donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Islamic Articles -->> Islamiyat
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Syed Hamid Mohsin
Title :
   Islam Me Char Shadiyan : Dushmanane Islam Ka Hathyar


اسلام میں چار شادیاں ۔ دشمنان ِ اسلام کا ہتھیار


سید حامد محسن ، چیرمین سلام سنٹر ، بنگلور


سلام سنٹر میں غیرمسلموں کے علاوہ کئی مسلم لڑکے اور لڑکیاں بھی حاضر ہوتے ہیں ۔ جنہیں اپنے دوستوں اور سہیلیوں کے اِس طعنہ اور تشنہ کاشکار ہوناپڑتاہے کہ اسلام میں کثیرزوجگی کانظام ہے اور حضورؐ نے کئی نکاح کئے تھے۔ وہ نوجوان کہتے ہیں کہ ’’ہمیں اپنی عدم معلومات کی وجہ سے احساس کمتری کا شکار ہوناپڑتاہے‘‘ صرف یہ چند نوجوان ہی نہیں بلکہ ایسے کئی جدید تعلیم یافتہ حضرات ہیں جو اِن دو عناوین کے بارے میں نہیںجانتے ہیں ۔ ہم یہ مضمون اُنہیں باشعور بنانے Empowerکرنے کے لئے تحریر کررہے ہیں۔ قارئین سے گذارش ہے کہ وہ اپنے خاندان اور ماحول میںموجود جدید تعلیم یافتہ نوجوانوں کو یہ مضمون پڑھ کرسنائیں تاکہ وہ اپنے غیرمسلم دوستوں کا تشفی بخش جواب دے سکیں


    عہدوسطیٰ سے 18ویں صدی کے مفکرین اور 19ویں صدی کے مستشرقین تک جس میں ولیم موئیر (William Muir)  اور ہنری لہمین (Henry Lehmenn) شامل ہیں تمام ناقدین نے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے دو گوشوں یعنی آپ ؐ  کی جنگوں اور آپؐ کی ازدواجِ مطہرات ؓ کو مسلسل ہدفِ تنقید بنایا ہے۔

وولیٹئرVoltaire)  اور والنی (Volney)  نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کو ہر قسم کے اوچھے الزام سے متہم کیا ہے۔متعدد شادیوں کو لیکر آپ ؐ  کو شہوت پرست انسان کے روپ میں پیش کیا گیا ہے۔ نعوذبااللہ!  تقریباًیہی قابلِ اعتراض مواد بیسویں صدی کی تحریروں میں بھی دوبارہ نمودار ہوتا نظر آتا ہے۔ ان میں سلمان رشدی جیسا مصنف اگلی صف میں نظر آتا ہے۔ دراصل افتراء پردازی ان ذہنوں کی پیداوار ہے جو خود اپنی شہوانی اور نفسانی جذبات کے پیمانے دوسروں پر منطبق کرتے ہیں اور اپنے ہی آئینہ میں ان کو بھی دیکھنا چاہتے ہیں۔

ولیم موئیر(William Muir)  جس کی تحریروں پر مسلمانوں نے کافی لعن طعن کیا،حالانکہ موئیرنے اپنی تصانیف کوذاتِ اقدسؐ کے ساتھ بدگوئی اور طنز و تشنیع سے مکمل طور پر محفوظ رکھا تھامگر رشدی نے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کے خلاف بیہودہ افسانے ڈھال کر، جو اہانت آمیز کردار سازی کی ہے اس کا ثانی نہیں ۔ اس سے مسلمانوں کے جذبات شدید مجروح ہوئے ہیں کیوں کہ مسلمان ازواجِ مطہراتؓ  کو ’’تمام مسلمانوں کی مائوں‘‘ کا درجہ دیتے ہیں۔

