donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Lamhaye Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Aleem Khan Falki
Title :
   Dilli Kahan Ast

دلّی کہاں است؟
 
علیم خان فلکی۔ جدہ
 
کئی سال بعد ایک بار پھر دہلی کے دیدار ہوئے۔ یہ ہمارا سیاسی دورہ نہیں تھا اسلئے ہم انہی گلیوں تک محدود رہے جہاں اصل دلّی پائی جاتی ہے۔ ان علاقوں میں کبھی نہ سرکاری مہمانوں کو لایا جاتا ہے اور نہ سرکارخود آتی ہے سوائے انتخابات کے دنوں کے ۔
 
دلی میں بھی حیدرآباد کی طرح اب دلی کا اصلی شہری کہیں نہیں ملتا سوائے پرانے شہر کے۔ ہر شخص کہیں نہ کہیں سے آکر بس گیا ہے۔ آٹو والا بہاری ہے تو ٹیکسی والا یوپی کا۔ ہوٹل پنجابی کی ہے تو ویٹر کلکتہ کا۔ حتی کہ مسجدوں میں بھی اکثر امام صاحب ایم پی کے ہیں تو مؤذّن صاحب آسام کے۔ محمود غزنوی اور نادرشاہ کے ہم وطن افغان و کشمیری بھی ملے لیکن دہلی فتح کرتے نہیں بلکہ معمولی نوکریاں ڈھونڈھتے۔ ان کی حالت تو قابلِ رحم ہوتی ہے لیکن پتہ نہیں کیوں پولیس آج بھی ان سے ایسے ڈرتی ہے جیسے وہ دہلی فتح کرنے آئے ہوں۔ یہ لوگ پولیس اور خفیہ ایجنسیوں کے بڑے کام آتے ہیں۔ کہیں کوئی بم پھٹے ، پولیس کو منہ چھپانے ان کے عمامے مل جاتے ہیں اور انہیں بند کرکے پولیس والے تمغے حاصل کرلیتے ہیں۔ لیکن اب وقت بدل رہا ہے۔ اب قانون پہلے جیسا اندھا نہیں رہا ۔ عشرت جہاں اور شہاب الدین واقعات کے بعد قانون کو دھندلا دھندلا ہی سہی کچھ تو نظر آرہاہے۔ کئی تمغے حاصل کرنے والے جو ملک کی آنکھوں کا تارا بن چکے تھے اب ان کے تمغے اتروائے جارہے ہیں۔
 
سڑکوں پر گندگی کے ڈھیر اور مقدس گایوں کے ہجوم دلی اور نویڈا میں مشترک ہیں۔ نویڈا تو خیر مایاوتی کا شہر ہے اسلئے اس کی شکایت تو بے فیض ہے۔ لیکن پرانی دلی کی میونسپلٹی شائد اب بھی بہادر شاہ ظفر کی انتظامیہ کے تحت ہے۔ بہادر شاہ ظفر کے گزرجانے کی وجہ سے تنخواہیں بند ہوگئیں شائد اسی لئے اس محکمے نے کام کرنا بند کردیاہے۔ اوکھلا، ذاکر نگر اور جامعہ ملیہ وغیرہ میں پتہ نہیں چلتا کہ پہلے گندگی کو بسانے کی پلاننگ کی گئی یا پہلے مسلمانوں کو بسنے کا موقع دیا گیا۔یہاں کے لوگ صبر ایوارڈ دیئے جانے کے لائق ہیں۔ بالخصوص بارش کے موسم میں جب گندے نالے اور بارش کا پانی ایک ساتھ مل کرسڑک پر گنگا جمنی تہذیب کی طرح اتحاد سے بہتے ہیں تو پتہ نہیں لوگ سانس کس طرح لیتے ہیں۔ ایک صاحب سے ہم نے پوچھا "آپ کی ناک کس طرح یہ بدبو برداشت کرلیتی ہے"، انہوں نے پوچھا "یہ ناک کہاں ہوتی ہے"۔اتفاق سے ملک کی سرکردہ دینی اور ملّی جماعتوں کے مرکز بھی انہی علاقوں میں ہیں، اسی لئے حکومت بھی یہاں کی گندگی کو مسلمانوں کا پرسنل لاکی طرح کا ایک داخلی معاملہ سمجھتے ہوئے بالکل دخل اندازی نہیں کرتی۔ البتہ کبھی انکاونٹر یا دہشت گردی کی کسی اسٹوری کی شوٹنگ کرنی ہوتی ہے تو ادھر آجاتی ہے کیونکہ باٹلہ ہاوز جیسے علاقوں میں شوٹنگ سے فلم بہت ہِٹ ہوتی ہے۔
 
