donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Lamhaye Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Azam Shahab
Title :
   60 Sala Boodhe Apahij Shakhs Se Telangana Hukumat Ko Khatra

۶۰سالہ بوڑھے اور اپاہج شخص سے تلنگانہ حکومت کو خطرہ؟


۲۶برسوںسے قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرنے والے

سابق کانسٹبل عبدالقدیر کی رہائی سے متعلق ہماری بے حسی


اعظم شہاب


دہشت گردی کے الزامات میں بے قصور مسلم نوجوانوں کی گرفتاری اور برسہابرس تک انہیںمحروس رکھے جانے کے واقعات کے درمیان حیدرآباد کے چیرلاپلی سینٹرل جیل سے آنے والی ایک نحیف ولاغر آواز بھی ہماری توجہ اپنی جانب مبذول کراتی ہے جو واضح طور پر قوم وملت کی ہمدردی کا دم بھرنے والوں اورریاستی حکومت کی بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی آئینہ دار ہے۔یہ آواز ہے ۶۰سالہ سابق کانسٹبل عبدالقدیرکی جو ایک ویڈیو کی شکل میں سوشل نیٹ ورکنگ سائیٹ پر گشت کررہی ہے۔ اس ویڈیو میں عبدالقدیر کے مختصر تعارف کے علاوہ قوم وملت کی بے حسی کا مرثیہ بھی ہے جس کی بناء پر آج یہ بوڑھا شخص عدالت سے اپنی مقررکردہ سزا مکمل کرنے کے باوجود جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزشتہ ۲۶سالوں سے بے یار ومددگاراپنی بوڑھی آنکھوں سے رہائی کی راہ تک رہا ہے۔عبدالقدیر ایک ایسے متعصب پولیس آفیسر کو قتل کرنے کے مجرم ہیں جو ۱۹۹۰ کے حیدرآباد فسادات کے دوران بے قصوروں پر فائرنگ کرنے کا حکم دے رہا تھا۔

عبدالقدیر صاحب حیدرآباد اولڈ سٹی کے شاہ علی بندہ ،شکرگنج علاقے کے رہنے والے ہیں، جہاں آج بھی ان کے اہلیہ صابرہ بیگم اپنے بیٹوں محمدعبدالوقارمحمود ، محمد عبدالقادرنیز ایک بیٹی کے ساتھ رہتی ہیں۔ ان کی دو بیٹیاں ہیں جس میں سے ایک کی شادی ۲۰۱۲میں ہوچکی ہے ۔عبدالقدیر صاحب کے تعلق سے مذکورہ ویڈیو میں موصوف کو ۱۵؍برسوں سے جیل میں رہنے کا تذکرہ ہے ، مگر جب میں نے ان کے صاحبزادے محمدعبدالوقار محمودسے رابطہ قائم کیا تو معلوم ہوا کہ موصوف ۱۵؍برسوں سے نہیں بلکہ ۲۶برسوں سے جیل کی سلاخوںکے پیچھے ہیں۔محمد وقار کے مطابق جس وقت والد صاحب گرفتار ہوئے اس وقت میں محض ۴۰ دن کا تھااور آج میں ۲۶ سال کا ہوچکا ہوں۔محمد وقار نے اپنے والد کی قیدوبندکی صعوبتوں کے ساتھ قوم وملت کی بہی خواہی کا بھی تذکرہ کیا، مگر ان کی آواز میں محرومی اور مایوسی کی جھلک صاف طور سے محسوس ہورہی تھی۔

