donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Lamhaye Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Tagore Ki Sar Zameen Par Nafrat Ki Kheti Nahi Chalegi


ہندوستان کوبچانا ہے تو،خدارا بنگال کو بچائیے
 
 ٹیگور کی سرزمین پرنفرت کی کھیتی،نہیں چلے گی
 
تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی
 
ghaussiwani@gmail.com
Ghaus Siwani/Facebook
 
بنگال کے رس گلوں کا جواب نہیں ہوتامگران سے کہیںزیادہ لذت آگیں،رابندر ناتھ ٹیگورکی شاعری کاگدازاور قاضی نذرالاسلام کی نظموں کاسوزوسازہے ۔ اس کا سحرآج بھی قائم ہے، آج بھی اہل بنگال کے گھروں سے ہر صبح ’’رابندر سنگیت‘‘ اور ’’نذرل گیتی‘‘ کی مسحور کن آوازبلند ہوکر فضا میں امن وشانتی کا رس گھولتی ہے اورہندوستانی تہذیب کی سربلندی کا اعلان کرتی ہے۔ بنگال سے ہمارا تین پشتوں کا رشتہ ہے اورذہنی وفکری طور پر اس سرزمین سے وابستگی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ ہم نے یہیںپرورش پائی ہے اوراس کے کھیتوں، کھلیانوں اور تالابوںکے حسن کا احساس آج بھی ہماری رگ وپے میں رچابسا ہے۔بنگالی تہذیب وتمدن اوراہل بنگال کے مزاج نے ہمیں اس لئے بھی متاثر کیا کہ وہ امن پسند، سیکولر اور قومی یکجہتی کے خوگر ہوتے ہیں۔ امن کی اسی سرزمین سے حالیہ ایام میں کچھ ایسی خبریں آئی ہیں جوہر اس شخص کے لئے باعث تشویش ہوسکتی ہیں جو بنگال کے مزاج سے آشنا ہے۔ اس میں ایک خبر توضمنی الیکشن سے ہی جڑی ہوئی ہے جس میں اگرچہ ترنمول کانگریس نے کثیرووٹوں سے جیت حاصل کی مگر بی جے پی کے امیدواروں کو بھی خاصے ووٹ ملے اور سی پی آئی (ایم)و کانگریس کے امیدواربہت کم ووٹوں پر سمٹ گئے۔الوبیڑیا لوک سبھا سیٹ پر ضمنی الیکشن میں ٹی ایم سی کی امیدوار ساجدہ احمد ، تقریبا پونے پانچ لاکھ ووٹوں سے جیتیں جب کہ بی جے پی کے امیدوار کو 2لاکھ 18ہزار کے آس پاس ووٹ ملے۔ یہاں تیسرے نمبر پر سی پی ایم اور چوتھے نمبر پر کانگر یس رہی۔ اسی طرح نواپاڑہ اسمبلی حلقہ میں ٹی ایم سی کے امیدوار سنیل سنگھ کو ایک لاکھ سے زائد ووٹ ملے۔ جب کہ بی جے پی امیدوار کو 38ہزار سے زائد ووٹ ملے۔ تشویش ناک بات یہ ہے کہ بی جے پی نے سی پی آئی (ایم) سے زیادہ ووٹ حاصل کیے ۔ یہاں سی پی ایم کو 35497 ووٹ ملے اور چوتھے نمبر پر کانگریس رہی۔40فیصد سے زیادہ مسلم ووٹ والی الوبیڑیا میں بی جے پی کے دوسرے نمبر پر آنے کا سبب، شاید یہ رہا کہ یہاں سی پی ایم اور کانگریس نے الگ الگ الیکشن لڑا اور بی جے پی کے علاوہ تمام پارٹیوں نے مسلم امیدوار اتارے تھے۔ حالانکہ بی جے پی کے امیدواروں کو سبھاش چندر بوس کے بنگال میں اس قدر ووٹ ملنااپنے آپ میں نہ صرف تشویشناک ہے بلکہ مستقبل کے لئے خطرے کی گھنٹی بھی ہے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ ایک طبقہ بی جے پی کی طرف مائل ہورہا ہے اور آنے والے کچھ برسوں میں اس کی قوت میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ 
 
