donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Islamic Articles -->> Islamiyat
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Mumtaz Meer
Title :
   Ahle Ishq Ka Junoo

اہل عشق کا جنوں

ممتاز میر۔ برہانپور

ہم گذشتہ ایک دہائی سے یہ لکھتے آرہے ہیں کہ اب اسلام کی نشاۃالثانیہ مغرب
 کے ہاتھوں ہوگی ۔مہدی تو مشرق میں آئیں گے مگر ان کے ساتھیوں کا بہت بڑا حصہ پیدائشی اعتبار سے مغربی ہوگا۔پیرس کا حالیہ واقعہ ہماری بات کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہے۔پیرس کے تین حملہ آوروں نے جو کچھ کیا وہ تو بہت پہلے ہو جا نا چاہئے تھا۔ہم بھی یہ سمجھے بیٹھے تھے کہ اب یہ ملت اتنی بے غیرت ہو گئی ہے کہ اپنے رسولﷺ کی توہین سے بھی اس کے خون میں جوش پیدا نہیں ہوتا۔ماتھے پر شکن نہیں آتی۔اور مغرب چاہتا بھی یہی ہے مسلمانوں کو ایسی بے شرمی کا عادی بنا دیا جائے مگر مشرق بانجھ ہو گیا تو کیا ہوا،اللہ کا شکر ہے کہ ملت میں ایسے جانباز پیدا ہو رہے ہیں جن میں اس فرض کفایہ کو ادا کرنے کا احساس زندہ ہے۔ایشیا کی مسلمان قومیں تو صدیوں سے کسی نہ کسی غلامی میں مبتلا رہ کر مردہ ہو چکی ہیں۔بڑی حیرت کی بات ہے کہ جب ہم غلام تھے تو ہمارے دل و دماغ آزاد تھے مگر آج جب ہمارے جسم آزاد ہیں تو ہمارے دل و دماغ غلام ہیں۔آج کچھ مسلمان گنپتی بٹھانے اور ڈوبانے میں بھی کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے۔اور تو اور وطن عزیز میں بڑے بڑے علماء کرام برادران وطن کی خالص مذہبی تقریبات میں نہ صرف شریک ہوتے ہیں بلکہ جواز سازی بھی کرتے ہیں۔اور ہم بھی اس حدیث کو یاد کرکے خاموش رہ جاتے ہیں کہ ایک وقت آئے گا جب تمھارے علماء دنیا کی بدترین مخلوق ہوں گے اور سارے فتنے وہیں سے جنم لیں گے۔

پیرس میں جو کچھ ہوا یہ مغرب کے لئے تو نیا ہو سکتا ہے مگر مشرق میں یہ پہلے اکثر ہوتا رہا ہے۔خصوصاً بر صغیر میں آزادی سے پہلے تک مختلف افراد نے مختلف اوقات میں اپنی غیرت دینی کا یونہی ثبوت دیا ہے۔آزادی سے پہلے تقریباًتمام شاتمین رسول کو مسلمانوں کے با غیرت افراد نے یونہی خاموش کیا ہے۔ابھی تازہ واقعہ پاکستان کے سلمان تاثیر کا ہے جسے اس کے ایک باغیرت محافظ ممتاز حسین نے توہین رسالت کے جرم میں قتل کردیا تھا۔ان غیرت مند مسلمانوں میں کوئی ترکھان تھا تو کوئی تانگہ چلانے والا۔مگر ساتھ ہی جرمنی میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے طالب علم نے بھی اسی غیرت ایمانی کا ثبوت دیا تھا۔پھر ان میں غازی علم الدین شہید اور غازی عبدالقیوم شہید جیسے لوگ بھی تھے جنھوں نے کورٹ سے سزائے موت پائی تھی جبکہ ان کے وکلاء ان سے یہ چاہتے تھے کہ وہ عدالت میں اپنے جرم سے انکار کردیں۔مگر انھوں نے کورٹ میں ببانگ دہل کہاکہ ہاں ہم نے ہی اس شاتم رسول ﷺ کو مارا ہے اور اگر ہمیں دس زندگیاں ملیں تو ہم ہر بار یہی کریں گے۔ شاتم رسول کو مار کر ملنے والی موت سے انھیں عشق تھا اور اس عشق کے اسرار و رموز مغرب کسی حالت میں نہیں سمجھ سکتا۔ اب یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ blasphemi law کس چڑیا کا نام ہے ؟کیا دنیا کے مختلف ممالک میں اس کا وجود نہیں ہے؟ ڈنمارک دنیا کا وہ ملک ہے جس کا ایک اخبار جیلینڈس پوسٹن اکثر و بیشتر حضور ﷺ کے مضحکہ خیز خاکے اور کارٹون شائع کرنے کے لئے مشہور ہے وہاں بھی blasphemi law موجود ہے۔اس قانون کے خاتمے کے لئے اب تک کئی بار ناکام کوششیں کی جاچکی ہیں۔

