donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Lamhaye Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ashfaque Umar
Title :
   Urdu Zaban Aur Hamari Zimmedarian


 

اردو زبان اور ہماری ذمہ داریاں

 

 

اشفاق عمر

 

 مادری زبان (بالفاظ دیگر گھر کی زبان) انسانی زندگی کے ارتقائی سفر میں انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔یہ ایک ایسا سماجی وسیلہ ہے جو ایک نسل کو دوسری نسل سے مربوط کرتے ہوئے نئی نسل کو پچھلی نسل کی تمام تر وراثت سونپ دیتا ہے۔ انسانی زندگی میں مادری زبان کی اہمیت و افادیت کے پیش نظر ہر سال ۱۲فروری کو اقوام متحد ہ کے ادارہ یونائیٹیڈ ایجوکیشنل،سائنٹفک اینڈ کلچرل آرگنائزیشن ( یونیسکو UNESCO) کے زیر اہتمام بین الاقوامی مادری زبان دن(انٹرنیشنل مدر لینگوئج ڈے) منایا جاتا ہے ۔ اس دن کے حوالہ سے دنیا بھر میں مادری زبان کی حوصلہ افزائی کے لیے مختلف پروگرام منعقد کیے جاتے ہیں ۔” بین الاقوامی مادری زبان دن “ کی پہلی تقریب یونیسکو کے دفتر پیرس ، فرانس میں21 فروری 2000 ءکو منائی گئی تھی۔

 ہماری مادری زبان ،اردو زبان کو ایک شیریں زبان کے طور پرتسلیم کیا جاتا ہے۔ دنیا کے ایک وسیع حلقے میں اس زبان کے بولنے والے موجود ہیں۔ موجودہ صورتِ حال میں یہ زبان پھلتی پھولتی محسوس ہورہی ہے مگر اس زبان کے بولنے والوں کے ایک طبقے کا اپنے بچوں کو دوسری زبانوں کے اسکولوں میں داخل کرنا باعثِ تشویش ہے۔ ابھی بھی وقت ہے۔ اگر ہم نے اس رجحان کو ختم نہیں کیا تویہ رجحان اردو زبان کو معدومیت کی طرف لے جائے گا ۔

کتنی عجیب بات ہے

 تین چار دہائی پہلے تک اردو زبان بولنے والوں کو اردو زبان سے کوئی خاص شکایت نہیں تھی۔ آج کی طرح اس وقت بھی اردو میڈیم سے ابتدائی اور ثانوی تعلیم حاصل کرنے والے طلبا کااعلیٰ تعلیم کے اُن اداروں میں آسانی سے داخلہ ہوجاتا تھا جہاں اردو کے علاوہ کوئی اور زبان ذریعہ  تعلیم کے طور پر استعمال ہوتی تھی۔ ان طلباکے رزلٹ بھی مثالی ہوا کرتے تھے اور آج وہ طلبا اعلیٰ ترین سروسیزمیں شامل ہیں یا کاروبار میں مصروف ہیں۔ انہیں کبھی بھی اردو زبان میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کی وجہ سے نہ تو کوئی دقّت ہوئی نہ ہی کہیں شرمندگی سے دوچار ہونا پڑا۔

 گزرتے وقت کے ساتھ تعلیم کا حصول عام ہوتا گیا۔ اسی کے ساتھ ساتھ اردو بولنے والوں کے ذہن کو تبدیل کیا جانے لگا۔ہم انتہائی معصومیت سے اس پروپیگنڈہ کا شکار ہوتے گئے کہ اردو زبان میں تعلیم حاصل کرنے والوں کو روزی روٹی کے مسائل سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ ہم نے ان باتوں کو ماننا شروع کردیا او ہمارا راستہ تبدیل ہونے لگا۔ بہت ساری جگہوں پر توسماج میں ایک ایسا ماحول پیدا کیا گیا جس سے اردو زبان میں اپنے بچوں کو تعلیم دلانے والے سرپرست شرمندگی کا شکار ہونے لگے۔ہم نے اشتہار بازی پر یقین کیا اور پروپیگنڈہ کی دہلیز پر اپنی نسلوں کو قربان کرنا شروع کرتے ہوئے خوش ہوتے رہے کہ ہماری نسلیں ترقی کی راہ میں دوسری قوموں کے شانہ بشانہ ہےں۔ 

