donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Lamhaye Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Modi Raj Me Aqliyat Falahi MansooboN Par Khatrah


مودی راج میں اقلیتی فلاحی  اسکیموں پر خطرہ


تحریر: غوث سیوانی،نئی دہلی

 

    نریندر مودی سرکار اقلیتوں کو تعلیمی اسکالرشپ نہیں دینا چاہتی یا اقلیتیں اس سے اسکالرشپ لینا ہی نہیں چاہتی ہیں؟آخر کیا سبب ہے کہ جب سے مرکز میں مودی سرکار آئی ہے تب سے اسکالرشپ پانے والوں کی تعداد میں کمی آتی جارہی ہے؟ آخر کیوں اس مد میں خرچ نہیں ہورہی ہے رقم؟ کیا حکومت نہیں چاہتی کہ اقلیتوں کو فائدہ حاصل ہو؟ کیا وہ آرایس ایس کے نظریے کے مطابق اقلیت کی اصطلاح ہی ختم کرنا چاہتی ہے؟ کیا موجودہ سرکار اقلیتوں کے تعلق سے کانگریس سرکار سے بھی زیادہ نااہل ثابت ہوگی؟ کیا نریندر مودی اپنے انتخابی وعدے بھول گئے جن میں انھوں نے کہا تھا کہ وہ اقلیتوں کی ترقی کے لئے بھی پابند عہد رہیں گے اور ان وہ تمام اسکیمیں جو ان کی فلاح وبہبود کے لئے چل رہی ہیں ، وہ جاری رہیں گی؟حالانکہ ایک طرف اقلیتی معاملوں کے وزراء نجمہ ہبت اللہ اور مختار عباس نقوی بار بار کہہ رہے ہیں کہ اقلیتوں کی ترقی کے لئے حکومت کام کرے گی مگر دوسری طرف یہ دیکھنے میں آرہا ہے کہ ان کی اسکالرشپ میں کٹوتی کی جارہی ہے اور اس سے مستفید ہونے والوں کہ تعداد دن بہ دن گرتی جارہی ہے۔ حالانکہ یہ بھی سچ ہے کہ اس قسم کی اسکیموں سے مسلمان کم فائدہ اٹھاتے تھے اور غیرمسلم اقلیتیں زیادہ مستفید ہوتی تھیں۔ بہر حال وہ برائے نام اسکیمیں بھی اب مزید بے معنیٰ ہوتی جارہی ہیں۔ اسی طرح وزیر اعظم کا پندرہ نکاتی فارمولہ جو اقلیتوں کو ترقی کی رفتار میں شامل کرنے کے لئے شروع کیا گیا تھا اب کوئی اس کا نام لینے والا بھی نہیں رہا۔ حالانکہ پہلے بھی اس سے کوئی فائدہ نہیں تھا اور مسلمانوں کو تو ذرہ برابر اس سے کوئی فائدہ نہیں پہنچا مگر مودی سرکار میں تو اس کا نام بھی نہیں لیا جاتا ہے۔

