donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Lamhaye Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Abu Arsalan
Title :
   Zakir Nayek : Imtehan Hai Tere Eisar Ka Khuddari Ka

ابو ارسلان ۔ممبئی


ای میل :abuarsalan03011970@gmail.com


ذاکر نایک :امتحان ہے ترے ایثار کا خودداری کا 


ذاکر نایک ایک بار پھر میڈیا کی توجہ کا مرکز ہیں ۔ہمیشہ کی طرح اس بار بھی انہیں منفی طور پر پیش کیا جارہا ہے ۔ان کی شبیہ بگاڑی جارہی ہے ۔انہیں بنگلہ دیش فائرنگ معاملہ سے جوڑنے کی ناکام کوشش کی جارہی ہے ۔ویسے تو برہمنی اور صہیونی میڈیا کو مسلم اور اسلام سے خدا واسطے کا بیر ہے ۔اسلام یا مسلمانوں سے منسوب اچھائیوں کو عوام کے سامنے لانے کی انہیں کبھی توفیق نہیں ہوتی ۔وہ صرف منفی پروپگنڈہ کرتے ہیں ۔یہ منفی پروپگنڈہ اس لئے کیا جاتا ہے کہ اسلام دین فطرت ہے اور وہ انسانی فطرت کو اپیل کرتا ہے ۔جو اس کا مطالعہ کرتا ہے وہ اس کا گرویدہ ہو جاتا ہے ۔حد تو یہ ہے کہ ایک شخص گری ملر نے نعوذ باللہ قرآن میں خامی نکالنے کی نیت سے اس کا مطالعہ شروع کیا اور دوران مطالعہ ہی اسلام کے آغوش میں پناہ لے لی ۔یہ ہے وہ جادو جس کے بارے میں کفار مکہ بار بار لوگوں کو گمراہ کرکے اسلام کے اخلاقی جادو سے بچنے کی تلقین کیا کرتے تھے ۔لیکن جن کا نام اللہ نے اپنے خاص بندوں میں لکھ لیا تھا وہ اس جادو سے کیوں کر محفوظ رہ سکتے تھے ۔سو اسلام نبی ﷺ کی زندگی میں ہی عرب کی سرحدوں کے پار تک پہنچ چکا تھا اور اس دور میں بھی جب پیدل اور گھوڑا وغیرہ کے علاوہ کوئی دوسرا ذریعہ نہیں تھا جس سے لوگ ایک دوسرے سے مل سکیں اور اپنی بات ان تک پہنچا سکیں ۔نبی ﷺ کی زندگی میں ہی ہندوستان جیسے دور دراز ملکوں میں بھی اسلام کی کرنیں پھوٹنے لگی تھیں ۔اسی وقت کی نشانی کیرالا میں چیرا مل مسجد ہے ۔اللہ نے قرآن میں بار بار اس بات کا تذکرہ کیا ہے کہ یہ کفار و مشرکین چاہتے ہیں کہ اپنی پھونکوں سے اسلام کے چراغ کو بجھادیں لیکن اللہ اس کو پورا کرکے رہے گا خواہ انہیں کتنا ہی ناگوار گزرے۔ایک جگہ اللہ نے قرآن میں فرمایا کہ ’’اے نبی آپ اسلام کی مخالفت میں ان کو سب سے زیادہ سخت پائیں گے جو اپنے آپ کو کہتے ہیں کہ وہ یہود ہیں اور مشرکین ‘‘۔آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ بالکل قرآن کے احکامات کے مطابق یہی دو قومیں اسلام اور اس کے مبلغین کی مخالفت میں سب سے سخت ہیں ۔