 محمد وقار اپنے والد صاحب کی گرفتاری کے وقت گوکہ محض ۴۰ کے دن تھے، مگر ان کو پورا واقعہ ازبر ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ دسمبر ۱۹۹۰ میں حیدرآباد فساد کے دوران شاہ علی بندہ علاقے کا اے سی پی جس کا نام ستیّاتھا ،وہ فساد متاثرین کا کسی طور مدد کا روادار نہیں تھا۔ وہ حد درجہ متعصب پولیس آفیسر تھا۔میرے والد صاحب کی ڈیوٹی اسی کے ساتھ تھی۔ اے سی پی ستیّا پولیس والوں کو مسلمانوں پر فائرنگ کرنے کا حکم دے رہا تھا کہ اسی گاڑی میں سوار میرے والد صاحب نے اسے گولی ماردی تھی۔ ستیّا جائے وقوع پر ہی ہلاک ہوگیا ، اور میرے والدکو گرفتار کرلیا گیا۔ انہیں مشیرآباد جیل میں رکھا گیاجہاں وہ دسمبر ۱۹۹۰ سے جنوری ۱۹۹۳ یعنیسزا سنائے جانے تک رہے۔انہیں عمر قید کی سزا دی گئی ۔ اس کے بعد انہیں چنچل گوڑہ جیل میں منتقل کردیا گیا، جہاں وہ ۱۹۹۷ تک رہے۔ اس کے بعد انہیں راج منڈیری سینٹرل جیل منتقل کردیا گیا۔اس دوران اہلِ خانہ سیشن عدالت کے فیصلے کو ہائی کورٹ میں چیلنج بھی کیا ، مگر ہائی کورٹ نے عمرقید کی سزا کی توثیق کردی۔ مالی مشکلات کی بناء پر یہ معاملہ سپریم کورٹ تک نہیں پہونچ سکا۔

راج منڈیری جیل میں ان کے ساتھ انسانیت سوز تشدد کیا گیا،جس کے ان کے پیرزخمی ہوگئے تھے ،جسے بعد شوگر کے مرض کی وجہ سے کاٹ دیا گیا۔ بعد میں روزنامہ سیاست کے ایڈیٹر جناب زاہدعلی خان کی کوششوں سے ایک فلاحی تنظیم نے ان کے کٹے ہوئے پیر کی جگہ ایک مصنوعی پیرلگادیا ہے ، جس سے عبدالقدیر صاحب والکر کے سہارے تھوڑا بہت چل پھر لیتے ہیں۔ لیکن جیل میں تشدد اور شوگر کی مرض کے باعث وہ اپنے ایک پیر سے محروم ہوچکے ہیں ۔ اس کے علاوہ انہیں دل کا عارضہ بھی لاحق ہے ۔ ان سب کے باوجود حکومت کی نگاہ میں وہ ایک خطرناک مجرم ہیں ، ایک ایسے مجرم جن سے سماج کے امن وامان کو خطرہ ہے ۔

یہاں ایک عام سا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بھلا ایک ایسے شخص سے جس کاایک پیر کا ٹا جاچکا ہو، جسے دل کا مرض لاحق ہو، جس کی پیرول پر رہائی جیل میں اس کے نظم وضبط کی پابندی کی دلیل ہو، اس سے بھلا کس قسم کا خطرہ پیدا ہوسکتا ہے۔ہر سال یومِ آزادی کے موقع پر عمر قید کی سزا پانے والے قیدیوں کی رہائی کے لئے حکومت کی جانب سے جی اوز نکلتے ہیں ، مگر ان جی اوز کے فائدے سے بھی عبدالقدیر محروم ہیں۔ حیدرآباد کے معروف ایڈووکیٹ خالد سیف اللہ اس بارے میں بتاتے ہیں کہ ان جی اوز میں اس طرح کی شقیں شامل ہوتی ہیں جس کی رو سے عبدالقدیر صاحب کی رہائی نہیں ہوپاتی۔جبکہ اگر انصاف کے تقاضے کے تحت دیکھا جائے تو عبدالقدیر صاحب کو ان حکومتی جی اوز کے تحت رہا کیا جاسکتا ہے ، جس کی روایت پورے ہندوستان میں موجود ہے۔یوں بھی عمر قید کی سزا کا مطلب تمام عمرکی قید ہی ہوتی ہے، مگر حکومتوں کو یہ اختیار حاصل ہوتا ہے کہ وہ ایک خاص مدت کی قید کے بعد جسے چاہیں رہا کردیں۔
وہیں ممبئی کے ایک معروف وکیل ایڈووکیٹ محمد صغیر خان کے مطابق عمرقید گوکہ تمام عمر قید کئے جانے کی سزا ہوتی ہے ، مگر سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق ریاستوں کو اس بات کا اختیار حاصل ہے کہ وہ کچھ شرائط کے ساتھ کسی قیدی کو رہا کردیں۔ ان شرائط میں سے ایک شرط یہ بھی ہوتا ہے کہ قیدی کے ذریعے دوبارہ اس جرم کے کئے جانے کا امکان نہ ہو جس کی پاداش میں اسے سزا ملی ہے۔ اس کے علاوہ ایک شرط عمر کی بھی ہوتی ہے۔ اگر عمر قید کی سزا پانے والے کی طبعی عمر اتنی ہوچکی ہو کہ وہ سماج کے لئے کسی قسم کا خطرہ نہ ہو تو اسے بھی ریاستیں اپنے خصوصی اختیار کا استعمال کرتے ہوئے رہا کرسکتی ہیں۔ عبدالقدیر صاحب ان دونوں شرائط پر پورا اترتے ہیں ، لیکن رہائی کی جی اوز میں ایک خاص شق شامل کرکے عبدالقدیر کی رہائی روک دی جاتی ہے اور وہ شق یہ ہوتی ہے کہ’ مجرم کسی آن ڈیوٹی سرکاری اہلکار کو قتل نہ کیا ہو‘ ۔ بس اسی نکتے کی وجہ سے عبدالقدیر صاحب کی رہائی رک جاتی ہے ۔