 پیغمبر اسلامؐ کی متعدد شادیاں دشمنانِ اسلام کے لئے اہم نظریاتی ہتھیار رہے ہیں۔ اس میں آپؐ کے عہدرسالت کے حالات کی لاعلمی، قبائلی معاشرت کی کم فہمی، مذہبی تعصب اور منافرت سبھی عنصر شامل رہے ہیں۔ اس سلسلہ میں دشمنانِ اسلام کا رویہ غلط فہمیوں کی حوصلہ افزائی کا رہا ہے تاکہ حضرت محمدؐ  کی اصل تعلیمات کی پردہ پوشی کی جاسکے اور دنیا میں تہذیب و تمدن اور ثقافت کو دیئے گئے اسلام کے عطیات کو اس پورے منظرنامہ سے پسِ پشت ڈالا جاسکے۔

 یک زوجگی (Monogamy)  اور تعدد ازدواج (Polygamy)
سادہ الفاظ میں تعدد ازدواج کامطلب ہے کہ ایک ہی وقت میں کئی بیویاں رکھی جائیںاور یک زوجگی اس کو کہاجاتاہے کہ آدمی ایک ہی وقت میں ایک ہی بیوی رکھے۔ اس سلسلہ میں یہ بات ذہن نشین رہے کہ خود مغرب میں یک زوجگی (Monogamy) حالیہ صدیوں میں رائج ہوئی ہے ورنہ وہاں کی عوام صدیوں سے تعدد ازدواج (Polygamy) کے قائل رہی ہے۔ تاریخ میں متعدد شادیاں کرنے کا رواج رہا ہے اور یہ مردوں کے سماجی مرتبہ کی علامت سمجھاگیا۔ سوائے حضرت عیسیٰؑ کے تمام انبیاء نے متعدد شادیاں کی ہیں۔ حضرت عیسیٰؑ البتہ اپنی مختصر زندگی میں کنوارے ہی رہے۔
آج چاہے مسلم ہو یا غیر مسلم، مشرق ہو یا مغرب، ایک سے زائد بیویاں یا جنسی پارٹنر رکھے جاتے ہیں۔ چند ممالک میں اس کی قانونی اجازت ہے، چند ممالک میں قانونی اجازت نہ ہونے کے باوجود لوگ یہ طرز عمل اختیار کرتے ہیں۔ چند اور ممالک میں شادیاں کم اور محض جنسی پارٹنرشپ کا رواج عام ہو چکا ہے۔ کچھ اور جگہوں پر اعلانیہ شادی لیکن مخفی طور پر غیر ازدواجی جنسی تعلقات روا رکھے جاتے ہیں۔ جنوبی آفریقہ کے موجودہ صدر جیکب زوما چار بیویوں کے شوہر ہیں اور وہاں کے قبائلی قانون اس کی اجازت دیتے ہیں۔ فرانس کے آنجہانی صدر فرانکوئس متران کی دوسری غیر سرکاری بیوی کا راز اس وقت فاش ہوا جب ان کی دوسری بیوہ (پہلی بیوی کی موجودگی میں) ان کے جنازے میں شرکت کے لئے تشریف لائیں۔ اخلاقیات کے ماہرین چاہیں یا نہ چاہیں، یہ امر واقعہ ہے کہ ایک سے زائد بیویاں یا جنسی پارٹنر رکھنے کا رواج ہر معاشرے میں اعلانیہ یا خفیہ طور پر جاری ہے۔

•  یک زوجگی کا قانون در اصل مردوں کو بغیر ازدواجی ذمہ داریاں قبول کئے ہوئے اپنے لئے کثیر جنسی پارٹنرشپ میں اضافہ کی سہولت پیداکرتا ہے۔

•  سخت گیریک زوجیت (Strict Monogamy)   زنا کاری، حرام کاری، بے وفائی، جنسی بے راہ روی، حرامی اولاد اور عام جنسی بے راہ روی کی حوصلہ افزائی کرتی ہے،

