donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Islamic Articles -->> Islamiyat
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Unknown
Title :
   Afifa Qubool Islam Se Qabal Aik Azad Kheyal Hindu Ladki

عفیفہ، قبول اسلام سے قبل ایک آزاد خیال ہندو لڑکی
 
قبولِ اسلام سےقبل عفیفہ ایک آزاد خیال ہندو لڑکی اور ہاکی کی کھلاڑی تھی۔ مگر جب اس نے اسلام کو فطرت کی قریب اور اپنی ضمیر کی آواز پایا تو اسےقبول کرلیا۔ ہمیں بتایا گیا تھا کہ ہندستان کی ایک ہاکی کھلاڑی آرہی ہیں تو ہم سوچ رہے تھے کہ آپ ہاکی کی ڈریس میں آئیں گی، مگر آپ ماشاءاللہ برقع میں ملبوس، اور دستانی پہن کر مکمل پردیےمیں ہیں۔ آپ اپنی گھر سے برقع اوڑھ کر کیسی آئی ہیں؟
 
عفیفہ: الحمدللہ میں پچھلے دو ماہ سے شرعی پردے میں رہتی ہوں۔
ابھی آپ کے گھر میں تو کوئی مسلمان نہیں ہوا؟
عفیفہ: جی، میریےگھر میں ابھی میرےعلاوہ کوئی مسلمان نہیں ہے۔ اس کی باوجود میں الحمدللہ کوشش کرتی ہوں کہ میں اگرچہ گھر میں اکیلی مسلمان ہوں مگر میں آدھے مسلمان تو نہ بنوں، آدھی اِدھر، آدھی ادھر، یہ تو نہ ہونا چاہیے۔
٭.... آپ کو ہاکی کھیلنےکا شوق کیسے ہوا، یہ تو بالکل مردوں کا کھیل ہے؟
 
عفیفہ: اصل میں، مَیں ہریانہ کی سونی پت ضلع کے ایک گاؤں کی رہنے والی ہوں۔ ہمارے گھر میں سبھی مرد پڑھے لکھیےہیں اور اکثر کبڈی کھیلتے ہیں۔ میں نے اسکول میں داخلہ لیا اور ابتدا ہی سے کلاس میں ٹاپ کرتی رہی۔ سی بی ایس ای بورڈ میں میری ہائی اسکول میں گیارہویں پوزیشن رہی۔ مجھے شروع ہی سے مردوں سے آگے نکلنے کا شوق تھا، اس کیلئے میں نے اسکول میں ہاکی کھیلنا شروع کی۔ پہلی ضلع میں نویں کلاس میں سلیکشن ہوا، پھر ہائی اسکول میں ہریانہ اسٹیٹ کی لیی لڑکیوں کی ٹیم میں میرا سلیکشن ہوگیا۔ بارہویں کلاس میں بھی میں نی اسکول میں ٹاپ کیا اور سی بی ایس ای بورڈ میں میرا نمبر 81 واں رہا۔ اسی سال میں خواتین کی ہندستانی ہاکی ٹیم میں منتخب ہوگئی۔ عورتوں کی ایشیا کپ میں بھی کھیلی اور بہت سی ٹورنامنٹ میری کارکردگی کی وجہ سی جیتی گئی۔ اصل میں ہاکی میں بھی سب سی زیادہ فعال کردار سنٹرفارورڈ کا ہوتا ہی، یعنی سب سی آگی درمیان میں کھیلنی والی کھلاڑی کا۔ میں ہمیشہ سنٹرفارورڈ پوزیشن پر کھیلتی رہی۔ مردوں سی آگی بڑھنی کا جنون تھا، مگر روزانہ رات کو میرا جسم مجھ سی شکایت کرتا تھا، کہ یہ کھیل عورتوں کا نہیں ہی۔ مالک نی اپنی دنیا میں ہر ایک کی لیی الگ کام دیا ہی۔ ہاتھ پاؤں بالکل شل ہوجاتی تھی، مگر میرا جنون مجھی دوڑاتا تھا اور اس پر کامیابی اور واہ واہ مجھی فطرت کی خلاف دوڑنی پر مجبور کرتی تھی۔
٭.... اسلام قبول کرنی سی پہلی تو آپ کا نام پریتی تھا؟
عفیفہ: حضرت کلیم صدیقی نی میرا نام عفیفہ، ابھی یعنی کچھ ماہ پہلی رکھا ہی۔
٭.... آپ کی والد کیا کام کرتی ہیں؟
عفیفہ: وہ سی بی ایس ای بورڈ کا ایک اسکول چلاتی ہیں، اس کی پرنسپل ہیں۔ میری ایک بڑی بھائی اس میں پڑھاتی ہیں، میری بھابی بھی پڑھاتی ہیں۔ وہ سب کھیل سی دلچسپی رکھتی ہیں، میری بھابی بیڈمنٹن کی کھلاڑی ہیں۔
 
