donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Lamhaye Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Mushtaq Ahmad
Title :
   Dastane Dadri - Chali Hai Rasm Ke Koyi Na Sar Utha Ke Chale


داستانِ دادری - چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے


 ڈاکٹر مشتاق احمد

پرنسپل مارواڑی کالج ، دربھنگہ

موبائل9431414586-

ای میلrm.meezan@gmail.com-


    ان دنوں ذرائع ابلاغ میں قومی دارالحکومت دہلی سے محض چند کیلومیٹر دور گریٹر نویڈا سے متصل دادری گائوں سرخیوں میں ہے۔ او راس کی واحد وجہ فرقہ پرستوں کے ہاتھوں محمد اخلاق کا بہیمانہ قتل ہے۔ یوں تو اترپردیش میں گذشتہ تین سالوں میں ہزاروں مسلمان فرقہ پرستی کی آگ کے شکار ہوئے ہیں کہ سماجوادی وزیر اعلیٰ اکھلیش یادو کی حکومت کے اس مدت کار میں چھوٹے بڑے تقریباً 700 فرقہ وارانہ فسادات ہوئے ہیں، جس میں مظفرنگر کا بھیانک فرقہ وارانہ فساد بھی شامل ہے۔مظفر نگر کے ہزاروں متاثرین ہنوز دربدری کے شکار ہیں۔اب جبکہ مظفر نگر فسادات کے لئے تفتیشی کمیشن کی رپورٹ بھی آگئی ہے اور اس میں اس بات کی وضاحت ہو گئی ہے کہ اس فساد کی چنگاری کو شعلہ بنانے والوں میں نہ صرف بھاجپا کے مقامی ممبرپارلیامنٹ اور لیڈران شامل تھے، بلکہ حکمراں جماعت کے لوگ بھی ملوث تھے اور انتظامیہ تماش بیں بن بیٹھی تھی۔ لیکن دادری میں جو کچھ ہوا وہ تو اس بات کا اشاریہ ہے کہ اس ملک میں اب فرقہ  پرست کتنے بے خوف ہو گئے ہیں اور ملک کی ایک بڑی اقلیت مسلمانوں کو کس کس طرح نشانہ بنا رہی ہے۔ ظاہر ہے کہ ایک طرف اترپردیش میں سماج وادی پارٹی دوہری پالیسی اپنا رہی ہے کہ وہ بھی ان فرقہ پرستوں کے تئیں نرم گوشہ رکھتی ہے، جو ریاست میں مسلمانوں کے لئے زمیں تنگ کرنے میں لگے ہیں۔ دوسری طرف وہ مسلمانون کے لئے گھڑیالی آنسو بہا رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اترپردیش کی اکھلیش حکومت مسلمانوں کے ووٹوں کی وجہ سے اقتدار میں آئی ہے اور آئندہ بھی وہ مسلمانوں کے ووٹوںکی بدولت ہی واپس آسکتی ہے ۔مگر حالیہ دنوں میں شدت پسند ہندوتو کو ریاست میں جس طرح فروغ ملا ہے وہ بغیر حکومت کی پشت پناہی کے ممکن نہیں۔ بہرکیف، دادری میں محمد اخلاق اور ان کے بیٹے دانش کو جس بے رحمی کے ساتھ زدوکوب کیا گیا اور گھر کی خواتین کے ساتھ نازیبا سلوک کیا گیا، اس سے تو یہ ثابت ہو گیا ہے کہ اترپردیش میں فرقہ پرستوں کو کسی کا خوف نہیں رہا؟ کیونکہ گائے کے گوشت کی افواہ پھیلا کر ایک مندر کی لائوڈ اسپیکر کے ذریعہ ایک ہجوم کا اکٹھا ہونا اور پھر ایک مسلم خاندان پر قہر برپا کردینا، پھر پیٹتے پیٹتے اخلاق کو موت کے حوالے کر دینا، کوئی اچانک حادثہ نہیں، بلکہ ایک منظم سازش کا پتہ دیتا ہے۔ واضح ہو کہ اخلاق احمدکے بیٹے محمد دانش اب بھی ایک اسپتال میں زیر علاج ہیں اور اس کی حالت بھی تشویشناک ہے۔ جبکہ گھر کی خواتین پر جو گزری ہے اس کا بیان رونگٹے کھڑا کر دیتا ہے۔ آس پڑوس کے لوگ ایک مسلم خاندان پر قہر برپا کرنے والے فرقہ پرستوں کی کارستانیوں کے تماش بیں بنے رہے  اور ایک معصوم مسلم خاندان تباہ وبرباد ہوتا رہا۔سماج میں اقلیت مسلمانوں کے خلاف کتنا زہر بھر دیا گیا ہے اس کا آسانی سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جو خاندان برسوں سے اس گائوں میں رہ رہا تھا اور انسانی رشتوں کو مستحکم بنا رہا تھا، اس کے خلاف فرقہ پرستوں نے کس طرح سازش کی۔ عید الاضحیٰ کی قربانی کے بکرے کا گوشت فریز میں رکھا تھا، لیکن مندر کے مائک سے یہ اعلان کیا گیا کہ اخلاق کے گھر میں گائے کا گوشت ہے۔متاثرہ خاندان چینخ چینخ کر یہ کہتا رہا کہ فریز میں بکرے کا گوشت ہے، لیکن کوئی ماننے کو تیار نہیں تھا ۔ظاہر ہے جب پہلے سے ہی یہ طئے ہو کہ کسی پر ظلم ڈھانا ہے تو ایسی صورت میں اسی طرح کا دلدوزواقعہ  رونما ہوتاہے۔

