانا قاری صدیق احمد باندویؒ ، حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی ؒ، وغیرہ یہ شخصیتیں

*****************************

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 843