donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Lamhaye Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Rahat Mazahri
Title :
   Nathu Ram Godse Ko Rashtra Pita Banane Ki Monazzam Sazish


ناتھورام گوڈسے کوراشٹرپتابنانے کی منظّم سازش


ڈاکٹرراحت ؔ مظاہری


اردوزبان کے مشہور ومعروف غیرمسلم ادیب آنندلہرکا نام افسانوں کی دنیامیں ایک جاناپہچانانام ہے، اس مضمون کی ابتداانھیں کے ایک چھوٹے سے افسانیـ’’بے چہرہ لوگ،،کے ایک اقتباس سے کرتاہوں،مذکورہ افسانے میں افسانہ نگار نے ایک قوم کے تاریخی سفرنامہ کاتذکرہ کیاہے،جس میں ان کے خیال کے مطابق’’ہرایک کے پاس ایک چہرہ تھا، ایک وجودتھا،اورلوگ ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش میں دوڑنے لگے تھے۔اورراستہ سے بھٹک گئے تھے،کیونکہ یہ راستہ دوڑنے کے لئے موزوں نہیں تھا،پھر چاروں طرف سے مٹی اورریت اُڑی۔جس نے انھیں اندھاکردیا،اورریت پھیپڑوں میں چلی گئی،جس کے علاج کے لئے یہ لوگ پہاڑوں پر جڑی بوٹیاںڈھونڈنے  کیلئے نکل گئے،لیکن بدقسمتی سے جنگل کوچھوڑنے والے اس میںآگ لگاکر گئے تھے۔پھربھی گردسفرنے ان کے روپ خوب بگاڑ دئے تھے۔لیکن چہرے تو وہیں پڑے تھے،،