    اقلیتوں کی تعلیمی ترقی کے لئے مرکز اور ریاستی سرکاروں کی طرف سے جو اسکالر شپ کی اسکیمیں چلائی جارہی تھیں وہ ان بھی جاری ہیں مگر ان سے فائدہ اٹھانے والوں کی تعداد میں کمی آگئی ہے۔ ایسا کیوں ہوا؟ اس سوال کا صاف طور پر جواب دینے کے لئے کوئی تیار نہیں ہے۔ اقلیتی امور کی مرکزی وزارت کی طرف سے چلنے والی اسکالرشپ اسکیم  سے جہاں گزشتہ سال 36,502طلبہ نے فائدہ اٹھایا تھا وہیں اس سال اس فائدہ اٹھانے والوں کی تعداد گھٹ کر محض 9,859رہ گئی ہے۔یہ اعدادوشمار خود حکومت کی طرف سے جاری کئے گئے ہیں۔ اسکالرشپ کی ایک دوسری اسکیم جس کے تحت ایس سی، ایس ٹی ،اوبی سی اور اقلیتی طبقات کو تعلیمی اسکالر شپ فراہم کی جاتی ہے، اس کے اعداد میں بھی کمی آئی ہے۔ ۱۴۔۲۰۱۳ء میں اس کے تحت 35,822پری میٹرک اسکالرشپ دی گئی تھی جب کہ پوسٹ میٹرک اسکالرشپ پانے والون کی تعداد 680تھی مگر اس سال یہ تعداد گھٹ کر ترتیب وار9,282اور577ہوگئی ہے۔ آخر کیا سبب ہے کہ یہ اسکیمیں تو جاری ہیں مگر ان سے فائدہ اٹھانے والوں کی تعداد میں کمی آگئی ہے؟ اس سوال کے جواب میں ایک سرکاری افسر نے نام نہ چھاپنے کی شرط پر بتایا کہ مرکز اور ریاستی سرکاروں کی طرف سے اقلیتوں اور پسماندہ طبقات کے لئے مختلف اسکالرشپ اسکیمیں چلائی جاتی ہیں ۔ کوئی بھی طالب علم ان میں سے کسی ایک ہی اسکیم کا فائدہ اٹھاسکتا ہے۔ ایک وقت میں وہ ریاست اور مرکز دونوں ہی کی اسکیموں سے مستفید نہیں ہوسکتا۔ ماضی میں جو لوگ دواسکیموں سے فائدہ اٹھا لیتے تھے اب نہیں اٹھا پارہے ہیں، یہی سبب ہے کہ ان کی تعداد میں کمی آئی ہے۔ حالانکہ اقلیتوں کی تعلیم کے لئے کام کرنے والے ماسٹر محمد رفیق سلفی کو یہ جواب اطمینان بخش نہیں لگتا ۔ وہ سوال اٹھاتے ہیں کہ یہ کیسے مان لیا جائے کہ پہلے طلبہ دو دو اسکیموں سے فائدہ اٹھاتے تھے۔ سچائی یہ ہے کہ طلبہ پہلے بھی دواسکالر شپ نہیں حاصل کرپاتے تھے اور وہ مرکز کی اسکالر شپ کو زیادہ ترجیح دیتے تھے مگر موجودہ حکومت نے بہت خاموشی سے اسکالرشپ نکالا اور کسی کو پتہ بھی نہیں چل پایا،جس کے سبب طلبہ نے اپلائی نہیں کیا۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ مرکزی سرکار اقلیتوں کو ملنے والی سہولیات میں مزید کٹوتی کر رہی ہے حالانکہ کانگریس سرکار بھی اس معاملے میں مخلص نہیں تھی اور صرف خانہ پری کے لئے اس طرح کے کام کرتی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ اقلیتوں کی بہبود کے لئے ملنے والی رقم دن بہ دن کم ہوتی جارہی ہے ۔ وزارت برائے فروغ انسانی وسائل کی طرف سے چلنے والے قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کا بجٹ بھی کم کیا گیا ہے۔        

اقلیتوں کی فلاح و بہبود کے لئے وزیر اعظم کا نیا 15 نکاتی پروگرام

    پچھلی سرکار میں اقلیتوں کی فلاح کے لئے پندرہ نکاتی وزیر اعظم فارمولہ لایا گیا تھا جس کا مقصد ہر سطح پر اقلیتوں کا آگے بڑھا نا تھا مگر یہ بری طرح فلاپ ہوا تھا کیونکہ اس حکومت کی نیت ہی اس میں صاف نہیں تھی۔ بظاہر اس کا مقصد تھا اقلیتوں کے لئے تعلیم کے مواقع کو فروغ دینا،بچوں اور بالغوں کو تعلیم سے مربوط کرنا اور ان کے لئے رسمی وغیررسمی تعلیم کا انتظام کرانا،اقلیتوں کی آبادی والے علاقوں میں تعلیمی ادارے قائم کرنا،’’سرو شکھشا ابھیان‘‘ کے تحت کستوربا گاندھی گرلس اسکول اقلیتی علاقوں میں کھولنا، پرائمری اور اونچے درجات کے اسکولوں میں اردو زبان کے اساتذہ کی بھرتی اور تعیناتی کے لئے مرکزی مدد کی فراہمی کو یقینی بنانا،مدرسوں کو جدید تعلیم سے جوڑنا اور اس کے تعلیم یافتہ لوگوں کو روزگار سے جوڑنا،معاشی طور پر کمزور طلبہ کو اسکالرشپ فراہم کرنا، مولانا آزاد ایجوکیشن فائونڈیشن کے ذریعے اقلیتی تعلیمی اداروں کی مدد کرنا، اقتصادی سرگرمیوں اور روزگار میں مناسب حصہ داری،خط افلاس سے نیچے کے لوگوں کوبینک قرض کی فراہمی تاکہ وہ روزگار سے جڑسکیں،سرکاری اسکیموں میں اقلیتوں کی حصہ داری کو یقینی بنانا،سرکاری فلیٹوں ،ہائوسنگ اسکیموں اور بینکوں کے قرضوں میں ان کی حصہ داری متعین کرنا، ریاست اور مرکزی سروسز میں اقلیتوں کی بھرتی، اقلیتی کمیونٹی کے افراد کے معیار زندگی کی حالت میں بہتری لانا، اقلیتی فرقوں والی گندی بستیوں کی حالت میں بہتری لانا،فرقہ وارانہ فسادات کی روک تھام  اور متاثرین کی بازآبادکاری، فرقہ وارانہ تشدد بھڑکانے والوں کی گرفتاری اور سزا نیز اس کے لئے اسپیشل کورٹ کا قیام۔ یہ اور اس قسم کی بہت سی باتیں وزیر اعظم کے پندرہ نکاتی فارمولے کا حصہ تھیں مگر کانگریس سرکار خود بھی اس پر ایک قدم آگے نہیں بڑھی۔ اب مودی سرکار آگئی ہے جس کی ڈکنشری میں اقلیت اور مسلمان کا لفظ ہی نہیں ہے۔ ایسے میں ہم کیسے امید کرسکتے ہیں کہ اس پر کوئی عمل کیا جائے گا۔

