donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Lamhaye Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Aaqil Kausar
Title :
   Kya System Badalna Chahiye

 

             کیا۔۔’’سسٹم ‘‘ بدلنا  چاہئے۔ ۔۔؟۔                                                   
 
نوجوانوں سے غور کی  اپیل۔۔(Revolution) ۔۔۔۔ لائیں۔۔۔۔قوم بچائیں   
 
 عاقل کوثرؔ۔آگرہ ۔یو پی۔
 
نام ہو گیا شبیرہ کا۔جو کل تک گلی گلی سائیکل پر کپڑا بیچتا تھا۔آج اُسنے اپنی لڑکی کی سگائی دی ہے۔بڑے بڑوں کے دانت کھٹّے کر دئے۔ سگائی میں ایک سونے کی چین ؛آٹھ لا کھ کی گاڑی  ایک لاکھ نقد ۱۰۰؍ عدد مہنگے گفٹ مہمانوں کواور دیگر بہت سامان دیا ہے۔ ہوٹل   ۵ ؍ستارہ میںقریب ۵۰۰ ؍سو آدمی کا لذیذ کھانا تھا۔ صرف ۱۵؍لاکھ خرچہ ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔ شادی میں ۵۰؍لاکھ  کا گھر بھی دیگا۔
 
       حاجی سلیم بھی شبیرہ سے بھاری شادی کریگا۔ اسکو پڑھے لکھے کاروباری لڑکے کی تلاش ہے۔
وہ شبیرہ کی طرح کم پڑھے لڑکے کو نہیں دینا چاہتا اپنی بیٹی کو۔ اسکی بیٹی ڈاکٹر ہے۔۔۔۔شبیرہ کی لڑکی ان پڑ ھ ہے۔
 
    موہن کمار کی لڑکی نے پھانسی لگالی۔اور شیاما کی لڑکی پر مٹی کا تیل ڈالکر آگ لگاکر مار ڈالا۔کیونکہ اسکے سسرال والوں کی موٹر سائیکل کی ڈمانڈ نہیں پوری کر پائے تھے اُنکے ماں باپ۔روزانہ ستائی جا رہی تھیں بیچاریاں۔۔۔۸؍آدمی جیل میں ہیں۔
 
   یوسُف نے اپنا مکان گرویں رکھ دیا۔ بیوی کا سارازیور بیچدیا۔پھر بھی اکٹھا نہیں کر پا رہا ۔اُتنا جہیز جتنا درکار ہے سسرال والوں کو۔      دو لڑکے دو لڑکیاں ہیںاُسکے۔
 
اُسنے اپنے بچوں کو کبھی اسکول کا مُنھ نہیں دکھا یا۔ بچوں سے مزدوری کراکرا کر بھی نہیں جمع کر سکا وہ سب کچھ۔۔۔
 
 جو ا  نسانی سماج نے لڑکی پیدا کرنے کی سزا قائم کر رکھی ہے 
 
  رفیق نے ۱۲؍لا کھ میں بیٹی رُخصت کی بدلے میں ۱۵؍لا کھ کی بہو لا یا۔دونوں طرف سے صرف۲۷؍لاکھ کا خرچ ہوا۔پیسہ کس کے کام آیا؟
 
 اسمائیل کے چار لڑکیاں ہیں ۔عمر ۳۰ ؍سے اُوپر ہو گئی۔وہ بیمار بھی ہے۔ اُسکی بیوی بھی لڑکیوںکے بوجھ سے بیما ہو گئی ہے۔کیا وہ اِ سی زندگی میں شادی کر پائیگا اپنی ان پڑھ لڑکیوں کی۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جو مزدوری کرکے گھر چلاتی ہیں۔۔۔ ۔؟۔
 
۔’’سگائی پر لڑکی لڑکے کی صلاحیت نہیں دیکھی جاتی صرف مال دیکھتے ہیں‘‘۔                                                                    
 
’’کہ ہم چراغ ہیں شعلہ نہیں تمہاری طرح ۔۔۔۔۔گھروں کو روشنی د یتے ہیں گھر جلا تے نہیں‘‘۔  
 
دوستو۔۔۔۔۔!۔۔۔۔۔۔۔۔جو اوپر لکھا ہے کسی افسانہ کی لائنیں نہیں ہیں ۔۔۔یہ حقیقت ہے۔اگر ہم  ابھی آنکھیں نہیں کھولینگے  تو کب۔۔۔۔؟۔
 