مذکورہ افسانہ کا یہ اقتباس پڑھ کر ایک قاری کو ایسا محسوس ہوتاہے،کہ جیسے کہ مذکورہ افسانہ میںآنندلہرنے آرایس ایس اوربی جے پی کے ان بے چہرہ لیڈرران ،ممبران پارلیمنٹ اور وزیروں کی بے چہرگی کا سہرالکھ کر ان کی قلعی کھولدی ہو۔جوکہ2014کے انتخابات میں فاتح بن کر ایوان سلطنت پرقابض ہوئے ہیںکیونکہ ان کو اپنی اسی بے چہرگی کا احساس ادھرادھرہاتھ پاؤں مارنے پر مجبورکررہاہے، کہ وہ جس چہرے سے عوام کے بیچ دوران الیکشن اپنے ووٹروں کو اپنے بڑے بڑے جھوٹے موٹے وعدوں سے رجھانے میں کامیاب ہوکر پارلیمنٹ ہاؤس یا حکومت کی کرسی پر پہنچے ہوں ، ان کو دوبارہ پھر دیریاسویر انھیں عوام کے بیچ جاناہے، اگر انھوں نے اپنی چالوں سے ان کو کم ازکم زبانی جمع خرچ سے بھی بے وقوف نہیں بنایاتوکل کس منھ سے یہ ان سے دوبارہ ووٹ مانگ سکیں ؟کیونکہ اس حقیقت سے بھی یہ لوگ خوب واقف ہیں  کہ ہم میں نہ حکومت چلانے کی صلاحیت ہے اور نہ ہی ملک چلانے کی ،لیکن کم از کم لوگوںکو تو چلاہی سکتے ہیں،اسی لئے دیکھاجائے تو یہ لوگ اپنی پیش روحکومت ،یعنی سونیااورمن موہن سنگھ ہی کا تھوکاچاٹ رہے ہیں۔آج صبح مورننگ واک پر ایک دوست نے ہریانہ کے نومنتخب وزیراعلی ٰمنوہرلال کھٹّر) Manohar Lal Khattar)کی صفات کے تذکرہ میں بیان کہ انھوں نے 1980میں شادی کی مگر آرایس ایس کا پرچارک ہونے کے خیال سے بیوی کو تیاگ دیا، اس پر ایک دوست نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ جو بیچارے اپناگھر نہیں چلاسکتے وہ  دیش کوکیاچلائیں گے؟جس پر تعریف کرنے والے سجّن لاجواب ،بغلیںجھانکتے رہ گئے، حقیقت یہی ہے کہ چاہے وزیراعظم نریندرمودی ہوں یا ان کے ہم نوادوسرے فرقہ پرست لیڈر۔ یہ بیچارے ملک کو توڑ توسکتے ہیں مگر چلانایاسلامت رکھنا ان کے بس کی بات نہیں، اسی لئے نومتخب سنیٹرل حکومت ہندوستانی عوام کے حق میں ابھی تک کئی ماہ گذرنے کے بعد بھی کوئی مستحکم پالیسی بنانے  سے قاصر ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ بیان بازی سے لوگوں کی توجہ اصل مسائل سے ہٹائے رکھنے کے قائل ہیں، جیساکہ وزیراعظم کا عہدہ سنبھالنے کے بعد سے نریندرمودی مسلمانوں کے حق میں پھوٹے منھ سے عید ،رمضان کے موقعوںپر اپنے پیش رو زیراعظم گروپ کی روایت پر چل کر کوئی مبارکباد تک کا پیغام نہ دے سکے۔ مگر امریکی دورہ پر سوارہونے سے پہلے ہندوستانی مسلمانوں کو دہشت گردی سے پاکی تک کی سند دے ڈالی، اب اس کے آگے ان کی کوشش آکاش وانی،دوردرشن،ملک کی 7 ہزارسال قدیم تاریخ اور تعلیمی نصابوں کے مکمل بھگواکرن کی بھی ہے،مہاتماگاندھی کے یوم پیدائش اگرصورت حال یہی رہی تو لگتاہے کہ اب راشٹرپتاگاندھی کی جگہ ناتھورام گوڈسے کانام اور ہماری کرنسی پر اسی کی تصویر اوروہ نصابی کتابیں جن پر مہاتما گاندھی کی تحریروںکے اقتباسات نظرآتے ہیں،انکے مقام پرگوڈسے ہی کے زہربجھیشبدھہواکریں گے۔نیز ناتھورام گوڈسے کوراشٹرپتابنانے کی منظّم سازش اس سال 2اکتوبرکو ان کی یادمیں منظور قومی چھٹی میں کٹوتی سے صفائی مہم کے نام پر شروع ہوچکی ہے۔