donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Lamhaye Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Mushtaq Ahmad
Title :
   Hazar Khauf Ho Lekin Zaban Ho Dil Ki Rafeeq


ہزار خوف ہو لیکن زبان ہو دل کی رفیق


٭ڈاکٹر مشتاق احمد

موبائل 9431414586


    حال ہی میں میں نے اپنے ایک کالم میں یہ اشارہ کیا تھا کہ قومی سطح پر کس کس طرح مسلمانوں کے اتحاد کو پارہ پارہ کیا جارہا ہے اور ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت ہماری شناخت کو مسخ کرنے کی مذموم کوششیں ہورہی ہیں ۔میرے اس کالم کو قومی سطح پر سراہا گیا۔ اگرچہ اس کے رد عمل میں چند کج فکر نے میرے خلاف لعن طعن بھی کی جیسا کہ ایک ایڈیٹر موصوف نے مجھے بتایا ۔لیکن اب جبکہ ایک ساتھ قومی سطح پر کئی ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں جس کا سرا میرے اس اندیشے سے ملتا ہے جس کا اظہار میں نے مذکورہ کالم میں کیا تھا۔ بالخصوص اسلامی اسکالر ڈاکٹر ذاکر نائک کی شبیہہ کو مسخ کرنے کی جس طرح سازش ہو رہی ہے اس سے اب شاید ان کج فکروں کو بھی سمجھ آگئی ہوگی کہ میں کسی ذات واحد کو نشانہ بنانے کے لئے کبھی نہیں لکھتا بلکہ ہمارا نشانہ تو صرف اور صر ف اجتماعی مسئلہ ہی ہوتا ہے۔ بہرکیف، ڈاکٹر ذاکر نائک کے خلاف ان دنوں میڈیا ٹرائل چل رہا ہے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے ۔ گذشتہ دو دہائیوں سے ہندستان میں اسلامی شناخت کو مسخ کرنے کی کو شش ہورہی ہے۔ کبھی ہمارے بے قصور نوجوانوں کو مبینہ دہشت گردی کے نام پر سلاخوں کے پیچھے بھیجا جاتا ہے تو کبھی پوٹا اور ٹاڈا کے ذریعہ ایسے طلبہ کی زندگی برباد کی جاتی ہے جن سے وابستہ خاندان تباہ ہو جاتاہے۔ یہ اور بات ہے کہ وہ بے قصور نوجوان دس پندرہ سالوں کے بعد عدالت سے بے داغ ثابت ہوتاہے اور اس کی رہائی ممکن ہو جاتی ہے۔ لیکن اس وقت تک تو اس کی دنیا ہی تاریک بن چکی ہوتی ہے۔ اسی طرح کئی بڑے علماء اور دانشوروں کو بھی بے بنیاد الزاموں میں پھنسا کر ان کی شناخت کو مسخ کیا جاتا رہا ہے۔ کبھی سیمی کے نام پر تو کبھی حزب المجاہدین کے نام پر اور نہ جانے کتنی ایسی تنظیمیں ہیں جن کے حوالے سے یہ خبریں آتی رہتی ہیں کہ فلاں علاقے میں اس سے وابستہ افراد گرفتار کئے گئے ہیں ۔ اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ہمارے ملک میں خلفشار پیدا کرنے کے لئے کئی غیر ملکی تنظیمیں کام کررہی ہیں اور میں اس بات کی وکالت کرتا رہا ہوں کہ اگر کوئی شخص ہمارے ملک کے خلاف کسی طرح کے عمل کو انجام دیتا ہے تو اس کے خلاف کاروائی ہونی چاہئے اور اگر کوئی تخریبی کاروائی میں ملوث ہے تو اسے اس کی سزا ضرور ملنی چاہئے۔ مگر ویسے لوگوں کو اس طرح کے الزام میں سلاخوں تک نہیں بھیجا جانا چاہئے جو بے قصور ہیں اور جن کا کسی بھی تخریب کاری سے کوئی رشتہ نہیں ۔اس لئے ہماری جانچ ایجنسیوں اور ریاستی پولس کو بھی اس بات کا ضرور خیال رکھنا چاہئے کہ جس شخص کو تخریبی کاری کے الزام میں گرفتار کیا جارہا ہے کیا وہ سچ مچ اس میں شامل بھی ہے۔ اگر مقامی سطح پر ہی ہماری جانچ ایجنسی یا پھر دوسرے عملے اس حقیقت کو سمجھ لیں تو ممکن ہے کہ بہت سارے بے قصور کے ساتھ آغاز میں ہی انصاف ہو جائے گا اور بہتیرے بے قصور نوجوان سلاخوں تک نہیں پہنچ پائیں گے۔ اگر انصاف پسندی کی یہ روایت عام ہوتی ہے تو اس سے نہ صرف مسلمانوں کو بلکہ دوسرے طبقے کے ان لوگوں کو بھی راحت ملے گی جو اس طرح کے مبینہ الزام میں گرفتار ہوتے رہے ہیں۔ جہاں تک موجودہ مسئلہ یعنی ذاکر نائک کا ہے تو ممکن ہے کہ مسلم طبقے میں بھی بہت سے ایسے لوگ ہوں گے جو ذاکر نائک کی باتوں سے اتفاق نہیں کرتے ہوں گے لیکن ایسے لوگ بھی اس بات کو تسلیم نہیں کریں گے کہ ذاکر نائک کی تقریر تخریب کاری کی وجہ بن سکتی ہے۔ میں نے بھی بارہا ان کی تقاریر سنی ہیں ۔ وہ اپنے سائنسی دلائل کے ذریعہ اسلام کی وحدانیت اور حقانیت کو ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ وہ دوسرے مذاہب کو اپنے دلائل سے ردّ بھی کرتے رہے ہیں۔ جبکہ میرا ماننا ہے کہ اسلام دوسرے مذاہب کوبرا کہنے کی اجازت نہیں دیتا کیونکہ ہمارا پیغام تو یہ ہے کہ میرا دین میرے لئے اور ان کا دین ان کے لئے۔ ہاں، ہم اپنے مذہب کی خوبیوں کو دوسرے مذاہب کے افراد تک پہنچانے کی کوشش کریں بلکہ ہمارا عمل ایسا ہونا چاہئے کہ وہ اسلام کی وسعت و آفاقیت سے آشنا ہو سکے۔ لیکن افسوس صد افسوس کہ ہمارا عمل ہی ایسا نہیں ہے۔ نتیجہ ہے کہ ہمارا پیغام بے اثر ثابت ہو رہا ہے ۔ کیونکہ اسلام صرف لٹریچر کا مذہب نہیں بلکہ کیرکٹر کا مذہب ہے۔ ڈاکٹر ذاکر نائک بھی اس بات کی وکالت کرتے رہے ہیں اور سب سے اچھی بات تو یہ دیکھنے کو ملتی رہی ہے کہ ان کے جلسوں میں برادر وطن کی اچھی خاصی تعداد شامل رہتی ہے۔ بالخصوص ان سے سوال و جواب کرنے والوں میں غیر مسلم طلبہ کی دلچسپی قدرے زیادہ رہتی ہے۔ اگرچہ ان پر یہ بھی الزام بھی لگتا رہا ہے کہ ان کے جلسوں میں سب کچھ ایک خاص ڈیزائن کے ساتھ طے کئے جاتے ہیں۔ میں ان باتو ں میں یقین نہیں رکھتا کہ خاص منصوبے کے تحت کوئی بات بہت دنوں تک چل سکتی جبکہ ڈاکٹر نائک اپنے پیس فائنڈیشن کے رضاکاروں کے ذریعہ اور پیس ٹی وی چینلوں کے ذریعہ پوری دنیا میں اپنا پیغام پہنچاتے رہے ہیں۔ ان کے تحریری مواد میں بھی کہیں بھی اس طرح کی بات نہیں دکھائی دیتی ہے کہ جس سے تخریب کاری کی بو آتی ہو۔ لیکن ان دنوں بین الاقوامی سطح پر چونکہ اسلام کے خلاف ایک مہم چل رہی ہے اور اس کا اثر بر صغیر میں بھی ہے بالخصوص ہماری قومی میڈیا کی عام روش ہو گئی ہے کہ وہ اسلام کی اچھی باتوں کو نظر انداز کرتے ہیں اور اسلام کے خلاف اگر کہیں ذرا سی بھی گنجائش نکلتی ہے تو اس کی تشہیر کی جاتی ہے۔ ڈاکٹر ذاکر نائک بھی اسی روش کے شکار ہیں ۔ اس لئے اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلکی اختلافات سے اوپر اٹھ کر اتحاد کا مظاہرہ کریں کہ اس وقت اسلامی شناخت کو مسخ کرنے کی مہم چل رہی ہے۔ ایسے نازک وقت میں اگر ہم مسلکی دائرے میں رہ کر سوچیں گے اور یہ کہہ کر اپنا دامن بچائیں گے کہ ذاکرنائک فلاں مسلک کے ہیں اور ان پر جو الزام ہے اس کے دفاع کی ذمہ داری صرف اور صرف ان کے مسلک کے لوگوں پر ہے ، تو یہ ایک بڑی بدنصیبی ہوگی۔ کیونکہ بین الاقوامی سطح پر اسلام کے خلاف سازش ہورہی ہے نہ کہ کسی خاص مسلک کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ مگر بدنصیبی یہ ہے کہ آج ہم مسلک اور ذات پات کی بنیاد پر اپنے اجتماعی مسئلہ کو بھی دیکھتے ہیں ۔ نتیجہ ہے کہ ہم اپنے مسئلے کو حل کرنے کے بجائے مسلکی مسائل میں الجھ کر رہ گئے ہیں اور دنوں دن ہمارا اتحاد کمزورہوتا جارہا ہے اور یہ بیماری مقامی سطح سے لے کر قومی سطح تک دکھائی دے رہی ہے بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی ہم اس بیماری کے شکار ہیں کہ فلاں ملک فلاں مسلک کا ہے تو فلاں ملک فلاں مسلک کا۔ نتیجہ ہے کہ جب ایک اسلامی ملک پر یلغار ہوتا رہتا ہے تو دوسرا ملک خاموش تماشائی بنا رہتا ہے۔ گذشتہ تین دہائیوں میں بین الاقومی سطح پر اسلامی اتحاد کو جو خسارۂ عظیم پہنچا ہے ، اس میں مسلکی اختلافات کا کلیدی رول رہا ہے۔ 


