donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Lamhaye Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Aslam Jawed
Title :
   Zakhm Aaj Bhi Bhare Nahi

بابری مسجد شہادت کی 23ویں برسی


زخم آج بھی بھرے نہیں ہیں


ڈاکٹراسلم جاوید


آج 6دسمبر ہے ،یعنی بادشاہ بابر کے ہاتھوں تعمیر کردہ تقریباًساڑھے پانچ سو سالہ قدیم بابری مسجد کی شہادت کی  23ویں برسی ۔آج ہمیں 2010میں بابری مسجد پر دئے گئے الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کی شدت سے یاد آ رہی ہے جس نے عدالتی نظام پرسوالیہ نشان لگا دیاہے ۔اسی دن شمالی ہند کے شہر اجودھیا میں شہید بابری مسجد اور اس کے آس پاس واقع جگہ کی ملکیت کے بارے میں چھ عشرے پرانے تاریخی مقدمے کا فیصلہ سنایا گیا  ۔مگرعدالت نے اس قضیہ میں جو فیصلہ سنایاوہ شاید ملک کی جمہوری تاریخ کے عدالتی نظام کا سب سے شرمناک فیصلہ تھا۔اس لئے کہ وہ فیصلہ اصولی جرح وتعدیل یا سماعت کی روشنی میں نہیں بلکہ عقیدت کی بنیاد پر دیاگیاتھا۔

 الٰہ آباد ہائی کورٹ کے تین رکنی لکھنؤ بنچ نے بابری مسجد کی ملکیت کے مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے سنی وقف بورڈ کی حق ملکیت کی اپیل دو ایک سے مسترد کر دی تھی ۔ بنچ  جسٹس ڈی ای شرما، جسٹس سدھیر اگروال اور جسٹس ایس یو خان پر مشتمل تھی۔مزے کی بات یہ ہے کہ کلیدی جج جسٹس ڈی وی شرما فیصلہ کے بعداسی دن ریٹائر ہو گئے تھے۔اب اس پر کچھ بھی کہنامشکل ہے کہ مذکورہ فیصلہ عدالتی اصولوں کے خلاف کیوں سنا یاگیا،البتہ بعض مبصرین نے فیصلہ پرتنقید کرتے ہوئے اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ بہر حال عدالت کے فیصلہ کے تحت بابری مسجد اور اس کے آس پاس کی اراضی کو تین حصوں میں تقسیم کر دیا جانا تھا۔ ان میں سے ایک حصہ ہندؤوں کو دیے جانے کی ہدایت دی گئی تھی۔ا یک حصہ مسلمانوں کوبھی اپنے مذہب کے کفن کے طور پر دیکر ایک حصہ کسی اندیکھے فریق کیلئے چھوڑ دینے کا حکم دیاگیاتھا ۔یہ تیسرافریق کون ہوگا مجبور وبے بس عدالت نے اس کی کوئی وضاحت نہیں کی تھی،یہ ساری بات اس جانب اشارہ کررہی ہیں کہ تیسرا فریق وہ بھی ہوسکتا ہے جو گزشتہ7دہائی سے مسجد مندر کی سیاست کے ذریعہ اپنی دکانیں چلارہا ہے اوروہی طبقہ اس طویل مدت میںدھرم کے نام پرایک کثیر مذہبی اکائی کو کئی سیکڑا اور دہائی میں تقسیم کر چکاہے۔اس مسجد کی وجہ سے نہ جانے کتنے بے گناہوں کو اپنی زندگی موت کے بے رحم ہاتھوں کے سپرد کرنی پڑی تھی،جس کا سلسلہ ہنوز جاری ہے ۔نہ جانے کئی ہزارمائیں اپنے لخت جگر اورزیست کی آخری ڈگر پر پہنچ چکے بزرگوںکو اپنے بڑھاپے کے سہارے سے محروم ہونا پڑاہے۔ہزاروں بہنوں کے سہاگ اجڑ گئے اور بیوگی کا زخم لئے آ ج بھی و ہ ہر چھ دسمبر کو اپنے زخم کی ٹیسوں سے بلبلا اٹھتی ہیں،مگراپنے اردگرد کسی اشک پوچھنے والے کونہ دیکھ کر ان کے زخمی دلوں پر کیا گزرتی ہوگی اس کا پتہ مندر مسجد کی سیاست کرنے والے دکانداروں سے پوچھئے۔

بابری مسجد کی سیاست میں اپنی دنیا آباد کرنے والے کتنا آگے بڑھ گئے ،ان کی زندگی کس قدر قابل رشک بن گئی اس کا اندازہ دکانداروں کی شاہانہ ٹھاٹ سے بآسانی لگا یا جا سکتا ہے۔