    سوچو۔۔۔۔۔!۔۔۔بڑے بڑے جہیز مانگنے والے اورلمبے لمبے جہیز سجانے والے کیا دکھانا چاہتے ہیں۔ گر وہ اپنی مالداری دکھاتے ہیں۔ تو یہ اُنکی غلطی ہے ۔ بڑے بڑے پیسہ والے آئے اور دُنیا سے رُخصت ہو گئے۔ آج ٹھیک سے اُنکا نام لینے والا بھی کوئی نہیں ہے۔ کسی لڑکی کے لئے عذاب کا زخیرہ اکٹھا کرنے سے مالداری صابت نہیں ہوتی۔ بلکہ دیکھنے والا جو کچھ دیر پہلے اسکا مال چبا رہا تھا ۔پنڈا  ل سے باہر نکل کرہر مالدار کو گالی دیتا ہے ۔ کیونکہ کھلانے والا یہ نہیں بتاتاکہ اُسنے یہ پیسہ کہاں سے اور کس راستے سے کمایا ہے۔ جس سے اُسی کی طرح پیسے کماکرایک غریب باپ بھی اپنی بیٹی کو وداع کر سکے۔
 دوسرے دن اس سے زیادہ مالدار سامنے ہوتا ہے۔اورلڑکے والے کابھی اُ تنا ہی خرچ ہوتا ہے۔یہ خوشی ہے یابربادی۔۔۔۔آخر۔۔۔ کیوں۔۔؟
 
                          ہمارے نبی ؐ  کا فرمان ہے آدمی کردار سے اور خدمتِ خلق سے بڑا ہوتا ہے۔
 
     مالداری کولڑکے۔ لڑکی کی زندگی( شادی) سے کیوں جوڑدیا ہے۔ اور بھی بہت طریقہ ہیں    
        ہر مہینہ اتنی خیرات زکوٰۃ نکالیں قوم میں کوئی مانگنے والا ڈھونڈھے سے بھی نا ملے۔یتیم بے سہارا کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر سر پرستی کریں۔سبیلیں قائم کرائیں۔مسجدیں عبادت گاہ ہیں ۔مدرسوں سے عبادت کرنے کا طریقہ سکھایا جاتا ہے۔بڑے بڑے مدرسہ کھلوائیں۔ جہاں اربی اور اردو میڈئیم کے ساتھ جدید سائینس کی پڑھائی بچپن سے جاری ہو۔ہمارے بچے کسی سے کم نہیں ہونے چاہئیں۔غریب بچوں کی پڑھائی اونچے سے اونچے درجے تک مکمل کرائیں۔انجینئر۔ڈاکٹر۔وکیل۔بڑے بڑے ا  فسر بنائیں جس سے قوم کی رہنمائی ہو سکے۔بے سہارا لوگوں کو سرکار سے مکان دلوانے میں مدد کریں۔ بے روزگاروں کو روزی دیں۔ہسپتال و مسافر خانہ بنوائیں۔مجموعہ شادی کے پروگرام کرائیں۔و قتاً فو قتاً کھانے و لنگر کے احتمام کریں۔دینی جلسے و مشاعروں کا اہتما م کریں۔
 
ہر بچے کوحج کی صعادت کے لئے بھیجیں ۔۔ وغیرہ وغیرہ
  اس طرح آپکا پیسہ بھی سب دیکھ لینگے اور آپ’’ سوابِ دارین‘‘ کے مستحق بھی ہو جائینگے۔دوسرے لوگ بھی سبق لینگے   
 
  کیا ہم نے کبھی سوچا ہے جو جہیز ہم دے رہے ہیں اسکی کتنی احمیت ہے ۔کتنا سامان استعمال میں آتا ہے ۔ہمارے اور ہمارے معصوم بچوں کی محنت سے کمایا ہوا یہ پیسہ کہاں جا رہا ہے۔ کیا ہم نے سوچا ہے ۔یہ اُن دوکانداروں کو جا رہا ہے جو پہلے سے ہی گھی کی کلی کرتے ہیں دودھ سے نہاتے ہیں سونے اور چاندی کے لباس پہنتے ہیں۔عالیشان قلع جیسے محلوں میں رہتے ہیں۔بڑی بڑی گاڑیوں میں چلتے ہیں۔انکے بچے بڑے بڑے کالجوں میں پڑھتے ہیں ۔ صرف اور صرف آپکے پیسہ کی بدولت۔جو پیسہ آپکے بچوں نے گھٹنے پیٹوں میں دے کر کمایا اُس مزدوری سے وہ پیٹ بھر کے کھابھی نہیں سکا۔مگر اُسکے کئے ہوئے مزدوری کے کام سے۔۔۔
 