یہودیت میں تعدد ازدواج

مقدس توریت اور تلمود کے عہد میں قدیم اسرائیلی باشندے ایک سے زائد بیویاں رکھا کرتے تھے۔ کبھی کبھار ان کی تعداد سینکڑوں تک پہنچتی تھی۔ تلمود اور شریعت موسوی کے پیروکا روں کی ایک سے زائد بیویاں ہوا کرتی تھیں۔

انسائیکلوپیڈیا بیبلیکا(Encyclopedia Biblica)  کے مطابق ’’ایک عام یہودی کو چار شادیاں کرنے کی اجازت تھی جبکہ ایک بادشاہ یا حکمران آٹھ عورتوں سے شادی کا مجاز تھا۔‘‘

کثیر ازدواجی تعلقات کی روایات دسویں صدی عیسوی کے اواخر تک برقرار رہیں یہاں تک کہ ربّی گِرشوم بن یہودہ (960-1030 AD) نے اس کے خلاف حکم نامہ جاری کیا اور اس کے خاتمے کا حکم دیدیا۔ البتہ شیفارڈک یہودیوں میں یہ طرز عمل 1950ء تک جاری رہا۔ 1950 ء میں اسرئیل میں یہودیوں کے چیف ربّی کی آفس نے ایک سے زیادہ خواتین سے شادیوں کی عام ممانعت کردی۔
مگر یہ خیال کرنا کہ تعدد ازدواج اب یہودیوں میں مکمل طور پر ختم ہوچکا ہے غلط ہوگا۔ نامور یہودی مصنفین مثلاً ایس۔ڈی۔ گوایٹین کی کتاب ’’یہودی اور عرب‘‘  ایل۔ٹی۔ ہاب ہائوس کی کتاب ’’مارلس ان اوالیوشن‘‘ (Morals in Evolution)  اور ای۔اے۔ ویسٹرمارک کی کتاب ’’اے شارٹ ہسٹری آف میرج‘‘ (A Short History of Marriage) جیسی کتابیں اس بات پر شاہد ہیں کہ یہودیوں میں کثیر ازدواجی تعلقات کا طرز عمل اب بھی جاری ہے۔

عیسائیت میں کثیر زوجیت

 انجیل کے دور نزول میں کثیر زوجیت (Polygamy) کو سماجی قبولیت حاصل تھی اور لوگ بڑی تعداد میں ایک سے زائد شادیاں کیا کرتے تھے۔ حضرت عیسیٰؑ نے کبھی کثیر زوجیت کی مخالفت نہیں کی۔ اسے مذہبی اور اخلاقی لحاظ سے صحیح تسلیم کیا جاتا تھا اور معاشرے میں مروج سمجھا جاتا تھا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ انجیل نے اس موضوع پر کوئی کلام نہیں کیا ہے۔ انجیل نہ اس کی ممانعت کرتی ہے اور نہ اس کی تحدید۔ کچھ لوگوں نے انجیل کی اُس آیت میں جس میںدس کنواریوں (Ten Virgins) کا تذکرہ کیا ہے کو کثیر زوجیت کی قبولیت اور جواز کے طور پر تعبیر کیا ہے۔ اس تعبیر کو پیغمبروں کی ان داستانوں سے بھی تقویت ملتی ہے جن میں ان کی متعدد بیویوں یا شادیوں کا تذکرہ ہے۔

•   علاوہ ازیں ایسے کتنے ہی عیسائی حکمران اور بادشاہ گذرے ہیں جن کی متعدد بیویاں تھیں۔ فریڈرک ولہم دوم اور فلپ نے بالترتیب چرچ اور سینٹ لوتھر کی اجازت کے ساتھ ایک سے زائد عورتوں سے شادیاں رچائیں۔

•   1650عیسوی میں منعقدہ نیور مبرگ کانفرنس میں یہ متفقہ فیصلہ کیا گیا کہ لوگوں کو انسانی آبادی کی قلت کو دور کرنے کے لئے ایک سے زائد شادیوں کی اجازت دی جائے۔