دوبرس قبل اسی مفاد پرستی سے بیتا ب قضیہ بابری مسجد کے اصل اور کلیدی فریق محمد ہاشم انصاری نے مقدمہ سے خود کو الگ کرنے کا اعلان کیاتھا۔ اس خبر نے ایک بار پھر بابری مسجد شہادت کی یاد تازہ کردی ۔ایک سال قبل پورے ملک میں بیان بازیوں کا دور چل پڑا، تاہم مسلم پرسنل لا بورڈکے اسسٹنٹ جنرل سکریٹری عبدالرحیم قریشی، ایڈوکیٹ ظفر یاب جیلانی اور مولانا خالد رشید فرنگی محل نے الگ الگ بیانات میں کہا کہ محمد ہاشم انصاری کے ذریعہ مقدمہ کی پیروی سے علاحدہ ہونے کے فیصلے سے مقدمے پر کوئی اثر نہیں پڑے گا کیونکہ اس مقدمہ میں کئی اور فریق بھی ہیں۔قابل ذکر ہے کہ محمد ہاشم انصاری مقدمے کے اصل مدعی ہیں اور 1959 سے ملکیت کا مقدمہ لڑ رہے ہیں۔ انہوں نے نہ صرف مقدمہ سے الگ ہونے کا اعلان کیا بلکہ رام للا کی وکالت کرتے ہوئے رامندر تعمیر کی وکالت بھی کی۔ انہوں نے لگے ہاتھوں سماجوادی پارٹی کے سینئر لیڈر محمد اعظم خان پر جم کر تنقید بھی کرڈالی۔ ہاشم انصاری نے کہا کہ اعظم خان اور دیگر سیاسی جماعتوں نے بابری مسجد ایشو سے محض سیاسی فائدہ اٹھایا ۔ لوگ بنگلوں میں رہ رہے ہیں لیکن بابری مسجد اور رام مندر ایشو آج بھی تازہ کیا ہوا ہے۔

دریں اثناء عدالت نے اس فیصلہ پر عمل درآمد کے لیے ہندوستان کی وفاقی حکومت کو تین ماہ کا وقت دیا ہے اور تب تک’’جوں کی توں‘‘ صورت حال برقرار رہے گی جبکہ سنی وقف بورڈ نے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرنے کا اعلان کردیا۔

6/ دسمبر 1992 کو آزاد ہندوستان کی تاریخ میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس نے بالخصوص ہندوستانی مسلمانوں کی روحوں تک کو لرزادیا۔اس کے ساتھ ساتھ اتنے گہرے زخم دے دیے جن کا آج تک مداوا نہیں ہوسکا ہے۔ کڑی پابندی کے حصار میں 500سالہ قدیم اور آباد مسجد ایک سازش کے تحت دیکھتے ہی دیکھتے شہید کردی گئی اور یہ کارنامہ ایک ایسی حکومت کے زیرسایہ رونما ہوا جو خود کو سیکولر کہتے نہیں تھکتی۔ جو خو د کو مسلمانوں کا سب سے بڑا ہمدرد اور دوست کہتی ہے اور انھیں اپنا حلیف مانتی ہے۔ وہ اگر چاہتی تو ہندوستان کی دامن پر یہ بدنما داغ کسی صورت نہیں لگتا۔گزشتہ روز اس موضوع پر جنوبی ہند کے معروف صحافی محتر م رشید انصاری نے بجا لکھاہے۔

’’بابری مسجد پر ناجائز قبضے کو 66 برس اور شہادت کو 23 سال کی طویل مدت گذر جانے کے باوجود آج تک کوئی ایسی بات نہیں ہوئی یا ایسا کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا جس سے مسلمانوں کو کچھ راحت ملتی! حد تو یہ ہے کہ بابری مسجد کے سلسلے میں مسلمانوں کو عدالتوں سے بھی انصا ف نہیں ملا۔ شروع ہی میں انتظامیہ اور عدلیہ اگر تعصب سے کام نہ لیتے تو سارا تنازعہ فوراً ختم ہوسکتا تھا۔ سردار پٹیل اور اْس وقت کے یوپی کے وزیراعلیٰ پنڈت گووند ولبھ پنت کی سرپرستی نہ صرف شرپسندوں بلکہ انتظامیہ اور عدلیہ کو قانون کی دھجیاں اڑاکر من مانی کرنے کی اجازت تھی۔ مسجد کا تالاکھول کر وہاں پوجا پاٹ کی عام اجازت دینے اور مسجد کو عملاً مندر بنانے کے لئے راجیو گاندھی نے عدالتی فیصلہ حاصل کرنے کیلئے عدل و انصاف کے تقاضوں کا خون کیا۔ اس فیصلے کے خلاف عدالت عالیہ سے بھی مسلمانوں کو انصاف نہیں ملا تھا۔ مسجد کی شہادت کے بعد ’’جوں کی توں حالت‘‘ برقرار رکھنے کے فیصلے میں بابری مسجد کی زمین پر بنائے گئے عارضی مندر کو برقرار رکھنے کا فیصلہ بھی ناقابل فہم ہے۔ملکیت کے مقدمہ میں الٰہ آباد کی عدالت عالیہ کے فیصلہ میں تو قانون کو مذاق ہی نہیں بنایا گیا بلکہ قانون کا قتل کیا گیا۔ عقیدہ کی بنیاد پر فیصلہ تو عدلیہ کی تاریخ کا سیاہ باب ہے۔

یہ سارے درد6دسمبر بابری مسجدکی شہادت کی 23ویں برسی پر ایک بار پھر تازہ ہوگئے ہیں۔اگرچہ دکانداروں نے ملک کے مسلمانوں کو ورغلانے کی کوئی کمی نہیں چھوڑی ہے ۔ مگر ملک کے عام مسلمان اب باشعور ہوچکے ہیں۔انہیں پتہ ہے سیاہ دن مناکر ہم اپنی بابری مسجدی کی بازیابی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں کرسکیں گے،اس کے برعکس باطل طاقتوں کو’’ سوریہ دیوس‘‘اور’’وجے دیوس منانے کا موقع ضرور دیں گے۔


(یو این این)


***************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 691