donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Lamhaye Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Nayi Nasal Ko Dahshatgardi Se Bacha Sakti Hai Soofia Ki Talimat


نئی نسل کودہشت گردی کے زہر سے بچاسکتی ہیں صوفیہ کی تعلیمات 


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی

 

    کیا آپ مسلمان ہیں؟ کیا آپ بچوں کے والدین ہیں؟ کیا آپ کو اطمینان ہے کہ آپ کا بچہ دہشت گردی کی طرف مائل نہیں ہورہاہے؟ کیا آپ اس کی سرگرمیوں کی نگرانی کرتے ہیں؟ کیا آپ اسے دہشت گردی کی طرف مائل ہونے سے بچانے کے لئے کوئی جتن کرتے ہیں؟ ان سوالوں کی ضرورت اس لئے آن پڑی ہے کہ ان دنوں آئے دن میڈیا میں خبریں آتی رہتی ہیں کہ مسلم نوجوانوں کو دہشت گردی کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ ان میں سے کسی پر انڈین مجاہدین سے رشتے کا الزام لگتا ہے تو کسی پر ’’سیمی‘‘ سے تعلق کا۔ کسی کو آئی ایس کا ہمدرد بتایا جاتا ہے تو کسی کو القاعدہ سے رابطے کی کوشش کا ملزم بنایا جاتا ہے۔ حالانکہ ان میں سے بیشتر لوگ ایک مدت جیل میں گزارنے کے بعد کورٹ سے بے قصور قرار پاتے ہیں اور باعزت بری ہوجاتے ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جن لوگوں پر دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا الزام ہوتا ہے ان میں اکثر ان سرگرمیوں سے دور ہوتے ہیں اور پولس وحکومت کا ایک طبقہ مسلمانوں کو خواہ مخواہ جھوٹے الزمات میں پھنسانے کی کوشش کرتا ہے مگر اس سچائی سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اسلام کے نام پر قائم دہشت گرد جماعتیں مسلمان نوجوانوں اور لڑکوں کو ممبر بنانے کی کوشش کررہی ہیں اور کہیں نہ کہیں انھیں کامیابی بھی مل جاتی ہے۔ حالانکہ وہ صرف مسلمانوں کو ٹارگیٹ نہیں کرتیں بلکہ غیر مسلموں کو بھی ٹارگیٹ کرتی ہیں۔ جموں وکشمیر میں ایک ہندو نوجوان کو دہشت گردی کے الزام میں گرفتار کیا گیا تو پتہ چلا کہ وہ پہلے اسلام سے متاثر ہوا اور پھر اس نے ایک دہشت گرد جماعت میں شمولیت اختیار کرلی۔ پچھلے دنوں ایک نابالغ ہندو لڑکی پولس کی گرفت میں آئی جو آئی ایس میں شامل ہونا چاہتی تھی۔ اس لڑکی کے بارے میں خبر آئی کہ وہ آسٹریلیا میں تعلیم کے دوران کچھ شدت پسند مسلمانوں کے رابطے میں آئی تھی۔ اسی طرح مہاراشٹر کے ایک ہندو فوجی افسر کا بیٹا بھی آئی ایس میں شامل ہونے کی کوشش میں پکڑا گیا تھا۔ اس طرح سے ہم دیکھیں تو مسلمان ہی نہیں بلکہ غیر مسلم لڑکے بھی شدت پسندی کی طرف مائل ہورہے ہیں جو یقینا کوئی خوش آئند بات نہیں ہے۔ایک غیر مسلم بھائی کا کہنا تھا کہ ’’تمام مسلمانوں کو اب دہشت گردی کوروکنے کے لئے کچھ نہ کچھ کرنا ہوگا اور معاشرے کو یقین دلانا ہوگا کہ آپ ان کے ساتھ نہیں ہیں۔‘‘ حالانکہ اب حالات ایسے ہیں کہ یہ یقین دہانی صرف مسلمانوں کو نہیں بلکہ غیر مسلم بھائیوں کو بھی کرانے کی ضرورت ہے۔ یہ صورت حال ساری دنیا میں ہے۔ یوروپی ممالک سے اکثر ایسی خبریں آتی رہتی ہیں کہ اتنے لڑکو ں اور لڑکیوں  نے آئی ایس میں شمولیت کے لئے ملک چھوڑا۔ ان میں سے کچھ کی واپسی کی خبریں بھی آتی ہیں۔ 