نیزایک نئی بحث کہ گوڈسے نے گاندھی جی کواپنی گولی نشانہ غلط بنایا،گاندھی کے بجائے نہرونشانہ بننے چاہیئے تھے،گوڈ سے نہروسے بہترتھاکیونکہ اس نے گاندھی کوسامنے سے گولی ماری اورسجدہ بھی کیا،مگرنہرونے پیچھے سے چھراگھونپا،جیسے زہریلے بیانات کامقصد ناتھورام گوڈسے کا قدبڑھانااورگاندھی ونہروکی رسوائی جس کا محرک کیرل اسٹیٹ کا ایک بی جے پی ممبر پارلیمنٹ بننے کاامیدوارگوپالہ کرشن بتایاجاتاہے، گویاکہ اس طرح ناتھورام گوڈسے کوراشٹرپتابنانے کی پوری پوری منظّم سازش رچی جارہیہے۔ذراع ابلاغ پر سنگھ کے نظریات کی نشرآرایس ایس سربراہ موہن بھاگوت کی تقریر سے ہوچکی ہے ،بات رہی آکاش وانی کی تو اردواسٹاف کے ریٹائرمینٹ کے بعد وہاں آگے اردوداں لوگوں کی بھرتی کا دروازہ بندہونا اس بات کی کھلی تصدیق ہے کہ ان اداروں پر زعفرانی تسلط ہوچکاہے،یعنی جس کی بنیاد ان سے پہلے اٹل بہاری حکومت کے دورمیں ڈاکٹرمرلی منوہر جوشی ڈال چکے ہیں ،موجودہ حکومت کاہدف بھی ان کے نقش قدم پر چل کے ان کے ادھورے اور معلق عزائم کو تکمیل تک پہچاناہے، جسکے لئے سب سے پہلے تعلیمی نصاب اورہندوستانی قدیم تاریخ کے صفحات پر بھگواکرن  کے لئے اس پر زعفرانی رنگ میں رنگنا لازمی ہے، جس کا آغاز ہوبھی ہوچکاہے۔جیساکہ مبصرین کی رائے ہے کہ’’ بھارت کی پراچین کتھاؤںاورروایات پرتاریخی سچائی کی مہرمٹاکر اس کی جگہ ہندوستان کی نئی تاریخ ترتیب دی جارہی ہے،جس کے لئے ملک کے بڑے بڑے تعلیمی مشہور اداروں سے چھانٹ چھانٹ کر فرقہ پرست ہندو دانشوراورپروفیسروں پر مشتمل تقریباََ ایک سو سے بھی زائد افراد کی ایک ٹیم تشکیل دیدی گئی ہے،اوریہ ساراکام سرکاری خرچہ پر منسٹری کے حوالہ سے کیا جارہاہے جیساکہ کہاوت ہے کہ’ خرچہ کسی کا چرچاکسی کا،ذرائع ابلاغ کی رپورٹوں کے مطابق  پروفیسروں کی ذمہ داری آنے والے اگلے دس برسوں میں اپنے زعم کے مطابق جیساکہ مودی نے عوام سے کم ازکم دس سا ل کاوقفہ مانگابھی تھا ،اس مدت کے اندر قدیم تاریخ کوتہس نہس اورحقائق سے چھیڑچھاڑ کرکے اصل تاریخ کی صورت اس طرح مسخ کردیناہے ،جیساکہ آنند لہر نے اپنے افسانہ،بے چہرہ لوگ،میں خاکہ کھینچاہے،تاریخی حوالوںمیں بھی بطورخاص ہندوستان میں محمدبن قاسم کی آمدکومزید متنازع فیہ بناکر پیش کرنا ،جس سے کہ یہاں کے ہندومسلم فرقوں کے بیچ مزیددراڑ اوردوریاں بڑھیں۔اسی طرح گجرات میں موجود سومناتھ مند کوصلاح الدین ایوبی کے ہتھوڑوں کی گونج کامرکز بناکر پیش کرنا۔اورمندرکے خزانوں کو لوٹنے کے دل آزارافسانہ کو مزیدمؤثربناکر پیش کرنا،نیز ہندوستان کی وہ ریاستیں جہاں کا ہندوزیادہ حسّاس ، مجلد مشتعل ،جیساگجرات، مدھیہ پردیش،تامل ناڈ،مہاراشٹر،راجستھان وغیرہ،کے اسکولی کورس میں نمایاں ترمیم و تبدیلیاں لانا، جس سے کہ وہاں کی نئی نسلیں مسلمانوں سے اپنی دوری بنائے رکھنے ہی کو اپن ایمان دھرم خیال کریں،اورظاہر ہے کہ بچہ کا دل دماغ ایک کوراکاغذ ہوتاہے اس پر آپ جوبھی تصویر پہلے اتار دیں گے آخر تک اس کا نقش دیرپاثابت ہوگا۔