donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Lamhaye Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Mushtaq Ahmad
Title :
   Champaran Satyagrah Ka Aik Hero Peer Monis Faramosh


چمپارن ستیہ گرہ کا ایک ہیرو پیر مونس فراموش؟ 


ڈاکٹر مشتاق احمد 

09431414586


بہار میں ان دنوں چاروں طرف چمپارن ستیاگرہ صدی کے جشن کی دھوم ہے – ایک طرف حکومت بہار  سرکاری سطح پر ریاست کی تمام اضلاع میں مختلف طرح کے تعلیمی اور کلچرل پروگرام منعقد ہو رہے ہے تو دوسری طرف رضاکار تنظیموں کی جانب سے بھی مہاتما گاندھی کی زندگی اور کارناموں پر مزاکرے ہو رہے ہے-ان سب کا واحد مقصد ہے کہ نیی نسل کو گاندھی جی کے اصولوں اور پیغام سے واقف کرایا  جاے - بیشک آج کے حالات میں گاندھی جی کے نظریے اور پیغام کو عام کرنے کی ضرورت ہے کیوں کہ ملک میں جس طرح کا فرقہ وارانہ ماحول بنا نے کی کوشش کی جا رہی ہے اور ایک خاص طبقے کو نشانہ بنایا جا رہا ہے – ایسے شدّت پسندی کے دور میں گاندھی کی یادوں کے سہارے ملک میں قومی اتحاد کا ماحول سازگار کیا جا سکتا ہے- چمپارن ستیاگرہ ہندوستان کے آزادی کی تاریخ کا ایک اہم اور روشن باب ہے کہ اسی تحریک کے ذریے گاندھی جی نے قومی سطح پر کسانوں کے مسائل کو اجاگر کیا تھا اور چمپارن میں نیل کی کھیتی کے ذریے انگریز حکومت کس طرح یہان کے کسانوں پر ظلم ڈھایا جا رہا تھا اس کی مخالفت شروع ہوئی تھی – اس میں کوئی شک نہیں اس تحریک میں جان پھونکنے کا کام گاندھی جی نے کیا لیکن ایک ٹھوس حقیقت یہ ہے کہ گاندھی جی کی چمپارن آمد 1917 سے بہت پہلے سے یہاں کے کسان اور مقامی لیڈر انگریزوں کے خلاف آواز بلند کر رہے  تھے مگر ان کی آواز علاقائی سطح تک محدود تھی لیکن گاندھی جی کی چمپارن آمد کے بعد یہ تحریک پورے ملک میں پھیلی اور انگریزی حکومت کے خلاف آواز بلند ہونے لگی -   

واضح ہو کہ چمپارن میں انگریزی حکومت بری تعداد میں نیل بنانے کی کوٹھی بنا رکھی تھی – یہاں کے ہر ایک کسانوں کے لئے یہ ضروری تھا کہ وہ اپنے ایک ایکر زمیں میں تین کتھا زمیں انگریزوں کے لئے نیل کی کھیتی کریں – اس کے لئے انگریز کسانوں کو کچھ بھی محنتانہ نہیں دیتے  تھے - اس کو "تین کٹھیاں" انگریزی ٹیکس کہا جاتا تھا – اس ظلم کے خلاف یہان کے کسان برسوں سے آواز بلند کر رہے  تھے  لیکن انگریز اسے دبا دیتے تھیں لیکن پنڈت رام چندر شکل اور پیر مونس جیسے سماجی رہنما نے کسانوں کی آواز کو گاندھی جی تک پہچایا اور آخر کار17 اپریل 1917 کو گاندھی جی چمپارن آے  اور پھر انگریزوں کے اس ظلم کے خلاف تحریک چھری – مگر اس ظلم کے خلاف تو آواز سب سے پہلے پیر مونس نے ہی 1910 میں آلہ آباد میں اٹھای تھی- جب انھوں نے پنڈت سندر لال کے گھر پر چمپارن کے کسانوں کا دکھ درد کانگریس کو سنیا تھا اور اس کے بعد وہ مسلسل اس ظلم کے خلاف اس وقت کے مختلف ہندی اخباروں اور رسالوں میں مضامین لکھتے رہیں خاص کر پرتاپ ، نیا زمانہ ، پاٹلی پتر ، بھارت میتر ، ابھیودے جیسے مقبول ہندی اخبار اور رسائل شامل تھیں – انہوں نے اپنے مضامین کے ذریے انگریزوں کی نیند حرام کر رکھی تھی اور انگریز انھیں ایک خطرناک صحافی کے طور پر اعلان کر چکی تھی – حکومت نے انھیں دیکھتے ہی گولی مارنے کا حکم دے رکھا تھا مگر وہ اپنے مشن میں کامیاب رہے اور جب گاندھی جی چمپارن اہے تو پہلی میٹنگ انہی کے گھر پر 23 اپریل 1917 میں کی جہاں ہزاروں کسانوں گاندھی جی کا  خیر مقدم کیا –

