donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Islamic Articles -->> Islamiyat
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Mushtaq Ahmad Rahimee
Title :
   Huqooq Allah Aur Huqooq Al Ebad

 
حقوق اللہ اور حقوق العباد


بندوں کی خدمت مومنانہ شیوہ


مشتاق احمد رحیمی


خدمت گذاری مالی اورجسمانی روحانی سہارے اور تعاون کو کہتے ہیں۔اسلامی تصو رمیں خدمت خلق ایک فرض کی حیثیت رکھتاہے۔ خدمت خلق صرف یہی نہیں کہ آپ کسی حاجت مند کی حاجت پوری کردیں بلکہ دوسروں کو نیک مشورہ دینا اور ان کے جملہ مسائل کو اپنا مسئلہ سمجھ کر مخلصانہ طور پر ان مسائل کے حل کرنے کی تدبیر سوچنا اور عمل پیرا ہونا بھی خدمت خلق میں شامل ہے۔ خدمت خلق کی اہمیت او رضرورت قرآن پاک کی اس آیت سے پتہ چلتاہے۔ترجمہ : تم سب اللہ کی بندگی کرو اور اس کے ساتھ کسی کوشریک نہ بنا?۔ماں باپ کے ساتھ نیک برتا?کرو ،قرابت داروں ،یتیموںاور مسکینوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آ? اور پڑوسی ، رشتہ دار سے اور اجنبی ہمسایہ سے پہلو کے ساتھ اور مسافر اور ان لونڈی غلاموں سے جو تمہارے قبضہ میںہوں ، سے احسان کا معاملہ رکھو۔یقین جانو اللہ کسی ایسے شخص کو پسند نہیں کرتا جو اپنے پندار میں مغرور ہو اوراپنی بڑائی پرفخر کرے۔

(سورہ النسائ￿ :۶۳)

مذکورہ آیت سے خدمت خلق اور حسن سلوک کی اہمیت کا اندازہ ہوتاہے۔جیسے اللہ اپنے بندوں سے خطاب کرتاہو : اے مومنو! اولاً اللہ کے حقوق کو بجالا?اور دوسرا حقوق العباد کی ادائیگی میں پیچھے نہ رہو بلکہ حقوق الٰہی کے فوراً بعد بندوں کے حقوق پورا کرو، کبھی کبھی خدمت خلق کے لئیبعض عبادات بھی مو خر کردینے کا حکم ہے کیونکہ اگر انہیں مو خر کرکے یہ خدمت انجام دی گئی تو آدمی بسا اوقات نماز پڑھ کر بھی گنہگار قرار پاتاہے۔ایک شخص اگر نماز میںہو اور اسے یقین ہو جائے کہ نماز ختم ہونے تک ایک اندھا آدمی کنوئیں میں گر جائے گا تو نماز توڑکراندھے کو بچانے کا فتویٰ ہے۔ ایک شخص پیاس سے تڑپ رہا ہو اور دوسرا ذکرو تسبیح میں مشغول ہوتو اسے ذکر و تسبیح چھوڑ کر اس کی پیاس بجھانی چاہئے۔ ایک پڑوسی فاقہ کرکے سورہاہے اور ہم رات بھر اپنے گھر میں تہجد میں مشغول ہیں،تو اس نفلی عبادت سے افضل اس پڑوسی کی خبرگیری ہے۔ خلق سے مرادکیاہے ؟ خلق کہتے ہیں مخلوق کو عموماً لوگ آج کل خلق کا محدودمعنی نکال کر اسے صرف انسانوں کے ساتھ مخصوص کردیتے ہیں حالانکہ اس کے اندر کشادگی پائی جاتی ہے۔ اس میں دوسری مخلوقات بھی شامل ہیں کیونکہ بھلائی اور اچھا سلوک صرف عاقلوں کے ساتھ ہی نہیں بلکہ غیر عاقلوں کے ساتھ کرنا بھی انسانیت کا عین تقاضا ہے اور خدمت خلق حقوق اللہ پر بھی مقدم ہے۔اسلام مجموعہ ہے حقوق اللہ اور حقوق العباد کا۔ اللہ کے حقوق کا دائرہ جتنا وسیع ہے اس سے زیادہ بندوں کے حقوق کا دائرہ وسیع ہے۔ اللہ تعالیٰ کی بے پایاں رحمت سے اْمید ہے کہ وہ اپنے حقوق میں بہت سی کوتاہیوں کو معاف کردے گا مگر بندوں کے حقوق میں اگر کوتاہی ہوجائے تو اللہ تعالیٰ اس وقت تک معاف نہیں کرے گا جب تک وہ بندہ راضی نہ ہو جائے ، اس لئے اس کی طرف بہت زیادہ توجہ کرنے کی ضرورت ہے۔ علمائ￿ نے لکھاہے اگر کوئی شخص گناہ سے توبہ کرتاہے اور یہ گناہ اللہ کے حق سے متعلق ہے اس سے توبہ کرنے کی تین شرطیں ہیں۔ اوّل گناہ کو ترک کردے ، دوم اس پر اس کو ندامت ہو اور شرمندگی ہو ، سوم یہ آئندہ نہ کرنے کا پکا ارادہ کرے لیکن اگر یہ گناہ بندوں کے حق سے متعلق ہے توان تین شرطوں کے علاوہ ایک چوتھی شرط یہ بھی ہے کہ یہاں ہی اس کی اس کی تلافی کی جائے۔ مثلاً کسی کی غیبت کی ہے کسی پر ظلم کیا ہے ، رشوت لی ہے وغیرہ وغیرہ تو جب تک اس کا بدلہ چکاکر اس سے معافی مانگ کر اس کو راضی کرکے اس کی معافی تلافی نہ کی جائے تو اللہ تعالیٰ معاف نہیں کرے گا اور یہ موقع اسے دنیا ہی میں ہے کیونکہ بندے کے حقوق اگر اس دنیا میں ادا نہیں کئے گئے تو قیامت کے دن اس کی نیکیاں اہل حقوق کو دے دیں جائے گی اور وہ منہ دیکھتا ہی رہ جائے گا اور یہ نیکیاں ختم ہوگئیں تو پھر کوتاہیوں کا بارگناہ اس کے اوپر لاد کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا جیسا کہ حدیث میں آیاہے حضرت ابوہرہ? بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تم جانتے ہو مفلس کون ہے۔ صحابہ نے عرض کیا کہ ہمارے نزدیک تو مفلس وہ ہوتاہے جس کے پاس نہ روپیہ پیسہ ہونہ ساز وسامان ہو۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت میں مفلس وہ شخص ہے جو نماز روزہ اور زکوٰۃ وغیرہ تو لے کر آئے گا مگر اس حالت میں کسی کو گالی دی ہوگی ،کسی پر تہمت لگائی ہوگی ،کسی کا مال کھایا ہوگا ،کسی کا خون بہایا ہوگا کسی کومارا ہوگا۔ چنانچہ اس کی کچھ نیکیاں اس کے مظالم کے قصاص کے طور پر ایک مظلوم لے گا اور کچھ دوسرا مظلوم لے گا اور کچھ تیسرا لے گا پھر اس کی نیکیاں اس کی خطا?ں کا قصاص ادا کرنے سے پہلے ہی ختم ہوگئیں تو پھر مظلوموں کی خطائیں اس ظالم پر ڈال کر اسے دوزخ میں ڈال دیا جائے گا۔