جب جب بھی اس اخبار نے یہ گھناؤنی حرکت کی ہے عالم اسلام نے ہمیشہ اس کے خلاف پر امن احتجاج کیا ہے اور ہر بار وہاں کے حکمرانوں نے آزادیء اظہار رائے کی دہائی دی ہے۔توہین مذہبی شخصیات قانون دنیا کے ایک بڑے حصے میں موجود ہے۔مثلاً برازیل،آسٹریا ،فن لینڈ ،جرمنی ۔اٹلی ناروے ،نیدر لینڈ،نیوزی لینڈ وغیرہ یہاں تک کے دنیا کا سب سے شر انگیز ملک اسرائیل بھی اپنے یہاں یہ قانون رکھتا ہے مگر وہ صرف یہودی مذہبی شخصیات کو کور کرتا ہے ۔وہ مسلمانوں کی مذہبی شخصیات تو دور ،عیسائیت جس کے ماننے والوں کے دم پر وہ دنیا میں دندناتا پھرتا ہے ان کی مذہبی شخصیات کا مضحکہ اڑانا بھی وہ اپنا حق سمجھتا ہے۔آسٹریلیا کے بہت سارے صوبوں میں بھی یہ قانون موجود ہے۔بہر حال مسئلہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی اور دیگر دنیا کی ترجیحات میں بڑا فرق ہے۔دیگر دنیا آزادیء اظہار رائے کی ایسی چیمپئن بنتی ہے کہ اس کے آگے ان کی مذہبی شخصیات کی ناموس پھیکی پڑ جاتی ہے مگر مسلمان اپنی مذہبی شخصیات کوخصوصاً نبی اکرمﷺکی ذات مبارک کو ہر چیز پر مقدم رکھتے ہیں۔اور یہ وہ صرف اپنی مذہبی شخصیات کے ساتھ نہیں کرتے بلکہ ان کا یہ رویہ ہر مذہب کی محترم شخصیات کے ساتھ ہے۔اور ایسا اسلئے ہے کہ انھیں ایسا کرنے کا حکم خود قرآن دیتا ہے۔کسی بھی بنیاد پرست مسلمان کے لئے یہ ممکن نہیں کہ وہ دوسروں کی مذہبی شخصیات کا مذاق اڑائے۔ہر بنیاد پرست مسلمان جانتا ہے کہ قرآن سختی سے مذہبی رواداری کا حکم دیتا ہے۔