موجودہ تناظر میں ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر اہل باطل پوری قوت سے صرف ذاکر نائک کو ہی کیوں نشانہ بنارہے ہیں اور بار بار ان کو ہی زیادہ سے زیادہ مشق ستم کیوں بنایا جارہا ہے۔اس کا بالکل سادہ سا جواب ہے کہ موجودہ وقت میں صرف ذاکر نایک شخصی طور پر ایسے ہیں جنہوں نے اپنے مطالعہ اور منطقی دلیلوں سے اہل باطل کی بولتی بند کردی ہے ۔ایسے اور بھی لوگ ہیں لیکن ان کا دائرہ مختصر اور سمٹا ہوا ہے ۔دوسرے اللہ نے انہیں وہ شہرت بھی نہیں دی جو ذاکر نایک کو دی ہے ۔ذاکر نایک کا استدلال اتنا مضبوط اور منطقی ہوتا ہے کہ سامنے والا ہتھیار رکھ دیتا ہے ۔ذاکر نایک کی مخالفت کی یہی وجہ ہے ۔ایک بات اور دشمن کو اصل میں ذاکر نایک سے بھی مطلب نہیں ہے ۔اس کا نشانہ تو اسلام ہے لیکن چونکہ وہ اسلام کو راست نشانہ نہیں بناسکتا ۔اس لئے اس نے اس شخصیت کا انتخاب کیا جو اسلام کو سب سے زیادہ فائدہ پہنچارہا ہے ۔ایک سوال اور کہ اسلام ہی کیوں نشانہ ہے یا اس کے مبلغ ہی کیوں نشانہ بنتے ہیں ۔اس کا جواب یہ ہے کہ دنیا میں بااثر شخصیات نے مذہبی کاروبار کی اپنی الگ الگ دکان کھول رکھی ہے ۔لیکن اسلام وہ دین ہے جو اس دوکانداری سے دور ہے ۔اس کے پاس تو صرف عام انسانوں کے فلاح کا ایک مکمل دستور ہے جس پر عمل کرکے وہ دنیا و آخرت دونوں جگہ کامیاب ہو سکتا ہے نیز کہیں کوئی دوکانداری بھی نہیں جن کے ٹھیکیداروں کو خوش کرنے کی ضرورت ہو ۔اسلام تو بے لوث خدمت کی تعلیم دیتا ہے ۔اللہ اور اس کے بندوں کے حقوق کی بات کرتا ہے اور بندوں کے حقوق پر تو اس کا رویہ انتہائی سخت ہے۔لیکن دنیا کے استحصالی نظام کو یہ کب برداشت ہوگا کہ وہ ان کی دوکان بند کرادے ۔انہوں نے جن لوگوں کو غلام بنا کر ان پر اپنے آقا ہونے کی دھونس جمانے کا سلسلہ شروع کررکھا ہے وہ بند ہو جائے اور عمر ؓ جیسا مدبر حکمراں بلال حبشی ؓ کوآقا کہے ان کی قدر کرے انہیں اونچا مقام عطا کرے ۔یہی سبب ہے کہ جب کوئی شخص ملا کے اسلام کی بجائے اس اسلام کی تبلیغ کرتا ہے جو نبی کریم ﷺ نے ہمیں عطا کیا تھا تو وہ ناراض ہوگا ہی ۔آخر اس کے پیٹ کا معاملہ ہے اور آج کی دنیا میں تو پیٹ ہی سب کچھ ہے ۔مادہ پرست دنیا کو پیٹ اور شہوانی خواہشات کے علاوہ کچھ سوجھتا ہی نہیں۔اس لئے ذاکر نایک ان کی آنکھوں میں کھٹکتا ہے ۔اور اس لئے وہ اس کے خلاف ہیں کہ یہی وہ شخص ہے جو فی زمانہ بڑے پیمانے پر اسلام لوگوں تک پہنچا رہا ہے اور لوگ اسے قبول بھی کررہے ہیں ۔

