donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Lamhaye Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Mushtaq Ahmad
Title :
   Kisi Mushkil Ka Hal Kiyon Kar Nahi


کسی مشکل کا حل کیوں کر نہیں ہے 


ڈاکٹر مشتاق احمد

پرنسپل مارواڑی کالج، دربھنگہ

موبائل:9431414586 

ای میل: rm.meezan@gmail.com


میرے لئے یہ ایک حسن اتفاق ہی رہا کہ ماہ رواں یعنی مئی 2016 میں دو ایسے جلسوں میں شرکت کا موقع ملا جس میں اقلیتی بیداری اور تعلیمی بیداری کے موضوعات کو مرکزیت حاصل تھی۔ پہلا جلسہ حاجی پور ویشالی میں تھا جس کا اہتمام اردو تحریک کے ایک بے لوث خادم شاہد محمود پوری نے کیا تھا۔ اس جلسہ میں ان کی ایک کتاب کا اجرا بھی ہونا تھا، نیز اقلیتوں کی تعلیمی پستی پر غور وخوض ہونا تھا۔ اس لئے انہوںنے اس جلسہ میں بیشتر ایسے ادیب وصحافی کو مدعو کیا تھا جن کا تعلق اردو زبان وادب سے رہا ہے، مثلاً ڈاکٹر ریحان غنی، راشد احمد، مولانا ثناء الہدیٰ قاسمی، پروفیسر صفدر امام قادری، پروفیسر محمود نہسوی، پروفیسر عبدالمنان طرزی، پروفیسر شکیل احمد قاسمی، ڈاکٹر امتیاز احمد، ڈاکٹر حامد علی خاں وغیرہم اس میں شامل تھے۔ظاہر ہے کہ مذکورہ تمام شخصیات دنیائے ادب میں محتاج تعارف نہیں ہیںکہ سب کے سب اردو زبان وادب کی خدمات انجام دینے میں فعال ومتحرک ہیں۔ اس طرح کے دانشوروں کے اجتماع میں اس خاکسار کی شرکت گویا محض ایک ادنیٰ طالب علم کی تھی ۔

بہر کیف اس جلسہ میں اکابرین نے قوم وملت کے تعلق سے جو کچھ فرمایا وہ میرے لئے کچھ نیا نہیں تھا کیوں کہ اس طرح کے جلسوں میں مسلمانوں کی تعلیمی پستی یا پھر معاشی بدحالی پر فکر مندی ظاہر کی جاتی ہے اور یہ سلسلہ برسوں سے چل رہا ہے۔ بالخصوص سچر کمیٹی کی رپورٹ اور رنگناتھ مشرا کمیشن کی شفارش عام ہونے کے بعد اس طرح کے جلسوں کی گفتگو کا محور مرکز بس یہی ہوتا ہے کہ حکومت کی ناانصافیوں کی وجہ سے ہماری بدحالی روز بہ روز بڑھ رہی ہے یا پھر وہ آزمودہ نسخہ کہ ہمارے ساتھ تعصب برتا جارہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آزادی کے بعد ملک میں مسلمانوں کے تئیں تعصبات و ذہنی تحفظات بڑھے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب قطعی نہیں کہ ہماری پسماندگی کیلئے صرف اور صرف حکومت کی مسلم مخالف پالیسی ذمہ دار ہے یا پھر برادر وطن کا تعصبانہ رویہ ہی ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو بہت سے ایسے شعبے ہیں جہاں ہماری شناخت نے پورے ملک کو مخاطب کیا ہے۔ دراصل ہماری ترقی کیلئے جو سب سے اہم اور معاون نسخہ ہے اس کو اپنانے سے ہم آج بھی گریز کررہے ہیں، یعنی تعلیم۔ کیوں کہ جس اسلام نے دنیا کو ’اقرا‘ کا پہلا سبق دیا اسی کے پیروکار آج اکیسویں صدی میں بھی تعلیمی اعتبار سے پسماندہ قوم کی فہرست میں سب سے اوپر ہے۔آخر اس کے لئے ذمہ دار کون ہے؟ ہمیں اپنے بچوں کو تعلیم کی روشنی سے آراستہ کرنے سے کون روک رہا ہے؟ اور جہاں کہیں تعلیمی مراکز ہیں بھی تو وہاں معیاری تعلیم کا نظام مستحکم کیوں کر نہیں ہوا؟ قرآن نے آج سے تقریباً چودہ سو سال پہلے یہ ازلی اور ابدی پیغام دے دیا تھا کہ اللہ نے اس قوم کی حالت اس وقت تک نہیں بدلی جب تک اسے خود بدلنے کا خیال نہ آیا ہو۔ پھر ہم نے اس سبق کو فراموش کیوں کر دیا؟ اسلام نے یہ شرط لگائی کہ اس وقت تک ہماری کوئی عبادت قبول نہیں ہوسکتی جب تک ہمارا رزق حلال نہیں ہوسکتا۔ علامہ اقبال نے اسی فکر کو یوں شعری پیکر میں ڈھال دیا   ؎

اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی

غرض کہ فرمان الٰہی کی روشنی میں اپنے معاشرے کا جائزہ لیجئے۔ آپ کو وہ منظر دکھائی دیگا جس کی اجازت ہمارا دین اسلام نہیں دیتا۔ ہمارے مکاتب ومدارس کا نقشہ کچھ اور ہی بیان کرتا ہے، ہم اپنے فرائض سے کتنے غافل ہیں اس پر بھی غور وفکر کرنے کی ضرورت ہے۔ آج ہمارا معاشرتی نظام کا ڈھانچہ کس قدر متزلزل ہوکر رہ گیا ہے وہ ہم سب کے سامنے ہے۔ غیر شرعی رسم ورواج نے ہمارے سماجی تانے بانے کو بکھیر کر رکھ دیا ہے۔ مسلک، ذات اور برادری کے تفرقہ نے تو ہمارے اتحاد کے شیرازے کو ہی تحس نحس کردیا ہے۔ ایسی صورت میں ہماری ترقی کے راستے بھلا کیسے ہموار ہوںگے۔ ہم اپنی قصیدہ خوانی کے اس قدر خوگر ہو گئے ہیں کہ اپنی کمیوں پر کبھی نگاہ ہی نہیں جاتی اور یہ حقیقت اپنی جگہ مسلم ہے کہ جو قوم دنیا میں اپنی خود نمائی اور قصیدہ خوانی کے سمندر میں غرق ہوجاتی ہے، اس کا مرثیہ دنیا کی دوسری قومیں پڑھتی ہیں۔ آج اگر سچر کمیٹی نے دلت طبقہ سے بھی ہمیں پسماندہ قرار دیا ہے تو وہ ایک مرثیہ ہی تو ہے۔مگر افسوس صد افسوس کہ ہم اب بھی اپنی پسماندگی کے لئے دوسروں کو قصوروار ٹھہرارہے ہیں۔ ہاں! ایک بات اور جو میں نے اس جلسہ میں کہی تھی وہ یہ کہ ہم جس ملک میں رہتے ہیں وہ ایک جمہوری ملک ہے۔ جمہوری نظام حکومت میں اعداد وشمار کو کلیدی حیثیت حاصل ہے، مثلاً اکیاون ووٹ کی بدولت کوئی سیاسی جماعت حکومت پر قابض ہوجاتی ہے جبکہ انچاس ووٹ لیکر بھی دوسری جماعت حکومت سازی کے اہل قرار نہیں پاتی۔ غرض کہ جمہوریت میں اکیاون کی حیثیت سو کی ہوتی ہے اور انچاس صفر ہوکر رہ جاتا ہے۔ ہم اور آپ اپنے آس پاس کا جائزہ لیجئے، بلدیاتی انتخاب ہو کہ اسمبلی کا انتخاب یا پھر پارلیمانی انتخاب ،، سب میں ہمارے درمیان انتشار ہی انتشار نظر آتا ہے۔ اس کی ایک زندہ مثال 2014 کا پارلیمانی انتخاب ہے کہ اتر پردیش جہاں ہماری آبادی کے تناسب میں کم سے کم ہم بیس سیٹیں جیت سکتے ہیں، وہاں ہمارا ایک بھی نمائندہ کامیاب نہیں ہوسکا۔ محض اس لئے کہ ہم سب کے سب اپنی ڈفلی آپ بجاتے رہے اور موجودہ مرکز کی بھاجپا حکومت صرف اکتیس فیصد ووٹ حاصل کر ایک ریاست اترپردیش سے بہتر سیٹ جیت کر حکومت بنانے کے قابل بن گئی۔ کچھ اسی طرح کا نظارہ بہار میں چل رہے پنچائتی انتخاب میں بھی دیکھنے کو مل رہا ہے۔