(ترمذی شریف)


حقوق العباد کی ادائیگی کے لئے خود حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کس قدر فکر مند رہا کرتے تھے ، اس کا اندازہ درج ذیل احادیث سے بخوبی لگایا جاسکتاہے۔ حضرت ابوہریرہ? کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب سے کہااے اللہ میں نے تجھ سے ایک وعدہ لیاہے (قبولیت دعاکا)جس کی توہرگز خلاف ورزی نہیں کرے گا۔ میں انسان ہی ہوں ، میں نے کسی مسلم کو ناحق تکلیف دہ بات کہی ہو،بْرابھلا کہا ہو ،اس پر لعنت کی ہو،اسے کوڑے مارے ہوں تو میرے اس فعل کو اس مظلوم کے لئے قیامت کے دن اپنی رحمت مغفرت اور قربت کا ذریعہ بنا دے۔

(ابو دائودشریف)

اس حدیث سے بخوبی واضح ہے کہ حقوق العباد حقوق اللہ پر اس قدر مقدم ہے کہ نبی صلعم معصوم بھی فرماتے ہیں کہ اے رب اس مظلومی کو مظلوم کے لئے مغفرت ورحمت کاذریعہ بنادے۔ اس موقع سے حضور کے مرض الموت کی کیفیت بھی نظروں سے سامنے رہے تو بات اور واضح ہوجائے گی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم شدید بخار میں مبتلا تھے ،اسی حالت میں وہاں کے سارے لوگوںکو بلا بلا کر فرمایا کہ جس کسی کو مجھ سے تکلیف پہنچی ہو یا میں نے کسی کی حق تلفی کی ہو تو ابھی میں حاضر ہوں، تم لوگ بلا کسی تکلیف واندیشہ کے اپنا بدلہ لے لو تم میں سب سے زیادہ میرا محبوب وہ ہے جویہیں دنیا میں اپنا حق وصول کرلے تاکہ میں اپنے رب کے پاس خوش خوش جا?ں۔اس کے بعد آپ نے فرمایا اے لوگو! جس نے کسی کا حق دبالیا ہو وہ صاحب حق کو لوٹادے اور اسے دنیا کی رسوائی سے جھجھک نہ ہو ورنہ پھر آخرت کی رسوائی کے لئے تیار رہے جہاں کی رسوائی دنیا کی رسوائی سے سخت او رشدید ترہوگی

تاریخ البطری ج ۲، ص۱۹۱۔

پھر سوال یہ ہے کہ اللہ نے اپنے حقوق پر بندوں کے حقوق کو کیوں مقدم فرمایا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بندہ ¿ خدا کے حقوق ادا نہ کرکے اسے کوئی نقصان پہنچانا بلکہ خود اپنے نفس پر ظلم کرناہے اور نقصان اٹھاناہے لیکن جب وہ کسی بندے کا حق ادا نہیں کرتا تو اس کے مفاد کو مجروح کرتاہے، اسے حقیقتاً نقصان پہنچاتاہے اوریہی وہ ظلم ہے جوخدا کے نزدیک ناقابل معاف ہے۔الّا یہ کہ خود صاحب حق اسے معاف کردینے پر رضامند ہو جائے

(یو این این)

****************************


 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 775