donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Islamic Articles -->> Islamiyat
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Syeda Hasiba Najmuddin
Title :
   Quran O Sunnat- Dawat Inqlab

’’قرآن وسنت…دعوت انقلاب‘‘
 
سیدہ حسیبہ نجم الدین
 
مسلمان دنیا کی وہ خوش قسمت ترین قوم ہیں کہ جنہیں اللہ نے اپنی آخری کتاب کا حامل بنایا جس کلام کا بار پہاڑ جیسی مضبوط تخلیق سے نہ اٹھایا گیا انسان نے اشرف المخلوقات ہونے کے ناتے اسے اُٹھایا۔ اور قرآن کے بارے میں خود اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا ہے کہ، ’’یہ قرآن تمام انسانوں کے لیے ہدایت اور رہنمائی کا سرچشمہ ہے۔‘‘ (البقرۃ: ۲۰: ۱۸۵
 
ہدایت اور رہنمائی کے واضح اور روشن اصولوں سے مزّین ہے۔ حق وباطل میں تمیز کردینے والی کسوٹی ہے۔ اگر ہم نے ان اصولوں کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالا، اپنی پسند ناپسند کا معیار بنایا تو پھر ہم میں ثابت قدمی اور دوام پیدا ہوجائے گا۔ اور اس کی بہترین مثال ہمارے پاس عرب کے معاشرے کی ہے۔ وہ معاشرہ جہاں اخلاق نام کی کوئی چیز سرے سے موجود ہی نہیں تھی۔ جہاں شراب، جوا، فحاشی، عریانی، بدکاری، بدمعاشی، قماربازی، دھوکے بازی، لوٹ مار کا بازار گرم تھا اور ان برائیوں کو فخر سے کیا جاتا تھا۔ جنگ وجدل میں ایک دوسرے کا خون بہانے میںلذت محسوس کرتے تھے، عورتوں کی حیثیت جانوروں سے بدتر تھی اور بیٹیوں کو زندہ گاڑنا معمول تھا۔ اپنے ہاتھ سے مٹی کے بت تراشتے اور ان کی پوجا کرتے ان کے آگے منت اور نذرانے پیش کرتے چڑھاوے چڑھاتے اور کعبہ کا برہنہ طواف کیا جاتا جس میں مرد وعورت کی کوئی تخصیص نہیں تھی۔
 
ایسے بگڑے ہوئے معاشرے میں جب قرآن نازل ہوا تو اولاً اس کی پرزور مخالفت کی گئی، ذاتِ نبیؐ کو اذیتوں، سنگ باری اور الزام تراشیوں کا نشانہ بنایا گیا۔ قرآن کی دعوت پر لبیک کہنے والوں کو ناقابل بیان اذیتوںسے گزرنا پڑا۔ ان کو ان کے گھروں سے نکلنے پر مجبور کردیا مگر ان تمام مظالم کے باوجود اسلام کی تعلیمات قرآن کی دعوت سے جو لوگ متاثر ہوئے جنہوں نے لبیک کہا اور اپنی زندگیاں قرآنی تعلیمات کے مطابق بدل دیں تو ان کی کایا پلٹ گئی وہ لوگ جو ایک دوسرے کو کاٹ کھاتے تھے ایسے شیروشکر ہوئے کہ محض دین کے رشتے نے سگے خونی رشتوں کی اہمیت اسلام کے مقابلے میںکم کردی اور انہوں نے قلیل مدت میں نہ صرف پورے عرب بلکہ کم وبیش پوری دنیا میں ایک صالح اور خوشگوار انقلاب برپا کردیا۔ اور یہ انقلاب قرآن کی دعوت کی بنیاد پر اور سالار کائناتؐ کی رہبری کی بدولت کامیاب ہوا۔
مگر آج امت مسلمہ جن حالات کا شکار ہے، چہار جانب سے پے درپے سازشوں میں گھری ہوئی ہے، یہودونصریٰ بھوکے بھیڑیوں کی مانند 
 