 ایک دوکاندار صرف گدّی پر بیٹھے بیٹھے کم سے کم  ۱۰ ؍سے ۵۰؍ گُنا زیادہ پیدا کر تاہے۔
مرنے کے بعد ا  للہ کے دربار میں بچوں کو انپڑھ و جاہل رکھنے پر سوال ہوگا۔کیا جواب دوگے۔گردن سے پکڑ کر جہنم میں ڈالدیا جائیگا۔کیا پیسہ والے کے بچے پڑھ گئے ہیں ۔۔؟۔غریب پڑوسی کا بچہ ان پڑھ کیوں ہیــ۔۔؟۔اسکی ذ مہ اری کس کی ہے۔آبادی کے حساب سے ہماری مسجدیں سونی پڑی ہیں۔اردو اور قران کوئی پڑھنا نہیں چاہتا۔ تو کیا دوسرے لوگ مسجدیں بھرینگے اورقرآن پڑھینگے۔ہمارے بچوں کو کلمہ تک یاد نہیں ہے۔ نماز ۵ ؍بار ہوتی ہے وہ صرف اتناہی جانتا ہے۔نماز کے آداب نماز کا طریقہ۔نماز کی فضیلت جیی چیزیں جانتا ہی نہیں۔دین کی کتابیں آج بچوں کو ہندی میں پڑھنی پڑ رہی ہیں۔ جسمیں زیر زبر کی ادائیگی سہی ہو ہی نہیں سکتی۔۔۔۔عمل کیسے ہو۔۔۔۔۔؟
 
       وقت کبھی نہیں نکلتا جب جاگو تب ہی سویرا ہے۔یہ کام پچاس سو آدمیوں کا نہیں ہے۔پوری قوم ِمسلم ایک کلمہ کے نیچے جب تک نہیں  
کھڑی ہوگی کچھ نہیں ہو سکتا۔میٹنگیں اور ارادے تو کئی بار ہوچکے ہیں اب تو صرف عمل کی ضرورت ہے۔بچالو اپنی بہن بیٹیوں کو۔بچالو
سماج کو۔تمہارے ہی پیسہ سے تمہیں کچل دیا جائیگا۔ہر نیتا تمہاری جہالت کا فائیدہ اُٹھا نے کو تک رہا ہے۔ ۔۔۔
 جاگو!!۔۔اپنا حق پہچانو!! قیامت ابھی دور ہے !!کچھ کر گذرو!!  
 
 پڑھے لکھے کی عزّت کرو۔ساری دُنیا بیدار ہوتی جا رہی ہے ۔آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔ ۔ ہم کیوں نہیں۔۔۔۔۔؟ 
   ہم کمائی کرنے میں پیچھے نہیں ہیں مگر ہمیں اپنے ہُنر کی قدر کرنا نہیں آتا۔ اس پیسہ کو اپنے رہن سہن پرخوب خرچ کرو۔
 
اچھے سے اچھا کھاؤ اچھے سے اچھا پہنو۔صاف اور بہترین مکان بناؤ ۔مگر اس جہیز کی لعنت کو’ الوداع‘ کہدو۔سوال ہے کیسے ۔۔۔۔۔؟
 
مذہب میں کہاں لکھا ہے۔۔’’لڑکی کو دینا پڑتا ہے۔لڑکے کا لانا ہوتا ہے‘‘۔۔۔۔؟
 
  ذرا سوچو ۔۔۔!  فرق کیا ہے۔۔۔؟۔۔۔۔۔’’اپنے ہاتھ سے اپنا گھر سجالو۔۔یا ۔۔بیٹے کا جہیز لاکر سجا لو۔۔۔۔‘‘۔  
    کم سے کم لڑکیا ںبوجھ تو نہیں بنینگی ۔چاہے اپنی بیٹی ۔ یا۔آنے والی بہو۔ جہیز کے ڈرسے کوکھ میں کفن نہیں پہنائیگا کوئی۔بڑی عمر میں شادی ہونے سے لڑکے لڑکیاں درندگی کا شکار ہو جاتے ہیں اور ہم آنکھیں بند کئے جہیز اکٹھا کرنے میں لگے رہ جاتے ہیں۔
 
