donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Lamhaye Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Mushtaq Ahmad
Title :
   Dekha Aakhir Ik Nuskha Ne Kya Anjam Kiya


دیکھا آخر اک نسخہ نے کیا انجام کیا


ڈاکٹر مشتاق احمد

پرنسپل مارواڑی کالج، دربھنگہ

ای میل :rm.meezan@gmail.com

موبائل:9431414586

 

بہار میں سہ سطحی پنچایت  انتخابات کے نتائج آچکے ہیں اور جس بات کا اندیشہ تھا آخر وہ سچ ثابت ہواکہ جہاں سے مسلم امیدوار کی کامیابی یقینی تھی وہاں بھی انہیں شکست کا منھ دیکھنا پڑا ہے۔ واضح ہوکہ پنچایتی انتخاب کی تاریخ کے اعلان کے بعد ہی میںنے اپنے ایک کالم میں اس اندیشے کا اظہار کیا تھا کہ جہاں کہیں بھی مسلمانوں کی اکثریت ہے وہاں ان کے ووٹوں کو منتشر کرنے کی حکمت عملی تیار ہونے لگی ہے۔ اس لئے مسلم طبقے کو ان علاقوں میں ایک خصوصی بیداری مہم چلانی ہوگی کہ ووٹوں کے انتشار کو کیسے روکا جاسکے۔ مگر افسوس صد افسوس کہ اس طرح کی کوئی مہم شروع نہیں ہوئی اور حسب ماضی اس انتخاب میں بھی مسلمانوں کو خصارہ عظیم پہنچا کہ جس پنچایت سے مکھیا ، سرپنچ اور جہاں سے ضلع پریشد کی سیٹ جیت سکتے تھے وہاں بھی مسلم امیدوار محض اس لئے ناکام رہے کہ ان کے ووٹ منتشر ہوکر رہ گئے۔ گزشتہ کل ایک معروف سماجی کارکن عون احمد صاحب اپنے پنچایت کے متعلق بتا رہے تھے کہ ان کے پنچایت میں مسلم ووٹر اکثریت میں ہیں اور غیر مسلم ووٹروں کی تعداد محض ہزار بارہ سو ہوگی لیکن وہاں بھی غیر مسلم امیدوار ہی کامیاب ہوئے کیوںکہ وہ تنہا تھے ، جبکہ مسلم آبادی سے کئی امیدوار میدان میں کود پڑے تھے۔ اسی طرح کا نقشہ کم وبیش پوری ریاست کا ہے کہ جہاں مسلم امیدوار کامیاب ہوسکتے تھے وہاں بھی وہ ناکام رہے۔ دراصل مسلم ووٹوں کو منتشر کرنے کا خاکہ آر ایس ایس اور سنگھ پریوار نے اس وقت تیار کیا تھا جب شائنگ انڈیا کے کہرام کے باوجود اٹل بہاری باجپئی کی حکومت مرکز میں واپس نہیں ہوسکی تھی۔ اس ناکامی کے بعد آر ایس ایس کے تھینک ٹینکوں نے ’تھری فارمولہ فار ونگ ‘ تیار کیا تھا۔ اس کا پہلا نسخہ یہ تھا کہ پورے ملک میں مسلمانوں کی شناخت کو مجروح کیا جائے، دوسرا یہ کہ ان کے ووٹوں کو منتشر کیا جائے اور تیسرا یہ کہ نام نہاد مسلم چہروں کو میڈیا میں فوقیت دلوائی جائے ۔ اس نسخے کو خصوصی طور پر اتر پردیش، بہار، بنگال، آسام اور جموں وکشمیر میں بروئے کار لانے کی حکمت عملی بنائی گئی تھی۔ اس فارمولے کے مطابق آر ایس ایس اور سنگھ پریوار کے کارکنوں کو یہ سبق دیا گیا تھا کہ جہاں کہیں مسلمانوں کی اکثریت ہے وہاں پنچایت سے لے کر پارلیمنٹ کے انتخابات کے وقت زیادہ سے زیادہ مسلم امیدواروں کو کھڑا کیا جائے اور اس کے لئے انتخاب کے قبل سے ماحول سازی کی جائے۔ اس نسخے کے تحت مسلمانوں کے درمیان سے ایسے نام نہاد مسلم چہرے کو قبل سے ہی سماجی طور پر فوقیت دینے کی وکالت کی گئی تھی اور اسے خوش فہمی میں مبتلا کرنے کا لائحہ عمل تیار کیا گیا تھا جس سے ملک میں مسلمانوں کی سیاسی قوت کو کمزور کیا جاسکے۔

