donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Lamhaye Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Kya Kargar Hoga Firqa Paraston Ke Khelaf Mauqa Paraston Ka Yeh Ittehad


 کیا کارگر ہوگا فرقہ پرستوں کے خلاف موقع پرستوں کا یہ اتحاد؟


مغربی بنگال، اڈیشہ، آسام اور یوپی کی پارٹیاں بھی سنگھ پریوارکے خلاف مورچہ بنائیںگی؟


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی


    یکے بعد دیگرے پورے ملک میں کامیابی کے جھنڈے گاڑ رہا ہے منظم سنگھ پریوار ۔ اس کی فتوحات نے اس کے سیاسی مخالفین کے ہوش اڑا دیئے ہیں۔ جہاں ایک طرف شکست خوردہ کانگریس اپنی تمام فرعونیت کو بھول کرخود کو دوبارہ منظم کرنے میں لگی ہوئی ہے، وہیں دوسری طرف بہار میں اس کے خوف نے دوپرانے حریفوںنتیش کمار اور لالو پرساد یادو کو حلیف بننے پر مجبور کردیا ہے۔مغربی بنگال میں سرکار اور اپوزیشن اندر اندر ہاتھ ملا رہے ہیں تو اترپردیش میں بھی ملائم اور مایا کے خیموں میں خوف وہراس صاف محسوس کیا جاسکتا ہے۔ اڈیشہ میں نوین پٹنائک تشویش میں مبتلا ہیں تو جنوبی ہند میں دیوی گوڑا کو اپنی کشتی بھگوا طوفان میں ڈوبتی نظر آرہی ہے۔ اس وقت اہم سوال یہی ہے کہ کیا نام نہاد سیکولر لیڈروں کا موقع پرست اتحاد اس بھگوا طوفان پر بند باندھ سکے گا؟ سنگھ پریوار کے خوف نے جنتا پریوارمتحد ہونے پر مجبور کردیا ہے مگر اہم سوال ہے کہ کیا یہ تمام لیڈر اس راستے پر کتنی دور تک چل سکیں گے؟ کیا یہ جس برادری کی نمائندگی کرتے ہیں اس کے ووٹ کو اپنے ساتھ لاسکیں گے؟ کیا جنتا پارٹی اور جنتا دل سے الگ ہونے والے یہ تمام لیڈران ایک بارپھر متحد ہوکر ایک سیاسی پلیٹ فارم کی بنیاد ڈال سکیں گے؟ کیا یہ اپنے ساتھ ملک کی ان سیکولر پارٹیوں کو بھی لانے میں کامیاب ہونگے جو سنگھ پریوار سے لڑائی میں ان کے مورچے کو مضبوط کرسکتی ہیں؟ ملک کے اندر نئی سیاسی صف بندی کے امکانات تب ہی نظر آنے لگے تھے جب نریندر مودی کی لہر نے ہندو ووٹروں کو ذات پات سے اوپر لاکر مذہب کے نام پر متحد کرنا شروع کردیا تھااور تمام علاقائی پارٹیاں اس آندھی میں خزاں رسیدہ پتوں کی طرح اڑنے لگی تھیں۔سیکولر پارٹیوں کا اتحاد ملک اور اس کے آئینی ڈھانچے کی حفاظت کے لئے وقت کی ضرورت ہے مگر کسی کو یقین نہیں کہ یہ مبینہ سیکولر لیڈران اپنے مفاد سے اوپر اٹھ کر ملک کے فائدے کی بات سوچ سکیں گے۔سماج وادی پارٹی، جنتادل(یو) جنتادل (سیکولر)اور راشٹریہ جنتا دل کسی زمانے میںجنتا دل کا حصہ ہوا کرتے تھے جس کی قیادت راجہ وشو ناتھ پرتاپ سنگھ کرتے تھے مگر ان لیڈران کے اپنے مفادات نے انھیں ایک دوسرے سے دور کردیا۔ آج جب کہ سب کا اپنا وجود خطرے میں ہے اور سب کے سب ایسے چیلنج سے دوچار ہیں جو ان کے تخت وتاج کے لئے خطرہ بن گیا ہے تو انھیں اتحاد کی یاد آئی ہے۔ اس بات کا بھی امکان ہے کہ بیجوجنتادل، راشٹریہ لوک دل، انڈین نیشنل لوک دل، ترنمول کانگریس، کمیونسٹ پارٹیاں اور کچھ دوسری چھوٹی وعلاقائی پارٹیاں اس اتحاد کے ساتھ تعاون کا ہاتھ بڑھائیں۔

