donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Lamhaye Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Hindustan Me Musalman Hone Ka Matlab


ہندوستان میں مسلمان ہونے کا مطلب؟


اسے مسلمان ہونے کی سزا میں ۸ سال جیل میں بتانے پڑے


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی


    یعقوب(۳۶سال ) اب جیل سے باہر آچکا ہے مگر کسی کے پاس اس سوال کا جواب نہیں کہ اس نے اپنی زندگی کے جو قیمتی شب وروز جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزارے ہیں ان کی قیمت کون ادا کرے گا؟ اس کے والد نے اُس تھوڑی بہت جائیداد کو بھی بیچ ڈالا جو، ان کی کمائی ہوئی نہیںتھی بلکہ خاندانی تھی۔ انھیں یقین تھا کہ ان کا بیٹا ضرور واپس آئے گا کیونکہ وہ بے قصور ہے، وہ آتنک وادی نہیں، اس کا دہشت گردی سے کوئی لینا دینا نہیں۔ وہ زمین جائیداد بیچ کر بیٹے کی رہائی کی کوششیں کرتے رہے اور آہوں سسکیوں کے ساتھ اللہ سے دعا کرتے رہے۔ آخر ان کی دعائیں قبول ہوئیں اور بیٹا جیل سے باہر آگیا۔ یعقوب کی بیوی نے آہوں اور سسکیوں میں ۸سال گذار دیئے اور اس کی بچی مایوسی ومحرومی کی حالت میں اب سات برس سے زیادہ کی ہوچکی ہے۔ یعقوب کی گرفتاری کے وقت اس کی بیوی حاملہ تھی جس نے کچھ مہینے بعد بیٹی کو جنم دیا جس کا نام منتشا رکھا گیا تھا ۔ اس معصوم نے ہوش سنبھا تو اپنے باپ کو جیل میں پایا۔ وہ اپنی ماں سے پوچھتی رہی کہ میرے پاپا کہاں ہیں؟ تمام بچوں کے پاپا مٹھائیاں لاتے ہیں میرے پاپا کیوں نہیں لاتے؟ مگر ماں کے پاس ان سوالوں کا آنسووں کے سوا کوئی جواب نہیں تھا۔بیٹا تب محض پانچ سال کا تھا مگر اب ۱۳سال کا ہوچکا ہے۔حالات کی سنگدلی نے اسے وقت سے پہلے سنجدیدہ بنا دیا ہے۔آج ایک بار پھر سب کے چہرے مسکان لوٹ آئی ہے۔ وہ لوگ اپنے ماضی کو بھول کر نئے سرے سے زندگی شروع کرنا چاہتے ہیں مگر گزشتہ ۸برسوں کی خوفناک یادیں اب بھی ان کا پیچھا چھوڑنے کو تیار نہیں ہیں۔ یہ داستان صرف یعقوب کی نہیں ہے بلکہ شیخ جلال الدین اور نوشاد کی بھی ہے۔ یعقوب اورنوشاد توبجنور کے رہنے والے ہیں مگر شیخ جلال الدین مغربی بنگال کا باشندہ ہے۔تینوں ہی غریب خاندانوں سے تعلق رکھنے والے ہیں اور سرکاری دہشت گردی کا شکار ہوئے ہیں۔ انھوں نے پولس کی حیوانیت کا شیطانی روپ دیکھا ہے۔ یعقوب اپنے گھر سے دودھ لینے نکلا تھا اور پھر گھر نہیں لوٹا۔ گھر والوں نے اس کی تلاش شروع کی اور جب کہیں نہیں ملا تو پولس میں شکایت درج کرائی مگر اس کے باجود پولس نے انھیں کوئی اطلاع نہیں دی۔ چند دن بعد اخباروں میں خبر آئی کہ اسے ایس ٹی ایف نے لکھنو میں دھماکہ خیز مادوں کے ساتھ گرفتار کرلیا ہے۔گھر والوں کو اخبارات اور ٹی وی چینلوں سے پتہ چلا کہ وہ ایک خطرناک دہشت گرد ہے جو کسی مہم کو انجام دینا چاہتا تھا اور لوگوں کی جان لینا چاہتا تھا مگر اس کے گھر والوں کو یقین نہیں آیا کہ وہ دیندار اور ذمہ دار نوجوان دہشت گرد ہوسکتا ہے۔ انھوں نے اسے آزمائش کی گھڑی سمجھا، جب احباب، رشتہ دار اور پڑوسی بھی دوریاں بنانے لگے۔ آس پاس کے لوگ انھیں شک کی نظر سے دیکھنے لگے۔ان کا اعتماد غلط نہیں نکلا اسے عدالت نے بھی بے قصور مانا اور پولس کی کہانی کو غلط ٹھہرایا مگر اس میں ۸ برس کی طویل اور صبر آزما مدت لگ گئی۔ایسی ہی قیامت ان بدنصیبوں پر بھی گزری جنھیں پولس نے اس کیس میں ملزم بنایا تھا۔ان کے گھر بھی برباد ہوئے۔ ان کی بھی بدنامیاں ہوئیں اور انھوں نے بھی ایک طویل عرصہ جیل میں گزارا۔ آج کوئی نہیں جو ،ان کے آنسووں کا حساب دے! کوئی نہیں جو ان کی آہوں اور سسکیوں کی قیمت ادا کرے!

