donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Lamhaye Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Firoz Hashmi
Title :
   Mera Naam Urdu Hai

 

میرا نام اردو ہے
 
فیروز ہاشم
 
            روزنامہ انقلاب دہلی ایڈیشن 23دسمبر2012کے شمارہ میں صفحہ 4پر شائع شدہ رپورٹ کے حوالے سے چند باتیں عرض کرنا ناگزیر ہے۔ممکن ہو کہ آپ کو یہ جان کر اچنبھا بھی ہو۔
 
            رپورٹر نے بہت صحیح رپورٹ دی ہے اور آپ نے بھی صحیح تجزیہ کیا ہے۔ ”کوئی خان صاحب یا صدیقی صاحب“ کو مسلمان ہونے کے سبب اردو داں تسلیم کر لیا جاتا ہے۔ اور وہی لوگ یہ کام کرواتے ہیں۔ میں نے جہاں تک اس طرح کے بورڈوں اور بینروں کا تجزیہ کیا ہے تو معلوم یہ ہوا کہ ”کوئی خان صاحب یا صدیقی صاحب“ کی طرح کے کسی ناعاقبت اندیش نے ہندی زبان یا ہندی لیپی سے ارددو زبان یا لیپی میں بدلنے کا ایک Converterتیار کیا ہے۔جو اردو کے تقریباً اسی فیصد الفاظ و حروف کو ہندی میں کنورٹ کرتا ہے اور ہندی کے الفاظ و حروف صرف پچاس فیصد کنورٹ کرتا ہے۔ حالاں کہ Converter بنانے والے صاحب کا دعویٰ ہے کہ یہ ننانوے (99)فیصد الفاظ و حروف کو صحیح طریقے سے بدل دیتا ہے۔ جب کہ ایسا ہر گز نہیں ہے اور ثبوت آپ کے سامنے ہے۔ مزید ثبوت کے لئے آپ مسلم علاقوں کے بینکوں اور دیگر سرکاری دفتروں کا دورہ کریں آپ کو وہاں لکھی ہدایات بھی اردو میں ایسے ہی ملیں گی۔ ہمارے علاقے میں ایک سنڈی کیٹ بینک کا برانچ کھلا ہے۔ آپ اپنے نمائندے یا فوٹوگرافر کو بھیجیں اور صورتِ حال حاصل کرلیں۔
 
            جب سے ان پیج کا چلن عام ہوا ہے اور یہ معلوم ہوا کہ فونٹ پاکستان میں اور سافٹ ویئر ہندوستان میں بنا ہے تب سے ہندو پاک کے ہر اردو والے کے گھر میں ایک ڈیولپر اور ڈیزائنر پیدا ہو گیا ہے۔ اکثر راہ چلتے دعوے داری کر رہے ہیں کہ ”یہ کوئی بڑا کام ہے! یہ کوئی بھی گھر بیٹھے کر سکتا ہے؟“ ایسی ہی دعویداری پنے کے ایک ریٹائرڈ پروفیسر صاحب کا ہے۔ جب میں نے اُن کے منہ پر جواب دے دیا تو آئیں 
بائیں شائیں۔ اُن کا دعویٰ ہے کہ اردو کا پہلا سافٹو یئر انہوں نے سی ڈیک کی مدد سے بنایا ہے اور وہ ہے”ناشر“۔اگر آپ نے بنایا ہے تو لائیں دنیا کے سامنے پیش کریں۔ اردو کا کچھ بھلا کریں۔ اور جو بھی مکالمہ پروفیسر صاحب کے ساتھ ہوا وہ میں ایک مضمون میں لکھ چکا ہوں۔ حد یہ کہ چند ”کوئی خان صاحب یا صدیقی صاحب“ نے مل کرموجودہ ان پیج کو بھی نزع کی حالت میں پہنچا دیا ہے۔ گزشتہ پانچ سالوں سے کوئی نیا کام دکھائی نہیں دیا۔ جو غلطیاں پہلے کے ورزن میں تھیں وہ بھی ابھی تک درست نہیں کی گئیں۔ انٹرنیٹ پر آنے والے مضامین میں سے کوئی مضمون ایسا نہیں ہوتا جس میں دس سے کم غلطیاں ہوں۔ دہلی سے شائع ہونے والے ایک دو ہی اخبار اس کا املااور ہجے درست کرکے شائع کرتے ہیں ورنہ بقیہ اخبار والے کو تو بغیر محنت کے مواد دستیاب ہے، آپریٹر اٹھاکر چپکا دیتا ہے۔ کیا ضرورت پڑی اسے درست کرنے کی؟
 
            ابھی تو آپ نے نیم پلیٹ کو نمونہ بنایا ہے اُس دن کو سوچئے جب بچوں کا املا اور زبان دونوں بگڑ جائیں گے اور کیوں نہیں بگڑیں گے جب بچوں کی کتابوں میں غلطیاں ہوں گی تو اُنہیں کے سہارے تو زبان اور کلچر کو سیکھ رہے نا! بہت نمونے ہیں میرے پاس۔ املا اور الفاظ کو کنورٹ کرنے کا کام میرے پاس سب سے پہلے ہندسماچارسے 1997میں آیا تھا۔ میں نے تجزیہ کرکے اسی فیصد (%80) تک کی گنجائش بتایا تو اُنہوں نے کہا کہ ”نہیں ....ہم کمپوز کرلیں گے“۔ لیکن جب نوجوان نسل پر پیسے کمانے کا بھوت سوار تو زبان کون دیکھتا ہے؟ ہر سال سینکڑوں اردو کے ڈاکٹر پیدا ہو رہے ہیں کیا سب کے املا درست ہیں؟ جو ڈاکٹر یا پروفیسر حضرات ابھی ہونے والی غلطیوں کو معمولی بتا رہے ہیں، چند ہی سالوں کے بعد اردو زبان و کلچر کو مزید بری حالت میں پہنچا دیں گے۔ میں نے سیمیناروں اور کانفرسوں میں ہونے والی تقریروں اور مقالوں سے بہت سے نمونے جمع کئے ہیں۔ یہ ان لوگوں کی غلطیاں ہیں جو اردو کے بڑے بڑے عہدوں پر متمکن ہیں۔
 
            نوٹ: مزید وضاحت کے لئے نیچے دیئے گئے مضمون کو بھی پڑھئے ۔شاید کسی طرح ا ردو کی حالت میں بہتری آئے۔
********************
Comments


Login

You are Visitor Number : 826