مسلم امہ پر ٹوٹے پڑرہے ہیں اور خون مسلم جس ارزانی سے بہہ رہا ہے اس سب کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم اپنی اصل، اپنی بنیاد سے ہٹ گئے ہیں۔ ہم نے قرآن وسنت کی تعلیمات کو پسِ پشت ڈال دیا ہے اور اس کا نتیجہ آج بھگت رہے ہیں۔ ہماری انفرادی واجتماعی زندگیاں قرآن کے نور سے منور نہیں ہیں، سنت کی روشنی ہمارے کردار وعمل کو جلا نہیں بخشتی بلکہ ہم غیروں کی اندھی مرعوبیت اور تقلید میں دوڑے چلے جارہے ہیں۔ ہماری پسند ناپسند کا معیار وہ ہے جو مغرب نے ہمیں دیا ہے۔ ہمارے نزدیک اسلامی اقدار، دینی شعار، قرآنی تعلیمات اور نبوی احکامات انتہا پسندی قدامت پرستی کی علامت بن گئے ہیں۔ ہم آنکھیں بند کیے مغرب کے سحر زدہ ماحول کی نقالی میں مگن ہیں اور یہ بھول گئے ہیں کہ
 
نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیب حاضر کی
یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے
 
اور یہ ہی وجہ ہے کہ آج ہم ایسے گھمبیر مسائل کا شکار ہوگئے ہیں کہ جن سے نکلنے کا راستہ بھی نہیں ڈھونڈ پارہے ہیں اور ہماری اسی کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے طاغونی قوتوں نے ہم پر یلغار کی ہوئی ہے۔ معاشی، معاشرتی، اخلاقی، سماجی، تعلیمی، سیاسی ہر سطح پر ہم ان کے غلام بن کر رہ گئے ہیں۔ ہمارے حکمران ان کے بٹھائے ہوئے مہرے ہیں جو وہ چاہتے ہیں وہ یہ کرتے ہیں ایسے میں امید رکھی جائے تو کس سے؟ شکوہ  کیا جائے تو کس سے؟ کہ یہ تمام مسائل ہمارے اپنے ہاتھوں کے پیدا کردہ ہیں، قرآن سے دوری ہم نے اختیار کی… ان حکمرانوں کو ہم ہی نے لاکر بٹھایا ہے اور طاغونی قوتوں کی غلامی بھی تو ہم نے ہی اپنے لیے پسند کی ہے۔
 
دنیا کے اکثر حصوں میں اب ان تمام مسائل ومشکلات کے خلاف لوگ اٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور مغربی وطاغوتی نظام سے بے زاری کا کھل کر اظہار کررہے ہیں۔ عرب ممالک میں پیدا شدہ حالات اور آنے والے انقلابات اس با ت کا واضح اظہار ہیں کہ امت میں بیداری کی لہر پیدا ہورہی ہے اپنی اصل اپنی بنیاد کی طرف پلٹنے کا شوق جاگ اٹھا ہے اور وہ ببانگِ ہل اس بات کا اعلان کررہے ہیں کہ
 
 
ظالم کو جو نہ روکے وہ شامل ہے ظلم میں
قاتل کونہ ٹوکے وہ قاتل کے ساتھ ہے
ہم سر بکف اٹھے ہیں کہ حق فتح یاب ہو
کہہ دو اسے جو لشکرِ باطل کے ساتھ ہے
 
 
اور طاغوتی قوتیں ان لوگوں سے خوفزدہ ہیں اور اس کے خلاف سازشوں کے جال بنے جارہے ہیں ایسے میں قرآن ہمیں اتنے دل نشین انداز میں تسلی دیتا ہے کہ
’’نہ ڈرو اور نہ غم کرو تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو۔‘‘ (القرآن)
 