 پولس کی کمزور اسکرپٹ

     واقعہ یوں تھا کہ یعقوب اپنے گھر سے دودھ لینے کے لئے نکلااور اسے اتر پردیش کی اسپیشل ٹاسک فورس (ایس ٹی ایف) کے جوانوں نے اٹھالیااور چند روز بعد اس کی گرفتاری لکھنو کے چار باغ ریلوے اسٹیشن سے دکھائی۔ ایس ٹی ایف نے 21 جون 2007کو لکھنؤ چار باغ اسٹیشن سے اسے گرفتار کرنے کا دعویٰ کیاپولس کے دعووں کے مطابق دن کے د وبجے اسے گرفتار کیا گیا۔اس کی کہانی کے مطابق یعقوب کے پاس سے ساڑھے چارکلو آرڈی ایکس، ڈیٹونیٹر اور ٹائمرواچ برآمد ہوئے ۔اس کے دو دن بعد ایس ٹی ایف نے نوشاد اورجلال الدین کو گرفتارکرنے کا دعویٰ کیا۔ا سکے مطابق ان دونوں کو یعقوب کی نشاندہی پر گرفتار کیا گیا تھا۔پولس کے مطابق یہ سبھی لوگ خطرناک دہشت گرد تھے اور اگر ان کے منصوبوں کو ناکام نہیں بنایا گیا ہوتا تو بے شمار افراد کی جانیں جاسکتی تھیں۔پولس کے دعوے کے مطابق ان لوگوں کا تعلق حزب المجاہدین نامی دہشت گرد تنظیم سے تھا جو کہ ایک خطرناک تنظیم ہے اور بنگلہ دیش کو اپنا مرکز بناکر کام کرتی ہے۔اس کے پیچھے پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کا ہاتھ مانا جاتا ہے۔ ماضی میں بھارت میں بہت سے مبینہ دہشت گردوں کی نسبت اس تنظیم کی طرف کی گئی ہے اور پولس کی کہانیوں میں اکثر اس کا نام آتا رہتا ہے مگر اب تک آزاد ذرائع سے اس کی تصدیق باقی ہے۔ یعقوب پر پولس نے یہ الزام بھی لگایا تھا کہ وہ پاکستان سے اسلحے کی تربیت لے کر آیا ہے مگر وہ اپنے الزام کو ثابت کرنے کے لئے کوئی کمزور دلیل بھی نہیں پیش کرسکی۔