ابھی جو طوفان کھڑا کیا گیا ہے اس کی حقیقت بس اتنی ہے کہ وہ نوجوان جو ڈھاکہ فائرنگ میں شامل تھے اس میں سے ایک دو نوجوان سوشل میڈیا پر ذاکر نایک کے فلوور ہیں ۔اگر صرف اتنی سی بات ہی کسی کو دہشت گرد ثابت کردیتا ہے تو پھر ہمارے پی ایم اور مدھیہ پردیش کے وزیر اعلیٰ شیو راج سنگھ چوہان کو بہت پہلے داخل زنداں ہوجانا چاہئے تھا۔اسی طرح زانی آشا رام کے ساتھ کئی با اثر شخصیات کے تعلقات رہے ہیں اور جن کی تصاویر سوشل میڈیا کی رونق بڑھاتے رہتے ہیں تو کیا انہیں بھی آشا رام کی طرح زانی مان لیا جائے۔لیکن وہ نہ صرف یہ کہ آزاد ہیں بلکہ ملک اور ریاست کے سربراہ بھی ہیں ۔ڈھاکہ والے ہی میٹر میں ایک نوجوان تو نہ صرف یہ کہ ایک بالی ووڈ اداکارہ کا فین ہے بلکہ اس نے اس کے ساتھ ممبئی میں تصویر بھی کھینچوائی ہے ۔اب کوئی اس اداکارہ کو کچھ نہیں بول رہا ہے ۔کیوں کہ وہ نشانہ پر نہیں ہے ۔نشانہ پر تو ذاکر نایک بھی نہیں ہیں ۔ان کے نشانہ پر اسلام ہے ذاکر نایک تو صرف ایک ذریعہ ہے جو انہیں میسر آگیا ہے ۔ایک بات اور سمجھنے کی ہے کہ وطن عزیز میں جب بھی کوئی ہنگامہ کھڑا ہوتا ہے تو اس کے پیچھے کئی مقاصد ہوتے ہیں ۔اس میں سے ایک یہ بھی ہوتا ہے کہ حکومتوں کی ناکامی پر عوام کے جذبات کے رخ کو موڑا جائے ۔یہاں بھی جہاں اسلام نشانہ ہے وہیں موجودہ مودی حکومت کی ناکامی سے عوامی توجہ ہٹانا بھی مقصود ہے ۔کچھ ایسی خبریں آرہی ہیں کہ ہزاروں کروڑ کا ٹیلی کام گھوٹالا ہو اہے ۔اس لئے ذاکر نایک کے میٹر کو حکومتی سطح پر بھی تفتیش کے نام پر عوام میں پھیلا یا جارہا ہے ۔بھلا عوام کی توجہ ہٹانے کے لئے اس سے اچھا بھی کوئی موقعہ ہوگا ویسے بھی کاٹجو کے مطابق ہندوستان کے اسی فیصد عوام مورکھ (احمق )ہیں ۔ 

ایک شخص نے ذاکر نایک کے تعلق سے موجودہ تنگ نظری اور میڈیا ٹرایل نیز ایک مسلم جماعت کی مخالفت اور انہیں گرفتار کرکے جیل بھیجنے اور ان کی تنظیم کو بند کرنے کے مطالبے پر ایک بہت ہی چبھتی ہوئی بات کہی ہے ’’دراصل کتے شیر پر اپنی بہادری کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنی جان بچانے کے لئے بھونکتے ہیں ‘‘۔موجودہ فساد انگیز ماحول کی بالکل صحیح ترجمانی ہے ۔ایک ہمدرد نے لکھا’’ڈاکٹر ذاکر نایک کسی مسلک کے نہیں اسلام کے ترجمان ہیں اور بحیثیت مسلمان ،ہماری ذمہ داری ہے کہ سب مل کر اس مشکل وقت میں ان کا ساتھ دیں ۔ہاں جزوی طور پر ڈاکٹر صاحب کی ہر بات سے متفق ہونا ضروری نہیں ،اختلاف رائے آپ کا حق ہے ‘‘۔ایسے اور بھی کئی پیغامات سوشل میڈیا پر پچھلے تین دنوں سے چھائے ہوئے ہیں ۔ایک بات جو اس ہنگامہ خیز وقت میں قابل رشک ہے وہ یہ کہ پڑھا لکھا نوجوان طبقہ نیز وہ جماعتیں جو کسی نہ کسی طور سے مسلمانوں یا عام لوگوں کی فلاح و بہبود کے تعلق سے سرگرم ہیں وہ اختلافات کے باوجود ذاکر نایک سے اظہار یکجہتی کررہے ہیں ۔صرف ایک بہت ہی خاص اور انتہائی قلیل تعداد جس میں صرف تنظیم کے افراد یا ان کے چند متبعین شامل ہیں وہ مسلکی عناد کی آگ میں جل بھن رہے ہیں اور سنگھیوں کے سر میں سر ملا رہے ہیں ۔اس طبقہ کو بلا مبالغہ احمق کہا جاسکتا ہے ۔جو طوفان کے رخ کو نہیں پہچان رہا ہے اور اندھی دشمنی کئے جارہا ہے ۔اسے پتہ نہیں جس آگ میں آج وہ پیٹرول ڈال رہا ہے بس ذرا تیز ہوا ہوئی نہیںکہ اس کا گھر بھی جل کر راکھ ہوجائے گا اس وقت اس کے ساتھ کوئی ہمدردی کرنے والا اور زخموں پر مرہم  لگانے والا بھی میسر نہ ہوگا ۔ویسے وہ خود چاہیں تو اس مسلک کے نوجوان طبقہ نیز تعلیم یافتہ لوگوں کی رائے یا ان کے رجحانات کو جاننے کی کوشش کریں کہ وہ بھی اس وقت ذاکر نایک کے خلاف چلائے جارہے مہم کے خلاف ہیں ۔اس کی وجہ یہ کہ وہ بھی اس طوفان کو سمجھ رہے ہیں ۔یہی رویہ مجھے حوصلہ دیتا ہے کہ اس طوفان بلا خیز میں مایوسی نہیں ہوتی ۔انشاء اللہ یہی نوجوان اور تعلیم یافتہ طبقہ آنے والے وقتوں میں قوم کی کشتی کو منجدھار سے نکالے گا۔علامہ اقبال کے چند اشعار جو مایوس اندھیروں میں چراغ راہ کی طرح رہنمائی کرتے ہیں جو انہوں نے جواب شکوہ میں لکھے ہیں بالکل مناسب حال معلوم ہوتے ہیں۔