قصہ کوتاہ! دوسرا جلسہ دربھنگہ میں ڈان باسکو اسکول کے احاطہ میں الفلاح یونیورسٹی فرید آباد، ہریانہ کے زیر اہتمام مورخہ 15 مئی 2016 کو منعقد ہوا۔ یہاں بھی موضوع وہی اقلیتی تعلیمی بیداری تھا، اگرچہ یونیورسٹی کے چانسلر جواد احمد صدیقی نے اپنی یونیورسٹی کی حوصلہ بخش ترقی پر روشنی ڈالی اور اپنے یہاں مسلم طلبا کے داخلے میں خصوصی رعایت کی یقین دہانی بھی کرائی۔ ظاہر ہے کہ اس جلسے کا خاص مقصد بھی یہی تھا کہ طلبا ان کی طرف مخاطب ہوں لیکن اسی بہانے یہاں بھی مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی ہی گفتگو کا محورو مرکز رہا۔ بیشتر مقرر نے الفلاح کی کارکردگی کو اطمینان بخش قرار دیا اور دینا بھی چاہئے تھا کہ اسی مقصد سے جلسے کا اہتمام کیا گیاتھا۔ اس جلسے میں تعلیمی شعبے میں کام کرنے والی کئی شخصیات کو اعزاز بھی بخشا گیا اور اس فہرست میں اس خاکسار کو بھی شامل کیا گیا۔ اگرچہ میں نے جلسہ میں اس حقیقت کا اظہار کردیا کہ تعلیمی شعبہ میں میری کوئی نمایاں کارکردگی نہیں ہے، کیوں کہ میں اگر ایک کالج کا پرنسپل ہوں تو حکومت سے ایک بڑی تنخواہ پاتا ہوں اور میں جو کچھ تعلیمی شعبہ میں کررہا ہوں وہ میرے فرائض میں شامل ہے۔ اسی جلسے میں میں نے اس تلخ حقیقت کا بھی اظہار کیا کہ اس طرح کے سال دو سال میں تعلیمی اجلاس کا انعقاد مسلم معاشرے کو بیدار کرنے کے لئے کافی نہیں ہے، بلکہ ہمارا معاشرہ اتنی گہری نیند میں ہے کہ اسے مسلسل جھنجھوڑنے کی ضرورت ہے۔ مگر افسوس یہ ہے کہ ہمارے معاشرہ میں محرم کمیٹی، قبرستان کمیٹی اور مسجد کمیٹی کا تصور تو ہے مگر تعلیمی کمیٹی کا ذکر تک نہیں ۔ پھر جہاں کہیں قبرستان کمیٹی، محرم کمیٹی یا پھر مسجد کمیٹی ہے، وہاں بھی عہدوں کو لے کر اس طرح کی رسہ کشی رہتی ہے کہ اکثر گائوں دو حصوں میں تقسیم ہوکر رہ جاتا ہے اور بعض جگہوں پر تو ایسے تنازعات کوٹ کچہری تک پہنچ جاتے ہیں۔ 

مختصر یہ کہ آج جب دنیا مریخ کا سفر طے کرچکی ہے، ایسے وقت میں ہمارے معاشرے کی تصویر صرف اور صرف تعلیم اور وہ بھی معیاری تعلیم ہی بدل سکتی ہے جس کی مثال حالیہ دنو ں میں خطہ کشمیر کے مسلمانوں نے پیش کی ہے ۔ گزشتہ پانچ برسوں سے یو پی ایس سی اور دیگر مقابلہ جاتی امتحانات میں کشمیریوں کی خاطر خواہ کامیابی سامنے آرہی ہے۔ اس سال بھی جب یو پی ایس سی کے امتحان میں 34 مسلم طلبا کامیاب ہوئے ہیں، ان میں گیارہ کا تعلق خطہ کشمیر سے ہے۔ان کی کامیابی سے یہ عقدہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ علمی لیاقت وصلاحیت کی بنیاد پر ہم اونچے سے اونچے مدارج طے کرسکتے ہیں اور کوئی چاہ کر بھی تعصب وتحفظ کی بنیاد پر ہماری حق ماری نہیں کرسکتا ،  اس کی بہتری مثالیں ہیں ۔ جاوید عثمانی، عامر سبحانی اور شاہ فیصل جیسے افراد جنہوںنے قومی سطح پر اپنی شناخت مستحکم کی، ان کا تعلق بھی ہمارے ہی معاشرے سے ہے۔ بالخصوص آج جب پوری دنیا ایک گائوں کی صورت میں تبدیل ہوگئی ہے اور ہر شئے اپنی دائمی چمک کی بدولت بازار کو متوجہ کررہی ہے،ایسے عالمیت کے دور میں ہماری علمی استعداد وصلاحیت کو کوئی نظرانداز نہیں کرسکتا۔ اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے ذہن میں جو طرح طرح کے مفروضات قائم کرچکے ہیں اس کے حصار سے باہر نکلیں کہ بقول شاعر   ؎

کسی مشکل کا حل کیوں کر نہیں ہے 
ہماری سوچ ہی بہتر نہیں ہے

**************************************

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 547