غرض کہ مسلم آبادی کے درمیان سے ایسے غیر معروف چہرے کو ابھارنے کا نشانہ بنایا گیا کہ جو شہرت پسند ہو اور جو حمیت قوم سے ناواقف ہو۔چونکہ آر ایس ایس کا تانا نانا پورے ملک میں پھیلا ہوا ہے، اس لئے اس فارمولے کو عملی صورت دینے میں اسے کوئی مشکل پیش نہیں آئی اور بڑی آسانی سے گائوں سے لے کر شہر تک مسلم معاشرے کے درمیان ایسے لوگوں کو کھڑا کیا گیا جو نام ونمود کے بھوکے تھے۔ اس کے لئے  مٹھی بھر بیکار نوجوانوں کو مختلف نام نہاد تنظیمیں بنانے کی طرف راغب کیا گیا اور ایک شطرنجی چال کے تحت انہیں یہ بتایا گیا کہ وہ مسلمانوں کے مسائل کے لئے اٹھ کھڑے ہوں۔ بالخصوص مسلمانوں کے مذہبی معاملے میں انہیں فعال رہنے کی تلقین کی گئی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ دیکھتے ہ دیکھتے مسلم معاشرے میں  نام نہاد سماجی کارکنوں کا سیلاب امڈ آیا۔ یہاں مسلم  دانشور بھی آر ایس ایس کی چال کو نہیں سمجھ سکے اور انہیں یہ لگا کہ مسلم نوجوان اپنے مسائل کے تئیں بیدار ہورہے ہیں۔ مگر حقیقت تو کچھ اور ہی تھی کہ شہرت پسند اور بیکار مسلم نوجوان آر ایس ایس کے جال میں پھنس چکے تھے۔ واضح ہوکہ سنگھ پریوار نے اس کے لئے اچھا خاصہ فنڈ بھی مختص کررکھا ہے۔ چونکہ اس طرح کی موسمی تنظیموں میں بیکار قسم کے نوجوان شامل تھے اس لئے اس نے اس فنڈ کو اپنے لئے مال غنیمت سمجھا اور اب ان کے درمیان شہرت کی بھوک اتنی جگا دی گئی تھی کہ وہ ہر دوچار دنوں پر بے مقصد چوک چوراہوں پر مظاہرہ کرنے لگے۔ مسلم معاشرے کو یہ غلط فہمی ہوگئی کہ یہ نوجوان طبقہ ہی مسلمانوں کے مسائل کو حل کروا سکتا ہے۔ لیکن اصل تصویر اس وقت سامنے آئی جب پنچایت، بلدیات، اسمبلی، بلکہ پارلیامانی انتخاب کے وقت بھی یہی آر ایس ایس کے شکار اور شہر ت کے بھوکے انتخابی میدانوں میں اترنے لگے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جہاں کہیں بھی مسلمانوں کی اکثریت تھی وہاں کئی گروپ بن گئے اور ووٹوں کا بندر بانٹ ہوگیا۔ آر ایس ایس کو اپنے اس نسخے کا سب سے بڑا فائدہ گزشتہ پارلیامانی انتخاب کے وقت اتر پردیش میں حاصل ہوا کہ پارلیامانی حلقے میں بھی ایسے ایسے امیدوار کھڑے ہوگئے جو وارڈ کونسلر بننے کی بھی اہلیت نہیں رکھتے تھے۔ مگر جیسا کہ پہلے ہی یہ ذکر آچکا ہے کہ آر ایس ایس نے تو ایک دہائی قبل سے ہی اس طرح کے تانے بانے تیار کردیے تھے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اتر پردیش جہاں سے تقریباً بیس مسلم امیدوار پارلیامنٹ پہنچ سکتے تھے وہ صفر ہوکر رہ گئے۔ کچھ اسی طرح کا نقشہ جموں وکشمیر، بہار اور حالیہ آسام و کیرل کے اسمبلی انتخابات میں بھی دیکھنے کو ملا اور آر ایس ایس کا یہی فارمولہ بہار کے سہ سطحی پنچایتی انتخابات میں بھی کارگر ہوتا ہوا نظر آیا۔ دوسرا نسخہ یہ تھا کہ مسلم معاشرے کی اہم شخصیات کی شبیہ کو مسخ کیا جائے، اس کیلئے آر ایس ایس نے ایک طرف قومی میڈیا کا سہارا لیا تو دوسری طرف مسلم معاشرے کے ان ہی چند نام نہاد رضاکاروں کے ذریعہ ہی مسلم معاشرے کی اہم شخصیات کی شبیہ مجروح کرائی جانے لگی۔ میڈیا میں بھی ان نام نہاد مسلم تنظیموں کی خبروں کو اہمیت دی جانے لگی اور اس کے لئے پورے ملک کے ذرائع ابلاغ میں بیٹھے آر ایس ایس لابی کو فعال کیا گیا۔ چونکہ میرا تعلق بھی دو دہائی تک عملی صحافت سے رہا ہے، اس لئے ہندی وانگریزی صحافیوں سے اب بھی ملنا جلنا رہتا ہے۔ کچھ دنوں قبل ایک قومی ہندی اخبار کے مقامی بیورو چیف سے گفتگو ہورہی تھی، انہوںنے اس بات کا انکشاف کیا کہ یہاں کی فلاں تنظیم کی خبروں کو نمایاں طور پر شائع کرنے کی ہیڈ کوارٹر سے ہدایت ہے۔ جس تنظیم کا انہوںنے ذکر کیا اس میں ویسے لوگ شامل ہیں جنہیں عوام الناس لاخیروں کی جماعت کہتے ہیں۔ دراصل آج قومی میڈیا پر آر ایس ایس لابی حاوی ہے اور جو نسخہ ناگپور سے طے ہوتا ہے اسے عملی جامہ پہنانے کی ذمہ داری میڈیا کے سر ہوتی ہے۔ اردو میڈیا میں بھی اس طرح کی تنظیموں کی خبریں نمایاں طور پر شائع ہوتی رہتی ہیں۔اس لئے اردو اخباروں کی اب اور زیادہ ذمہ داری بڑھ جاتی ہے کہ آر ایس ایس کے شکار کی خبروں کی اشاعت میں محتاط رویہ اختیار کیا جائے۔ 