بچے کیوں مائل ہوتے ہیں دہشت گردی کی طرف؟

    اس وقت اہم سوال یہ ہے کہ لوگ دہشت گردی کی طرف کیوں مائل ہوتے ہیں یعنی دہشت گردی کی پیدائش اور اس کے فروغ کے اسباب کیا ہیں؟ تو اب تک جو اسباب سامنے آئے میں ان میں سے سب اہم سماجی ناانصافی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ جس طبقے کے پاس قوت ہے و ہ دوسروں کے حقوق غصب کرنے میں پیش پیش رہتا ہے۔ عرب ملکوں کے قدرتی وسائل پر مغربی ملکوں نے قبضہ کیا تو ان ممالک میں عوام میں ناراضگی پیدا ہوئی اور مسلح ہوکر جنگ کے راستے پر چل پڑے جسے مغرب نے دہشت گردی کا نام دیا۔ اسی طرح بھارت میں تشدد اور دہشت گردی کے اکا دکا واقعات لئے بابری مسجد کی شہادت اور فرقہ وارانہ دنگوں کو ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے مگر افسوس کی بات ہے کہ دہشت گردی کے خلاف آواز اٹھانے والے کبھی ان اسباب کو ختم کرنے کی کوشش نہیں کرتے جو اس کے لئے ذمہ دار ہیں۔بچوں کا ذہن ناانصافیوں اور مظالم سے زیادہ متاثر ہوتا ہے اور وہ تشدد وتخریب کے راستے پر چل پڑتے ہیں۔حالانکہ ناانصافی اور ظلم کے خلاف جنگ کے پرامن اور جمہوری راستے بھی ہوسکتے ہیں۔

 عالمی برادری کی فکر مندی    

     پچھلے دنوںبرطانیہ نے ملک کے بچوں کو دہشت گردی کی  طرف مائل ہونے سے بچانے کے لئے کچھ نئے اور سخت اقدامات کا اعلان کیا ہے۔ برطانیہ کی وزیر تعلیم نکی مورگن، ایسٹ لندن کے اسکول بیتھنل گرین اکیڈمی میں منعقد ایک پروگرام میں یہ اعلان کرچکی ہیں کہ یہاں کی چار لڑکیاں اسلامک اسٹیٹ (آئی ایس) دہشت گرد تنظیم میں شامل ہونے کے لئے روانہ ہو چکی ہیں۔ دہشت گرد نظریات سے بچوں کو بچانے کے لئے برطانوی حکومت نے ایک نئی ویب سائٹ’’  educateagainsthate‘‘   شروع کی ہے، جس کے ذریعہ والدین، اساتذہ اور بچوں کو اسکول سے اندر اور باہر دہشت گردی اور دہشت گردوں کے اثر میں آنے سے بچنے کے لئے مشورہ دیا جائے گا۔اس سے ایک دن پہلے ہی تب کے وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے مسلم خواتین کو انگریزی سیکھنے کے لئے تین کروڑ امریکی ڈالر زکے فنڈ کا اعلان کیا تھا، تاکہ وہ برطانوی معاشرے میں خود کوآسانی سے ڈھال سکیں۔ دوسری طرف امریکہ کے صدر براک اوباما نے فرانس کے دارالحکومت پیرس میں دہشت گرد انہ حملے کے بعد مسلم کمیونٹی سے کہا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو بنیاد پرستی کی زد میں آنے سے بچائیں۔ ترکی کے ینٹالیا میں جی 20 سربراہی کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے اوباما نے کہاتھاکہ مسلمان اس بات کو یقینی بنائیں کہ ان کے بچے اسلامک اسٹیٹ کے شکار نہ بنیں۔انھوں نے کہا ’’مسلم کمیونٹی کی جانب سے دہشت گردی کی جتنی مخالفت ہونی چاہئے ، نہیں ہو رہی ہے۔‘‘ اس میں کوئی شک نہیں کے دہشت گردی کے اسباب فراہم کرنے کا کام سب سے زیادہ یوروپ اور امریکہ نے ہی کیا ہے مگر آج دوسروں کی طرح وہ بھی یہ عذاب جھیل رہے ہیں۔ برطانیہ نے بچوں کو دہشت گردی سے بچانے کے لئے جو کوششیں شروع کی ہیں وہ کم ہیں مگر مناسب ہیں اور اس قسم کی کوششیں دوسر ے ممالک میں بھی ہونی چاہیئیں۔