 ہم نے یہ تک دیکھنا گوارا نہیں کیا کہ دوسری زبان کے لوگوں کی ابتدائی تعلیم سے متعلق کیا پالیسی ہے اور دنیا بھر کے ماہرینِ تعلیم مادری زبان میں ابتدائی تعلیم کی اہمیت پر کتنا زور دے رہے ہیں۔ ہم نے یہ بھی نہیں سوچا کہ پانچ چھ سال کا معصو م بچہ کسی اجنبی ذریعہ ¿ تعلیم کی اسکول میں اپنے آپ کو مکمل طور پر اجنبی محسوس کرتا ہے۔ ہم نے بچوں کے مستقبل کو شاندار بنانے والے خوبصورت پروپیگنڈہ پر مکمل یقین کیااور زمینی حقیقتوں سے منہ موڑ لیا۔

 دنیا بھر کہ ماہرین اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ بچے کی ابتدائی تعلیم اس کی مادری زبان میں ہونا چاہیے مگر ہم نے ان ماہرین کی باتوں کو قابلِ اعتنا نہیں سمجھا۔ دیگر زبان کے لوگ اپنے بچوں کو مادری زبان کے اسکول میں داخل کرنا پسند کرتے ہیں مگر ہم نے ایسا کرنے کی ضرورت نہیں محسوس کی۔ جس وقت دنیا بھر کے ماہرینِ تعلیم انسان کی مادری زبان کی اہمیت و افادیت کے دلائل دے رہے تھے اس وقت ہم اپنی مادری زبان سے دوری بنانا چاہتے تھے ۔ہم نے اس بات پر یقین کرلیاتھا کہ اردو زبان روزگار سے جڑی نہیں ہے اور ایسی زبان میں تعلیم حاصل کرنے سے اس کا مستقبل تباہ ہوجائے گا۔ کتنی عجیب بات ہے۔ ماہرین کی سند ہے کہ مادری زبان میںابتدائی تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کا مستقبل تابناک ہوتا ہے اور ہم اپنے بچوں کی ابتدائی تعلیم کے لیے دوسری زبانوں کا انتخاب کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ ہم اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کی لالچ میں نہ صرف ان کا حال تباہ کررہے ہیں بلکہ ان کے مستقبل کوبھی داو ¿ پر لگا رہے ہیں۔

 آج بے شمار لوگ اردو سے متعلق ایک بات کہتے ہیں کہ اردو روزگار سے جڑی ہوئی زبان نہیں ہے اور اردو سے تعلیم حاصل کرنے والوں کے مستقبل کا روشن ہونا محال ہے۔ اس اعتراض کا منہ توڑ جواب دیا جاتا رہا ہے۔ ہم اس اعتراض کے جواب میں صرف ایک بات کہنا چاہتے ہیں۔

 ہندوستان کا سب سے پرکشش اور روشن کریئر ،سول سروسیز کا کریئر ہے۔ سول سروسیز کا امتحان پاس کرکے سول سرونٹس کا عہدہ پانے والے افراد کے ہاتھ میں اس ملک کی باگ ڈور ہوتی ہے۔ اردو زبان میں اس امتحان کے پرچے لکھنے کی سہولت مہیا ہے۔ ہندوستان میں بولی جانے والی 1652 زبانوں میں سے 22زبانوں میں یہ سہولت موجود ہے جن میں اردو زبان کا بھی شمار ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اردو زبان جاننے والا ایک امیدوار ہندوستان کے سب سے اعلیٰ مقابلہ جاتی امتحان میں شریک ہوسکتا ہے اور کامیابی حاصل کرتے ہوئے سول سرونٹس میں شامل ہوسکتا ہے۔ اردو زبان میں سول سروسیز کا امتحان دینے اور کامیابی حاصل کرنے والے افراد موجود ہیں۔

 کیا اس کے بعد کسی اور جواب کی ضرورت رہ جاتی ہے۔ اردو زبان سے تعلیم حاصل کرنے والے آج بھی ہر میدان میںاعلیٰ عہدوں پر موجود ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اردو زبان اور دوسری تمام زبان کے بولنے والے حقیقی صورتِ حال کو سمجھیں۔ 

 ہم انگریزی میڈیم یا کسی اور میڈیم کی اسکولوں کے مخالف نہیں ہیں بلکہ ہمیں اعتراض اس بات پر ہے کہ ہم پانچ چھ سال کی عمر کے بچے سے مادری زبان میں تعلیم 

حاصل کرنے کا حق چھین کر اسے مادری زبان کے علاوہ کسی اور زبان کے اسکول میں داخل کردیتے ہیں۔ ہم اس کی شخصیت کی مکمل نفی کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتے۔