•   اسی طرح امریکہ میں مارمان (Mormon) کرسچین فرقہ میں اب تک کئی خواتین سے بیک وقت شادیوں کا رواج چلا آرہا ہے۔ اس عیسائی فرقے کے بیشتر پیرو کار یوٹاہ (Utah) ، وائیومنگ (Wyouming) وغیرہ ریاستوں میں بستے ہیں، اس فرقہ میں آج بھی کافی تعداد میں کثیرالزّوج مرد ملتے ہیں۔ مارمان عیسائیوں کی معاشرت پر لکھی گئی کتاب ’’خفیہ تقریبات‘‘ Secret Ceremonies پڑھئے جو مصنفہ ڈیبورہ لا کے (Deborah laake)  نے لکھی ہے۔

•  اسی طرح آفرو۔ ایشین چرچ Afro-Asian Church کے پادری بھی کثیر زوجیت کو خواتین سے بے وفائی اور زنا کاری اور بیویوں کے تبادلے جیسی قبیح برائیوں پر ترجیح دیتے ہیں۔

•  عیسائیت میں یک زوجیت کے تصور اور نظرئیے کو پال نے متعارف کرایا۔ اس عہد میں عیسائی قوانین میں کافی ترمیمات بھی ہوئیں۔ اس نظرئیے کے متعارف کرانے کی پشت پر عیسائیت اور یونانی ورومن کلچر میں تطبیق پیدا کرنے کا مقصد تھا جہاں یک زوجیت کا قانون تھا مگر لوگ بڑی تعداد میں غلام عورتیں رکھ سکتے تھے اور انہیں جنسی تعلقات کے لئے استعمال کرنے کی اجازت تھی۔ اس کا سیدھا مفہوم یہ تھا کہ کثیر ازدواجی تعلقات قابل قبول تھے مگر شادی قانونی طورپر صرف ایک ہی ہوسکتی تھی۔

•  اولین عیسائی نظریات کے مطابق ’’عورت گناہوں کا مجموعہ ہے‘‘ اور مرد کے لئے یہ بہتر ہوگا کہ وہ شادی ہی نہ کرے مگر اس کلیہ کے نتیجہ کے طور پر انسانیت کا خاتمہ ہو جاتا لہٰذا اس میں ترمیم کرکے یک زوجیت کو بادل نخواستہ قبول کرلیا گیا۔

ہندومذہب میں کثیر زوجیت

دور قدیم کے ہندو ستان میں کثیر زوجیت نہ صرف قابل قبول تھی بلکہ عام طور پر رائج تھی۔ رِگ وید، دیگر ہندومت کی مقدس کتب اور ویکی پیڈیا کے مطابق ہندوئوں کے سب سے بڑے دیوتا رام کے والد راجہ دشرتھ کی تین سے زیادہ بیویاں تھیں۔ ان میں سے تین کیکئی، سمترا اور کوشلیا کے نام معروف ہیں۔ بھگوان کرشنا کی 16,100بیویاں بتائی جاتی ہیں۔ ان میں زیادہ معروف نام رادھا، رُکمنی، ستیہ بھاما، جمباوتی، ستیہ، لکشمنا، کالندی، بھدرا اور مترا وندا ہیں۔ ہندوئوں کی مقدس کتابوں مثلاً ویدوں، مہابھارت، رامائن اور گیتا میں بیویوں کی تعداد پر کوئی تحدیدعائد نہیں کی گئی ہے۔ بلکہ ان میں سے ایک کے مطابق ایک فرد جتنی چاہے شادیاں کرسکتا ہے۔ 1955ء میں ہندو میرج ایکٹ کے منظور کئے جانے تک ہندوئوں پر کثیر زوجیت کی کوئی تحدید نہیں تھی۔ اس ایکٹ نے پہلی بار ایک سے زائد شادی کو غیر قانونی قرار دیا۔ لہٰذا فی الحال ہندوئوں کے لئے کثیر زوجیت ہندوستان کے سرکاری قانون کے تحت ممنوع ہے۔ ہندوئوں کی مقدس کتابوں کی رو سے یہ غیر قانونی نہیں۔ لہٰذایک زوجگی کا دعویٰ محض ملمع کاری ہے اور اسلام اور مسلمانوں پر متعدد شادیوں کا الزام اپنے منافقانہ طرز عمل کی پردہ پوشی ہے۔