پیر مونس کا پورا  نام پیر محمّد مونس تھا – ان کے والد کا نام فتنگی میان تھا – وو ایک غریب مزدور تھے – مونس کی پیدائش 1892 میں ہوئی تھی اور ان کا انتقال 14اگست 1949 کو ہوا – شروع میں مونس نے بیتیا راج کے اسکول میں ماسٹری کی لیکن یہان سے بھی اپنے انگریز مخالف تیور کی وجہ سے نکالے گئے اور اسکے بعد پوری زندگی اپنے مضامین کے ذریے چمپارن کے کسانوں کے دکھ درد کو اجاگر کرتے رہے – ساتھ ہی ساتھ قومی ایکتا کے لئے کام کرتے رہے- انہوں نے پرتاپ میں 1916 میں ایک مضمون لکھا تھا جس میں قومی یکتا کی ضرورت اور اس کے راستے میں جو کانٹے ہیں اس پر بھرپور روشنی دہلی تھی – انہوں نے لکھا تھا کہ "ہندیوں میں ایک دل دھرم کے دھدھوڑا پیٹنے والے پنڈتوں اور مسلمانوں میں مذہبی دیوانے مولویوں کا ہے- ہان ان کوس میں البتہ ملیچھ اور کافر شبد بھرے پڑے ہیں- ان دونوں میں سدا مذہبی جھگڑے فساد ہوتے رہتے ہے اور سچ پوچھئے تو یہی لوگ ہندو مسلمان ایکتا کو بھنگ کر تے ہیں -" اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت انگریز ہندو اور مسلمانوں کے درمیان مذہبی نفرت پھیلانے کی سازش کر رہے تھے جس کی طرف مونس نے اشارہ کیا ہے اور آج بھی سماج میں کچھ اسی طرح کی سازشیں ہو رہی ہیں – اس لئے آج بھی پیر مونس کی نظریے کو   عام کرنے کی ضرورت ہے -

جب گاندھی جی نے چمپارن تحریک شروع کی تو انکے قدم سے قدم ملا کر چلنے والوں میں پیر مونس بھی ایک تھے لیکن افسوس ہے کہ ہمارے مورخوں نے انھیں فراموش کر دیا ہے – آج بھی جب چمپارن ستیاگرہ کی صدی کا جشن منایا جا رہا ہے تو پیر مونس حاشیے پر ہیں – دوسروں کی بات تو چھوڑئیے اپنے لوگ بھی مونس کی قربانیوں کو فراموش کر بیٹھے ہیں – ایسے وقت میں تو گاندھی جی کے ساتھ پنڈت رام چندر شکل ،پیر مونس اور حاجی دین محمّد ، شیخ گلاب ، اور شیتل راے کو بھی یاد کیا جانا چاہیے کہ گاندھی جی  اور راجندرا پرساد کے ساتھ یہ سبھی انگریزوں کے خلاف کسانوں کے مسائل کے حل کے لئے آخری دم تک لڑتے رہے – پیر مونس کے بارے میں اس وقت کے انگریز کلکٹر نے لکھا تھا کہ "گاندھی کو مدد پہچانے میں سب سے اہم آدمی پیر مونس ہے جو بیتیا راج کے اسکول میں ماسٹر تھا جسے 1915 میں برخاست کیا جا چکا ہے -"اسی طرح ہندی کے ایک برے مصنف شوپجن ساہے نے لکھا ہے کہ" مونس نے پرتاپ اخبار کے ذریے چمپارن کے کسانوں پر انگریزوں کے ظلم کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کا کام کیا –"

مختصر یہ کہ آج جب ہم چمپارن ستیاگرہ کی صدی منا رہے ہے اور گاندھی جی کی قومی خدمات پر روشنی ڈال رہے ہے ایسے وقت میں پیر محمّد مونس کی خدمات اور قربانیوں کو بھی یاد کیا جانا چاہیے کہ چمپارن تحریک کا ایک عظیم سپاہی پیر محمّد مونس بھی تھے جنہیں ہم سب نے فراموش کر رکھا ہے – گاندھی جی کے لئے سب سے بری خراج عقیدت یہ ہوگی کہ ان کے چمپارن تحریک کہ رفقہ کو بھی یاد کیا جائے بلخصوص پیر محمّد مونس حیات اور خدمات پر بھی اخبارورسایل  میں مضامین لکھا جانا چاہیے اور اس میں اردو اخباروں کو بھی پھل کرنی چاہیے – اگر چہ پیر محمّد مونس پوری زندگی ہندی صحافت کے لئے خون جگر صرف کرتے رہے مگر افسوس ہے کہ ہندی اخباروں میں بھی پیر محمّد مونس حاشیے پر ہیں -

*****************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 663