آئیے اب کچھ جائزہ اس آزادیء اظہار رائے کا بھی لے لیں جس کے پیچھے اسلام کے دشمن اپنا مکروہ چہرہ چھپاتے ہیں۔اب تک جب جب بھی مسلمانوں نے مغرب کی کسی غلط حرکت کا نوٹس لیا ہے اس کی مذمت کی ہے اپنا احتجاج درج کروایا ہے مغرب نے ہمیشہ آزادیء اظہار رائے کی آڑ لی ہے مگر دنیا شاہد ہے کہ یہی موقع کبھی الجزیرہ ٹی وی چینل کو نہیں دیا گیا ۔عراق و افغانستان میں سچ دکھانے کے جرم میں اس پر کئی بار بمباری کی گئی ۔اس کے صحافیوں کو مارا گیا قید کیا گیا اور اسی مغربی میڈیانے شہزوروں کی دل سے مذمت نہ کی۔ان کے خلاف کبھی اپنا احتجاج درج نہ کروایاصرف یہی بات ان کی آزادیء اظہار رائے کی پول کھولنے کے لئے کافی ہے۔اظہار رائے کی آزادی کسی انسان کا بنیادی حق نہیں ہوتا مگر روٹی کپڑا اور مکان تو ہزاروں سال سے انسان کا بنیادی حق تسلیم کیا جاتا ہے۔دنیا کی ہر قوم کا اپنا مخصوص لباس ہوتا ہے جسے وہ ہر جگہ استعمال کرنے کا حق رکھتی ہے مگر وہی فرنچ قوم جو دوسروں کی مذہبی شخصیات کی توہین کو آزادیء اظہار رائے قرار دیتی ہے وہ مسلم خواتین کو اپنی مرضی کا لباس پہننے کا حق نہیں دیتی اور اس کے خلاف قانون بناتی ہے۔یہ کیسا سیکولرزم ہے؟کیسی جمہوریت کیسا کلچر اور کیسی تہذیب ہے؟کیا کوئی ایسے کلچر اورتہذیب کے لئے بھی حسد کر سکتاہے ؟مگر سچ یہ ہے کہ اس دنیا میں آزادیء اظہار رائے کے سب سے بڑے دشمن مغر والے ہی ہیں۔وہی جو وقت بے وقت آزادیء اظہار رائے کی دہائی دیتے رہتے ہیں۔تقریباً تمام ہی مغربی ممالک میں ہولوکاسٹ پر سوال اٹھانا قانوناً جرم ہے۔ہولوکاسٹ کیا ہے؟یہ ایک مشتبہ واقعہ ہے جسمیںیہودیوں کے بقول ہٹلر نے ۶۰ لاکھ یہودیوں کو قتل کر دیا تھا ۔جبکہ مورخین اس وقت کے جرمنی میں۶۰ لاکھ یہودیوں کے وجود کو ناممکن مانتے ہیں۔بہت سارے مورخین و ماہرین ایسے بھی ہیں جنھوں نے گیس چیمبر کے وجود کا انکار کیا ہے۔اور بالفرض محال ایسا ہوا بھی تھا تو یہ بھی دیکھا جانا چاہئے کہ ہٹلر نے یہودیوں کے ساتھ ایسا سلوک کیوں کیا؟کیا یہودیوں کی تاریخ میں ہٹلر نے پہلی بار ان کے ساتھ اس طرح کا سلوک کیا تھا؟نہیں ایسا ان کے ساتھ وقتاً فوقتاً ہوتا رہا ہے؟کیوں؟ اسلئے کہ وہ قاتلین انبیاء کی قوم ہے۔شر و فساد ان کی فطرت ہے اور وہی وہ جرمنی میں کر رہے تھے۔غریب معصوم اور حساس ہٹلر ۱۳ سال کی عمر سے یہ سب دیکھ رہا تھا ۔اس کے نزدیک جرمنی کے ہر مسئلے کی جڑ میں یہودی تھے۔اور آج بھی دنیا کے باخبر عوام کا ایک بڑا حصہ یہی سمجھتا ہے جس کا ثبوت مختلف ممالک کی سروے رپورٹیں ہیں ۔اور یہ سروے کرائے کیوں جاتے ہیں؟یہودیوں کے دماغوں میں خود اپنے کرتوتوں کا خوف بیٹھا ہوا ہے اسلئے۔