donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Lamhaye Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Insaf Ke Liye Taras Raha Hai Mozaffar Nagar Ka Khala Paar


انصاف  کے لئے ترس رہا ہے مظفر نگر کا کھالا پار


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی


    ایمرجنسی کے دور کو کبھی نہیں بھول سکتے ،کھالاپار(مظفرنگر ) کے رہنے والے، جنھوں نے چند لمحوں میں ۲۵زندگیاں گنوادی دی تھیں۔ اس درد کی کسک آج بھی یہاں کے لوگ اپنے دل کی گہرائیوں میں محسوس کرتے ہیں۔ ۱۸اکتوبر ۱۹۷۶ء کی دوپہر اس محلے کے لئے قیامت کی دوپہر ی سے کم نہیں تھی، جب پولس کی گولیوں نے چند منٹوں میں ۲۵گھروں کے چراغ بجھا دیئے تھے۔ مرنے والوں میں بیشتر مسلمان تھے جنھوں نے اپنے خون سے اندراگاندھی حکومت کے ظلم وبربریت کی تاریخ کو رقم کرکے آئندہ آنے والی نسلوں کے لئے مثال بنا دیاتھا۔ ۹۲ سالہ خواجہ عبدالمجید کے پاس آج بھی اپنے بیٹے محمد سلیم کی تصویر محفوظ ہے اور وہ آنکھوں میں پانی بھرکر بتاتے ہیں کہ ان کا بیٹا صرف ۱۹ سال کا تھا جب اسے گولیوں سے چھلنی کردیا گیا تھا۔جوان بیٹے کی موت کی کسک وہ آج تک سینے میں لئے جی رہے ہیں اور شاید ان کی جان کے ساتھ ہی یہ جائے۔حسینہ بیگم کے شوہر محمد صادق کی عمر موت کے وقت صرف ۳۲ سال تھی جو ساڑھے بارہ بجے کے قریب اپنے گھر سے نکلے تھے مگر پھر بیوی نے ان کی خون آلودہ لاش ہی دیکھی۔حسینہ بیگم بتاتی ہیں کہ انھوں نے اپنے شوہر کو باہر جانے سے منع کیا تھا مگر عوام میں حکومت کے خلاف شدید غصہ تھا لہٰذا وہ نہیں رکے۔غور طلب ہے کہ ایمرجنسی کا نقصان یوں تو پورے ملک کو اٹھانا پڑا تھا مگر دلی کے ترکمان گیٹ اور مظفرنگر کے کھالا پار نے اس کی بہت بڑی قیمت چکائی تھی۔ترکمان گیٹ والوں کے ساتھ تو آدھا ادھورا انصاف ہوا مگر کھالا پار والوں کے ساتھ انصاف نہیں ہوا۔اس معاملے کی انکوائری اگرچہ کرائی گئی مگر آج تک رپورٹ ضلع کلکٹریٹ میں دھول چاٹ رہی ہے۔ حالانکہ ملائم سنگھ یادو اور ان جیسے بہت سے لیڈران ایمرجنسی کی دین ہیں اور اسی دوران انھیں سیاست میں سرگرم ہونے کا موقع ملا مگر انھوں نے کبھی پلٹ کر اس جانب نہیں دیکھا اور نہ ہی مرنے والوں کو انصاف دلانے کی کوشش کی۔ کئی حکومتیں آئیں اور گئیں مگر کسی نے یہاں کے مظلوموں کے درد کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی۔

 تاریخ کا سیاہ باب

    کھالاپار(مظفرنگرضلع) کی تاریخ میں 18 اکتوبر 1976 کا دن سیاہ صفحات میں درج ہے۔ ملک میں اس وقت ایمرجنسی لگی ہوئی تھی۔ اس دن زبردستی نس بندی کرانے کی مخالفت میں کھالاپار میں مظاہرہ کر رہی بھیڑ پر پولیس نے سیدھی گولی چلائی تھی۔ جس سے دیکھتے ہی دیکھتے سڑک پر 25 لاشیں بچھ گئی تھیں۔ اس گولی کانڈ کی جانچ کے لئے قائم مشرا کمیشن نے جو سماعت کی تھی اس کی جانچ کے کاغذات آج بھی سرکاری دفتر میں دھول چاٹ رہے ہیں۔

    ایمرجنسی کے دوران 1976 میں مظفرنگر میں وجیندر یادو ڈی ایم تھے۔ حکومت کی ہدایت پر اس وقت زبردستی نس بندی کی مہم چل رہی تھی۔ 18 اکتوبر 1976 کو دوپہر کے قریب ڈھائی بجے کھالاپار محلہ میں ہزاروں لوگ جمع تھے۔ اسے دیکھتے ہوئے بھاری فورس بلا لی گئی تھی۔ اسی دوران کچھ لوگوں نے پولیس پر پتھراؤ کر دیا۔ پتھراؤ کو دیکھتے ہوئے ڈی ایم کے حکم پر سیدھی گولیاں چلادی گئیں جن سے 25 افراد موقع پر ہی ہلاک ہو گئے تھے۔

