donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Lamhaye Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Adil Faraz
Title :
   Ram Mandir Ki Tameer Par Khamoshi Aur Babri Masjid Model Pan Hangama

 

رام مندر کی تعمیر پر خاموشی اور بابری مسجد ماڈل پر

 

ہنگامہ


 عادل فراز

 adilfaraz2@gmail.com


    رام مندر کی تعمیر کے لئے ایودھیا میں پتھروں کی پہلی کھیپ پہونچ چکی ہے ۔ مندر کے لئے پتھروں کو تراشنے کا کام تیزی کے ساتھ کیا جارہاہے ۔شاید اس بار سبھی ہندو تنظیمیں رام مندر کی تعمیرکے لئے پرعزم ہیں ۔ اسکی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہندوتنظیموں کا بی جے پی کے وعدوں سے اعتبار اٹھ چکاہے ۔بی جے پی ہر بار اپنے انتخابی منثور میں رام مندر کی تعمیر کو ترجیح دیتی رہی ہے مگر اس بار تعمیر کا وعدہ انتخابی منثور میں کہیں کھوسا گیا تھا ۔اسکے بعد بھی تمام تنظیمیں اپنے رہنمائوں کے زبانی وعدوں پر یقین کرتی رہی ہیں ۔اس وقت بی جے پی میں درجن بھر ایسے رہنما ہیں جو ان تنظیموں کے ترجمان کی حیثیت رکھتے ہیں ۔لہذا وہ ان تنظیموں کے اشارے پر اشتعال انگیز بیان بازی کرتے رہتے ہیں اور’’ ہندوتوو‘‘ کا راگ الاپنے کے ساتھ رام مندر تعمیر کی یقین دہانی مصروف نظر آتے ہیں ۔انہی بی جے پی کے رہنمائوں کی طرف سے انہیں تعمیرکا اشارہ ملا اور ایودھیا میں پتھروں کی آمد کا سلسلہ شروع ہوگیا ۔ظاہر ہے بی جے پی اس پورے کھیل سے انجان نہیں ہے مگر اسکی اپنی مجبوریاں ہیں ،انکی خاموشی اب مندر کی تعمیر کا پیش خیمہ بن چکی ہے۔بی جے پی ہندو تنظیموں کی مخالفت کرکے اپنی رہی سہی ساکھ بھی دائو پر لگانا نہیں چاہتی ہے اور نا اپنے ان لیڈروں کی اشتعال انگیزی پر پابندی عائد کرسکتی ہے جو ان تنظیموں کے لاڈلے ترجمان ہیں ۔کیونکہ بی جے پی کو ہر انتخاب میں ’’ ہندوتو ‘‘ کی مالا جپنے والے یہ رہنما سرخیوں میں رکھتے ہیں ۔بی جے پی اس بار انکی اشتعال انگیزیوں سے عاجز ضرور ہے لیکن کسی بھی طرح کی سختی کرنا اسکے اختیار سے باہر ہے ۔گو یا یہ رہنما انکے گلے کی ہڈی بن چکے ہیں جو نہ اگلتے بن رہی ہے اورنہ نگلتے بن رہی ہے۔

    رام مندر تعمیر کے لئے جس وقت پتھروں کی پہلی کھیپ ایودھیا پہونچی اس وقت بی جے پی اور اترپردیش کی حکومت مصلحت یا حیرت و استعجاب کے عالم میں خاموش تماشائی بنی دکھائی دیں یہ افسوسناک ہے، کچھ دنوں کے بعد سیاسی بیانات ضرور آئے مگر ان بیانوں کی منشاء عوام پر واضح تھی ۔ایسا لگ رہا ہے کہ رام مندر کا مسئلہ قوم و ملت کی فلاح اور عوام کے خون سے زیادہ قیمتی ہے ۔ہندو تنظیموں کی ایسی حرکتوں پر کچھ مسلم تنظیمیں بھی بابری مسجد کا راگ الاپنا شروع کردیتی ہیں ۔ظاہر ہے ہر تنظیم کو میڈیا میں زندہ رہنے کے لئے سرخیوں کا سہارا لینا پڑتاہے ۔اس طرح بابری مسجد کا مسئلہ حل نہیں ہوسکتاہے لیکن مسلم تنظیموں کو چاہئے کہ شدت پسند ہندوتنظیموں کے عمل پر رد عمل کا مظاہرہ نہ کریں اور ملک کے قانون اور عدلیہ کے فیصلے پراعتماد رکھیں ۔قانون کی حمایت اور عدلیہ کی منظوری کے بغیر نارام مندر کی تعمیر ہوسکتی ہے اور نا بابری مسجد کے ماڈل پر کام کیا جاسکتاہے ۔یہ دونوں طریقے ملک کے جمہوری نظام کے لئے مناسب نہیں ہیں ۔اشتعال انگیز بیان دیکر اور قانون کو ٹھینگا دکھاکر رام مندر کی تعمیر خواب خرگوش کی مانند ہے مگر یہ کہ ملک سے قانون کا راج ختم کردیا جائے جو قابل یقین نہیںہے ۔