امید کی کرن
 
جن دنوں بنگال میں ضمنی الیکشن کی مہم چل رہی تھی، ریاست میں بی جے پی، آرایس ایس، وشوہندو پریشد اور بجرنگ دل والے اپنی جدوجہد سے سماج کو تقسیم کرنے میں جٹے ہوئے تھے،اسی بیچ ایک چھوٹی سی خبربنگال کے اخباروں میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوئی ، جو امید کی کسی کرن کی طرح تھی۔یہ خبرمالدہ سے تھی جوبنگلہ دیش کی سرحد سے منسلک ضلع ہے اور جہاں فرقہ پرست قوتیں اپنے ناپاک پنجے گاڑنے کی کوشش میں کچھ حد تک کامیاب بھی دکھائی پڑتی ہیں۔ خبریوں تھی کہ ایک مسلم اکثریتی محلے میں مسلمانوں نے چندہ کرکے ایک غریب ہندو لڑکی کی شادی کرائی۔ سرسوتی چودھری نامی اس لڑکی کے والد تری جل چودھری کا تین سال قبل انتقال ہوگیا تھا۔ تب سے خاندان کسمپرسی کا شکار تھا اور مشکل سے روزی روٹی چلاتا تھا۔ ایسے میں سرسوتی کی شادی دشوار تھی مگر مقامی مدرسے کے پرنسپل مطیع الرحمٰن اس کی مدد کے لئے سامنے آئے اور علاقے کے مسلمانوں کے بیچ چندہ جمع کرکے اس کی شادی کرائی۔ جس لڑکے سے شادی ہوئی ہے، اس کا نام تپن چودھری ہے اور یہ معاملہ خان پور گائوں کا ہے۔ اس علاقے میں مسلمانوں کے تقریباً چھ سو گھر ہیں جب کہ ہندووں کے صرف آٹھ گھر ہیں۔ سرسوتی کے کل پانچ بھائی بہن ہیں اور اس کی ماں سوارانی مشکل سے گھر کے اخراجات چلاتی ہیں۔ سرسوتی کی شادی کا انتظام کرنے والے مطیع الرحمٰن کا کہنا ہے کہ اس شادی میں ان کا ساتھ دیاان کے پڑوسی عبدالباری، امدادالرحمٰن،جلال الدین اور شہیدالاسلام نے۔ ان سبھوں کا ماننا تھا کہ سرسوتی ان کے لئے بیٹی کی طرح ہے اور ان کا فرض ہے کہ اس کی شادی کا انتظام کریں۔ واضح ہوکہ ان مسلم پڑوسیوں نے اپنی منہ بولی ہندو بیٹی کی شادی کے وقت بہتر کھانے کا بھی انتظام کیا اور لڑکی کو جہیز دے کر شاندار طریقے سے سسرال کے لئے رخصت کیا۔ ظاہر ہے کہ اس قسم کے واقعات، بنگالی معاشرے کے اصل مزاج کا پتہ دیدیتے ہیں مگر جس طرح سے فرقہ پرستوں کی قوت میں اضافہ ہورہا ہے اور سماج میں تقسیم کی لکیریں نمایاں ہو رہی ہیں، انھیں بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اس کی مثالیں بھگوا تنظیموں کی طرف سے نکلنے والے رام نومی کے جلوسوںمیں دیکھی گئیں اور بشیرہاٹ کے فسادکے وقت بھی دنیا نے دیکھا۔      
 
بجرنگ دل کا ٹریننگ کیمپ
 
سنگھ پریوار مغربی بنگال کے امن وامان کو آگ لگانے کے درپے ہے اور ممتا بنرجی کے قلعے کو ڈھانے کے لئے کچھ بھی کرنے کو تیار ہے۔ یہ بات بہتوں کے لئے حیران کن ہوسکتی ہے مگر سچ ہے ۔ گزشتہ دنوں وشو ہندو پریشد نے ممتا کی ناک کے نیچے بجرنگ دل کے ورکروں کو فوجی ٹریننگ دی۔ یہ ٹریننگ کس لئے دی جاتی ہے، سب جانتے ہیں۔ بجرنگ دل کے ورکر فوجی ٹریننگ لے کر بارڈر پر لڑنے نہیں جاتے ، وہ چین اور پاکستان کے فوجیوں سے لوہا نہیں لیتے بلکہ اندرون ملک ہی دنگا ،فساد کرتے ہیں، کمزور ہندوستانیوں کو ستاتے ہیں،کہیں ’’لوجہاد ‘‘کے نام پر تو کہیں ’’گھرواپسی‘‘ کے نام پر فرقہ پرستی کا باردو بچھاتے ہیں اور اب یہی کام، وہ بنگال میں بھی کر رہے ہیں۔ سرحدی علاقوں میں نفرت انگیزی کرکے بی جے پی کی سیاسی قوت میں اضافہ کیا جاچکا ہے جس کا اندازہ اس کے ووٹ میں اضافے سے لگایا جاسکتا ہے۔ اس سے پہلے آرایس ایس نے بھی بنگال میں کئی پروگرام کئے ہیں اور اپنی شاکھائیں بڑھائی ہیں۔ کچھ دن پہلے خبرآئی تھی کہ وشو ہندو پریشد نے سندربن علاقے میں ٹریننگ کیمپ کیا ہے اور اپنی نوجوان ونگ، بجرنگ دل کے ورکروں کو فوجی ٹریننگ دی ۔ سندر بن کا علاقہ ضلع جنوبی چوبیس پرگنہ میں واقع ہے اور اس لئے مشہور ہے کہ یہ دنیا کا سب سے بڑا ڈیلٹا جنگل ہے۔ یہ غریبوں کا علاقہ ہے اورہمیشہ یہاں امن وامان قائم رہا ہے مگر جس طرح سے سنگھ پریوار نے اس علاقے میں اپنی سرگرمیاں بڑھائی ہیں،اسے دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ یہاں بھی فرقہ پرستی کا زہر پھیل رہا ہے۔
 