   ؎   ہے جو ہنگامہ بپا یورش بلغاری کا ۔۔غافلو ں کے لئے پیغام ہے بیداری کا
     تو سمجھتا ہے یہ ساماں ہے دل آزاری کا ۔۔امتحاں ہے ترے ایثار کا خودداری کا 
     کیوں ہراساں ہے صہیل فرس اعدا سے ۔۔نور حق بجھ نہ سکے گا نفس اعدا سے 

کہتے ہیں کہ اسی پیڑ کو پتھر کا عذاب جھیلنا پڑتا ہے جس پر پھل ہوں ۔بھلا بے ثمر درختوں پر کوئی کیوں پتھر برسائے گا۔تبلیغ اسلام میں آپ کو ہر جگہ استقبالیہ دیا جائے یہ تو ہو ہی نہیں سکتا ۔اگر مدینہ میں استقبال ہوگا تو طائف کے بازاروں میں سنگ باری بھی ہوگی اور اوباش بھپتی بھی کسیں گے۔توحید پر عمل پیرا ہوں گے تو بلال حبشی ؓ کی طرح گرم ریت پر لیٹنا بھی مقدر ہوگا ۔اس لئے ایسے حالات سے نہ تو ذاکر نایک کو اور نہ ہی دعوت و تبلیغ میں سرگرم افراد کو اس سے خوفزدہ یا مایوس ہونا چاہئے ۔انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ وہ بے ثمر نہیں بلکہ پھل دینے والے لوگ ہیں ۔وہ انسانیت کے خادم اور ان کے صحیح بہی خواہ ہیں جو ان کی ابدی کامیابی کے لئے فکر مند رہتے ہیں۔کسی نے یہ نکتہ بھی لکھاکہ اسی بہانے جن لوگوں تک اسلام کا صحیح تعارف نہیں پہنچا ہے وہاں بھی اسلام پہنچ جائے گا ۔نبی ﷺ کا ارشاد ہے کہ قیامت سے پہلے خواہی نا خواہی ہر گھر ہر فرد تک اسلام پہنچ جائے گا ۔شاید اس وقت کی شروعات ہو چکی ہے یعنی اسلام کے نشاۃ ثانیہ کی ۔

شب گریزاں ہوگی آخر جلوہ خورشید سے ۔۔۔یہ چمنمعمور

ہوگا نغمہ توحید سے 


ابو ارسلان ۔ممبئی

ای میل :abuarsalan03011970@gmail.com

***********************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 486