جانچ رپورٹ سردخانے میں

    کھالاپار میں ہوئے گولی کانڈ کی وجوہات کی تحقیقات جسٹس مشرا کمیشن نے کی تھی۔اگرچہ گولی چلوانے والے ڈی ایم وجیندر یادو اوراس وقت کے ایس پی اے پی شرما وغیرہ کے خلاف کئی گواہوں نے اپنے بیان کمیشن کے سامنے درج کرائے تھے۔ سابق ممبر پارلیمنٹ لطافت  علی خاں بھی اس معاملے میں سرگرم رہے تھے۔ مشرا کمیشن نے جو بیانات لئے تھے اور جو سماعت کی تھی اس کے تحت دی گئی جانچ رپورٹ آج تک مظفرنگر کے سرکاری دفتر کی الماری میں بند ہے۔ گولی کانڈمیں مارے گئے لوگوں کے لواحقین کو آج بھی جانچ رپورٹ پر کارروائی کا انتظار ہے۔

یہ کس کا لہو ہے؟

    ایمرجنسی کے دوران کھالاپار میں ہوئے گولی کانڈ میں 25 لوگ شہید ہوئے تھے۔ جن کے نام کھالاپار میں بنے شہید پارک پر لگے پتھر پر آج بھی لکھے ہوئے ہیں۔جن میں محمدسلیم، الیاس، محمد اقبال، محمد رحمت، دیودت، جیت لعل، محمد انتظار، شبیر، سعید احمد، محمد جمشید، ستار، شیر محمد،  منظور، ابراہیم، نظام الدین، محمد حبیب، محمد ریاست وغیرہ شامل تھے۔شہید پارک آج بھی یہاں کے لوگوں کو اس خونی دور کی یاد دلاتا ہے۔

آزاد بھارت کا کالا دور

    26 جون 1975 سے 21 مارچ 1977 تک 21 ماہ کی مدت میں ہندوستان میں ایمرجنسی کا نفاذ تھا۔ اس وقت کے صدر فخر الدین علی احمد نے اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی کے کہنے پر ہندوستانی آئین کی دفعہ 352 کے تحت ایمرجنسی کا اعلان کر دیا تھا۔ آزاد بھارت کی تاریخ میں یہ سب سے متنازعہ اور غیر جمہوری دور تھا۔ ایمرجنسی میں انتخابات ملتوی ہو گئے اور شہری حقوق کو ختم کرکے من مانی کی گئی۔ اندرا گاندھی کے سیاسی مخالفین کو قید کر لیا گیا اور پریس پر پابندی عائدکر دی گئی۔ وزیر اعظم کے بیٹے سنجے گاندھی کی قیادت میں بڑے پیمانے پر نسبندی مہم چلائی گئی۔ جے پرکاش نارائن نے اسے ہندوستانی تاریخ کا سیاہ باب قرار دیا تھا۔

ایمرجنسی کا پس منظر

    ایمرجنسی سے قبل اندرا گاندھی نے بہت چالاکی سے ،کانگریس میں موجود اپنے مخالفین کو حاشیے پر ڈالا جس کی وجہ سے کانگریس تقسیم ہو گئی اور اندرا کانگریس وجود میں آئی ۔ یہ 1969کی بات ہے۔حالانکہ کل ہند کانگریس کمیٹی اور کانگریس ممبران پارلیمنٹ کے ایک بڑے حصہ نے وزیر اعظم کا ساتھ دیا۔ اندرا گاندھی کی پارٹی پرانی کانگریس سے زیادہ طاقتور تھی۔ دوسری اور کانگریس (آر) کے ارکان کو جلد ہی سمجھ میں آ گیا کہ ان کی ترقی اندرا گاندھی اور ان کے خاندان کی وفاداری پر منحصر ہے۔اسی لئے وہ ان کی خوشامد میں لگ گئے۔ آنے والے سالوں میں اندرا کا اثر اتنا بڑھ گیا کہ وہ کانگریس پارٹی کے اندر اور حکومت میں ہر جگہ منمانی کرنے لگیں۔وہ اپنے کسی بھی شخص کواعلیٰ عہدوں پر فائز کرسکتی تھیں اور کسی بھی منتخب شخص کو ہٹاسکتی تھیں۔اندرا گاندھی کی کرشماتی شخصیت کا اثر اتنا زیادہ تھا کہ عوام ان کے مدمقابل کسی اور کو نہیں سمجھتے تھے۔اس کی ایک وجہ حکومت کی طرف سے لئے گئے بعض فیصلے بھی تھے۔ جس میں جولائی 1969 میں اہم بینکوں کو قومیانے کا فیصلہ بھی تھا۔ساتھ ہی انھوں نے غریبی ہٹائو مہم بھی چلائی تھی۔ اس کے بعداندرا کو غریب حامی،سیکولراور سوشلسٹ لیڈر کے طور پر پہچان مل گئی۔انھیں خاص طور سے محروم طبقوں،غریبوں، دلتوں، خواتین اور اقلیتوں کی طرف سے بہت حمایت ملی۔