  دیکھا گیا ہے کہ ابتدائی اور ثانوی تعلیم کی تکمیل پر مادری زبان سے تعلیم حاصل کرنے والے طلبااورمادری زبان کے علاوہ کسی اور زبان سے ابتدائی اور ثانوٰ تعلیم حاصل کرنے والے طلبا کے تعلیمی معیار میں کوئی خاص فرق نہیں ہوتا۔اگر کہیں فرق محسوس ہوتا ہے تو اس کی وجہ میڈیم کا فرق نہیں بلکہ طلبا جن اسکولوں میں زیرِ تعلیم ہوتے ہیں ،ان اسکولوں کا اعلیٰ معیار بچوں کی تعلیمی ترقی میں بھی نظرآتا ہے۔ مادری زبان سے ابتدائی اور ثانوی تعلیم حاصل کرنے والے بچے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے میں کہیں بھی پیچھے نہیں رہتے تو کیا وجہ ہے کہ ہم اپنے بچوں کی ابتدائی تعلیم کے لیے مادری زبان کا انتخاب نہیں کرتے۔ اپنے بچوں کو دوسری زبان کے اسکول میں داخل کرنے والے سرپرستوں کے پاس بہت ساری دلیلیں ہیں مگر کیا وہ اس بات کا جواب دے سکتے ہیں کہ جب ان کا بچہ ان کے گھر میں بولی جانے والی زبان کو بول اور سمجھ سکتا ہے تو وہ اس کی ابتدائی اسکولی تعلیم کے لیے کسی دوسری زبان کا انتخاب کیوں کرتے ہیں؟ 

 میں آپ لوگوں کے سامنے چند باتیں پیش کرنا چاہتا ہوںجن سے بچوں کی پرورش اور تعلیم وتربیت میں مادری زبان کی اہمیت واضح ہوسکے۔

 سب سے پہلے زبان سے متعلق ہونے والی مسلسل تحقیقات میں سے ایک تحقیق کا ذکر کرنا چاہوں گا۔اس جدید تحقیق نے ثابت کیا ہے کہ نومولود بچہ اپنی مادری زبان میں ہی روتا ہے۔ کچھ عرصہ قبل تک سمجھا جاتا تھا کہ بچوں کا رونا کسی ذہنی کاوش کا نتیجہ نہیں ہوتا مگر حالیہ تحقیق نے ثابت کیا ہے کہ بچے اپنی مادری زبان میںہی روتے ہیں۔ نومبر 2009ءمیں سائنسی تحقیقی جریدے” کرنٹ بائیالوجی Current Biology“ میں چھپنے والی اس تحقیق کے مطابق بچے اپنا مادری لہجہ رحم ِمادر ہی میں اپنا لیتے ہیں۔جرمنی کی ایک یونیورسٹی اور ایک فرانسیسی ادارے کی مشترکہ تحقیق کے مطابق بچہ دراصل پیدائش سے قبل ہی زبان سیکھنا شروع کردیتا ہے۔اس تحقیق کا مقصد اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش تھی کہ بچوں میں بے ربط رونے کا عمل کب زبان دانی کی ابتدا بنتا ہے۔ اس تحقیق کے لئے نومولود فرانسیسی اور جرمن بچوں کی رونے کی آوازیں ریکارڈ کرکے ان کا تفصیلی تجزیہ کیا گیا۔محققین کے مطابق زبان کے س ±روں سے متعلق ابتدا میں ہی پیدا ہونے والی حساسیت بعد ازاں بچوں میں مادری زبان سیکھنے کے عمل میں بہت معاون ہوتی ہے۔اس تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ انسان ماں کے پیٹ سے ہی اپنی مادری زبان سے واقف ہوجاتا ہے اور گزرتے وقت کے ساتھ وہ اس میں پختگی حاصل کرتا رہتا ہے۔

٭

بھارت کے آئین کی دفعہ350Aمیں درج ہے : 

 ” ہر ریاست اور اس ریاست کے اندر ہر مقامی حاکم کی کوشش ہوگی کہ لسانی اقلیتی  زمروں سے تعلق رکھنے والے بچوں کوتعلیم کے ابتدائی درجے میں مادری زبان میں  تعلیم دینے کی کافی سہولتیں مہیا کرے اور صدر، کسی ریاست کو ایسی ہدایتیں اجرا  کرسکے گا جو ایسی سہولتیں مہیا کرنے کے لیے وہ ضروری یا مناسب سمجھے۔“ 