    اس میں کوئی شک نہیں کہ جب سے مرکز میں نریندر مودی اقتدار میں آئے ہیں، اسی دن سے ملک میں فرقہ پرستوں کے حوصلے آسمان چھونے لگے ہیں۔ بالخصوص آر ایس ایس اور سنگھ پریوار اپنے ان تمام منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے لگے ہیںجو ان کے خفیہ ایجنڈے میں شامل تھا۔ حال میں نریندر مودی کابینہ کے درجنوں وزراء  نے جس طرح آر ایس ایس کے ہیڈکواٹر میں اپنی حاضری دی اور وزیر اعظم سمیت تمام وزراء نے موہن بھاگوت کو یقین دہانی کرائی کہ وہ آر ایس ایس کے ہی خطوط پر کام کر رہے ہیں۔ ذرائع ابلاغ میں بھی مودی حکومت اور آر ایس ایس کے رشتوں کو خوب خوب اجاگر کیا جارہا ہے اور یہ بتانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ موجودہ حکومت آر ایس ایس کے منشاء کو پورا کرنے کی پابند عہد ہے۔ اس لئے پورے ملک میں سنگھ پریوار کے کارکنوں کا نہ صرف حوصلہ بڑھا ہے بلکہ وہ بے خو ف ہو کر  مسلمانوں کے خلاف مہم چلا رہے ہیں۔ دادری کا یہ دلخراش واقعہ اسی مہم کا ایک حصہ ہے۔اب دادری میں ریاستی حکومت کے عملہ کے ساتھ ساتھ سیاسی جماعتوں کے لیڈروں کی آمد بھی شروع ہو گئی ہے اور تمام لیڈروں کے ذریعہ وہی پرانا راگ الاپا جارہا ہے کہ مجرموں کو بخشا نہیں جائے گا۔سوال یہ ہے کہ گذشتہ تین سال میں جتنے فرقہ وارانہ فسادات ہوئے ہیں، ان میں کتنے مجرموں کو سزا ملی ہے؟ مظفر نگر جیسے سنگین فسادات کے ملزم کھلے عام گھوم رہے ہیں اور متاثرہ خاندان ہنوز انصاف کے لئے دربدرکی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ وہ ملائم سنگھ یادو جو سماجوادی پارٹی کے سپریموہیں، اکثرو بیشتر اپنے سیاسی جلسوں میںترقیاتی کاموں کو لیکر ڈرامائی انداز میں بیٹے اکھلیش یادو کو ڈانٹ پھٹکار کرتے رہتے ہیں، لیکن آج تک فرقہ وارانہ فسادات اور مسلمانوں کی دربدری پر خاموش ہیں ؟ یہ جگ ظاہر ہے کہ ملائم سنگھ یادو ان دنوں سنگھ پریوار کے تئیں نرم گوشہ رکھتے ہیں، بالخصوص نریندر مودی حکومت کو پس پردہ تعاون بھی دے رہے ہیں، خواہ اس کی وجہ کچھ بھی ہو۔ حال ہی میں بہار اسمبلی انتخاب کے اعلان کے ساتھ ہی جس طرح ملائم سنگھ یادو نے عظیم اتحاد سے اپنا دامن چھڑایا ہے اور تیسرا مورچہ تشکیل دے کر بہار کی سیدھی سیاسی  جنگ کو سہ طرفہ بنانے کی پہل کی ہے، اس سے بھی یہ ثابت ہو گیا ہے کہ اب وہ سیکولرزم کے کتنے پاسدار رہ گئے ہیں؟ مختصر یہ کہ دادری کی داستانِ الم نہ صرف اترپردیش کے مسلمانوں کے لئے بلکہ قومی سطح پر اس بات کا اشاریہ ہے کہ اب ملک میں مسلمانوں کے خلاف کس کس طرح کی سازشی مہم چل رہی ہے اور بے قصور مسلمانوں کی زندگی کو اذیت ناک بنایا جارہا ہے۔ افسوس صد افسوس کہ اس وقت اتر پردیش کی اسمبلی میں تمام سیاسی جماعتوں کے منجملہ مسلم ممبران اسمبلی کی تعداد تقریباً 85 ہے، لیکن کہیں سے بھی دادری وقعہ کے خلاف آواز نہیں اٹھ رہی ہے۔ ایسے میں تو ایک سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ آخر ہمارے مسلم نمائندیمسلمانوں کے کس کام آئیں گے؟اب دیکھنا یہ ہے کہ روایتی طور پر دادری میں قہر برپا کرنے والے مجرموں کی گرفتاریاں تو ہورہی ہیںا ور حسب معمول بھاجپا کی طرف سے مجرموں کی حمایت میں آواز بھی اٹھنے لگی ہے۔ ایسی صورت میں زخم دادری پر مرحم لگ سکے گا یا پھر حسب معمول نمک پاشی کا سلسلہ ہی جاری رہے گا؟

٭٭٭

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 571