donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Islamic Articles -->> Islamiyat
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Nayeem Bazidpuri, Jeddah
Title :
   Aik Shatime Rasool Ka Musalman Hona

ایک شاتمِ رسول کا مسلمان ہونا


نعیم بازیدپوری-جدہ


اسلام اوراس کے نبی ﷺ کے بارے میں منفی پروپیگنڈہ کے حوالے سے انتہائی نمایاں اور پیش پیش رہنے والے ڈچ سیاست داں اور ہالینڈ کے انتہائی دائیں بازوکی سیاسی جماعت گریٹ ولڈرزپارٹی کے ممتاز لیڈر ارنو ڈوان ڈورن بدنامز زمانہ شاتم رسالت قسم کی اسلام اور محمد ﷺ مخالف فلم’فتنہ ‘‘تیار کرنے میں بھی پیش پیش رہے ہیں۔اسلام دشمنی کے بعددںنیا بھر میں ان کے خلاف ہر سطح پر جو مہم شروع ہوئی اس نے ان کی آنکھیں کھول دیںاور اںنہو ںنے اسلام اوراس کے نبیﷺ کے بارے میں ہر ممکن ذرائع سے معلومات حاصل کیں۔علما اور اسکالرز سےتبادلہ خیال بھی کیا۔قرآن کریم کی تعلیمات اوراحادیثِ رسولﷺ کا تجزیہ بھی کیا توان پر یہ حقیقت واضح ہوگئی کہ وہ دانستہ یا نا دانستہ طور پرکتنی بڑی غلطی بلکہ گناہ کبیرہ کے مرتکب ہو گئے ہیں۔ان کا دل انہیں باربار لعنت ملامت کرکے اپنے گناہوں کی تلافی پر آمادہ کرتا رہا اور آخرکار دل کی دنیا بدلی آنکھوں پر سے عصبیت او رتنگ نظری کا پردہ ہٹا۔حقیقت اور سچائی کی روشنی ان تک پہنچی توانہوں نے بھی اپنے گم راہ کن عقائد یا نظریات سے تائب ہونے میں دیر نہیں کی اوراسلام قبول کرلیا۔

ہالینڈ جیسے ملک میں جہاں مذہب اور عقیدہ خالص ذاتی و انفرادی عمل ہے جہاں گم کردۂ راہ یا متعصب دینی نظریات کے حامل ہونے پر کوئی رُکاوٹ نہیں ہے اور کسی بھی حوالے سے کسی سےبھی یہ نہیںپوچھاجاتا کہ وہ کس مذہب یا عقیدے کا پَیروکار ہے۔اسی طرح اگر کوئی گم راہی سے منہ موڑ کر عصبیت بھرے خیالات ترک کر کے سچائی اور حقیقت کی پذیرائی کرتے ہوئے اسے قبول کرتا ہے توبھی اس سے کوئی باز پرس نہیں ہوتی ۔لیکن ارنوڈکے دل کی دنیا کچھ اس طرح بدلی کہ اس نے نہ صرف اسلام قبول کیا بلکہ اسلامی تعلیمات کے حصول پر کمر بستہ ہو کر صالح مسلمان بننے کی کوششوں میں کوئی کسرنہیں چھوڑی۔ دانستہ یا نادانستہ طور پر حضورﷺکی شان میں اُن سے جو گستاخی ہوئی اس کی خلش انہیں مسلسل کچو کے لگاتی رہی اور پھر وہی ہوا کہ’’مجرم‘‘مکمل اعتراف ِگناہ اوراظہارِ پشیمانی کانمونہ بن کر بارگاہِ رسالت مآب ﷺ میں حاضر ہونے اور اپنے گناہوں کے لیے معافی مانگنے کے لیے بنفس نفیس مدینہ منورہ پہنچ گیا۔

مدینہ منورہ پہنچنے اور روضۂ رسولﷺ پر حاضری دیتے وقت ارنوڈ کو جن لوگوں نے دیکھا ان پر یہ حقیقت بھی واضح ہو گئی کہ صدقِ دل سے معافی کی کیفیت کیا ہوتی ہے۔ مدینہ منورہ میں اُنہوں نے زیادہ وقت روضۂ رسولﷺ کے قریب ہی گزارا اورباربار اپنی غلطیوں کو تاہیوں یاگناہوں پر شرمندگی کااظہار کرنا اپنا امتیازی طریقہ بنا لیا۔کبھی اشکوں اور آہوں کے ساتھ ،کبھی نالوں اور سِسکیوں کے ساتھ اور کبھی بالکل چپ اور خاموش رہ کر۔