    مختصر یہ کہ اس وقت اگر ذاکر نائک کے خلاف کوئی سازش ہورہی ہے تو ان کا دفاع متحد ہوکر کرنا چاہئے اور اگر ذاکر نائک کے افکار و نظریات میں کوئی ایسی کمی ہے تو ہمارے علمائے دین ان کی اصلاح فرمائیں تاکہ ہم جس ملک میں رہتے ہیں اس ملک کے آئین کی روح مجروح نہ ہواور ہمارے ویسے برادر وطن جو اسلام مذہب کے تئیں کسی طرح کے ذہنی تعصب و تحفظ کے شکار نہیں ہیں ان کی بھی دل آزاری نہ ہوجو  ہماری حمایت میں کھڑے رہتے ہیں، کیونکہ ملک میں آج بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہے جو تمام تر ازم سے پاک ہوکر مسلمانوں کی حمایت میں کھڑے ہیں اور علم بردار انسانیت بنے ہوئے ہیں۔ اس لئے ہماری یہ کوشش بھی ہونی چاہئے کہ ہم زیادہ سے زیادہ برادر وطن کے سامنے اسلام کی صحیح تصویر پیش کریں کہ اسلام ہمیں یہی سبق دیتا ہے ۔ حق بات ہمیشہ کہتے رہنا چاہئے خواہ اس سے وقتی خسارہ ہی کیوں نہ ہو کہ یہی ہمارے اکابرین کا شیوہ رہا ہے۔          

ہزار خوف ہو لیکن زباں ہو دل کی رفیق 
 یہی رہا ہے ازل سے قلندروں کا طریق 

 

****************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 776