٭.... ایسی آزاد ماحول میں زندگی گزارنی کی بعد ایسی پردی میں رہنا آپ کو کیسا لگتا ہی؟
عفیفہ: ا نسان اپنی فطرت سی کتنا ہی دور ہوجائی اور کتنی زمانی تک دور رہی، جب بھی وہ اس کی طرف پلٹتا ہی تو وہ کبھی اجنبیت محسوس نہیں کری گا۔ وہ ہمیشہ محسوس کری گا کہ اپنی گھر لوٹ آیا۔ اللہ نی عورتوں کی فطرت مردوں سی بالکل الگ بنائی ہی۔ بنانی والی نی عورت کو چھپنی اور پردہ میں رہنی کی لیی بنایا۔ اسی سکون اور چین، لوگوں کی ہوس بھری نگاہ سی بچی رہنی میں ہی مل سکتا ہی۔ اسلام دین فطرت ہی، جس کی ساری حکم انسانی فطرت سی میل کھاتی ہیں، مردوں کی لیی مردوں کی فطرت کی بات، اور عورتوں کی لیی عورتوں کی فطرت کی بات۔
 
٭.... آپ کی عمر کتنی ہی؟
عفیفہ: میری تاریخ پیدایش جنوری 1988 ہی، گویا 22سال۔
٭.... آپ کی گھر میں آپ کی اتنی بڑی فیصلی پر مخالفت نہیں ہوئی؟
 
عفیفہ: ہوئی اور خوب ہوئی، مگر سب جانتی ہیں کہ عجیب دیوانی لڑکی ہی، جو فیصلہ کرلیتی ہی پھر اس سی پیچھی نہیں ہٹتی۔ اس لیی شروع میں ذرا سختی ہوئی مگر جب اندازہ ہوگیا کہ میں دور تک جاسکتی ہوں تو سب موم ہوگئی۔
٭.... آپ ہاکی اب بھی کھیلتی ہیں؟
عفیفہ: نہیں، اب میں نی ہاکی چھوڑ دی ہی۔ 
٭.... اسی تو گھر والوں نی بہت محسوس کیا ہوگا؟
عفیفہ: ہاں، مگر فیصلہ لینی کا حق مجھی تھا۔ میں نی فیصلہ لیا اور میں نی اپنی اللہ کا حکم سمجھ کر لیا، اب اللہ کی حکم کی آگی بندوں کی چاہت کیسی ٹھیرسکتی ہی۔
٭.... آپ کی تیور تو گھر والوں کو بہت سخت لگتی ہوں گی؟
عفیفہ: آدمی کو ڈِھل مِل نہیں ہونا چاہیی۔ اصل میں آدمی پہلی یہ فیصلہ کری کہ میرا فیصلہ حق ہی کہ نہیں، اور اگر اس کا حق پر ہونا ثابت ہوجائی، تو پہاڑ بھی سامنی سی ہٹ جاتی ہیں۔
 
٭.... آپ کی اسلام میں آنی کا ذریعہ کیا چیز بنی؟
عفیفہ: میں ہریانہ کی اس علاقی کی رہنی والی ہوں جہاں کسی ہندو کا مسلمان ہونا تو دور کی بات ہی، الٹا کتنی مسلمان ہیں جو ہندو بنی ہوئی ہیں۔ خود ہماری گاو¿ں میں تیلیوں کی بیسیوں گھر ہیں جو ہندو ہوگئی ہیں، مندر جاتی ہیں، ہولی دیوالی مناتی ہیں۔ لیکن مجھی اسلام کی طرف وہاں جاکر رغبت ہوئی جہاں جاکر خود مسلمان اسلام سی آزاد ہوجاتی ہیں۔
 