 عدالت کی نظر میں وہ بے قصور ہیں

     جب اتر پردیش کی عدالت نے معاملے کو دیکھا تو اسے احساس ہوا کہ پولس کی کہانی میں کوئی دم نہیں ہے اور وہ فرضی ہے۔ پولس اپنے دعووں کے ثبوت میں کچھ خاص نہیں پیش کرسکی۔ اسے گواہ تک نہیں ملے جن سے معاملہ ثابت کیا جاسکے اور اس نے جن لوگوں کو گواہ کے طور پر پیش کیا ان میں سے اکثر وبیشتر پولس سے ہی تھے۔نتیجہ کے طور پر یہ لوگ جیل سے رہا کردیئے گئے جن پر دہشت گردی کے الزامات تھے۔ پولس نے انھیں دہشت گرد بتایا تھا مگر عدالت کا ماننا ہے کہ یہ لوگ دہشت گرد نہیں ہیں بلکہ معصوم شہری ہیں اور پولس نے انھین خواہ مخواہ ہی جیل میں ڈال رکھا تھا۔جسٹس شہنواز رضوی نے پولس سے پوچھاکہ اس نے دن کو ۲بجے چار باغ اسٹیشن سے جب ملزم کو گرفتار کیا تھا، کن کن مسافروں نے دیکھا تھا جب کہ دن کے وقت یہاں پسنجرس کی بھیڑ رہتی ہے؟ اس سوال کا پولس کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ وہ کسی ایک چشم دیدگواہ کو نہیں پیش کرسکی۔آخرکار دہشت گردی کے الزام میں گرفتارتینوں بے قصوروں کو ۸سال کے بعد رہائی نصیب ہوئی۔انھیں بری کرنے کا حکم سشن کورٹ نے دیا۔ ملزموں کی طرف سے محمد شعیب (ایڈوکیٹ)پیروی کر رہے تھے جو اسی قسم کے کچھ اور معاملوں میں بھی معصوم ملزمان کے وکیل ہیں۔

پولس کے مظالم

    محمد یعقوب اور اس کے ساتھیوں کا کہنا ہے کہ پولس نے ان پر بہت مظالم ڈھائے۔ انھیں مارا پیٹا گیا اور مجبور کیا گیا کہ وہ پولس کے الزامات کو قبول کرلیں۔محمد یعقوب کا کہنا ہے کہ اسے مہانگر( لکھنو) کے ایک مکان میں رکھا گیا تھا اور مسلسل ٹارچر کیا گیا تھا۔اس کام پر ان لوگوں کو لگایا گیا جو اپنے کام میں مہارت رکھتے ہیں۔جو جو مظالم انھوں نے ڈھائے ان کی اذیت کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ آخر کار پولس کے آتنک سے تنگ آکر میں نے اس کی کہانی کو قبول کرلیا اور اس کاغذ پر دستخط کردیا جو پولس کی طرف سے مجھے دیئے گئے تھے۔ اس کے بعد ۲۱جون کو انھوں نے مجھے کورٹ میں پیش کیا تھا۔

میرے اپنے میرے ہونے کی نشانی مانگیں

    محمد یعقوب رہائی کے بعد خاموشی سے اپنے گھر چلے آئے ہیں۔ انھیں اپنی زندگی سے کوئی شکوہ نہیں مگر اپنے احباب سے شکوہ ہے۔ انھیں قانون نے بے قصور قراردیا ہے مگر ان کے دوست واحباب اب بھی ان سے کنی کاٹ رہے ہیں۔ انھیں خوف ہے کہ یعقوب کے پیچھے اب بھی پولس لگی ہوئی ہے اور ان سے ملتے ہوئے دیکھ کر پولس انھیں بھی شک کی نظر سے دیکھے گی۔ انھیں بھی گرفتار کیا جاسکتا ہے۔ محمد یعقوب کے مطابق زندگی بہت بدل گئی ہے۔ جس وقت ان کی گرفتاری ہوئی تھی تب ان کی بیٹی کی پیدائش بھی نہیں ہوئی تھی مگر اب منتشا سات سال سے زیادہ کی ہوچکی ہے۔ ان کا بیٹا پانچ سال کا تھا اور بے حد چلبلا تھا مگر حالات نے اسے بہت ذمہ دار اور سنجیدہ بنادیا ہے۔ وہ اب بہت خاموش رہتا ہے اور کم ہی بات کرتا ہے۔ان کے دیگر دوبچوں نے بھی مشکل میں وقت گزارا ہے اور حالات نے انھیں دوسرے بچوں سے مختلف کردیا ہے۔ وہ مزید بتاتے ہیں کہ ان کے پاس بارہ بیگھہ کھیتی کی زمین تھی جو فروخت ہوچکی ہے اور اب ان کا خاندان بس اللہ کے بھروسے ہے۔  