کیا دہشت گردی سے بچائو کا یہ کارگر طریقہ ہے؟ 

    ان دنوں دہشت گردی کے خاتمے کے لئے تصوف کی تعلیمات کو عام کرنے کی بات کہی جارہی ہے۔اس کا مثبت اثر روس میں دیکھا گیا جہاں حکومت کی طرف سے صوفیہ کی تعلیمات کو عام کرنے کی کوشش شروع ہوئی ہے۔دوسری طرف اس تجربے سے متاثر ہوکر وزیراعظم نریندر مودی نے بھی تصوف کے ذریعے دہشت گردی سے لڑنے کی تجویز کی وکالت کی ہے۔ انھوں نے لندن کے ایک اسٹیڈیم میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ تصوف کو عام کیا جائے۔اس کے بعد خود انھیں کی کوششوں سے دلی میں انٹرنیشنل صوفی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس کا افتتاح وزیراعظم نریندر مودی نے کیا تھا۔ اس کانفرنس میں یہ تجویز بھی سامنے آئی کہ بچوں کو دہشت گردی اور تشدد سے بچانے کے لئے صوفیہ کی تعلیمات سے آگاہ کیا جائے اور تصوف کو نصاب تعلیم میں شامل کیا جائے جس میں اخلاقیات کی تعلیم دی جاتی ہے اور انسان کو انسان بن کر رہنے اور دوسروں کی خیرخواہی کا حکم دیا جاتا ہے۔ یہ ممکن ہے کہ تصوف کی تعلیمات کا بچوں کے ذہن پر مثبت اثر پڑے۔

بچوں کو کیسے بچائیں دہشت گردی کے طرف مائل ہونے سے؟

    موجودہ حالات میں بچوں کے تئیں والدین اور اساتذہ کی ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں ۔ ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ بچوں کو ایسے لٹریچر سے بچائیں جو ان کے ذہن میں تشدد کی طرف میلان پیدا کرے۔ بچوں کا ذہن سفید دیوار کی طرح ہوتا ہے اس پر کوئی بھی رنگ چڑھایا جاسکتا ہے لہٰذا اس پر تشدد کا رنگ چڑھنے سے بچانا ضروری ہے۔ بچوں کو پیار ومحبت کی تعلیم دینا اور نفرت کی تعلیم سے دور رکھنا ضروری ہے۔ ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ اسلام اگرچہ محبت واخوت کی تعلیم دیتا ہے مگر ان دنوں ایسے مولویوں کی کمی نہیں جو اسلام کا نام لے کر ہی نفرت انگیزیاں کرتے ہیں۔ قرآن وسیرت نبوی کی غلط تشریح کرکے مسلکی دیواریں کھڑی کرتے ہیں اور اللہ کے بندوں کو ایک دوسرے کے خلاف برسرپیکار کردیتے ہیں۔ ایسے میں بچوں کو ایسے لوگوں سے بھی بچانا ضروری ہے۔ عموماً والدین بچوں کی دینی تعلیم کے لئے کسی مولوی کا انتظام کردیتے ہیں جو انھیں ٹیوشن دیتا ہے اور قرآن وغیرہ پڑھاتا ہے ۔ والدین ان اساتذہ کے تئیں اس قدر خوش گمان ہوتے ہیں کہ کبھی مڑکر نہیں دیکھتے کہ انھیں کیا کچھ پڑھایا اور سمجھایا جارہا ہے جب کہ یہ بے خبری اچھی نہیں۔ یہ مولوی صاحبان عموما ً غیر مسلموں کے تعلق سے نفرت انگیز باتیں بھی بچوں کے ذہن میں بٹھا دیتے ہیں جب کہ یہ سب اسلام اور قرآن کی تعلیمات کے خلاف ہے۔ اسلام کافر سے نفرت کرنے کی تعلیم نہیں دیتا بلکہ کفر سے نفرت کی بات کہتا ہے۔ اسی طرح مسلم محلوں میں ایسی جماعتیں بھی دکھائی دیتی ہیں جو دین کے نام پر غلط فہمیاں پھیلانے کا کام کرتی ہیں لہٰذا ان کے رابطے سے بچوں کو بچانا بھی ضروری ہے۔ بچوں کی دینی تربیت جس قدر ضروری ہے اسی قدر یہ بھی لازمی ہے کہ انھیں درست اسلامی تعلیم ملے اورانھیں تخریب نہیں بلکہ تعمیر کی طرف مائل کیا جائے۔   


 (یواین این)
 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Comments


Login

You are Visitor Number : 712