سیلاب بلا کے اثرات

    گزشتہ لوک عام انتخابات کے نتائج نے تمام سیاسی تجزیہ کاروں کو حیران کردیا تھا کیونکہ ۲۰۱۴ء کے لوک سبھا انتخابات کے نتیجے ملک میں ایک زبردست تبدیلی کا پیغام لے کر آئے تھے۔ کانگریس جس نے ایک مدت تک اس ملک پر راج کیا ، دوسروں کو رعونت کی نظر سے دیکھتی رہی اور لوٹ کھسوٹ کے بھی تمام رکارڈ توڑ دیئے، اسے عوام نے پوری طرح درکنار کردیا۔ وہ سیکولر پارٹیان جنھوں نے سیکولرزم کے نام پر محض سیاست کی ، وہ بھی حاشئے پر چلی گئیں اور ایک طاقت ور لیڈر کے طور پر نریندر مودی کا ظہور ہوا جن کی نکیل سنگھ پریوار کے ہاتھ میں ہے۔ آج کانگریس کے خاتمے اور علاقائی پارٹیوں کے کمزور ہونے کا سب سے زیادہ فائدہ آرایس ایس کو مل رہا ہے جس نے پہلی بار پوری طرح اقتدار پر قبضہ جمایا ہے۔ اسے وجود میں آئے نوے سال سے زیادہ ہوچکے ہیں اور اب تک یہ جدوجہد کر رہا تھا کہ کسی طرح حکومت کی باگ ڈور اس کے ہاتھ میں آجائے،جو آگئی۔ حالانکہ جس برہمنوادی نظریے کی سنگھ نمائندگی کرتا ہے وہ لگاتار آٹھ سوسال سے سیدھے طور پر زمام حکومت سنبھالنے کی کوشش میں لگا ہوا تھا۔ آج جب اقتدار سنگھ پریوار کے ہاتھ میں آچکا ہے تو اس کی کوشش ہے کہ تمام نظریاتی اداروں پر قابض ہوکر اس انداز فکر کو متاثر کرے جو ہزاروں سال کی انسانی ، تہذیبی اور فکری اختلاط کے نتیجے میں وجود میں آیا ہے۔ وہ ملک کا قانون بدلنا چاہتا ہے۔ وہ تاریخ کو اپنی عینک سے میں دنیا کو دکھانا چاہتا ہے۔ وہ تعلیمی نظریہ بدلنا چاہتا ہے۔اس لحاظ سے آج ہماری تہذیبی اور فکری میراث کو سنگھ پریوار سے خطرہ لاحق ہے۔ ایسے میں جنتا پریوار کے لیڈروں کا ملاپ وقت کی ضرورت ہے۔ حالانکہ یہ حضرات کبھی نہ کبھی بی جے پی کو فائدہ پہنچا چکے ہیں اور آج وہ جس مقام پر پہنچی ہے وہاں تک پہنچانے میں ان کی کی بھی مدد شامل رہی ہے۔سنگھ پریوار اپنی جیت کو دیرپا ثابت کرنے کے لئے اس کوشش میں ہے کہ اترپردیش، بہار، مغربی بنگال، اڈیشہ اور پنجاب پر قبضہ جما لے۔ حالانکہ ابھی حال ہی میں مہاراشٹر ہریانہ اور جھارکھنڈ میں اس کی جیت ہوچکی ہے اور اس کی سرکار یںبن چکی ہیں۔وہ چاہتا ہے کہ تمام علاقائی پارٹیوں کو ختم کردے اور اپنے مخالفین کو منتشر کردے تاکہ اس کی حکومت کے لئے کوئی چیلنج باقی نہ رہے مگر یہ ملک کی آزادی اور جمہوریت کے لئے خطرناک ہوگا۔

نہ سمجھوگے تو مٹ جائو گے اے جنتا پریوار والو

    گزشتہ عام الیکشن میں بی جے پی کی شاندار جیت کے پیچھے سیکولر پارٹیوں کا اختلاف اور ووٹ کی تقسیم کا رول سب سے اہم تھا۔ بہار میں جنتادل (یو) اور راشٹریہ جنتا دل کے بیچ سیکولر ووٹوں کی تقسیم نے یہاںکی بیشتر سیٹوں پر بی جے پی کو جیت دلایا تھا تو یوپی میں سماج وادی پارٹی، بہوجن سماج پارٹی، کانگریس اور راشٹریہ لوک دل کے بیچ سیکولر ووٹ تقسیم ہوئے تھے۔ اسی کے ساتھ بی جے پی کی یہ کوشش بھی تھی کہ وہ جاٹ ووٹوں کو چودھری اجیت سنگھ سے دور کردے، یادووں کو ملائم سنگھ یادو سے الگ کرکے اپنے ساتھ جوڑ لے اور دلتوں کے ووٹ بہوجن سماج پارٹی سے چھین کر اپنے کھاتے میں جمع کرائے اور اس میں ایک حد تک وہ کامیاب ہوگئی۔ اب ایک بار پھر سنگھ پریوار کی کوشش ہے کہ بہار اور یوپی کی ودھان سبھا سیٹوںپر بھی قبضہ جمالے اور اس کے لئے وہ دن رات ایک کئے ہوئے ہے۔ اس کی نظر مغربی بنگال پر بھی ہے جہاں جیت کے لئے وہ ایک طرف بنگلہ دیشی گھس پیٹھ کا ہوّا کھڑا کر رہا ہے تو دوسری طرف دہشت گردی کے بھوت کے نام پر یہاں خوف و ہراس کا ماحول تیار کیا جارہا ہے۔ اسی سے متصل آسام اور اڈیشہ بھی اس کا اگلا ٹارگیٹ ہیں۔ ان حالات میں صرف یوپی بہار ہی نہیں بلکہ آسام اور اڈیشہ کی سیاسی پارٹیوں کو بھی اسی راستے پر چلنا پڑے گا جس راستے پر ملائم، نتیش اور لالوو دیوگوڑا چل رہے ہیں۔لالو اور نتیش کے اتحاد کا بی جے پی کو بہار میں نقصان ہوگا اور اس کی شروعات ضمنی انتخابات سے ہوبھی چکی ہے مگر ایسے ہی اتحاد کی ضرورت دوسرے صوبوں میں بھی ہے۔ اگر سنگھ پریوار کے خلاف علاقائی پارٹیاں متحد نہیں ہوتی ہیں تو انھیں زبردست نقصان اٹھانا پڑے گا، مگر اس موقع پرستوں کے اتحاد سے سیکولرازم کا بھی کوئی فائدہ ہوگا، یہ سوال اپنی جگہ قائم ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 572