donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Lamhaye Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Taslim Ahmad Rahmani
Title :
   Kya Ham Ahle Islam Nahi Ban Sakte Hain


کیاہم اہل اسلام نہیں بن سکتے

 

از: ڈاکٹر تسلیم احمد رحمانی

 

وطن عزیز ان دنوں انتہائی دیگر گوں حالات سے گذر رہا ہے ہر چہار سو افرا تفری کا عالم ہے لوگوں کی جان ومال عزت و آبرو محفوظ نہیں ہے ۔ گھروں تک میں گھس کر بے قابو ہجوم عقیدے اور آستھا کے تحفظ کے نام پر قتل عام بپا کئے ہوئے ہیں۔ دلتوں مسلمانوں اور پسماندہ طبقات نیز آدیواسیوں کا جینا دوبھر ہوچکا ہے مہنگائی اپنے عروج پر ہے آلو ،پیاز اور دالیں تک آسمان چھو رہی ہیں قانون کی عمل داری مشکوک اور جانبدارانہ ہے ،پارلیمنٹ کا احترام کم ہوتا جا رہا ہے پچھلے ایک مہینے میں خود صدر جمہوریہ ہند کی جانب سے امن وامان کی تلقین اور قانون کا احترام کرنے کی کی یاد دہانی کے باوجود خود حکمراں جماعت کے اراکین اور لیڈران قانون کی دھجیاں بکھیر کے نفرت انگیز بیانات کے ذریعے ملک کو فرقہ وارانہ خطوط پر دھکیل رہے ہیں ۔ مذہبی جنون کے سہارے دیگر مذاہب کی بے حرمتی کی جارہی ہے اور ہر اس آواز کو کچلنے کی کوشش کی جارہی ہے جو امن وامان صلح وآشتی اور قانون کی بالا دستی کے حق میں بلند ہو رہی ہے ہر شریف النفس شہری تنقید بے جا کا شکار بنا دیا گیا ہے ہر جانب خوف اور غیر یقینی کی صو رت حال بپا ہے ۔ یہ کہنا شاید غلط نہ ہو کہ آزادی کے بعد ملک اس سے بد تر حالات سے کبھی دو چار نہیں ہوا تھا حتیٰ کہ ایمرجنسی کے سیاہ دور میں بھی عوام الناس اس قدر خوف ودہشت کے سایے میں نہیں جی رہی تھے ۔

ان حالات کا براہ راست نشانہ ملک کی سب سے بڑی ا قلیت مسلمان ہیں اور اس کے بعد دلت ،آدیواسی اور پسماندہ طبقات کے لوگ ہیں ۔ یہ بات حکمراں جماعت اور اس کی سرپرست آر ایس ایس اور دیگر ذیلی تنظیموں کی جانب سے کھل کر کہی جا رہی ہے کہ 800سال کے بعد ملک میں ہندوو