    جس طرح پروین توگڑیا بیان بازی کررہے ہیں اس سے صاف ظاہر ہے کہ وہ اترپردیش میں ہونے والے انتخابات کے پیش نظر بی جے پی کو فائدہ پہونچانے کے لئے ایک بار پھر میدان میں اتر آہے ہیں۔اس طرح آر ایس ایس کی بی جے پی دوستی کے راز بھی سامنے آجاتے ہیں ۔رام مندر تعمیر کا مسئلہ ہندوئوں کی عقیدت سے جڑا ہو اہے اس لئے توگڑیا نے اسی جذبہ عقیدت کا سہار لیکر ماحول خراب کرنے کی کوشش شروع کردی ہے ۔انکا یہ کہنا کہ را م مندر کی تعمیر دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے ضروری ہے ایک غیر منطقی اور مشتعل کردینے والا بیان ہے ۔اس طرح انہوں نے ہندو اور مسلمان دونوں مذہب کے لوگوں کو کٹگھرے میں کھڑا کردیا ہے ۔انکے بقول رام مندر کے لئے ہندو اور بابری مسجد کے لئے مسلمان دہشت گردی کو فروغ دے رہے ہیں ۔ایسے شد ت و شرپسندوں کو حکومتوں کا مصلحتی سکوت بڑھاوا دیتاہے ۔سیکولر حکومتیں خاموش ہیں کیونکہ ہندوستان میں اب سیکولر جیسا کچھ رہ نہیں گیا ہے ،حالات تو یہی ظاہر کرتے ہیں۔

    رام مندر کی تعمیر کے لئے ایودھیا میں پتھروں کی آمد پر واویلا نہیں مچا یا گیا اور نہ حکومتوں نے خونریزی کی اس کوشش کو روکنے کے لئے واضح مناسب اقدامات کئے ۔لیکن دوسری طرف بارہ ربیع الاول کو میلاد النبی کی تقریب میں بابری مسجد کا نقشہ پیش کیا گیا تو قیامت خیز ہنگامہ کھڑا کردیا گیا ۔عدالت میں انکے خلاف مقدمہ بھی دائر ہوا ہے گویا یہ ایودھیا میں پتھروں کی آمد سے بڑا مسئلہ تصور کیا گیا ۔ بابری مسجد کا مقدمہ ابھی سپریم کورٹ میں زیر غور ہے ۔مسلم جوانوں کو بھی اپنے جذبات پر قابو رکھنا ضروری ہے ۔لیکن یہاں پھر حکومتوں کے جانبدارانہ رویوں پر سوال اٹھنا لازمی ہے۔رام مندر کی تعمیر کے لئے ایودھیا میں پتھروں کی آمد پر ریاستی اور مرکزی حکومت نے مناسب اقدامات کیوں نہیں کئے اگر اس متنازع مسئلے پر ملک میں ناخوشگوار فضا قائم ہوتی ہے تو اسکا ذمہ دار کون ہے، بغیر کسی ٹھوس منصوبہ بندی کے پتھروں کی آمد کا سلسلہ شروع نہیں ہوسکتا لہذا خفیہ ایجنسیاں اس پورے معاملے پر اپنی رپوٹ کیوں پیش نہیں کرسکیں۔،کیا یہ منصوبے انکے علم میں نہیں تھے اگر نہیں تو یہ تشویش ناک امر ہے اور اگر انہیں اس منصوبے کا علم تھا اور پھر بھی پتھر ایودھیا پہونچتے رہے تو ایسی لا علمی ملک کے لئے خوش آئند خبرنہیںہے۔

    ریاستی سرکار مسلمانوں کے تئیں کیا نظریہ رکھتی ہے یہ بابری مسجد کا ماڈل پیش کرنے والوں کے خلاف کی گئی کاروائی ظاہر کررہی ہے۔سماجوادی پارٹی کا جانبدارانہ رویہ انکے سیکولرازم پر سوالیہ نشان ہے ؟ ایسے مسائل پر حکومتوں کی خاموشی کیا عدم برداشت و عدم رواداری کے ماحول کو جنم نہیں دیتی ہے ؟۔توگڑیا جیسے اشتعال انگیز بیان بازی کرنے والوں پر سرکاریں سخت رویہ اختیار کیوں نہیں کرتی ہیں ۔اگر ایسے افراد کے خلاف حکومتیں سخت نہیں ہیںتو پھر اقلیتی فرقے حکومتوں سے کیا توقع رکھ سکتے ہیں اور وہ خود کو غیر محفوظ کیوں نہ سمجھیں انہیں یہ سوال پو چھنے کا پوار ا حق ہے ۔

(یو این این)


*******************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 439