٭  قومی درسیات کا خاکہ2005 :  

نیشنل کونسل آف ایجوکیشنل ریسرچ اینڈ ٹریننگ(NCERT)، نئی دلی کے قومی درسیات کا خاکہ2005 (NCF2005) کے چند اقتباسات :

﴿ ’ ’ زبانیں یادداشتوں اور اشارات کا ایک ذخیرہ بھی فراہم کرتی ہیں جو بولنے والے  دیگر لوگوں اور خود اپنے عرصہ ¿ حیات کے دوران بنائے گئے اشارات سے حاصل کیا  جاتا ہے۔ یہ ایسے ذرائع بھی ہیں جن سے بیشتر علوم کی تشکیل ہوتی ہے۔ اس لیے ان کا  فرد کے خیالات اور ا س کی پہچان سے گہرا رشتہ ہوتا ہے۔ دراصل ان کا پہچان کے ساتھ  اتنا مضبوط رشتہ ہوتا ہے کہ بچے کو اس کی مادری زبان (زبانوں) سے محروم کرنا یا ان کو  مٹانے کی کوشش کرنا اس کے احساسِ تشخص میں دخل اندازی کے مترادف ہے۔“

 ” بچوں کی گھر کی زبان (زبانیں) اسکولی تعلیم کا ذریعہ ہونا چاہیے۔“

 ” اگر اسکول میں اعلیٰ سطحوں پر گھر کی زبان (زبانوں) کے ذریعے تعلیم ممکن نہ ہو تو  ابتدائی سطح کی تعلیم لازمی طور پر گھر کی زبان (زبانوں) کے ذریعے ہی دی جانی  چاہیے۔ یہ لازمی ہے کہ ہم بچے کی گھر کی زبان (زبانوں) کو اہمیت دیں۔

٭ ایڈولف ہٹلر نے اپنی جاسوسی تنظیم میں بہت ساری عورتوں کو بھی بھرتی کیا تھا۔ ان جرمن عورتوں کو انگریزی زبان اور برطانوی تہذیب و تمدن کی بھرپورتربیت دی گئی اور انہیں انگلستان روانہ کردیاگیا۔ جنگ کے دوران ان عورتوںکی کاروائیاں اتنی زبردست تھیں کہ برطانوی افسران حیران تھے ۔ ان کی ہر خبر جرمنوں تک پہنچ جاتی تھی۔ ایک مرتبہ محکمہ ¿ سراغرسانی کو ایک عورت پر شک ہوا۔ اس عورت کی اصلیت معلوم کرنے کے لیے ایک عجیب طریقہ اختیار کیاگیا۔ ایک پارٹی میں اس عورت کو اچانک پن چبھا دی گئی۔ پن چبھنے کا درد ہوتے ہی اس عورت کے منہ سے بے اختیار جرمن زبان کی ایک گالی پھسل گئی اور اسے موقع پر ہی گرفتار کرلیا گیا۔ اس ترکیب کے پیچھے یہ اصول کارفرما تھا کہ بے ساختگی یا کسی تکلیف کے موقع پر انسان اپنی مادری زبان میں ہی اظہار ِ جذبات کرتا ہے۔

کیا آپ ان باتوں سے متفق ہیں؟

٭  بچے کو اس کی مادری زبان میں بنیادی تعلیم دینا اس کابنیادی انسانی حق ہے اور اسے  یہ حق ملنا ہی چاہیے۔

 ٭  ہم اسی زبان میں سوچتے اور خواب دیکھتے ہیں جو ہماری مادری زبان ہوتی ہے۔

٭ بچہ بولنا شروع کرتا ہے تو دھیرے دھیرے وہ اپنی خواہشات، جذبات اور ضروریات  کا اظہار کرنے کے قابل ہوجاتا ہے۔ رسمی تعلیم شروع کرنے سے پہلے وہ اپنی مادری  زبان استعمال کرنے کے قابل ہوچکا ہوتا ہے۔

٭ جب مادری زبان میں بچے کی اسکولی تعلیم کا آغاز ہوتا ہے تو اپنے ذخیرہ ¿ الفاظ کی مدد  سے وہ اپنے استاد کی بولی اور سکھائی گئی باتوں کو سمجھنے کا اہل ہوتا ہے ۔ مادری زبان کی  وجہ سے پیدا ہونے والی یہ افہام و تفہیم اس کی تعلیم میں سہولت پیدا کردیتی ہے اور وہ  تیزی سے تعلیمی ترقی کی منزلیں طے کرنے لگتا ہے۔