غرض کہ مسلمانوں کی اجتماعی شناخت اور سیاسی گرفت کو کمزور کرنے کا جو نسخہ ایک دہائی قبل آر ایس ایس نے بنایا تھا اس کی عملی صورت گائوں سے لے کر شہر تک دیکھنے کو مل رہی ہے مگر ہم اب بھی اس شازش کو سمجھنے میں ناکام ہیں۔ ہمارے ایک دوست ان دنوں آر ایس ایس کے پرچارک اندریش کمار کے قصیدہ خواں بنے ہوئے ہیں، آج ہی فیس بک پر ان کا ایک پوسٹ دیکھنے کو ملا جس میں موصوف نے اندریش کمار کے اس نظریے کی حمایت کی ہے کہ مسلمانوں کو بھی بندے ماترم کہنے سے پرہیز نہیں کرنا چاہئے۔ دراصل آر ایس ایس ان دنوں پورے ملک میں مسلمدانشوروں کو بھی ’مسلم راشٹریہ منچ‘ میں شامل کر انہیں کھوکھلی حب الوطنی کا پاٹھ پڑھا رہا ہے۔

مختصر یہ کہ مسلم معاشرہ اگر اپنے گرد ونواح کی ان نام نہاد مسلم تنظیموں کے فریب سے باہر نہیں ہوئے اور ان نام نہاد مسلم دانشوروں کی عیاری سے محفوظ نہیں رہے تو پنچایت سے لے کر پارلیامنٹ تک اپناوجود ختم کرلیںگے اور یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ ہم جس ملک میں رہتے ہیں وہ ایک جمہوری نظام کا ملک ہے اور اس میں سیاسی قوت کے ذریعہ ہی اپنے حقوق حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ اب بھی دیر نہیں ہوئی ہے اس لئے مسلم معاشرے کے سنجیدہ طبقہ کو مذکورہ مسائل کی طرف توجہ دینی چاہئے اور مسلمانوں کو ہوشیار کرنا چاہئے کہ آج مسلم تنظیموں کی جو باڑھ آگئی ہے آخر اس کا مقصد کیا ہے۔ ان کی کارکردگی پر سرسری نگاہ ڈالنے سے ہی پتا چلتا ہے کہ ان نام نہاد تنظیموں کا کوئی ملی وقومی نصب العین نہیں ہے، بلکہ وہ اپنی شناخت بنانے کے لئے مسلمانوں کو جذباتی نعروں کی دھاڑ میں بہا لے جانا چاہتے ہیں جو آر ایس ایس کے مقاصد کو پورا کرتے ہیں، یہ ایک لمحہ فکریہ ہے۔

   ٭٭٭

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 578