اُکتا کر گھر سے بھاگ جاتے ہیں بچے  اور ماں باپ کی عزّت پامال ہو کر رہ جاتی ہے۔ ۔    
      اپنے بچوں کو بچا لو۔انکی تعلیم محفوظ کرلو۔ انہیں ہونہار بناؤ۔ڈاکٹر؛وکیل؛انجینئربناؤ۔اُ نہیں سڑکوں پر نا کھیلنے دیں۔پان کی دوکانوں پر نا کھڑا ہونے دیں۔ انکا صحیح مقام اسکول۔مدرسہ ہے۔
 
          سارا سماج ایک ساتھ آگے بڑھے۔کوئی چھوٹا ہے  نا کوئی بڑا۔ہم صرف دوسروں کو دیکھ کر بھٹک گئے ہیں۔                                                                                                                                                                                                                                                       کیا سماج کو بدلا جا سکتا ہے۔۔۔؟؟؟۔۔۔۔۔ جیسا ہمارے نبیؐ نے بتایا اگر ویسا کریں تو کیا نقصان ہوگا۔۔۔؟۔
 
’’ہم نبیؐ کے بتائے طریقہ سے داڑھی رکھتے ہیں۔ٹوپی پہنتے ہیں۔کرتا پاجامہ پہنتے ہیں ۔مگر نکاہ کرنا نہیں چاہتے۔۔۔کیوں۔ ۔۔۔۔؟      
    ’’ اگر ایسا ہونے لگے  تو‘‘  ۔۔کہ  ۱۰۰؍ آدمی اکٹھا  ہو کر  بِنا جہیزنکاح کر لائیںاورجو جہیز ہم لڑکی کو دیتے ہیں بیٹی سمجھ کر بہو کو دیں۔
 
’’یعنی اپنے ہی لڑکے کو دیں‘‘  تو کیا نقصان ہوگا۔صرف سوچنے کا فرق ہے۔بات ایک ہی ہے۔بلکہ ایک فائیدہ ہے سامان ا پنی پسند کا ہوگا ۔دوسرے کی پسند کا نہیں ہوگا۔۔۔۔۔کیا سوچ رہے ہو۔۔۔۔۔                                                                                           ’’ ہمارے ۳ ؍ لڑکے ہیں اور د و لڑکیاں۔تو ایک جہیز زیادہ آ ئیگا۔
 
اور اگر ۳ ؍لڑکیاں اور د و لڑکے ہیں تو ایک جہیز زیادہ جائیگا۔۔۔۔‘‘۔
 
   اگر اسی سوچ میں پڑے رہے تو کبھی کچھ نہیں ہوگا۔ اللہ تعلیٰ نے انسان کوانسان سے ہی پیدا کرایا۔مگر چابی اپنے پاس ہی رکھی۔وہ جسکو چاہتا ہے لڑکا دیتا ہے جسکو چاہے لڑکی۔پھر لڑکی پیدا ہونے پر ہم گالی کس کودیتے ہیں۔
 
’’ جنم دینے والی ماں کو ۔یا۔ ناؤذوبا ِللہ پیٹ میں بچہ اُتارنے والے کو‘‘۔ 
 
وہی رازق ہے ۔وہی اولاد کا دینے والا۔رحمت سمجھ کر تحہِ دل سے قبول کرناہمارا  فرض ہے۔اسکا ہر حالت میں شکر ادا کرنا چاہئیے۔
 
    ناتو کوئی چوری کریگا۔نا بے ایمانی۔نا کوئی اپنی اولاد کو ان پڑھ اور جاہل رکھیگا۔  نا کوئی لڑکی جہیز کی بلی چڑھیگی۔نا کوئی لڑکی کو کوکھ میں کفن پہنائیگا۔نا کوئی لڑکی سڑک پر چلنے سے ڈریگی۔’’بس ایک سوچ۔۔۔ اور۔۔۔ سوچ کر ہمت جٹانے کی ضرورت ہے‘‘ کون سوچیگا۔کب سوچیگا۔  ایک دوسرے کا مُنہ کب تک تکتے رہینگے۔۔۔؟۔ زیادہ سے زیادہ ایک سال میں دل سنبھل جائیگا۔ دماغ سمجھ جائیگا ۔ صرف دیکھنا یہ ہے ہماری ناک تو نہیں کٹ رہی۔ہمارے نوجوان آگے آکر دیکھیں ناک کیسے کٹتی ہے۔
 