بہرحال آزادیء اظہار رائے کے چیمپئنوں نے آزادی اظہار رائے کو طاق پر رکھ کر اپنے ممالک میں یہ قانون بنا رکھا ہیکہ ہولوکاسٹ کے بارے میں تشکیک کا اظہار کرنا ،اس پر سوالات کھڑے کرنا قابل سزا جرم ہے۔سوچئے ایسا کیوں ہے؟یہ تو کامن سنس کی بات ہے کہ ہولو کاسٹ کی حقیقت تو قابل تحقیق ہو سکتی ہے مگر مذہبی شخصیات کے احترام میں دو رائے نہیں ہو سکتی۔مگر مغرب نے یہودیوں کے دباؤ میں سیاہ کو سفید اور سفید کو سیاہ بنا دیا ہے۔اب تک کتنے ہی دانشور اس سیاہ قانون کی لپیٹ میں آچکے ہیں۔مثلاً حالیہ تاریخ کا سب سے مشہور نام ڈیوڈ ارونگ ہے۔یہ برطانوی مورخ و مصنف ہے۔اسے فروری ۲۰۰۶ میں مجرم قرار دیا گیا کیونکہ آسٹریا میں اپنی ایک تقریر کے دوران ہولوکاسٹ کا انکار کیا تھا۔گو کہ اس نے اپنے خیالات سے رجوع کر لیا تھا اور یہ کہنے لگا تھا کہ میرے بعد کے مطالعے نے مجھے ہولوکاسٹ کا حامی بنا دیا ہے مگر اس تبدیلیء قلب کے باوجود اسے ۱۳ ماہ جیل میں بتانے پڑے تھے ۔(۲) ارنسٹ زنڈیل:یہ ٹورنٹو میں مقیم ایک فوٹو گرافر تھا۔جو ایک چھوٹے سے پبلشنگ ہاؤس کا مالک تھا ۔یہ ہولوکاسٹ سے انکار کرنے والا مٹیرئل چھاپتا اورتقسیم کرتا تھا۔اونٹاریو کورٹ نے اسے اس جرم میں ۱۵ ماہ کی سزا دی تھی۔(۳)بریڈلے اسمتھ:یہ امریکہ میںInstitute for Historical review کا ڈائریکٹر تھاجس نے committee for open debate on Holocaust کی بنیاد رکھی تھی۔ہولوکاسٹ کی تحقیق پر ابھارنے کی غرض سے اشتہارات دیا کرتا تھا ستمبر ۲۰۰۹میں Harvard crimson نامی اخبار میں اس طرح کاایک اشتہار شائع ہوا تھا جس پر آزادیء اظہار رائے ،کلچر ،تہذیب،جمہوریت کے متوالوں نے اتنی تنقید کی کہ مدیر کو معافی مانگنی پڑی۔یہ ہیں مغرب کے آزادیء اظہار رائے کے چمتکار۔ ہزاروں سال پہلے افلاطون نے کہا تھا۔Power corrupts, absolute power corrupts absolutely. آج مغرب اپنی ہر غلط چیز کو صحیح ثابت کرتا ہے اسلئے کہ اس کے پاس طاقت ہے ۔ہٹلر بھی تو یہی کر رہا تھا پھر وہ غلط کیوں ہوا؟اسلئے کہ میڈیا یہودی ہے وہ جسے چاہے ہیرو بنا دے اور جسے چاہے شیطان۔ظاہر ہے ہم ایسے میڈیا کے پابند نہیں ہو سکتے۔
ہاں!ہم بزدل ہیں۔مگر اتنے بھی نہیں کہ دوسروں کی بہادری کی داد دینے سے بھی قاصر رہیں۔مغرب یا تو انصاف کے پیمانوں کو سب کے لئے یکساں بنائے یا پھر اس سے زیادہ خوفناک واقعات کے لئے تیار رہے۔شمع رسالت کے سچے پروانے ہر دور میں رہے ہیں اور ہر دور میں رہیں گے۔موم بتیاں جلانے اور ریلیاں نکالنے سے دوغلی دنیا کے مسائل حل نہیں ہونگے۔

ڈی انڈین پریس

رابطہ ۔07697376137

************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 745