donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Lamhaye Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Mushtaq Ahmad
Title :
   Be Qasoor Muslim Naujawano Ka Qatl Kab Tak

بی قصور مسلم نوجوانوں کا قتل کب تک؟
 
(ڈاکٹر مشتاق احمد (پرنسپل ملت کالج، دربھنگہ
 
گزشتہ ایک دہائی سی ملک کی مختلف حصوں میں مسلم نوجوانوں کو مبینہ طورپر دہشت گردی کی واردات میں شامل ہونی کی نام پر مرکز کی خفیہ ایجنسی اور مختلف ریاستوں کی ریاستی پولس کی ذریعہ گرفتاری کا سلسلہ چل رہا ہی اور ادھر ایک سال سی تو اس میں مزید تیزی آگئی ہی ۔بالخصوص شمالی بہار کی پانچ چھ اضلاع کی نوجوانوں کو جس طرح گرفتار کیا جا رہا ہی اور ان پر انڈین مجاہدنی جیسی شدت پسند تنظیم کا رکن بتا کر جیلومیں بند کیا جا رہا اس سی تو ایسا لگتا ہی کہ اب اس علاقی کی مسلمان اپنی نونہالوں کو اعلیٰ تعلیم سی لیس کرنی کی لئی باہرنہیں بھیج سکتی۔ کیو کہ اب تک جتنی بھی نوجوانوں کی گرفتاری ہوئی ہی وہ سب کی سب کہیں نہ کہیں زیر تعلیم رہی ہیں پھر روزگار حاصل کرنی کی دور ہی ہیں۔ واضح ہو کہ ہندستان کی مختلف جیلوںمیں مسلم نوجوان ان دنوں بند ہیں اور ان کی خاندان والی انصاف کی لئی دربدر بھٹک رہی ہیں۔وں تو پہلی بھی پوٹا اور مکوکا کی نام پر ہزاروں بی قصور مسلم نوجوانوں کو دہشت گرد بتا کر ہندستان کی جیلوں میں بند رکھا گیا ہی لیکن حالیہ دنوں میں جس طرح بم دھماکی یا پھر کسی دوسری دہشت گردی کی واردات میں مسلم نوجوانوں کو ملوث کیا جا رہا ہی اس سی تو ایسا لگتا ہی کہ اس جمہوری ملک میں مسلم طبقی کو حراساں وپریشاں کرنی کا سلسلہ ختم ہونی والانہیں ہی۔ بہر کیف ! جو لوگ گرفتار ہوئی ہیں وہ اپنی لڑائی لڑ رہی ہیں اور اب ان کی مقدر کا فیصلہ عدلیہ پر منحصر ہی ۔ کیو کہ حیدرآبا دکی مکہ مسجد کا معاملہ ہویا پھر مالیگاؤں میں بم دھماکی کا معاملہ ، ان دونوں معاملات میں جتنی بی قصور مسلم نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا تھا اسی عدلیہ سی ہی راحت ملی ہی اور یہ بھی ثابت ہوگیا ہی کہ کس طرح ایک منظم سازش کی تحت مسلم نوجوانوں کو دہشت گرد ثابت کرنی کی کوشش کی جاتی رہی ہی ۔اب ایک اچھی بات یہ سامنی آرہی ہی کہ ایک دوسیاسی پارٹیاں بی قصور مسلم نوجوانوں کی گرفتاری کی خلاف آواز اٹھا رہی ہیں۔ ان میں اتر پردیش کی سماجوادی پارٹی کا موقف ہمدردی پر مبنی ہی۔ واضح ہو کہ یوپی کی وزیر اعلیٰ اکھلیش یادو نی ہی اعلان کیا ہی کہ ریاست کی جیلومیں جتنی بھی مسلم نوجوان بند ہیں اور ان پر اب تک پولس کوئی جرم ثابت نہیں کر سکی ہی انہیں رہا کیاجائی گا۔ اگر چہ اکھلیش یادو کی اس بیان کو بھی سیاسی تناظر میں دیکھا جا رہا ہی کہ 2014ءمیں پارلیامنٹ کا انتخاب ہونا ہی اور سماجوادی سپریمو ملائم سنگھ یادو کا جو سپنا ہی کہ وہ وزیر اعظم کی کرسی تک پہنچ سکیں تو وہ اسی وقت ممکن ہوگا کہ جب مسلمانوں کا متحد ووٹ انہیں مل پائی گا۔ کیو کہ حالیہ اسمبلی انتخاب کی نتائج سی ہی راز کھل گیا ہی کہ ریاست میں اگر سماجوادی پارٹی کی حکومت قائم ہوئی ہی تو اس میں مسلمانوں کا کلیدی کردار رہا ہی۔ دوسری طرف کانگریس کی ایک مرکزی وزیر ہریش راوت نی بھی ہی بیان دیا ہی کہ گرفتار مسلم نوجوانوں کی لئی ایک خصوصی ٹریبونل کورٹ قائم کیاجائی اور اس فاسٹ ٹریک سماعت کی ذریعہ گرفتار بی قصور مسلم نوجوانوں کو راحت دی جائی۔ ممکن ہی کہ اب دوسری سیاسی پارٹیاں بھی اس موقف کو اختیار کریں لیکن اس طرح کی بیان پر آر ایس ایس کی سیاسی پارٹی بھاجپا کا چراغ پا ہونا بھی لازمی ہی اس لئی ممکن ہی کہ کچھ ایسی پارٹیاں جو ہندوتو ووٹ کی خواہش مند رہتی ہیں وہ اس طرح کا بیان نہ دیں لیکن سکولرزم کا دعویٰ کرنی والی بائیں محاذ کی پارٹیاں کو تو سماجوادی پارٹی اور کانگریس کی اس موقف کا ساتھ دینا ہی چاہئی تاکہ ملک میںایک ایسی سیاسی فضا بن سکی کہ بی قصور مسلم نوجوانوں کی دہشت گرد کی نام پر گرفتاری بند ہو سکی اور جو بی قصور جیلوں میں بند ہیں انہیں یہ حوصلہ ملی کہ اس جمہوری ملک میں ناانصافیوں کی خلاف آواز اٹھانی والی لوگ ابھی موجود ہیں۔ واضح ہو کہ اب تک صرف مسلم تنظموں کی جانب سی ہی ان بی قصوروں کی حمایت میں آواز اٹھتی رہی ہی لیکن وہ آواز صدا بہ صحرا ہی ثابت ہوئی ہی۔ اب جب کہ ایک دوسیاسی پارٹی کی لیڈران نی کھل کر یہ بیان دیاہی تو امید بندھی ہی کہ شاید ان بی قصوروں کو انصاف ملنی کا راستہ ہموار ہوگا ۔
 