    اقلیتوں کے لئے تعلیم اور روزگار سے متعلق مرکزی و ریاستی حکومتوں کی طرف سے کئی طرح کے منصوبے بنائے جاتے ہیں لیکن مسلمانوں میں بیداری کی کمی کے سبب وہ ان منصوبوں کا فائدہ اٹھانے میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔ابھی گزشتہ سال دلی حکومت نے اقلیتوں کو تعلیم میں آگے لانے کے لئے ایک  منصوبہ پیش کیا تھا جس کے تحت اقلیتی طلبہ کو اسکالرشپ، ٹیوشن فیس اور اسٹیشنری کی خریداری کے لئے پیسے ملنے تھے۔ اس کے لئے سکھ، عیسائی اور جین طبقے کے طلبہ نے اپلائی کیا مگر مسلمانوں نے بہت کم درخواست دی۔ ظاہر ہے کہ یہ جانکاری کی کمی کے سبب تھا۔

مسلمانوں کی تعلیم کا مسئلہ

    اقلیت میں مسلمان کے ساتھ ساتھ سکھ، عیسائی اور جین وپارسی بھی شامل ہیں مگر ان میں حقیقی معنوں مین پسماندہ مسلمان ہی ہیں۔ حالانکہ سرکاری اسکیموں سے سب سے کم فائدہ مسلمانوں کو ہی پہنچتا ہے۔ مسلمانوں کی پسماندگی دور کرنے کے لئے لازم ہے کہ سب سے پہلے انھیں تعلیم میں آگے لایا جائے۔ سرکار کی طرف سے اس سلسلے میں کچھ خاص نہیں کیا جاتا ہے اور مسلمان اپنی پسماندگی کے سبب اس کی اہمیت سمجھنے سے قاصر ہیں۔ویسے تعلیم کو پوری طرح حکومت کے بھروسے نہیں چھوڑا جا سکتااور خاص طور سے اقلیتوں کی تعلیم کے معاملے کوحکومت پر چھوڑنے کے سبب اب تک جو نقصان ہوا ہے،اس سے ہم واقف ہیں۔ ملک میں کئی اچھے اقلیتی تعلیمی ادارے ہیںجو ان کی طاقت ہیں مگر انھیں انگلیوں پر گنا جاسکتا ہے۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ اقلیتی تعلیمی اداروں میں اس کمیونٹی کے لوگوں کو ایڈمیشن کے قوانین میں چھوٹ ملتی ہے۔کمزور سماجی، اقتصادی اور تعلیمی پس منظر سے آئے بچوں کے لئے اسکول کالج اور بعد میں اعلی تعلیم کے لئے بھی اپنی کمیونٹی کے تعلیمی ادارے مددگار ثابت ہوتے ہیں۔مگر اس قسم کے ادارے بہت کم ہیں اور یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں میں دیگر اقلیتی فرقوں کے مقابلے میں خواندگی سب سے کم ہے۔ملک میں جہاں 74 فیصد لوگ خواندہ ہیں۔ وہیں مسلمانوں میں خواندگی کی شرح فیصد 67 ہے۔ویسے بھارت میں خواندگی کا مطلب صرف اپنا نام لکھنا،پڑھنا ہوتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں خواندگی کا پیمانہ بلند ہوتا ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں میں بڑے بڑے عہدوں پر مسلمان رہنما ہیں۔ انتخابات کے دوران پارٹیاں ان مسلم چہروں کو مسلمانوں کو لبھانے کے لئے آگے کر دیتی ہیں۔ مذہبی رہنماؤں کی طرح ان کے ایجنڈے میں بھی جدید تعلیم نہیں ہے۔ دلتوں سے بابا صاحب امبیڈکر نے ایک ہی بات کہی تھی ’’تعلیم یافتہ بنو‘‘ دلتوں کے رہنماؤں نے کچھ حد تک تعلیم کی اہمیت کو سمجھا، لیکن مسلمانوں کے لیڈر آج بھی تعلیم کی اہمیت کو سمجھنے کو تیار نہیں ہیں۔ مسلمانوں سمیت ہندوستان کے اقتصادی اور سماجی طور پر پسماندہ تمام طبقوں کی فلاح و بہبود تعلیمی مہم چلا کر ہی کیا جا سکتا ہے، جب تک یہ طبقے اس بات کو نہیں سمجھ لیتے، وہ پسماندہ ہی رہیں گے۔ مسلم لیڈروں کو اپنی سیاست وہیں سے شروع کرنی ہوگی، جہاں سے امبیڈکر دلتوں کی سیاست شروع کرنا چاہتے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 596