٭.... کہاں اور کس طرح؟ ذرا بتائیں؟
عفیفہ: میں ہاکی کھیلتی تھی تو بالکل آزاد ماحول میں رہتی تھی۔ آدھی سی کم کپڑوں میں، ہندستانی روایات کا خیال بھی ختم ہوگیا تھا۔ ہماری اکثر کوچ مرد رہی۔ مرد ٹیم کی ساتھ ساتھ رہتی ہیں۔ ایک دوسری سی ملتی ہیں۔ ٹیم میں ایسی بھی لڑکیاں تھیں جو رات گزارنی بلکہ خواہشات پوری کرنی میں ذرّہ برابر کوئی جھجک محسوس نہیں کرتی تھیں۔ اللہ کا کرم تھا کہ مجھی اس نی اس حد تک نہ جانی دیا۔ گول کی بعد اور میچ جیت کر مردوں عورتوں کا گلی لگ جانا، چمٹ جانا تو کوئی بات ہی نہیں تھی۔ میری ٹیم کی کوچ نی کئی دفعہ بی تکلفی میں میری کسی شاٹ پر ٹانگوں یا کمر میں چٹکیاں بھریں۔ میں نی اس پر نوٹس لیا اور ان کو وارننگ دی، مگر ٹیم کی ساتھی لڑکیوں نی مجھی برا بھلا کہا کہ اتنی سی بات کو دوسری طرح لی رہی ہو، مگر میری ضمیر پر بہت چوٹ لگی۔
 
ہماری ٹیم ایک ٹورنامنٹ کھیلنی ڈنمارک گئی۔ وہاں مجھی معلوم ہوا کہ ڈنمارک کی ٹیم کی سنٹرفارورڈ کھلاڑی نی ایک پاکستانی لڑکی سی شادی کرکی اسلام قبول کرلیا ہی، اور ہاکی کھیلنا بھی چھوڑ دیا ہی۔ لوگوں میں یہ بات مشہور تھی کہ اس نی شادی کی لیی اس لڑکی کی محبت میں اسلام قبول کیا ہی۔ مجھی یہ بات عجیب سی لگی۔ ہم جس ہوٹل میں رہتی تھی، اس کی قریب ایک پارک تھا، اس پارک سی ملا ہوا ان کا 
 
مکان تھا۔ میں صبح کو اس پارک میں سیر کر رہی تھی کہ ڈنمارک کی ایک کھلاڑی نی مجھی بتایا: وہ سامنی برٹنی کا گھر ہی جو ڈنمارک کی ہاکی کی مشہور کھلاڑی رہی ہی۔ اس نی اپنا نام اب سعدیہ رکھ لیا ہی اور گھر میں رہنی لگی ہی، مجھی اس سی ملنی کا شوق ہوا۔ میں ایک ساتھی کھلاڑی کی ساتھ اس کی گھر گئی۔ وہ اپنی شوہر کی ساتھ کہیں جانی والی تھی، بالکل موزی ، دستانی اور پوری برقعی میں ملبوس۔ میں دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئی اور ہم دونوں ہنسنی لگیں۔ میں نی اپنا تعارف کرایا تو وہ مجھی پہچانتی تھی۔ وہ بولی میں نی تمھیں کھیلتی دیکھا ہی۔ سعدیہ نی کہا: 'ہماری ایک سسرالی عزیز کا انتقال ہوگیا ہی، مجھی وہاں جانا ہی، ورنہ میں آپ کی ساتھ کچھ باتیں کرتی۔ میں تمھاری کھیلنی کی انداز سی بہت متاثر رہی ہوں۔ ہاکی کا کھیل عورتوں کی فطرت سی میل نہیں کھاتا۔ میرا دل چاہتا ہی کہ تمھاری صلاحیتیں فطرت سی رچاو¿ رکھنی والی کاموں میں لگیں۔ میں تم سی ہاکی چھڑوانا چاہتی ہوں‘۔ میں نی کہا: 'آپ میری کھیل کی انداز سی متاثر ہیں اور مجھ سی کھیل چھڑوانا چاہتی ہیں، جب کہ میں تو آپ کا ہاکی چھوڑنا سن کر آپ سی ملنی آئی ہوں کہ ایسی مشہور کھلاڑی ہوکر آپ نی کیوں ہاکی چھوڑ دی؟ میں آپ کو فیلڈ میں لانا چاہتی ہوں‘۔ سعدیہ نی کہا:'اچھا آج رات کو میری ساتھ کھانی کی دعوت قبول کرو‘۔ میں نی کہا کہ آج تو نہیں، کل ہوسکتا ہی، اور یہ طی ہوگیا۔
 