آرایس ایس کی قوت میں اضافہ
 
بنگال میں آرایس ایس زمینی سطح پر کام کر رہا ہے اور اپنے اثرات بڑھانے میں مصروف ہے۔ اس کااندازہ اس بات سے بھی لگتا ہے کہ پہلے ایک آدھ جگہوں پر اس کی شاکھائیں لگتی تھیں مگر اب بڑے پیمانے پر نظرآنے لگی ہیں۔ صبح صبح یہاںعام طورپر پارکوں میں ’’نمستے ماتربھومی‘‘ کی آواز کے ساتھ کچھ لوگ ورزش کرتے نظر آجائینگے جن میں طلبہ ، نوکری پیشہ اور ریٹائرڈ وعمر رسیدہ بزرگ بھی شامل ہوتے ہیں۔پورے ملک میں آر ایس ایس کی 56ہزار سے بھی زیادہ شاکھائیں لگتی ہیں اور خود سنگھ نے 2016 میں کہا تھا کہ "2015-16 میں شاکھائوں کی توسیع سب سے زیادہ ہوئی ہے۔مغربی بنگال میں آر ایس ایس کی شاکھائوں کی تعداد جہاں 2011 میں محض 530 تھی وہ اعداد و شمار اب 1500 سے تجاوز کر چکے ہیں۔ جس طرح سنگھ نے آسام میں خاموشی کے ساتھ کام کیا اور نتیجہ کے طور پر یہاں بی جے پی کی حکومت بن گئی، اسی انداز میں بنگال میں بھی وہ کام کررہا ہے۔ جہاں ایک طرف سنگھ کی شاکھائوں میں اضافہ ہوا ہے، وہیں بی جے پی کے ووٹ میں بھی زیادتی ہوئی ہے اور وشوہندو پریشد وبجرنگ جیسی جماعتیں خوب پھل پھول رہی ہیں۔ 
 
 تشویش کی بات 
 
مغربی بنگال سے کانگریس ممبر پارلیمنٹ پردیپ بھٹاچاریہ اپنے ایک بیان میںکہہ چکے ہیں کہ ، اکیلے کولکتہ میں اب آرایس ایس کے 3032 سرسوتی ششو مندر اسکول چل رہے ہیں۔ بنگال میں ایسا کبھی نہیں تھا۔ سب جانتے ہیں یہ ریاست بہت ترقی پسند تھی لیکن اب یہاں ہندوؤں کے دل میں ہندو ہونے کا احساس بڑھ رہا ہے۔ میرے اسکول کے دوست اب مجھے بتاتے ہیں کہ پہلے وہ ہندو ہیں یا مسلمان۔ اگرچہ مغربی بنگال میں لیفٹ فرنٹ حکومت میں وزیر رہ چکے سی پی ایم لیڈر عبدالستار مانتے ہیں کہ تمام دکھاوا ہے اصل میں کوئی مقبولیت نہیں بڑھی ہے۔ انہوں نے کہا، مذہب کے نام پر بنگال میں سیاست کرنا بہت مشکل ہے۔ یہ رابندر ناتھ ٹیگور کی ریاست ہے، جہاں مذہب کے نام پر تقسیم نہیں ہوسکتی۔
 
بنگال میں مہاجرہندووں سے بی جے پی کو فائدہ ملتا رہا ہے۔ یہ وہ ہندو ہیں جو تقسیم ملک کے وقت نقل مکانی کرکے مشرقی بنگال سے مغربی بنگال چلے آئے تھے۔ کلکتہ کے دمدم علاقے میںان کی بڑی تعداد رہتی ہے اور یہاں کی لوک سبھا سیٹ بی جے پی کے کھاتے میں کئی بار جاچکی ہے۔ اسی طرح سرحدی علاقوں میں بھی جو بی جے پی کے ووٹ میں اضافہ ہوا ہے اور یہاں رہنے والے ہندووں اور مسلمانوں میں دوریاں بڑھی ہیں، اس کے پیچھے بھی مہاجر ہندو بتائے جاتے ہیں ۔ کولکتہ میں رہنے والے سینئر صحافی شوبھوجیت باگچی کو بھی لگتا ہے کہ ابھی سیدھا فائدہ کسی کو نہیں ہوا ہے لیکن آنے والے دنوں میں ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا، بنگلہ دیش سے اپنا گھر زمین چھوڑ کر آئی قریب 40 فیصد ہندو آبادی کا رول اہم ہو سکتا ہے۔ اگرچہ یہ کہنا جلد بازی ہوگی کہ وہ لوگ مکمل طورپر آر ایس ایس یا بی جے پی کے ہو گئے ہیں ،کیونکہ پہلے یہ لیفٹ کو سپورٹ کرتے تھے ، اب کچھ ممتا کی ترنمول کانگریس کی طرف جھک چکے ہیں لیکن آگے حالات بدل سکتے ہیں۔
 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Comments


Login

You are Visitor Number : 605