اور یہ مومن کی شرط اللہ نے اس لیے لگائی ہے کہ
 
ہاتھ ہے اللہ کا بندۂ مومن کا ہاتھ
غالب و کار آفریں کا رکشا و کارساز
 
ایسے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم متحد ومنظم ہوکر، اپنی بنیادوں پر جم جائیں کیونکہ تاریخ نے ہر دور میں ثابت کیا ہے کہ جب جب مسلمانوں نے قرآن کو سینوں میں بسائے رکھا، اس کی تعلیمات کو اپنے عمل سے زندہ رکھا جب تک قرآن کی عظمت کی فرمانروائی دلوں پر رہی خشیت، للہیت، اخوت، شجاعت، عدل کے مناظر سے انسانیت سکون پاتی رہی اور ملت اسلامیہ پوری انسانیت کے دلوں کے ساتھ ان کے ملکوں پر بھی حکمرانی کرتی رہی۔ کیونکہ قرآن ہی وہ کتاب ہے کہ جس نے لوگوں کے دلوں اور روحوں میں ہل چل مچادی اور ان کے ذہن، فکر اور سوچ میں انقلاب برپا کردیا۔ اس کتاب نے فرد کو بھی بدلا، معاشرے کو بھی بدلا اور نظام کو بھی بدلا، اور قرآن کے ساتھ ساتھ سنتِ رسولؐ ہی وہ خاکہ ہے، وہ سانچہ ہے، وہ نمونہ ہے، وہ اسوہ ہے کہ جس کے مطابق اس دنیا کو بدلنا ممکن ہے اور آج اگر ہم نے قرآن وسنت سے اپنا منقطع تعلق بحال کرلیا تو پھر کفر اپنی تمام ترریشہ دوانیوں کے باوجود بھی ہم پر غلبہ حاصل نہیں کرسکے گا کیونکہ اللہ نے اپنے بندوں سے وعدہ کیا ہے کہ
’’یہ لوگ اپنے منہ کی پھونکوں سے اللہ کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں مگر اللہ کا فیصلہ یہ ہے کہ وہ اپنے نور کو پورا پھیلا کر رہے گا۔
 
وہی تو ہے جس نے اپنے رسولؐ کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے پوری جنس دین پر غالب کردے خواہ مشرکین کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔‘‘ (الصف ۹،۸)
غور کرنے کی بات یہ ہے کہ ’’اللہ اپنے وعدے کے خلاف نہیںکرتا مگر ہم نے اپنے ’’عہدالست‘‘ کو بھلا دیا ہے اور ’’ اللہ کا وعدہ نافرمانوں کے لیے نہیں ہے۔‘‘
 
آج اگر ہم قرآن کے حکم ’’دین میں پورے کے پورے داخل ہوجائو‘‘ کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھال لیا تو پھر ان شاء اللہ یہ دنیا ایک بار پھر اس عظیم انقلاب کا روشن زمانہ دیکھ سکے گی کہ جس نے پہلے بھی اپنی کرنوں سے اس دنیا کو منور کیا تھا اور ایک بار پھر اپنی ضیا سے اس دنیا کو 
ضوفشاں کرنے کے لیے بے تاب ہے۔ مگر اس عظیم کام کی ابتداء ہمیں اپنی ذات، اپنے گھر، اپنے معاشرے اور پھر اپنے وطن سے کرنی ہے کیونکہ پاکستان اس وقت وہ واحد ریاست ہے جو اسلام کے نام پر معرضِ وجود میں آئی ہے اور بقول قائداعظم اسلام کی تجربہ گاہ ہے اور امت کی امیدوں کا مرکز بھی اور اب یہاں پرہی اسلامی نظام کا ’’موجودہ دور میں‘‘ کامیاب تجربہ کرکے اسے پوری دنیا کے لیے مثال بنانا ہے۔
 
آسماں ہوگا سحر کے نور سے آئینہ پوش
اور ظلمت رات کی سیماب پاہو جائے گی
پھر دلوں کو یاد آئے گا پیغامِ سجود
پھر جبیں خاکِ حرم سے آشنا ہوجائے گی
شب گریزاں ہوگی آخر جلوۂ خورشید سے
یہ چمن معمور ہوگا نغمۂ توحید سے
 
۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 690