٭ بچوں کی مادری زبان کے ذریعہ ¿ تعلیم والے اسکولوں کے اساتذہ کو اپنا نصاب مکمل  کرنا اور بچوں کو طے شدہ نصاب پر عبور دلانے میں سہولت ہوتی ہے۔

٭ مادری زبان میں تعلیم حاصل کررہے بچے کی پڑھائی اور گھر کام کی نگرانی کرنے میں   ماں باپ کو بہت سہولت ہوتی ہے۔ 

٭ وہ زبانیںبہت جلداپنا وجود کھو بیٹھتی ہیںجواسکولوں میں ذریعہ ¿ تعلیم کے طور پر  استعمال نہیں ہوتیں اور نہ ہی وہ نصاب ِ تعلیم میں شامل ہوتی ہیں۔

٭ آپ نے ایسے لوگوں کو دیکھا ہوگا جن کی یادداشت چلی جاتی ہے مگر وہ اپنی مادری  زبان میں بات کرلیتے ہیں۔

٭ ابتدائی سطح کی تعلیم غیر مادری زبان میں حاصل کرنے والا اس ذہنی نشونما سے محروم  ہوجاتا ہے جو مادری زبان میں تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کے حصے میں آتی ہے 

 کیوں کہ ہمارا ذہن مختلف قسم کی توانائیوں کی آماجگاہ ہے۔ ذہنی، فکری، سمعی، بصری  اور اسی طرح کی بے شمار قوتیں ہماری ذہنی نشونما میں معاون و مددگار ہوتی ہیں۔ یہ  قوتیں جس حد تک پختہ ہوں گی، اس حد تک ہمارا ذہن وسیع اور پختہ ہوگا۔ ہمارے  محسوسات کا بے ساختہ اظہار ہماری مادری زبان کے توسط سے ہی ہوتا ہے۔ کسی بھی  مسرت یا تکلیف کا بے اختیار اظہار کرنے کے لیے انسان اپنی مادری زبان کا ہی  استعمال کرتا ہے۔

٭  زبان کو بنیادی انسانی حقوق میں شامل کیا گیا ہے کیوں کہ زبان انسان کی ذات اور  شناخت کا اہم ترین حصہ ہے۔ اقتصادی، سماجی اور ثقافتی حقوق پر بین الاقوامی  معاہدے کے مشمولات کے علاوہ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے تعلیم، سائنس اور 

  ثقافت کی قرار دادوں کی صورت میں اس حق کی ضمانت دی گئی ہے۔ 

 کیاآپ یہ نقصان برداشت کرسکتے ہیں؟

 مادری زبان کسی بھی انسان کی شناخت ہوتی ہے۔ فرد مادری زبان میں سوچتا ہے، منصوبہ بندی کرتا ہے اور مختلف باتوں کو سمجھتا ہے یعنی یہ زبان فرد کی ترقی کا اہم ذریعہ ہے۔ کوئی بھی زبان اپنے بولنے والوں کی وجہ سے زندہ رہتی ہے اور جس وقت اس کے بولنے والے ختم ہوجاتے ہیں، زبان بھی فنا ہوجاتی ہے۔ہر زبان کی ایک تہذیبی ثقافت ہوتی ہے جس میں زندگی کے ہر پہلو کی شمولیت ہوتی ہے۔

  اردو سے ہماری بے اعتنائی بڑھتی گئی تو دنیا ایک شیریں زبان اور اس کی تہذیب سے محروم ہوجائے گی۔ اس زبان کی معدومیت کے ذمہ دار ہم خود بن رہے ہیں۔ہم نے کمرشیالائزیشن کے اس زمانے میں پروپیگنڈہ کا شکار ہوکر خوداپنی جڑوں کو ختم کرنے کا کام شروع کردیا ہے۔رسمی تعلیم کا آغاز ہم بچے کی مانوس زبان میں نہ کرتے ہوئے اس کو ایک ایسے ماحول میں پہنچادیتے ہیں جو اس کی شخصیت کو غیرمتوازن بنا سکتا ہے۔ ہم اس طرح اردو اور اپنی اولادوں، دونوں کو اپنی جڑوں سے دور کررہے ہیں۔ کیا ہمیں اس مسئلہ پر ایک مرتبہ اور غور نہیں کرنا چاہیے۔
 ہماری تعلیمی حکمتِ عملی؟