مغربی معاشرے میں کثیرزوجیت

مغربی معاشرہ میں عموماًقانونی طور پر صرف ایک ہی عورت سے شادی کی جاسکتی ہے۔ اگر میاں بیوی میں تعلقات کشیدہ ہوں تو میاں بیوی علیحدگی اختیار کرلیتے ہیں اور اس دوران عموماً کسی دوسری عورت یا مرد کے ساتھ رہنے لگتے ہیں۔مغربی معاشرہ میں کثیر جنسی پارٹنرشپ کی تین شکلیں ہیں۔ اولاً، مرد اور عورت شادی کرتے ہیں اور طلاق حاصل کرلیتے ہیں پھر دوبارہ شادی کرتے ہیں اورطلاق حاصل کرتے ہیں یعنی شادی طلاق، طلاق شادی اور ان کی زندگیوں میں ایسا مسلسل ہوتا رہتا ہے۔ اس کو سلسلہ وار کثیر زوجیت یا Serial Polygamyکہیں گے۔

دوسری صورت میں مرد قانونی طور پرایک عورت سے شادی شدہ ہوتا ہے لیکن اس دائرے سے باہر اس کے کئی جنسی رفیقائیں ہوتی ہیں۔ ان کو ’’مسٹریس‘‘ کہتے ہیں۔ تیسری شکل یہ ہے کہ ایک غیر شادی شدہ انسان کئی خواتین سے بیک وقت جنسی تعلقات رکھتا ہے۔ گرچہ مغربی معاشرہ کو کثیر زوجی معاشرہ کی اصطلاح قابل ہضم نہیں مگر حقیقتاً یہ سوسائٹی کثیر زوجی ہے۔

اسلام میں کثیرزوجگی:

    آئیے اب ذرا اسلام میں کثیر زوجگی کا جائزہ لیں۔ چاہے مغرب ہو یا مشرق اکثر غیرمسلم یہ سمجھتے ہیں کہ مسلمان نفسانی خواہشات سے لبریز ہوتے ہیں اور اس قوم کا ہر فرد کئی اور متعدد بیویوں کا شوہر ہوتا ہے۔بہت سارے غیرمسلم اس تاثرکے بھی حامل ہیں کہ مسلمانوں کے لیے ایک سے زیادہ شادیاں کرنالازمی اور مذہبی فریضہ ہے۔  میڈیا نے یہ امیج بھی بنائی ہے کہ اکثرلوگ مسلمانوں کو مستقل بیویوں کو تبدیل کرنے کا عادی سمجھتے ہیں۔ اس تصور کی تخلیق میں ٹی وی سیریل، پیپربیک فِکشن اور ناول، سنسنی خیز فلمیں اور خود مسلمانوں کے چند نفوس کا غیر ذمہ دارانہ رویہ شامل رہا ہے۔ مسلمانوں کی یہ بدنصیبی رہی کہ چند ایک مسلم حکمرانوں نے قرآن حکیم کی تعلیمات اور حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کا مذاق اڑایا۔ اس کے علاوہ کئی گڑھی ہوئی احادیث نے بھی ان کی نفسانی خواہشات کی تکمیل کا راستہ آسان کردیا اور ان اسلامی احکامات سے بے پرواکردیا۔یہ المیہ اور زیادہ دردناک صورت اختیار کرلیتا ہے جب اسلام پر عمل سے بے پروا مسلمان اس پروپیگنڈہ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔

ان کے اس غیراسلامی طرزعمل کا یہ ناگزیر نتیجہ ہے کہ تاریخ اور ثقافت اسلام کے سماجی فلسفہ اور دنیا کے ارب ہا لوگوں کے درمیان وہ رکاوٹیں کھڑی کردیں جو اسلام کی حیات بخش روشنی کو روک دیتے ہیں۔

پیغمبر اسلام حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے جب اسلام کی تبلیغ شروع کی تو اس زمانہ میں کثیر زوجگی جزیرہ نمائے عرب کی سماجی زندگی میں گہری جڑیں پیوست کئے ہوئے تھی۔ قرآن حکیم نے اس مسئلہ پر بھی توجہ دی اوراس کی خامیوں کودور کرتے ہوئے اس کی اصلاح کی۔قرآن کیسے کسی انتشار اور غیر ذمہ دارانہ حرکات کے تئیں روا دار ہوسکتا تھا۔ عرب کے معاشرے میں کثیر زوجگی کے مضراثرات اور بے ضابطگیاں روزِ روشن کی طرح عیاں تھی۔ عورت مختلف قسم کے مظالم کا شکار تھی۔

•    نوزائد بچیوں کو زندہ دفن کردیا جاتا کیونکہ بچی کی پیدائش منحوس سمجھی جاتی تھی۔ ہر دس میں کم سے کم ایک مرد اس جرم اور گناہ کا عموماً مرتکب ہوتا تھا۔

•    عرب معاشرہ میں عورت کو مرد کی جائیداد سمجھے جانے کا رواج تھا۔ لہٰذا شوہر کے انتقال پر اس کی بیوائیں جائیداد کی مانند اس کی وارثین میںتقسیم کردی جاتی تھیں۔

•    کنواری لڑکیوں سے نکاح عرب معاشرے میں ’’سماجی رتبے کا تمغہ ‘‘تصورکیا جاتا تھا۔

•    اسلام کی آمدسے قبل عرب معاشرے میں مرد حضرات زیادہ سے زیادہ خواتین سے شادیاں کرنے کو اپنے لئے فخر اور مرتبے کی بات سمجھتے تھے۔ لہٰذا  شادیاں محض اپنے مرتبے اور جھوٹی شان کے لئے کی جاتی تھیں۔

•    مردحضرات اپنی بیویوں سے جنسی اجتناب کی قسم کھاتے مگر انھیں طلاق دینے سے احتراز کرتے۔ ایسی حالات میں خواتین نہ تو آزاد ہوتیں کہ وہ دوسرا نکاح کرلیں اور نہ اس سے مکمل بیویوں جیسا سلوک ہوتا۔ وہ معلق ہوتیںاور کربناک دور سے گزررہی ہوتیں۔ کئی خواتین ایسی حالت میں ساری زندگی گزاردیتیں۔

 قرآن نے جب اس ماحول میں اپنی آواز بلند کی تو نئے اداروں اور روایات کی بنیاد ڈالی اور پرانی ریت اور رسموں کی تنظیم نوکی۔ قرآن کسی انتشار اور افتراق کو کیونکر برداشت کرتا۔ سماج کی تنظیم کے لئے خاندان پہلی اینٹ ہوتا ہے لہٰذا اسلام نے سب سے پہلے اس کی اصلاح کا کام کیا۔

یہ یاد رہے کہ قرآن وہ واحد آسمانی کتاب ہے جو صریح الفاظ میں کہتا ہے کہ (اگر انصاف نہ کرسکنے کا اندیشہ ہو تو) صرف ایک عورت سے نکاح کرو۔ سورہ نساء میں فرمایا گیا:

۔۔۔۔جوعورتیں تم کو پسند آئیں ان میں سے دو دو، تین تین، چار چار سے نکاح کرلولیکن اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ ان کے ساتھ عدل نہ کرسکوگے تو پھر ایک ہی بیوی کرو۔