مذکورہ بالا نکات سے کچھ سوالات پیداہوتے ہیں۔ یہ سوالات حکومتوںسے بھی ہیں، ہمدردانِ قوم وملت سے بھی اورہم جیسے عام لوگوں سے بھی جن کی پوری تگ ودو اپنے چراغوں کی حفاظت ہوتی ہے ۔تلنگانہ کی شناخت ایک سیکولر اسٹیٹ کے طور پر ہے۔ایک ایسا سیکولر اسٹیٹ جہاں اقتدار میں مجلس اتحادالمسلمین کے ۷؍ایم ایل اے صاحبان سمیت کل ۱۲؍مسلمان ایم ایل اے شامل ہیں۔ جہاں مسلمانوں کے حقوق کے ساتھ کسی قسم کے سمجھوتے کی بات خارج ازامکان تصور کی جاتی ہے ۔جہاں مسلمانوں کو سب سے پہلے ریزرویشن دینے کی پہل کی گئی اور جہاں دہشت گردی کے الزام میں گرفتار بے قصور مسلم نوجوانوں کو معاوضہ دینے کی پہل کی گئی ہے ۔ وہاں اگر تمام مسلم ایم ایل اے حضرات نہ سہی صرف اویسی برادران ہی حکومت کو عبدالقدیر کی رہائی کے لئے کہہ دیں تویہ غریب کب کا رہا ہوجائے ، کیونکہ اس کی رہائی کا پورا اختیار ریاستی حکومت کو حاصل ہے ۔اس کے علاوہ ریاستی گورنر کو بھی اس بدنصیب کی سزا معاف کرنے کا پورا اختیار ہے اور وہ دستور کی دفعہ ۱۶۱؍ کے تحت سزا معاف کرسکتے ہیں اور جس کے لئے جسٹس کاٹجو نے ریاستی گورنر ای ایس ایل نرسمہن کوخط لکھ کر گزارش بھی ہے، مگر عبدالقدیر صاحب ابھی تک جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔

حکومت عبدالقدیر کی رہائی کو امن وامان کے لئے خطرہ قرار دیتی ہے ، لیکن اسی حکومت سے یہ سوال پوچھا جانا چاہئے کہ گجرات فسادات کے علانیہ اور اعترافی مجرمین بابو بجرنگی، مایاکوڈنانی، شریش رچرڈ و وغیرہ کی عمر قید اور پھانسی کی سزا پانے کے باوجود ضمانت پر رہائی کیا سماج کے لئے خطرہ نہیں ہے جو ایک نہیں دو نہیں بلکہ سکڑوں لوگوں کے قتل، عصمت دری اور زندہ جلانے کے مجرم ہیں؟کیا فرضی مڈبھیڑوں کے مجرمین جو آج نہ صرف رہا ہوچکے ہیں بلکہ اپنی ملازمت پر دوبارہ بحال ہوچکے ہیں، کیا ان کی رہائی سماج کے لئے خطرہ نہیں ہے ؟ یہاں یہ کہا جاسکتا ہے کہ مذکورہ بالا معاملات گجرات سے تعلق رکھتے ہیں اس لئے ہم اس پر غور کرنے کے مکلف نہیں ہیں، تو سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ جب دیگر ریاستوں میں اغوائ، قتل، عصمت دری کے مجرمین کی رہائی سے وہاں کے امن وامان کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے تو آپ کی حکومت کی جانب سے ایک اپاہج اور بوڑھے شخص کی رہائی سے کون سا خطرہ پیدا ہوسکتا ہے؟

سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر عبدالقدیر کی جگہ پر کوئی غیر مسلم نام کا قیدی ہوتا تو، کوئی ریڈی،راؤ یا نائیڈو ہوتا تو کیا اس کے ساتھ بھی تلنگانہ حکومت کا یہی رویہ ہوتا؟ کیا اس وقت بھی وہ سماج کے لئے خطرہ ہوتا ؟ کیا عبدلقدیر سے زیادہ سنگین جرائم کے مرتکبین کی عمرقید کی سزا کی تکمیل سے قبل رہائی نہیں ہوئی ہے؟ کیا وہ سماج کے لئے خطرہ نہیں تھے؟ اگر وہ سماج کے لئے خطرہ نہیں تھے اور ان کی رہائی ہوچکی ہے تو اسی طرح عبدالقدیر بھی سماج کے لئے خطرہ نہیں ہونگے اور ان کی بھی رہائی ہونی چاہئے۔لیکن مشاہدے میں یہ آرہا ہے کہ یہاں جانبداری برتی جارہی ہے ۔ ایک سیکولر حکومت میں اس طرح جانبداری نہ صرف حکومت کو کمزور کردے گی بلکہ اس سماج میں بھی انارکی پیدا کردے گی جس کے امن وامان کے لئے عبدالقدیر جیسے اپاہج اوربوڑھے خطرہ ہیں۔

یہاں جس طرح تلنگانہ حکومت، حکومت میں شامل مسلم ایم ایل اے حضرات کی مجرمانہ خاموشی ظاہر ہوتی ہے ، وہیں ہمارا بھی جرم کچھ کم نہیں ہے۔ ہم نے اس پورے معاملے کو یکسر فراموش کردیا۔ حکومت کسی بھی پارٹی کی ہو اصل طاقت ہم عوام کی ہوتی ہے۔ عبدالقدیر نے ۱۹۹۰ میں جو جرم کیا تھا وہ کوئی جرم نہیں تھا بلکہ ایک فرضِ کفایہ تھا جو انہوں نے اداکیا تھا۔ اگر وہ’ جرم‘ عبدالقدیر نہ کرتے تو آج نہ جانے کتنے گھروں میں شہدائے فسادات کا اضافہ ہوچکا ہوتا۔ ہمیں عبدالقدیر کا احسان مند ہونا چاہئے کہ انہوں نے ایک متعصب پولیس افسر کو جہنم رسید کرکے کئی بے قصوروں کو قتل ہونے سے بچا لیا۔ یقینا آج ان میں سے بہت سے لوگ زندہ ہونگے جو اے سی پی ستیّہ کے تعصب کو قریب سے دیکھا ہوگا۔ ان میں سے کچھ مسلمان پولس اہلکار بھی ہونگے اور کچھ ایسے بھی ہونگے جو عبدالقدیر سے زیادہ مذہبی بھی رہے ہونگے۔ لیکن ایک موذی کو ختم کرنے کا کام اللہ نے عبدالقدیر سے لیا۔ ایسے میں ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ اس فرضِ کفایہ اداکرنے والے مجاہد کے تئیں ہم احسان مندی کا رویہ اپنائیں۔ یقینا بہت سے لوگوں نے عبدالقدیر کے اہلِ خانہ کی دامے ،درمے ، قدمے سخنے مدد کئے ہونگے ،جس کا اعتراف ان کے صاحبزادے محمد وقار نے بھی کیا ہے، لیکن آج چیرلاپلی جیل کی سلاخوں کے پیچھے اپنی رہائی کا دن گننے والا بوڑھا شخص آپ کی ایک اور مدد کا منتظر ہے اور وہ مدد ہے ایک عوامی تحریک کی ، ایک ایسی تحریک جو عبدالقدیر کورہا کرادے۔عبدالقدیر کے اہلِ خانہ کے لئے ہم سب کی جانب سے یہ ایک بہترین عیدی بھی ہوسکتی ہے۔ تو پھر دیر کس بات کی ؟؟؟

(یو این این)


aazam.shahaab@gmail.com

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 457