چونکہ اب آبادی ہزاروں گنا بڑھ چکی ہے زمانہ ترقی کررہا ہے اسلئے ان علاقوں کو اب مغلیہ انتظامیہ سے نکال کر شیلا ڈکشٹ کے انتظامیہ کے تحت لانے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ محترمہ نے جو نئی دہلی کو ترقی دی وہ واقعی قابلِ تعریف ہے۔ لگتا ہے آپ یورپ یا امریکہ ہی کے کسی شہر میں آگئے ہیں۔ یہ عجیب معاملہ ہے جو اب حیدرآباد میں بھی دیکھنے میں آرہا ہے کہ صاف ستھرے علاقوں میں باہر سے آکر بسنے والے رہیں اور اصل شہری انہی تنگ و تاریک و متعفن پرانے علاقوں میں رہیں جنہیں ان کے آبا و اجداد نے بسایا تھا۔
بیس پچیس سال پہلے جامع مسجد کے باہر ایک پوری سڑک کتابوں کی دکانوں سے بھری ہوتی تھی۔ دکاندار کتابیں بچھا کر آدھی سڑک پر قبضہ کرلیتے تھے۔ لیکن اب وہ کتابوں کی دکانیں کدھر ہیں لوگوں سے پوچھنا پڑا۔ جب ہم ان دکانوں پر پہنچے تو عبرتناک منظر دیکھا کہ کئی دکانیں تو مچھلی یا مرغی کے گوشت کی دکانوں میں تبدیل ہوچکی ہیں۔ چند ایک دکانیں باقی تھیں جن کے سامنے بہتی نالیوں کی وجہ سے کتابوں پر سینکڑوں مکھیاں منڈلا رہی تھیں۔ جو لوگ کبھی ناک پر مکھی نہیں بیٹھنے دیتے اب ان کے ناک ، گال اور پیشانیوں پر مکھیاں بے خوف بیٹھ رہی تھیں لیکن شائد ہر قسم کے ظلم اور ناانصافی کو برداشت کرتے کرتے اتنے تھک چکے تھے کہ مکھیوں کو بھی مارنے کی ان میں سکت نہیں رہی۔ کتابیں تقریباً وہی تھیں جو بیس پچیس سال پہلے ہم نے دیکھی تھیں۔ وہی بہشتی زیور، وہی کامیاب دلہن اور کامیاب دلہا۔ ہم نے ایک دکاندار سے اس کی وجہ پوچھی تو انہوں نے کہا کہ جب تک بیٹیوں کی شادیاں ہوتی رہینگی یہ کتابیں تحفے میں جاتی رہیں گی۔ البتہ ان دکانوں پر قوالیوں اور وعظوں کے سی ڈی اور ڈی وی ڈی کا اضافہ ہوگیا جو اس دور میں نہیں تھے۔
 
ہم نے ایک دکاندار سے پوچھا کہ پھر یہ دکانیں چلتی کسطرح ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ اخبار و رسائل کی وجہ سے۔ ہم نے دیکھا کہ ہر دکان پر اخبارات و رسائل کی بھرمار ہے۔ سنسنی خیز سرخیاں خود گاہکوں کو اخبار یا رسالہ خریدنے پر مجبور کردیتی ہیں۔ لیکن ان کے اندر کے مضامین کے موضوعات کا معیار گوشت پر بھنبھناتی ہوی مکھیوں ہی کی طرح ہوتا ہے۔ان مضامین میں احتجاج، افواہیں ، مسلمانوں پر ہونے والے مظالم اور ناانصافیوں کے خلاف فریاد اور سرکار اور فاشسٹ پارٹیوں کے خلاف کسی بیوا کی ہائے ہائے کی طرح کوسہ اور بددعائیں ہوتی ہیں۔ پڑھنے والے بھی اردو کے ، لکھنے والے بھی اردو کے۔ اب اوباما یا مودی تو اردو پڑھنے سے رہے۔ لکھنے والے تو اس طرح لکھتے ہیں جیسے ان کے دشمن ان کے سامنے کان پکڑ کر ایک ٹانک پر کھڑے ہیں ، یہ خوب سنائے جاتے ہیں اور قاری پڑھ پڑھ کر خوش ہوتے جاتے ہیں۔ مصنف اور قاری دونوں کی اوسط عمریں پچاس یا ساٹھ سے اوپر ہوتی ہیں اسلئے سرکار ہو یا اوباما ، یا کہ فاشسٹ دہشت گرد پارٹیاں ، سب کو یقین ہوتا ہے کہ اب یہ بڑھاپا مائل قاری ان کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے اسلئے ان اخبارات اور رسائل کی فروخت میں وہ بھی آڑے نہیں آتے۔ وہ جانتے ہیں کہ اب اردو والے اس بند نالی کی مینڈکوں کی طرح ہیں جو نالی کے اندر ہی ٹرخاتے رہتے ہیں ، باہر آکر کچھ دیر پھدکنے کے علاوہ کچھ نہیں کرسکتے۔ ہمیں ایسے ہی ایک ہفتہ وار کا واقعہ یاد آرہا ہے
 
۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 677