مدینہ منورہ میں بعض لوگوں سے بات چیت کے دوران ڈچ سیاست داں نے یہ بھی بتایا کہ ’’فتنہ‘‘نامی فلم بنا کر حضور سرورِکائنات ﷺ کی شان میں اس سے جو گستاخی ہوئی تھی اس پرہونےوالے عالمی ردّ عمل نے انہیں نبی کریمﷺ کی زندگی اور تعلیمات کا سنجیدگی سے جائزہ لینے پر مجبور کردیا اور یہ سنجیدگی آخرکار اُن کی گمراہی کے خاتمے پر منتج ہوئی۔

ارنوڈ نے روضۂ رسولﷺ اورمسجد نبوی ؐمیں حاضری دینے اور نمازیں پڑھنے کے علاوہ مکہ ٔمکرمہ میں عمرہ کی سعادت بھی حاصل کی۔حضور ؐکے رَوضے پر حاضری کا شوق انہیں اتنا بے چین کیے ہوئےتھا کہ وہ پہلے مدینہ گئے جہاں مسجد ِنبویﷺ کے دوممتازائمہ کرام شیخ علی الحذیفی اور شیخ صلاح البدیر سےبھی ملاقات کی اور تبادلۂ خیال کیا۔اس کے بعدعمرے کے لیے مکہ مکرمہ تشریف لے گئے۔مدینہ میں شیخ علی الحذیفی اور شیخ صلاح نے ارنوڈ کو ایک اچھے او رصالح مسلمان کی طرح زندگی گزارنے کے طریقے بھی بتائے او ریہ بھی بتایا کہ وہ مغرب میں اسلام کو دَرپیش چیلنجز کا کس طرح مقابلہ کرسکتے ہیں۔

ارنوڈگریٹ ولڈرزپارٹی کے لیڈر ہونے کے علاوہ ڈچ پارلیمنٹ او رہیگ سٹی کونسل کے رُکن بھی ہیں۔ اُنہو ںنے اپنے قبولِ اسلام کے بارے میں فیصلے کا اعلان سب سے پہلے اپنے ٹویٹرز پر کیا اور ٹویٹر ہی پر انہو ں نےکلمۂ شہادت بھی پڑھا اور لکھا۔جب ٹوئیٹر کے دوسرے صارفین کو ان کے قبولِ اسلام کی اطلاع پہلی بار ملی توبیشتر لوگوں نے اسے مذاق سمجھا کیوںکہ وہ اسلام سے انتہائی نفرت کرنے والے انتہا پسند ڈچ شہری کی حیثیت سے بدنام ہو چکے تھے۔لوگ یہ بھی جانتے تھے کہ وہ اِسلا م کے خلاف بار بار طرح طرح کے پروپیگنڈہ پر مشتمل مضامین وغیرہ لکھتے رہے ہیں اور اسلام مخالف جلسوں جلوسوں میں خود بھی عملاً حصہ لیتے رہے ہیں۔

اب وہ ہیگ کے سٹی ہال میں ریجنل ایڈوائزر کے طور پربھی وابستہ ہیں اورانہوں نے شہر کے میئر کے نام خط میں دوٹوک انداز میں یہ واضح کر دِیا ہے کہ وہ صدقِ دل سے اِسلام قبول کر چکے ہیں اور اب اسلام کے سچے پیروکار بن چکے ہیں۔ابھی حال ہی میں انہوں نے شہر کے میئر کے نام ایک خط میں اس سلسلے میں ایک درخواست بھی دی ہےکہ انہیں دوسرے مسلمانوں کی طرح دفتری او قاتِ کار میں فرض نمازوں کی ادائیگی کی اجازت دی جائے۔الجزیرہ ٹی وی کے انگریزی چینل کو اِنٹرویو میں انہو ںنے یہ بھی تسلیم کیا کہ ان کا قبول اسلام ان کے بہت سے ڈچ ہم وطنوں کے لیے ناقابلِ قبول ہے اوراسی لیے وہ میرے قبول ِاسلام کوبھی شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