میں ڈنر پر پہنچی، تو سعدیہ نی اپنی قبولِ اسلام کی روداد مجھی سنائی اور بتایا کہ میں نی شادی کی لیی اسلام قبول نہیں کیا بلکہ اپنی شرم اور اپنی عصمت کی عزت و حفاظت کی لیی اسلام قبول کیا ہی اور اسلام کیلئی شادی کی ہی۔ سعدیہ نہ صرف ایک مسلم خاتون تھی بلکہ اسلام کی بڑی داعیہ تھی۔ اس نی فون کرکی دو انگریز لڑکیوں کو اور ایک معمر خاتون کو بلایا، جو ان کی محلی میں رہتی تھیں، اور سعدیہ کی دعوت پر مسلمان ہوگئی تھیں۔ وہ مجھی سب سی زیادہ اسلام کی پردی کی حکم کی خیر و برکت بتاتی رہیں اور بہت اصرار کر کی مجھی برقع پہنا کر باہر جاکر آنی کو کہا۔ میں نی برقع پہنا۔ ڈنمارک کی بالکل مخالف ماحول میں، میں نی برقعی پہن کر گلی کا چکر لگایا، مگر برقع میری دل میں اتر گیا۔ بیان نہیں کرسکتی کہ میں نی مذاق اڑانی یا زیادہ سی زیادہ اس کی خواہش کی لیی برقع پہنا تھا، مگر مجھی اپنا انسانی قد بہت بڑھا ہوا محسوس ہوا۔ اب مجھی اپنی کوچ کی بی شرمانہ شہوانی چٹکیوں سی گھن بھی آرہی تھی۔ میں نی برقع اتارا اور سعدیہ کو بتایا کہ مجھی واقعی برقع پہن کر بہت اچھا لگا، مگر آج کی ماحول میں جب برقعی پر مغربی حکومتوں میں پابندی لگائی جارہی ہی، برقع پہننا کیسی ممکن ہی، اور غیرمسلم کا برقع پہننا تو کسی طرح ممکن نہیں؟ وہ مجھی اسلام قبول کرنی کو کہتی رہیں اور بہت اصرار کرتی رہیں۔ میں نی معذرت کی کہ میں اس کی لیی تیار نہیں ہوں۔ ابھی مجھی دنیا کی نمبر ون ہاکی کی کھلاڑی بننا ہی، یوں میری ساری ارمانوں پر پانی پھر جائی گا۔ سعدیہ نی کہا: 'مجھی آپ کو ہاکی کی فیلڈ سی برقعی میں لانا ہی۔ میں نی اپنی اللہ سی دعا بھی کی ہی اور بہت ضد کرکی دعا کی ہی‘۔ اس کی بعد ہم 10 روز تک ڈنمارک میں رہی۔ وہ مجھی فون کرتی رہی، دوبار ہوٹل میں ملنی آئی، اور مجھی اسلام پر کتابیں دی کر گئی۔
 
٭....آپ نی وہ کتابیں پڑھیں؟
عفیفہ: کہیں کہیں سی دیکھی ہیں۔
٭.... اس کی بعد اسلام میں آنی کا کیا ذریعہ بنا؟
 
عفیفہ: میں ہندستان واپس آئی۔ ہماری یہاں نریلا کی پاس گاو¿ں کی ایک لڑکی (جس کی والد 1974ءمیں ہندو ہوگئی تھی، اور بعد میں آپ کی والد مولانا کلیم اللہ کی ہاتھوں مسلمان ہوگئی تھی، ان کی مرید بھی تھی اور حج بھی کر آئی تھی) ہاکی کھیلتی تھی۔ وہ دلی اسٹیٹ کی ہاکی ٹیم میں تھی اور ہندستان کی طرف سی منتخب ہونی کی بعد روس میں کھیلنی جانی والی تھی۔ وہ مشوری اور کھیل کی انداز میں رہنمائی کی لیی میری پاس آئی۔ میں نی اس سی ڈنمارک کی مشہور کھلاڑی برٹنی کا ذکر کیا۔ اس نی اپنی والد صاحب کو ساری بات بتائی۔ وہ اپنی لڑکی کی ساتھ مجھ سی ملنی آئی، اور مجھی حضرت کی کتاب آپ کی امانت اور اسلام ایک پریچی دی۔ آپ کی امانت چھوٹی سی کتاب تھی، برقعی نی میری دل میں جگہ بنا لی تھی۔اس کتاب نی برقع کی حکم کو میری دل میں بٹھا دیا۔ میں نی حضرت صاحب سی ملنی کی خواہش ظاہر کی۔ دوسری روز حضرت کا پنجاب کا سفر تھا۔ اللہ کا کرنا کہ بہال گڑھ ایک صاحب کی یہاں ہائی وی پر ملاقات طی ہوگئی اور حضرت نی 10/15 منٹ مجھ سی بات کر کی کلمہ پڑھنی کو کہا، اور انھوں نی بتایا کہ میرا دل یہ کہتا ہی کہ برٹنی نی اپنی اللہ سی آپ کو برقعی میں لانی کی بات منوا لی ہی۔ بہرحال میں نی کلمہ پڑھا اور حضرت نی میرا نام عفیفہ رکھا، اور کہا: عفیفہ پاک دامن کو کہتی ہیں۔ چونکہ فطرتاً آپ اندر سی پاک دامنی کو پسند کرتی ہیں، میری بھانجی کا نام بھی عفیفہ ہی، میں آپ کا نام عفیفہ ہی رکھتا ہوں۔
 