1971 کے عام انتخابات میں’’غریبی ہٹاؤ‘‘ کا نعرہ لوگوں کو اتنا پسند آیا کہانھیں لوک سبھا کی518 میںسے  352 نشستیں مل گئیں۔دسمبر 1971 میں، اندرا کی فعال قیادت میں بھارت نے پہلے مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش) کو پاکستان سے آزادی دلوائی۔ اس کے ایک ماہ بعد ہی انہیں بھارت رتن سے نوازا گیا، وہ اس وقت اپنے عروج پر تھیں۔

1975 کی تپتی گرمی کے دوران اچانک ہندوستانی سیاست میں بھی بے چینی نظر آئی۔ یہ سب ہوا الہ آباد ہائی کورٹ کے اس فیصلے سے ہوا،جس نے اندرا گاندھی کو انتخابات میں دھاندلی کرنے کا مجرم پایا تھا اور ان پر چھ سال تک کوئی بھی عہدہ سنبھالنے پر پابندی لگا دی گئی۔ لیکن اندرا گاندھی نے اس فیصلے کو ماننے سے انکار کرتے ہوئے سپریم کورٹ میں اپیل کرنے کا اعلان کیا اور 26 جون کو ایمرجنسی نافذ کر دیا۔

مسلمان ہی رہے نشانے پر

    یوں تو ملک کی آزادی اور اس کے بعد ایمرجنسی کے آزمائشی دور میں ملک کے سبھی طبقات نے قربانیاں دیں مگر مسلمان خاص طور پر نشانے پر رہے۔ جس طرح جنگ آزادی میں انگریزوں کے مظالم کا نشانہ سب سے زیادہ مسلمان بنے تھے، اسی طرح ایمرجنسی کے دور میں جو دو بڑے مظالم ہوئے ان میں سب سے زیادہ نقصان مسلمانوں کو اٹھانا پڑا۔ ترکمان گیٹ میں بھی مسلمان ہی حکومت کے نشانے پر تھے اور کھالا پار میں اپنی جان کی قربانیاں دینے والے بھی مسلمان ہی تھے۔اندرا گاندھی نے ایمرجنسی کا نفاذ کرکے تمام جمہوری ضابطوں کی دھجیاں اڑا دی تھیں اور انھیں اپنے اس عمل پر کبھی پچھتاوا بھی نہیں رہا۔سوال اٹھتا ہے کہ آخر آزاد ہندوستان میں بنیادی حقوق کے سب سے بڑے پیروکار رہے جواہر لعل نہرو کے بالکل الٹ راہ کیوں پکڑی ان کی بیٹی اندرا گاندھی نے؟ اس ملک میں پریس کی آزادی کا کریڈٹ فیروز گاندھی کو جاتا ہے مگر انہیں کی بیوی اندرا گاندھی نے ایمرجنسی کے دوران پریس کی آزادی کا گلا گھونٹ دیا،آخرکیوں؟ ظاہر ہے، ان سوالات کا جواب تلاش کرنے کے لئے باریکی سے نگاہ ڈالنی پڑے گی۔اصل میں ایمرجنسی کا پس منظر تب ہی تیار ہونے لگا تھا جب انھوں نے عدلیہ سے ٹکرائو مول لیا تھا۔ لعل بہادر شاستری کی موت کے بعد اندرا گاندھی وزیر اعظم بنی تھیں، اس وقت انہیں گونگی گڑیا کہا جاتا تھامگر طاقت کے نشے نے انھیں دھیرے دھیرے خودپسند بنا دیا تھا اور وہ اپنے آگے نہ عدلیہ کو کچھ سمجھتی تھیں اور نہ آئین وقانون کو اہمیت دیتی تھیں۔ ملک کے غریب اور مفلس عوام تو ان کے سامنے ایک ذرہ کی حیثیت رکھتے تھے۔ ایسے میں کھالاپار اور ترکمان گیٹ میں جو کچھ ہوا، وہ کچھ عجیب نہیں تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 604