¿ں کی حکومت قائم ہوئی ہے حالانکہ ملک ایک سیکولر اور جمہوری دستوری نظام کے تحت چلتا ہے اور اس نظام کے تحت کسی مذہبی طبقے کو حکمرانی کی اجازت نہیں ہے خود بی جے پی بھی مذہب کے نام پر اقتدار میں نہیں آئی ہے بلکہ اس کے وزیر اعظم نریندر مودی اور دیگر تمام لیڈران نے دوران انتخابات 125کروڑ ہندوستانیوں کو ایک ساتھ لیکر چلنے کا وعدہ کیا تھا اور نوجوانوں سے ترقی، بہبود ،روزگار اور کالے دھن کو 100دن میں واپس لانے کے وعدے پر ووٹ حاصل کئے تھے ۔ اس انتخابی مہم کے دوران حکمراں جماعت نے کبھی ایک مرتبہ بھی ہندو راشٹر کے قیام کی بات نہیں کی لیکن حکومت قائم کرتے ہی حکمراں ٹولے کی ذیلی تنظیموں نے ہندو راشٹر کا راگ الاپنا شروع کردیا ، اچانک فسادات کا سلسلہ شروع ہوا اور دبے کچلے لوگوں کو ان کے گھروں سے دربدر کیا جانے لگا اور پھر کبھی ”لو جہاد “کے نام پر کبھی ”گائے “ کے نام پر کبھی ”یکساں سول کوڈ “ کے نام پر مسلمانوں کو خاص طورپرٹارگیٹ کر کے ہراساں کیے جانے کا سلسلہ شروع ہو گیا جو تا حال جاری ہے ۔ اس بڑھتے ہوئے سلسلے نے ملک کے تمام انصاف پسند سیکولر اور جمہوری اقدار میں یقین رکھنے والے افراد تنظیموں اور جماعتوں کو بے چین کردیا احتجاج کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے مگر ابھی تک مو ¿ثر نہیں ہے ۔ بڑے سے بڑے گھناو ¿نے جرائم پر بھی وزیر اعظم خاموش رہتے ہیں اور آر ایس ایس ان کو حق بجانب ٹھہراتا ہے حتیٰ کہ بہار انتخاب کے موقع پر تو خود وزیر اعظم نے انتخابی ریلی میں ریزرویشن کے نام پر عوام کو گمراہ کرتے ہوئے مسلمانوں اور دلتوں کے مابین تفریق پیدا کرنے والی گفتگو کی ، خود بی جے پی کے صدر نے بھی پاکستان میں پٹاخے چھوڑے جانے کے نام پر یہ تا ¿ثر دینے کی کوشش کی کہ گویا حکمراں جماعت ہی وہ جماعت ہے کہ جسے ووٹ نہ دیا گیا تو گویا ملک کی داخلی سلامتی خطرے میں پڑ جائے گی اور دیگر تمام جماعتیں اس خطرے کو روکنے سے قاصر ہیں یعنی فسطائیت اپنے مہیب روپ میں سامنے آکھڑی ہوئی ہے ۔ ان حالات میں عام طورپر یہ محسوس کیا جارہا ہے کہ مسلمانوں سب سے زیادہ خوف و ہراس کا شکار ہیں نشانہ بھی در اصل وہی ہے مسلمانوں کو یہ محسوس ہو رہا ہے کہ غالباً ملک میں سیکولرز م دم بھرنے والی تمام سیاسی جماعتیں بھی ہوس اقتدار میں اسی فسطائی حکمراں طبقے سے درون خانہ ساز باز کئے ہوئے ہیں اور ملک میں مسلمان تقریباً تنہا رہ گئے ہیں ان حالات کا شاخسانہ ہے کہ خود مسلم تنظیمیں بھی ان معاملا ت سے نبرد آزمائی کے لئے بہت کوشاں دکھائی نہیں دیتی،حالات کا مقابلہ کرنے کی جدو جہد اورتحریک بپا کرنے کی ہمت بھی مفقود دکھائی دیتی ہے اکثر بڑی تنظیمیں مصلحت کی چادر تان کر سو چکی ہیں حد تو یہ ہے کہ کوئی ساتھ بیٹھ کر مشورہ کرنے کو بھی آمادہ دکھائی نہیں دیتا خوف کا یہ عالم ہے کہ گویا سوچ بھی معدوم ہو چکی ہو ۔ ادھر عالمی حالات بھی مسلمانوں کے حق میں نامساعد ہی محسوس ہو تے ہیں اکثر مسلم ممالک کسی نہ کسی عنوان سے جنگ وجدل ، بد امنی،دہشت گردی کا شکار ہیں ۔ ملکوں کے ملک تباہ کر دیئے جا رہے ہیں بڑے بڑے تاریخی شہر صفحہ ہستی سے مٹا دیئے گئے ہیں کروڑوں مسلمان کیمپوں میں پناہ گزیں کی حیثیت سے رہنے پر مجبور کر دیئے گئے ہیں مہذب شہری پناہ گزیں بن چکے ہیں اور حالات ہے کہ بدلنے کا نام ہی نہیں لیتے امید کی کوئی صورت عہد برائی کی کوئی تدبیر بظاہر دکھائی نہیں دیتی۔ 