donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Lamhaye Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Asif Jeelani
Title :
   Bartania Mein Urdu Peechhey Rah Gayi

 

برطانیہ میں اردو پیچھے رہ گئی
 
آصف جیلانی
 
ء2011 کی مردم شماری پر مبنی جو تازہ اعداد و شمار شائع ہوئے ہیں، ان سے یہ انکشاف ہوا ہے کہ برطانیہ میں انگریزی کے بعد پولش دوسری بڑی زبان ہے۔ مردم شماری میں زبان کے بارے میں جو سوالات کیے گئے تھے ان کے جواب میں انگلستان اور ویلز میں رہنے والے 5 کروڑ 61 لاکھ باشندوں میں سے 5 لاکھ 46 ہزار باشندوں کا کہنا تھا کہ وہ پولش بولتے ہیں۔ زبان کے بارے میں سوالات کے نتیجے میں یہ انکشاف بھی ہوا کہ انگلستان اور ویلز میں انگریزی کے علاوہ 104 دوسری زبانیں بھی بولی جاتی ہیں اور تین سال سے زیادہ عمر کے 42 لاکھ افراد ایسے ہیں جن کی مادری زبان انگریزی کے علاوہ ہے۔ ان میں سب سے بڑی تعداد پولش زبان بولنے والوں کی ہے۔ اس کے بعد اردو، پنجابی اور گجراتی زبان بولنے والوں کا نمبر آتا ہے۔ ان کی تعداد دس لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ ان کے بعد عربی، چینی اور پرتگیزی بولنے والے ہیں۔ پولش زبان نے سبقت اس وجہ سے حاصل کی ہے کہ 2004ء میں جب سے یورپی یونین میں شامل ہونے والے مشرقی یورپ کے ملکوں کے شہریوں کے لیے برطانیہ کے دروازے کھلے ہیں، ایک سیلاب سا ہے جو ان ممالک کے شہریوں کا امڈ آیا ہے۔ ان میں سب سے زیادہ پولینڈ کے شہری ہیں جن کی تعداد پچھلے 9 برسوں میں پانچ لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے۔
 
مشرقی یورپ کے ملکوں کی یورپی یونین میں شمولیت اور ان ملکوں کے شہریوں کو بلا روک ٹوک برطانیہ آنے کی اجازت دینے میں سابق وزیراعظم ٹونی بلیئر پیش پیش تھے۔ عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ ٹونی بلیئر جنہوں نے وزارتِ عظمیٰ سے سبکدوشی کے بعد رومن کیتھولک مذہب اختیار کیا ہے، وہ اس ملک میں رومن کیتھولک ہیں اور ان کی برطانیہ آمد سے برطانیہ میں رومن کیتھولکس کی تعداد میں پانچ لاکھ کا اضافہ ہوا ہے۔ بہت سے لوگ تو یہ کہتے ہیں کہ یہ ملک اب رومن کیتھولک ملک بن گیا ہے۔ اس کا سہرا ٹونی بلیئر کے سر ہے۔
 
پولینڈ کے یہ شہری اتنی تیزی سے اور اتنے منظم طور پر یہاں بسے ہیں کہ لوگ حیران رہ گئے ہیں۔ روزگار کے میدان میں انہوں نے برطانیہ کے شہریوں کو پچھاڑ دیا ہے جس کی وجہ سے ان کی یہاں کے مزدوروں سے کشیدگی بھی پیدا ہوئی ہے اور سہولتوں کے لحاظ سے یہ سب سے سبقت لے گئے ہیں۔ جگہ جگہ ان کے اسٹور کھل گئے ہیں اور پولش بچوں کو مادری زبان کی تعلیم دینے کے لیے بھی ہر محلے میں اسکول دکھائی دیتے ہیں اور پولش زبان کے اخبارات، رسائل اور کتابوں کی بڑے اسٹورز میں بہتات نظر آتی ہے۔ ان کے مقابلے میں ہندوستان اور پاکستان سے آنے والے تارکین وطن کو یہاں آباد ہونے میں کم سے کم تین چار دہائیاں لگ گئی تھیں۔
 