لیکن دوسری طرف عدلیہ سی گرفتار بی قصور مسلم نوجوانوں کو دیر سویر رہائی مل رہی ہی اور پولس انتظامیہ بالخصوص ایٹی ایس اور آئی این ای عملی کی ساکھ مسخ ہو رہی ہی کہ بی قصور مسلم نوجوانوں کو مبینہ طورپر دہشت گرد بتا کر گرفتار کیا جا رہا ہی۔ اس لئی اب جیلوں میں بند بی قصور مسلم نوجوانوں کی قتل کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا ہی۔ گزشتہ سال مہاراشٹر کی یروداجیل میںبند بہار کی دربھنگہ ضلع کی رہنی والی قتیل صدیقی کی موت واقع ہوئی تھی اور لاش کو دیکھنی سی ہی پتہ چلتا تھا کہ کس طرح اسی زدوکوب کیا گیا اور اس کو موت کی گھاٹ اتارا گیا ہی۔ اسی طرح لکھنوجیل میں بند خالد مجاہد کی فیض آباد کورٹ میں حاضری کی بعد راستی میں ہی اس کی موت بھی بہت ساری سوالات کھڑی کرتی ہی۔ بلکہ سچائی تو یہ ہی کہ خالد مجاہدکوبھی جان بوجھ کر مارا گیا ہی کیو کہ ریاستی حکومت کی پہل پر اس کی رہائی کا راستہ ہموار ہو رہا تھا۔ غرض کہ اب مسلم نوجوان جیلوں کی اندر بھی محفوظ نہیں ہیںاور انہیں طرح طرح کی اذیت دی کر موت کی گھاٹ اتارا جا رہا ہی۔ ایسی وقت میں وہ لوگ کہاں ہیں جو حقوق انسانی کی تحفظ کی بات کرتی ہیں انہیں آگی آنا چاہئی۔ ظاہرہی جب تک عدلیہ ان گرفتار نوجوانوں پر کسی طرح کا جرم ثابت نہیں کرتی اس وقت تک ملزم ہیں مجرم نہیں۔ اس لئی ملزم کی موت ہماری ملک کی آئینی تقاضی کی منافی ہی۔ اس پر ریاستی حکومت ہو کہ مرکزی اسی سخت اقدام اٹھانا چاہئی اور بی قصور مسلم نوجوان یکی بعد دیگری موت کی گھاٹ اتاری جاتی رہیں گی جو ملک کی سالمیت کی لئی خطرناک ہو سکتا ہی۔ ا س لئی وقت رہتی ہوئی اس پر سنجیدگی سی غور کرنی اور ٹھوس پہل کرنی کی ضرورت ہی۔ میںبس اتنا ہی کہہ سکتا ہوں کہ:
 
ہر چارہ گر کو چارہ گری سی گریز تھا
ورنہ ہمیں جو دکھ تھی ، بہت لا دوا نہ تھی
 
*****************
Comments


Login

You are Visitor Number : 794