٭....اس کی بعد کیا ہوا؟
عفیفہ: میں نی برٹنی کو فون کیا اور اس کو بتایا۔ وہ بہت خوش ہوئی۔ جب میں نی حضرت کا نام لیا تو انھوں نی اپنی شوہر سی بات کرائی۔ ڈاکٹر اشرف ان کا نام ہی۔ انھوں نی بتایا کہ حضرت کی بہن کی یہاں رہنی والی ایک حرا کی شہادت اور اس کی چچا کی قبولِ اسلام کی کہانی سن کر ہمیں اللہ نی اسلام کی قدر سکھائی ہی، اور اسی کی وجہ سی میں نی برٹنی سی شادی کی ہی، یہ کہہ کر کہ اگر تم اسلام لی آتی ہو تو میں تم سی شادی کی لیی تیار ہوں۔ اس کی بعد میں نی اخبار میں اشتہار دیا، گزٹ میں نام بدلوایا، اپنی ہائی اسکول اور انٹر کی ڈگریوں میں نام بدلوایا اور ہاکی سی ریٹائرمنٹ لی کر گھر پر اسٹڈی شروع کی۔
 
٭.... اب آپ کا کیا ارادہ ہی ، آپ کی شادی کا کیا ہوا؟
عفیفہ: میں نی آئی سی ایس (انڈین سول سروس) کی تیاری شروع کی ہی۔ میں نی ارادہ کرلیا ہی کہ میں ایک آئی سی ایس افسر بنوں گی اور برقع پوش آئی ایس آئی افسر بن کر اسلامی پردی کی عظمت لوگوں کو بتاؤں گی۔
 
٭.... آپ اس کی لیی مطالعہ کر رہی ہیں؟
عفیفہ: میں نیٹ پر اسٹڈی کر رہی ہوں۔ میری اللہ نی ہمیشہ میری ساتھ یہ معاملہ کیا ہی کہ میں جو ارادہ کرلیتی ہوں، اسی پورا کردیتی ہیں۔ جب کافر تھی تو پورا کرتی تھی، اب تو اسلام کی عظمت کی لیی میں نی ارادہ کیا ہی، اللہ ضرور پورا کریں گی۔ مجھی ایک ہزار فی صد امید ہی کہ میں پہلی بار میں ہی آئی سی ایس امتحانات پاس کرلوں گی۔
٭.... مگر آپ کی انٹرویو کا کیا ہوگا؟
 
عفیفہ: برقع اوراسلام کی ساری مخالف بھی اگر انٹرویو لیں گی تو وہ میری سلیکشن کی لیی انشاءاللہ مجبور ہوجائیں گی۔
٭.... گھر والوں کو آپ نی دعوت نہیں دی؟
عفیفہ: ابھی دعا کر رہی ہوں، اور قریب کر رہی ہوں۔ ہمیں ہدایت کیسی ملی؟ ہندی میں مَیں نی گھر والوں کو پڑھوائی۔ سب لوگ حیران رہ گئی، اور اللہ کا شکر ہی کہ ذہن بدل رہا ہی۔
٭.... کوئی پیغام آپ دیں گی؟
عفیفہ: عورت کا بی پردہ ہونا اس کی حددرجہ توہین ہی۔ مرد خدا کی لیی، اپنی جھوٹی مطلب اور اپنا بوجھ عورتوں پر ڈالنی کی لیی ان کو بازاروں میں بی پردہ پھرا کر ان کی تحقیر و تذلیل سی باز رہیں، اور عورتیں اپنی مقام اور اپنی عصمت و عفت کی حفاظت کی لئی اسلام کی پردی کی حکم کی قدر کریں۔
بشکریہ: مشتاق دربھنگوی
 
***********************
Comments


Login

You are Visitor Number : 693