غورکیجئے جب معصوم ہندوبچوں کو یہ پڑھایا جائیگا کہ ہندوستان ،ہماراہندوؤں کا ملک ہے ،یہ ہندوراشٹ ہے، اس پر مسلمان اورعیسائیوں نے وقتاََ فوقتاََ قبضہ کیا، اس کو لوٹا، توان کے دل میں عیسائی اورمسلموں سے نفرت پیداہونا  فطری بات ہے، یہی وہ راز ہے جس پر چل کر پارٹی آج سینٹر کی لگام اپنے ہاتھ میں تھامے ہوئے ہے،مسلم حکمراں ، محمدبن قاسم، صلاح الدین ایوبی، مغل بادشاہ بابر،بطورخاصمفروضہ کہانی ایودھیامیں رام مندرکو ڈھاکر بابر کے منشی میر باقی نے یہاں بابری مسجد تعمیر کرادی،اسی طرح متھراکی عید گاہ ،بنارس کی گیان واپی مسجد، سنبھل کی جامع مسجد،اوراب دہلی کی جامع مسجد کا نام بھی اس فرضی لسٹ میں شامل کردیاگیاہے، نیزیہاں کے لوگوں کواپنامحکوم بناکر ان کواپناداسی رکھا، توکونسا صاف ذہن انسان ہے جس کاخون ان چڑانے والی من گھڑت اوراساطیری کہانیوں کو سن کر جوش نہ مارنے لگے؟ذرائع کے مطابق اس مشن کی باگ ڈور فروغ انسانی ،ووسائل کی وزیر شریمتی سمرتی ایرانی کوسونپ دی گئی ہے جیساکہ ان  سے پہلے یہ کام اس منسٹری کے ذمہ داررہے ڈاکٹر مرلی منوہرجوشی کے سپردتھا،یعنی تعلیمی وتاریخی اصلاحات کے نام پرایرانی کی قیادت میں آرایس ایس نظریات کے فروغ کیلئے تعلیمی کمیٹیوں کی تشکیل،نیز تعلیمی کیمٹی کے فعّال ممبرآرایس ایس کے منظورنظر شری دیناناتھ مشراکی ڈیوٹی ہے کہ وہ اس کام کو  سنگھ کے ایجنڈے کے مطابق انجام دیں۔فی الحال مشراکو 670اضلاع میں ہندوراشٹ کی جڑیں تلاش کرنی ہیں کہ ان اضلاع میں ہندوکتھاؤں اوردیومالائی کہانیوں کی بنیاد پراپنی اسٹامپ لگاکر یہ سدھ کرنا ہے کہ یہاں ہندوستانی سانسکرتی اور کلچرہے، نیز اس کیلئے ہندودھرم کی فرضی داستانوں کویہاں کی ثقافت کا لبادہ پہناکر پیش کرنے کا عزم ہے،جس کے تحت8ہزارکتابوں کو ریاست گجرات کے 42ہزارتعلیمی اداروں میں تقسیم کیاجائے گا۔اورصرف اتناہی نہیں بلکہ بی جے پی کی جانب سے 2014کے الیکشن کی طرح میڈیااورذرائع ابلاغ ۔ ٹی وی چینلوں پر موٹی رقم خرچ کرکے اس کی بڑے پیمانے پر تشہیر کراجائے گی،جس سے کہ پارٹی اورسنگھ کے عزائم کی بیل مینڈھے چڑھ سکے۔نیز ستم بالائے ستم یہ بھی کہا جاسکتاہے کہ جس کو اعتراض ہو وہ یہاں سے کہیں اورچلاجائے، بھارت کی دھرتی پر اس کیلئے کوئی استھان نہیں۔لیکن تاریخ شاہد ہے کہ آسمان کاتھوکا ہمیشہ منھ پر ہی آتاہے لہٰذا وہ اسکیم اور عزائم تو بنالیں ان کے لئے یہ سنہری موقع ہے مگر ہندوستان کی دھرتی اس بات کی گواہ ہے کہ یہاں جب بھی کسی نے اس طرح کے ناپاک عزائم اورخود سری چلانے کی کوشش کی ہے وہ فوج ابرہہ کی طرح خود ہی ذلیل وخوار ہواہے، بقول مولاناظفراحمدخان مرحوم مدیر’ زمیندار،   ؎ نورخداہے کفرکی حرکت پہ خندہ زن٭پھونکوں سے یہ چراغ بجھایانہ جائے گا۔


09891562002-

Email Id:rahatmazahiri@gmail.com


مضمون نگارمولاناآزادایجوکیشنل اینڈمیڈیکل آرگنائزیشن(رجسٹرڈ)دہلی کے جنرل سکریٹری ہیں۔


**************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 547