 ہندوستان میں 47زبانیں ذریعہ ¿ تعلیم کے طور پر برتی جاتی ہیں۔ہندوستان کا تعلیمی نظام ابتدائی تعلیم، ثانوی تعلیم، اعلیٰ ثانوی تعلیم اور یونی ورسٹی سطح کی تعلیم پر مبنی ہے۔ ہندوستان میں ابتدائی تعلیم(پرائمری اور اپرپرائمری تعلیم )کے اسکولوں میں عام طور پر اس علاقے میں بولی جانے والی زبان میں تعلیم دی جاتی ہے۔عام رجحان یہی ہے کہ بچوں کو مادری زبان کے ابتدائی اسکولوں میں داخل کیا جائے ۔ ثانوی تعلیم مکمل ہونے کے بعد بچے اپنی اعلیٰ تعلیم دوسرے میڈیم کے کالجوں میں حاصل کرتے ہیں۔ مادری زبان کے اسکولوں کے فارغ طلبا آسانی سے اپنی تعلیم کو مکمل کرلیتے ہیں۔

 جس سماج میںاس طرح کی سہولیات مہیّاہوں،جس سماج میںکثیر لسانیات کی بھی فضا موجود ہو وہاں ہمیں اپنے بچوں کے لیے ”زبانوں پر عبوریت“ کے مسائل کا سامنا نہیں ہوسکتا۔ہم نے دیکھا ہے کہ چھ سات سال کے بچے مدارس میں روانی سے عربی قاعدہ پڑھنے لگتے ہیں۔بلاشبہ ہم لوگ کثیرلسانی ماحول کے پروردہ ہیں اس لیے مادری زبان میں ابتدائی تعلیم دلاتے ہوئے ہم تھوڑی سی محنت سے ہم اپنے بچوںکو دیگر قومی اور بین الاقوامی زبانوں پر بہتر طور پر عبور دلا سکتے ہیں۔

 ہمیں چاہیے کہ ثانوی تعلیم کے اختتام تک اپنے بچوں کو انگریزی، ریاستی اور قومی زبانوں پر عبور دلانے کے لیے ہم خود کا لسانی منصوبہLanguage Plan بنائیں جس کی مدد سے ہمارے بچے مادری زبان کے علاوہ دوسری زبانوں پر بھی عبور حاصل ہوجائے۔ 

  آج انٹرنیٹ پرہرزبان میں ہر طرح کا تعلیمی موادبافراط موجود ہے۔ہم چاہیں تو اپنے بچوں کواپنی نگرانی میںجدید ترین وسائل کا استعمال کرتے ہوئے پڑھائی کراسکتے ہیں جس سے وہ اپنہ کلاسوں کے نصاب پر عبور حاصل کرسکتے ہیں۔ ہمیں خود اپنے مطلوبہ مقاصد کے حصول کے لیے کوشش کرنا ہے۔ ہماری اپنی کوششیں ہمارے بچوں کے لیے مفید ثابت ہوں گی۔ ہمارے بچوں کی فلاح کے اقدامات ہمیں خود کرنا ہے۔ اس کے لیے ہماری کسی بھی ادارے یا فرد پر مکمل انحصار نہیں کرسکتے۔

 ۱۲ فروری ۴۱۰۲ءکو” بین الاقوامی مادری زبان دن“ کے طور پر منایا جارہا ہے۔ پوری دنیا میں جوش و خروش سے منایاجانے والا یہ دن اپنے پیچھے بہت ساری باتیں، بہت سارے سوال چھوڑ جائے گا۔ ان میں سب سے اہم سوال یہی ہوگا کہ ہم اپنے بچوں کی ابتدائی تعلیم کے لیے کون سا ذریعہ تعلیم اختیار کریں۔ ہمیں ضرور غور کرنا چاہیے کہ ہمارے اپنے بچوں کے لیے بہتر بات کون سی ہے۔ہم پھر کہیں گے کہ بچے کے بہتر مستقبل کی فکر میں اس کا حال قربان مت کیجیے ۔ ہمارا یہ عمل اس کے شخصیت کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔ اپنی مادری زبان میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد ہمارے بچے زیادہ زیادہ بہتر نتائج دے سکتے ہیں۔وہ بچے ان بہتر نتائج کی بنیاد پرنہ صرف تعلیم و ترقی کی بلندیوں تک پہنچےں گے بلکہ وہ ان اعلیٰ اقدار کے حامل بھی ہوں گے جو آپ کے خون میں بھی رچی بسی ہیں اور پھر آپ کو اپنی اولاد پر ناز ہوگا۔

۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸

Comments


Login

You are Visitor Number : 762