لیکن میں نے جو فیصلہ کیا ہے وہ ایک بہت بڑا فیصلہ ہے جو بہت سوچ سمجھ کر کیاگیا ہے اور بالکل اٹل ہے۔جہاں تک میرے قریبی عزیزواقارب اور دوست احبا ب وغیرہ کا تعلق ہے ،وہ بخوبی جان گئے ہیں کہ میں قرآن،حدیث اور سنت کے حوالے سے اور دوسری اسلامی تحریروں اور تعلیمات کے حوالے سے اب مسلسل تحقیق وجستجو کی کیفیت سے دوچار رہتا ہوںاور رہنمائی اور روشنی حاصل کرنے کاموقع ہاتھ سے جانے نہیںدیتا۔اس کے علاوہ دوسرے بہت سارے مسلمان بھائیوں سے میں دِینی اُمور پر تبادلۂ خیال بھی کرتا رہتاہوں۔

ڈرون کا کہنا ہے کہ ان کی سیاسی پارٹی اسلام دُشمنی میں اتنی زیادہ آگے نکل گئی تھی کہ اُنہوں نے ازخود حقیقت کی تہہ میں جانے اور صداقت تلاش کرنے کاسلسلہ شروع کردِیا۔ڈرون کا کہنا ہے کہ میں نے گمرہی کے دنوں میں اسلام کے خلاف بہت ساری اور طرح طرح کی باتیں سنی تھیں۔لیکن میں سُنی سنائی باتوں پر توجہ دینے یا ان پر یقین کرنے والا شخص نہیں اس لیے یہ کہہ سکتا ہوںکہ میں نے خود ہی اسلام اوراس کی حقیقت کو اچھی طرح سمجھنے کی کوششیں کیں اور اللہ نے کامیابی بھی دِی۔

ڈرون اپنی انتہائی دائیں بازو کی اسلام دُشمن سیاسی پارٹی سے قطع تعلق کر چکے ہیں اور سرِدست ہیگ کونسل میں وہ ایک آزادرُ کن کی حیثیت سے وابستہ ہیں۔ہالینڈاور ہالینڈ کے باشندوں نے ان کے قبول اسلام پر ملے جلے ردّ عمل کا اظہار کیاہے۔کچھ لوگ انہیں غدار سمجھتے ہیں جب کہ بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ اُنہوں نے انتہائی اچھا اور موزوں ترین فیصلہ کیاہے۔ردّ عمل بالعموم مثبت ہے۔ٹوئیٹر پر آنے والے بہت سے لوگ ان کی برملا حمایت بھی کرتے ہیں اور اُنہیں اِس بات کی خوشی ہے کہ جولوگ ذاتی طو رپر اُنہیں نہیں جانتے وہ بھی ان کی کیفیت اور حالت کو سمجھ رہے ہیں اور میری تائید کر رہے ہیں اور وہ بھی نہ صرف یہ سمجھتے ہیں بلکہ اس پر یقینِ کامل رکھتےہیں۔اسلام قبول کر کے میں صراطِ مستقیم پر چل پڑا ہوں۔میں یہ بھی سمجھتا ہو ںکہ یہ ابھی ایک طویل سفر کاآغاز ہواہے او ر اسلام اور اسلام کے نبیﷺ اوراُن کی تعلیمات کے بارے میں وقت کے ساتھ ساتھ میری معلومات میں یقینی طورپر بہت زیادہ او راچھا اضافہ ہوگا۔

آخر میں میں دوسرے تمام مسلمان بھائیوں سے اپنے لیے دعائے خیر کی درخواست کرتا ہوں۔

مسجدِ نبویؐ میں

گناہ گار ہوں،بخشش کی اِک نظر فرمائیں
دُعاہے،میری دعاؤں میں بھی اثر فرمائیں
دلِ سیاہ میں جو روشنی سی پھوٹی ہے
حضورؐ چاہتا ہوں آپ اسے امر فرمائیں
گناہ ایسا کہ جاں بھی نہیں تھی کفارہ
سو جاں ہی وار دوں واللہ آپ گر فرمائیں
جکڑ لیا تھا اندھیروں نے ، عصبیت نے مجھے
بساط کیا تھی مری، سیدالبشرؐ فرمائیں
خدا کا شکر کہ پردہ ہٹا ہے آنکھوں سے
خدا کا شکر کہ آنکھیں کھلیں، نظر فرمائیں
حضورؐ اپنی غلامی کا بخش دیجئے شرف
کہ جس پہَ ناز سدا، فخر عمر بھر فرمائیں
حضورؐ آپ تو واقف ہیں حالِ دل سے مِرے
سو اب نگاہِ کرم میرے حال پر فرمائیں
حضورؐ آپ تولطف و کرم کا پیکر ہیں
حضورؐ میری خطاؤں سے اب حذر فرمائیں
خیالِ جُرم کچوکے لگاتا رہتا ہے
ملے سکون، اگر آپ دَرگزر فرمائیں

**********************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 533