(النسائ: آیت 3)

قرآن کے نزول سے قبل تعدّدِ ازدواج کے معاملے میں زیادہ سے زیادہ عورتوں کی کوئی قید نہ تھی۔ لوگ پانچ دس اور چند معاملات میں بیس اور چالیس بیویاں بھی رکھا کرتے تھے۔ قرآن نے اس تعداد کو محدود کرکے محض چار کیا اور چار عورتوں سے نکاح کے لئے بھی کافی شرطیں رکھیں۔ مردوں کو تاکید کی گئی کہ وہ تمام عورتوں کے درمیان اعتدال و انصاف سے کام لیں اور ان کی دیکھ ریکھ، خورد و نوش اور رہائشی معیار میں مساوات رکھی جائے اور پھر اس خیال کا اظہار کیا گیا کہ چونکہ تم اس قدر مساوات نہ کرپائو گے اس لئے بہتر ہے کہ صرف ایک ہی خاتون سے شادی کرو۔

اس سلسلہ میں حضرت محمدؐ کی یہ حدیث قابل ذکر ہے، جس میںآپؐ نے فرمایا کہ:

’’اگر کسی انسان نے دوعورتوں سے شادیاں کیں لیکن ایک بیوی کی جانب سے بے پروا ہوگیا اور دوسری کی جانب مکمل طورپر جھک گیا تو وہ آخرت کے دن میدانِ حشر میں اس حالت میں آئے گا کہ اس کا نصف بدن ایک جانب لٹک رہا ہوگا۔‘‘اس حدیث سے واضح ہے کہ بیویوں کے درمیان انصاف اور اعتدال کی روش سماجی انصاف کا پہلازینہ ہے۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہے کہ یک زوجگی بہتر روش ہے اور کثیرزوجگی استثنائی حالات میں ہونی چاہیے۔

امام ابوحنیفہؒ کا قول ہے:

’’وہ جو ایک بیوی کا شوہر ہے شاداں اور مطمئن زندگی گذارتا ہے اور وہ جو دوعورتوں سے شادی کرے، وہ مصیبتوں اور دشواریوں کو گلے لگاتا ہے۔‘‘

لہٰذا اس کلیہ کو خود مسلمانوں کو سمجھنا ہوگا کہ یک زوجگی عام اصول ہے اور کثیرزوجگی استثنائی صورت حال کا حکم یا روش ہے۔ اس کی اجازت مشروط ہے اور اس کا حکم ضرورت کے لحاظ سے ہے۔

اسلام نے کثیرزوجگی کو ایجاد نہیں کیا

اس پس منظر میں یہ بات ذہن نشین کرنے کی ہے کہ اسلام نے کثیر زوجگی کو ایجاد نہیں کیا۔ یہ قدیم زمانے سے مروج تھی۔ اسلام نے اس کی ممانعت بھی نہیں کی کیونکہ ایساکرنا کوئی عقلی اور عملی قدم نہ ہوتا اور مسلم معاشرہ دیگر فرقوں کی دیکھا دیکھی اس پرعمل کرتا۔ اسلام نے محض ایک عورت سے شادی کو آئیڈیل بتایا اور کثیر زوجگی کو مشروط بنایا اور تعداد کے لحاظ سے اس کی تحدید کی۔ اگر اس پر امتناع عائد کردیا بھی جاتا تو یہ مختلف صورتوں میں ظاہر ہوتی اور سماج اس کے تباہ کن اثرات سے متاثرہوئے بغیر نہیں رہ پاتا۔ مغربی معاشرے میں یہ قانوناً ممنوع ہے اور سماجی طور پر ناپسندیدہ ہے مگر (جیسا کہ اوپر بتایاگیا) مغربی معاشرہ میں تقریباً ہر فرد کثیر زوجگی میں مبتلا ہے جس کے نتیجہ میں جنسی اختلاط اور جنسی بے راہ روی عام ہے اور خاندان کے انتشار سے خواتین اور بچوں کی زندگی ہراساں و پریشان ہیں، کالج کیمپسوں، سنیماگھروں اور جوا خانوں میں ذہنی طور پر پریشان افراد کی شوٹ آئوٹ سے ہلاکتوں سے یہ پیغام ملتا ہے کہ مغرب نے قانون فطرت کو خود پر حرام کرکے کن دشواریوں اور پیچیدگیوں کو دعوت دی ہے۔