                            کیا یہ بھی کوئی ڈگری ہے۔۔۔۔۔؟۔۔۔۔جو ہمیں نہیں ملیگی اُسکو مل جائیگی۔۔۔۔۔!۔
 
      لڑکا لڑکی ہر گھر میں ہے۔ ہر انسان پریشان ہے ۔چاہے۔ مالدار ہو یا غریب۔ سب مل کر۔ ایک سال کا ٹارگیٹ لے کر۔ اس مثلہ کوسمجھانے کی کو شش میں لگ جائیں اور’’سسٹم‘‘ کو بدل ڈالیں (Revolution)تو سال بھربعداِس بھٹکی ہوئی قوم کا نظارہ کچھ اور ہو سکتا ہے۔ کسی کی ناک بھی نہیں کٹے گی۔۔کسی کا کوئی نقصان نہیں ہوگا۔نا لینا ۔نا دینا۔اپنے پیسہ کو خُد استعمال کریں۔
 
پیسے سے نہیں من پسند لڑکی سے شادی کریں۔
 
ہوڑ اور حسد سے توبہ کریں۔جہیز کی لعنت پرلاکھوں برباد ہونے سے بچائیں ۔ بچوں کو پڑھائیں۔پڑھائی کے بنا ہم بہت پیچھے ہو گئے ہیں ۔  آجکل اوپر سے بم مارنے کا زمانہ ہے۔تلوار اور لٹھیا کا نہیں۔ہم ابھی تک لٹھیا کے زمانے میں گھوم رہے ہیں۔۔
 
    ساری دُنیا میں مثال قائم کردیں بیٹی اور بہوکی عزت بڑھانے میں۔بیٹی کی عزت جہیز سے نہیں پیار سے بڑھتی ہے۔
    بہو کی سسرال میں جتنی چاہت  ہوتی ہے وہ اُمنگتی ہے۔ اپنے ماں باپ کو چھوڑ کر آتی ہے۔بہو بیٹی کا فرق مِٹادیں۔مِٹادیں۔مِٹاکر تو دیکھیں۔اس مہم میںلوگوں کو جوڑیں اور سمجھائیں ۔کہ ہم پیسہ کیوں پھینک رہے ہیں۔
 
نوٹ:: انجُمن اصلاح مسلم راجپوت؛ غازی پور یو پی۔مارچ۲۰۱۳؁ء میں اسی سوچ سے بیدار ہوکربرسوں سے چلی آرہی بے  وقوفی کو چھوڑنے کا تہیہ کیا ہے۔ایک عوام ایک آواز۔ قریب کے گاؤں و شہروں کے ہر گھر سے لوگ جمع ہوئے۔طے ہوا۔۔شادی صرف رسولْؐ کے بتائے طریقہ سے ہی ہوگی۔لڑکی والے پر کوئی بھار نہیں صرف ایک چاندی کی انگوٹھی سے نکاہ ہوگا۔کھانہ کی ذمہ داری لڑکے والے پرڈالی گئی ۔جو سنت طریقہ بھی ہے۔۔(ٹی۔وی۔نیوز سے)۔
 
ایک لڑکی کے باپ کو بیمار نہ ہونے دیں۔یہ ایک کا کام نہیںہے۔ساتھی ہاتھ بڑھانا۔
’’بیمار باپ سے نا تھی جنکو کوئی غرض۔۔۔ مرتے ہی جائیداد کے حقد ار ہو گئے۔‘‘  
 
 بیٹی بیٹوں کو انکا حق دینے کے بہت طریقہ ہیں۔ دُنیا کی جن قوموں نے جہیز کو نکاح سے نہیں جوڑا ۔وہ طرقی یافطہ ہو گئیں۔
 
محمد عاقل کوثرؔ۔آگرہ۔فون۔08057492586
++++++++++++++++
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 766