 اس کے لئے قصوروار کون؟

    ہندوستان میں مسلمانوں پر دہشت گردی کے الزامات نئے نہیں ہیں اور جیلوں کے اندر ان کی تعداد بھی سوالوں کے گھیرے میں رہی ہے مگر اسی کے ساتھ یہاں کی پولس کا رویہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ جھوٹی کہانیاں بنانے، غریبوں کو ٹارچر کرنے اور رشوت خوری میں یہ اپنی مثال آپ ہے۔ اس کے مظالم کا سب سے زیادہ شکار مسلمان ہی ہوتے ہیں کیونکہ وہ معاشی، سماجی اور علمی طور پر کمزور ہیں۔ دلتوں کو بچانے کے لئے تو کئی قانون موجود ہیں مگر مسلمان کو بچانا تودور،اس ملک میں جو قانون بنتے ہیں وہ مسلمانوں پر ظلم واستبداد کی آزمائش کے لئے ہی بنتے ہیں۔ ٹاڈا، پوٹا، مکوکا اور دیگر قوانین کا جس طرح سے استعمال کیا گیا ،اس کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو ایسا لگتا ہے کہ ان کا مقصد مسلمانوں کو نشانہ بنانا ہی تھا۔ مسلمان خود اپنے حالات سے بے خبر ہیں اور کارواں کے دل میں احساس زیاں بھی باقی نہیں رہا۔ حقوق انسانی کے لئے کام کرنے والے غیر مسلم بھائی خواہ ہماری مدد کریں مگر ہم خود کسی مسلمان کی مدد کے لئے آگے نہیں آتے جو اس قسم کے حالات میں پھنسا ہوتا ہے۔ اس ملک میں بڑے بڑے مسلمان رئیس ہیں جو ایسے بے گناہوں کی مدد کرسکتے ہیں۔ ایسے وکلاء ہیں جو ان کے بچائو میں آگے آسکتے ہیں  اور انھیں پھنسانے والے پولس والوں کو بھی قانون کا سبق پڑھا سکتے ہیں مگر وہ کبھی مدد کا ہاتھ آگے نہیں بڑھاتے۔کشمیر سے گجرات تک اور اترپردیش سے مہاراشٹر تک بار بار ہم نے دیکھا کہ دہشت گردی کے الزام میں پھنسائے گئے مسلمان بری گئے گئے مگر ہم نے اک بار بھی نہیں دیکھا کہ مجرم پولس والوں کو بھی قانون کا پابند بنایا گیا ہو اور ان سے باز پرس کی گئی ہو۔یعقوب، نوشاد اور جلال الدین کو جن پولس والوں کے سبب ۸ برس جیل میں بتانے پڑے ، وہ بھی موج کرتے رہیں گے اور مزید کسی بے قصور کو پھنسانے میں لگے رہیں گے کیونکہ کوئی آگے بڑھ کر ان کا گریبان تھامنے کی کوشش نہیں کرے گا۔ ورنہ پولس سے یہ بھی پوچھا جانا چاہئے کہ جو دھماکہ خیز مادے وہ یعقوب کو پھنسانے کے لئے لائے تھے ان کا انتظام کہاں سے ہوا تھا؟     

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 637