55ممالک کے مسلم حکمراں آپسی سازشوں میں مصروف اور اپنے اپنے اقتدار کو بچانے کی کاوش میں اپنے شہریوں پر خود ہی ظلم کر رہے ہیں اسلام کا نام لینا جرم بن چکا ہے مسلمان ہونا غیر انسان ہونے کے مترادف ہو تا جا رہا ہے اور یہ حال اس امت کا ہے جو ابھی 90سال پہلے تک مشرق ومغرب کی حکمراں تھی یہ وہ حالات ہیں جن پر سنجیدہ غورو فکر کی ضرور ت ہے ان کے اسباب تلاش کرنے اور ان کے تدارک کی تدبیریں ملکی سطح پر بھی اور عالمی سطح پر بھی تلا ش کرنی ہو گی۔ مسلمانوں کو سراسیمگی اور ہراس و احساس سے محرومی کے قعرمذلت سے باہر نکل کر اسلام کے دائرے میں احساس یافت کے ساتھ اپنے معاملات کا محاسبہ کرنا ہوگا۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ دنیا بھر میں مسلمانوں نے اسلامی تشخص پر تو بہت زور دیا مگر اسلامی اخلاقیات اور دستور سے دست برداری کا اظہار کیا ۔ ہم نے اسلام کے مقابلے ان تحریکوں اور تنظیموں کو اہمیت دی اور قبول کیا کہ جو نظریاتی طورپر اسلام دشمن تھے اور یہ اسلام دشمن نظریات ہماری رگ وپئے میں اس طرح سرایت کر گئے کہ اب ہمیں محسو س ہونے لگا کہ گویا یہی نظریات صحیح ہیں اور ان کے مقابل اسلام کے پاس کوئی نظریہ موجود نہیں ہے مثلاً عصر حاضر میں حکمرانی کے سلسلے میں دو اصطلاحیں عام طورپر استعمال کی جاتیں ہیں ایک سیکولرزم اور دوسری جمہوریت ہم کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ نظریات بس کارمارکس اور لینن وغیرہ ہی دے سکتے تھے اور یہی نجات دہندہ ہیں اور اسلام کا دامن ان نظریات سے خالی ہیں ۔ ہم یہ بھول گئے ہیں کہ قرآن نے لکم دینکم ولی دین اور لا اکراہا فی الدین کہہ کر دراصل ایک سیکولر نظرے کی ہی داغ بیل ڈالی تھی کہ جو تمام انسانو ں کو حکمرانی میں برابری کا درجہ دیتا ہے اسی طرح شوریٰ بینکم کہہ کر جمہوری نظریے کو فروغ دینے کا کام ارسطو سے زیادہ بہتر انداز میں اسلام نے کیا ،لیکن اب جب ہم ان سماجی ،سیاسی اور معاشرتی ،عمرانی اصطلاحوں میں بات کرتے ہیں تو یکسر اسلامی تعلیمات کو دقیانوسی اور ناقابل عمل تصور کر لیتے ہیں یہ وہ نفسیات ہیں جو ہمیں احساس محرومی کا شکار کرکے معذرت خواہانہ ،نادمانہ ،مدافعانہ،رویہ اختیار کرکے دیوار کی طرف دھکیل دیتی ہے اور پھر ہم اقوام عالم کے دسترخوان پہ رکھا ہوا وہ لقمہ ¿تر بن جاتے ہیں کہ دنیا کی ہر قوم ہم کو چٹ کرجانے کے فراق میں پڑجاتی ہے۔ آثار و قرائن اس بات کی شاہد ہیں کہ اب ہمارے مسائل کا حال عصر حاضر کی ان اصطلاحوں اور طرز حکومت کے دامن میں موجود نہیں ہے۔ کیونکہ وقت نے بتدریج یہ ثابت کر دیا کہ موجود ہ نظام حکومت دیکھنے میں چاہے جتنا منصفانہ اور حقوق انسانی پر مشتمل محسوس ہوتا ہو لیکن در حقیقت یہ نظام چند لالچی ،ظالم اور اسلام دشمن طاقتوں کی منفعت کی خاطر ہی کام کرتاہے ۔ مثلاً جمہوریت کو اس زمانے کا بہترین نظام حکومت کہا جاتاہے لیکن انہی جمہوری طریقوں سے اگر حماس جیسی اسلام پسند تنظیم حکومت سازی کی پوزیشن میں آجائے تو اسی نظام کے ٹھیکیدار اسے تسلیم نہیں کرتے اسی طرح مصر اگر اخوان المسلمین جیسی کوئی اسلام پسند تنظیم جو جمہوریت اور سیکولرزم کے حامی ان استعماری قوتوں کو سخت ناپسند ہے تو وہ اس جمہوریت کو بھی خارج کر دیتی ہے اور یہی استعماری قوتیں جو جمہوریت بپا کرنے کے بہانے دوسر ے ممالک پر فوج کشی کرکے قبضے کر لیتی ہیں وہ جب اپنے مفادات پیش نظر ہوںتو کسی بھی شاہی نظام تک کو نہ صرف قبول کر لیتی ہیں بلکہ ان کے معاونت بھی کر تے ہیں۔ چنانچہ ثابت ہوا کہ دراصل جمہوریت پیش نظر نہیں ہے بلکہ طاقت کا سرچشمہ بن جانے کی ہوس پیش نظر ہے ۔ جب کہ اسلام شوریٰ بینکم کی بات کرتا ہے تو ہر ایک کے لئے یہ اصول یکساں نافذ العمل ہوتا ہے۔ یہ وہ حالات ہیں جن میں مسلمانوں کیلئے یہ ضروری ہو جاتا ہے کہ وہ اپنی جڑوں کی طرف رجوع کریںاور موجودہ طرز حکومت کے دام فریب سے باہر نکلیں۔ اقلیت اور اکثریت کا تصور بھی دراصل اسی استعماری نظام کی دین ہے جب تک مسلمان یہ سوچتے رہیں گے کہ وہ اقلیت کی حیثیت سے حکمرانی کا حصہ کبھی نہیں بن سکتے تب تک وہ اپنے جائز حقوق ،عزت نفس اور تشخص اسلامی حاصل نہیں کر سکتے ۔ مسلمانوں کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اسلام کی آمد سے لیکر ابھی 1924تک وہ خود یوروپ وایشیاءوافریقہ جیسے براعظموں کے حاکم تھے ساڑھے 13سو سال کی اس حکمرانی میں وہ ہمیشہ اقلیت میں ہی رہے مگر ان کا تعداد کے اعتبار سے اقلیت میں ہونا کبھی ان کی حکمرانی کے آڑے نہیں آیا بلکہ اسلامی طرز حکومت کی انصاف پسندی خدا ترسی ،عوامی بہبود ،انسانی اقدار کا تحفظ اور مزدوروں و کسانوں کے حق کو ان کا پسینہ سوکھنے سے پہلے ادا کردینے جیسے اصول و ضوابط کی طاقت سے مسلمان حکمراں رہے۔یہ جس طرح ایک صدی پہلے ممکن تھا اسی طرح آج بھی ممکن ہے بشرطیکہ مسلمان اسلام کی رسّی کو مضبوطی سے تھام لیں اور ایک ایک اصول ایک ایک ضابطے اور ایک ایک حکم پر سر تسلیم خم کرتے ہوئے عمل پیرا ہو جائے یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالی نے اہل اسلام کو امت وسط یعنی حکمراں بنا کر ہی پیدا کیا ہے مسلمان محکوم بن کر بہت دن نہیں رہ سکتا اور دنیا بھی اسلام کے سایہ عاطفت سے باہر رہ کبھی پر سکون نہیں رہ سکتی گذشتہ 90سال کے واقعات ا س بات کے گو اہ ہیں کہ انسانیت کو جتنا اس عرصہ میں شرمسار کیا گیا مسلمانوں کے زمانے میں نہیں کیا جاسکا۔ لیکن حکمرانی اسی وقت ممکن ہے جب مسلمان خود اسلام کے دائرے میں خود کو محفوظ تسلیم کرے۔کیونکہ اللہ کا وعدہ مشروط ہے کہ بے شک تم ہی غالب رہو گے اگر تم ایمان والے ہو۔ چنانچہ بے ایمان ۔ اللہ سے بے خوف ۔ معاملات کے خرابی سے بے پرواہ اور صرف اتنا اسلام ماننے والے مسلمان کے جتنا ان کے اپنے مفاد میں ہو ان مسلمانوں سے اللہ نے نہ صرف یہ کہ حکمرانی کا وعدہ نہیں کیا بلکہ ان کو یہ بھی بتا دیا اگر تم ظالم ہو جاؤ گے تو تم پر تم سے بھی زیادہ ظالم مسلط کر دیئے جائیںگے۔فی زمانہ اللہ کی ان تمام وعدوں ،ترغیبوں اور تر ہیبوں کا کھلی آنکھوں سے واضح نظارہ کیا جاسکتاہے۔ مسلمان تعداد میں چاہے جتنے بڑھ جائیں اگر وہ اسلام کے سایے میں نہ آئے تو کبھی نجات پاسکتے اور تعداد میں چاہے جتنے کم ہوجا ئیں لیکن اگر اہل ایمان اور اسلام بن گئے تو اللہ کا وعدہ سچا ہے وہی حکمراں ہو کر رہیں گے اور دنیا کی تمام طاقتیں ان کے سامنے ماضی کی طرح پھر سر نگوں ہوں جائیں گی اور انسانیت دامن اسلام میں ایک بار پھر نجات پا لے گی۔

(مضمون نگار مسلم پولیٹیکل کونسل کے صدر ہیں)

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 693