اب تک اردو بولنے والے اس بات پر بڑے فخر و افتخار کا اظہار کیا کرتے تھے کہ پاکستان اور ہندوستان کے بعد برطانیہ اردو کا دوسرا بڑا مرکز ہے… اور اب تک تھا بھی۔ اردو مرکز کی بدولت ہندوستان و پاکستان سے ادیبوں، شاعروں کی آمدورفت جاری رہتی تھی۔ ویسے یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے لیکن بہت محدود سطح پر مشاعرے برپا ہوتے ہیں، اچھے افسانے اور کہانیاں لکھی جارہی ہیں اور شاعر بھی اپنی تخلیقی کاوشوں میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔ اب بھی لندن سے دواردو روزنامے اور پورے برطانیہ سے 25 سے زائد ہفت روزہ رسالے اور جریدے نکلتے ہیں۔ برطانیہ میں اردو کی شمع پہلی بار دراصل 1887ء میں روشن ہوئی جب آگرہ کے ایک 24 سالہ نوجوان عبدالکریم ملکہ وکٹوریہ کی گولڈن جوبلی کی تقریبات کے دوران ان کی خدمت کے لیے لندن آئے تھے۔ ملکہ وکٹوریہ ان کی ذہانت اور کارکردگی سے اس قدر متاثر ہوئیں کہ انہیں اپنا منشی مقرر کر لیا اور بڑی تیزی سے ترقی دے کر انہیں اپنے ہندوستان امور کے سیکریٹری کے عہدے پر فائز کر دیا۔ منشی عبدالکریم کی بدولت ملکہ وکٹوریہ کو اردو سے اتنی دلچسپی پیدا ہو گئی کہ انہوں نے منشی صاحب سے باقاعدہ اردو پڑھنا، لکھنا سیکھنا شروع کر دیا۔ اسی زمانے میں برطانیہ کا اردو کا پہلا اخبار منظرعام پر آیا۔ نام اس کا تھا ’’آئینہ انگریزی سودا گری‘‘۔ یہ اخبار بہت عرصہ تک شائع ہوتا رہا اور اس کے ایڈیٹر کے انتقال کے بعد یہ بند ہو گیا۔ پھر اٹھارہ برس کے بعد دوسری عالمگیر جنگ کے دوران برطانیہ میں اردو کا دوسرا اخبار منظر عام پر آیا، جو برطانوی حکومت کی جنگی کاوشوں کی تشہیر کے لیے نکالا گیا تھا۔ یہ اخبار بھی جنگ کے خاتمے پر بند ہو گیا ۔ پھر جب سن 1950ء کے اوائل میں برصغیر سے تارکین وطن کا ریلا روزگار کی تلاش میں برطانیہ پہنچا تو پاکستان اور ہندوستان کی خبروں کی تشنگی کے پیش نظر 1961ء میں اردو ہفت روزہ ’’مشرق‘‘ جاری کیا گیا اور پھر دس برس کے بعد روزنامہ ’’جنگ‘‘ لندن منظر عام پرآیا۔
 
برطانیہ میں اردو کی روایت کی اتنی پرانی تاریخ کے باوجود وہ کیا وجوہ ہیں کہ اردو پولش زبان سے پیچھے رہ گئی؟ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ تارکین وطن کی پہلی نسل نے یہاں پیدا ہونے والے اپنے بچوں کی اردو کی تعلیم کی طرف توجہ نہیں دی۔ انہیں یہ خوف تھا کہ اگر بچوں پر دوزبانوں کا بوجھ لادا گیا تو یہ ان کے ساتھ زیادتی ہو گی۔ نہ جانے اس نسل نے یہ بات کیوں نظرانداز کردی کہ چھ، سات سال کی عمر تک بچے میں اتنی صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ ایک سے زیادہ زبانیں سیکھ سکتا ہے۔ پھر پہلی نسل اتنی دبو نکلی کہ اس نے مقامی اسکولوں میں اردو کی تعلیم کے انتظام کا مطالبہ بھی نہیں کیا، جب کہ یہ کام مقامی کو نسلوں کا ہے کہ وہ محلے کے لوگوں کی درخواست پر اسکولوں میں ان کی مرضی کی زبان کی تعلیم کا انتظام کریں۔ آخر کار جب پاکستانیوں کو اس سہولت کے بارے میں آگہی دی گئی تو اسکولوں میں اواے لیول کی اردو کلاسوں کا اہتمام کیا گیا۔ لیکن اب بھی اس سہولت سے فیض اٹھانے والوں کی تعداد بہت کم ہے اور اس کی وجہ اردو کی تعلیم کا دوسرے موضوعات کی طرح منفعت بخش نہ ہونا اور پوسٹ گریجویٹ سطح پر اردو کی تعلیم کی سہولت بہت کم ہونا ہے۔ پرانی نسل میں تو اب بھی ادب، شاعری اور مشاعرے کی زبردست مقبولیت ہے لیکن نئی نسل میں اردو محض فلم اور گانوں تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ یہ نسل گھروں میں تو ٹوٹی پھوٹی اردو بول لیتی ہے لیکن اردو پڑھنے سے یکسر محروم ہے۔ نتیجہ یہ کہ اردو کے اخبارات، کتابوں اور رسائل کا مستقبل تاریک نظر آتا ہے۔ البتہ اس کا امکان ہے کہ ٹی وی چینلز کی بدولت اردو برطانیہ میں زندہ رہے، لیکن خطرہ یہ ہے کہ اردو یہاں صرف بولی جانے والی زبان کے طور پر ہی زندہ رہ سکے گی۔
 
++++++++++++++++++++++
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 740