یہاں مناسب ہوگا کہ تعداد ازواج اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی متعدد شادیوں کے بارے میں ایک معاصرمغربی مصنفہ کیرن آرام اسٹرانگ کا ایک اقتباس نقل کردیا جائے، جو سیرتؐ پر ایک بہترین کتاب "Muhammad: a Prophet for our Time" کی مصنفہ ہیں، وہ لکھتی ہیں:

’’قرآن میں تعداد ازواج کا حکم سماجی قانون کا ایک حصہ ہے۔ اس کا مقصد مردانہ جنسی خواہشات کو بڑھانا نہیں تھا بلکہ ان ناانصافیوں اور مظالم کی اصلاح تھی، جو بیوائوں، مطلقہ عورتوں اور دیگر عورتوں کے ساتھ روا رکھے جاتے تھے۔ ایسا بہت ہوتا تھا کہ سرکش لوگ خاندان کے کمزور لوگوں سے سب کچھ چھین لیتے اور ان کے پاس کچھ نہ بچتا۔۔۔۔۔ تعددازواج کا جواز اسی لیے تھا کہ پریشان حال عورتوں کی عزت کے ساتھ شادی کو یقینی بنایا جاسکے، پرانے نقصان کی تلافی ہو اور غیرذمہ دارانہ تعلقات کا خاتمہ کیا جائے۔ دراصل قرآن عورتوں کو وہ قانونی حیثیت دیناچاہتاتھا، جو اکثرمغربی عورتوں کو انیسویں صدی کے آخرتک نہیں ملی تھی۔ آزادیٔ نسواں پیغمبرمحمدصلی اللہ علیہ وسلم کا نہایت عزیزمنصوبہ تھا۔‘‘

برطانوی سیرت نگار ۔آر۔وی ۔ سی باڈلی اپنی کتاب ’’دی لائف آف محمد ‘‘میں رقمطراز ہے ۔
’’پیغمبر اسلام کی ازدواجی زندگی کو مغربی پیمانوں سے ناپنے کی مطلق ضرور ت نہیں ناہی عیسائی طرزِ حیات سے ۔یورپ اور امریکہ کی طر ز زندگی کو اسلام اور مسلمانوں کے طرز حیات سے موازنہ کرنا بھی فضول ہے ۔ جب تک مغرب کے عوام یہ ثابت نہ کردیں کہ ان کی طرز معاشرت دیگر اقوام سے اونچی اخلاقی اقدار پر استوار ہے ۔ ان کو چاہئے کہ وہ دوسروں کو ہیچ وکم ترنہ سمجھیں ۔‘‘

    اسلام ایک عقلی اور عملی مذہب ہے جس نے انسان کی فطری ضرورتوں کی تکمیل کے لئے قوانین وضع کئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے کثیر زوجگی کی ممانعت کے بجائے تحدید کی اور اسے مشروط بنایا اگر اس کی ممانعت انسانی معاشرے کے مفاد میں ہوتی تو اللہ تعالیٰ لازماً اس کی ممانعت کا حکم دیتا مگر چونکہ اس کی ضرورت تھی لہٰذا اسے بحال رکھا گیا اور اس کی بے اعتدالیوں سے نوع انسانی کو متنبہ کردیا گیا۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا ہم انسانوں کو، خدا سے بہتر جان سکتے ہیں؟

(یو این این)


hamidforall@gmail.com


*******************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 529