donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Lamhaye Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Gholam Ghaus
Title :
   Muslim Moashre Ki Yeh Khamoshi Bahut Khatarnak Hai


مسلم معاشرے کی یہ خاموشی بہت خطرناک ہے


 از :  غلام غوث  ، کور منگلا  ،  بنگلور  ۔

فون  : 9980827221


      آج جو اخلاقی برائیاں ہمارے سماج میں ہیں انکے متعلق زبان کھولنا  اور قلم اٹھانا بہت مشکل کام ہے  ۔ نہ جانے کیوں  آج مسلم معاشرے میں بہت کچھ غلط ہو رہا ہے جو اب سے تیس برس پہلے نہیں ہو تا تھا ۔ کچھ حضرات اجو ایسے مضمون اردو اخبارات میں آنے سے روک دیتے ہیں ۔ انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ اگر ایسا ہوا تو یہی مضامین  کنڑی  اور انگریزی اخباروں کی زینت بن جائیں گے اور مسائل ٹی وی پر بھی آ جائیں گے ۔  شوہر اور بیوی کے جھگڑے اور دوریاں عام ہو تی جا رہی ہیں اور وہ ایک دوسرے کو ستانے اور تکلیف دینے میں  مشغول ہیں ۔  کہیں عورت ظلم کا شکار ہے تو کہیں مرد  ۔ کہتے تو سب ہیں کہ شادی ایک کنٹراکٹ ہے مگر کچھ لوگوں نے اپنی ضد اور انا کے سبب اسے ایک ایسی بندش بنا دیا ہے  جس میں مرد اور عورت دونوں پس رہے ہیں ۔  کہتے تو یہ بھی ہیں کہ دونوں کو ملانے کی ہر ممکن کوشش کے باوجود جب دونوں ملنے کے لئے تیار نہیں ہو تے اور ایک دوسرے کو ستانے سے نہیں چوکتے تو بہتر یہی ہے کہ وہ ایک دوسرے سے طلاق یا خلع لیکر الگ ہو جائیں ۔  سچائی جاننے کے لئے اگر کوئی کونسلنگ سنٹرس جائیں  گے تو ایسے عجیب عجیب کیسس سننے کو ملیں گے جنہیں سنکر ہر کسی کا دماغ خراب ہو جائے گا ۔  حالانکہ  طلاق اور خلع کے معاملے عام نہیں ہیں مگر جو ہیں وہ  بہت ہی پیچیدہ ہیں ۔  آجکل شادیوں پر دس لاکھ سے ایک کڑوڑ روپیے تک خرچ ا کرنا عام ہو گیا ہے ۔  پھر چار چھ مہینوں کے اندر سننے میں آتا ہے کہ دونوں میں جھگڑا ہو گیا ہے اور معاملہ علاحدگی تک آ گیا ہے ۔  کہیں خطا لڑکے کی ہوتی ہے اور کہیںلڑکی کی اور کہیں کہین دونوں کے دالدین کی ۔  جہاں تک طلاق اور خلع کے معاملہ میں قرآن اور حدیث کا سوال ہے میں اس پر روشنی نہیں ڈالوں گا کیونکہ یہ میدان اہل علم ( دینی ) کا ہے اور وہ اس میں مداخلت برداشت نہیں کر تے ۔  آج زیادہ سے زیادہ طلاق اور خلع کے معاملے ہمارے دار القضاوں کے مقابلے میں عدالتوں میں زیر سماعت ہیں ۔  ہر کوئی پریشان ہے کہ آخر ایسا کیوں ؟ ۔ اب سوال یہ بھی اٹھ رہے ہیں کہ کیا ہمارے دار القضاء ان معاملات کو حل کر سکتے ہیں یا نہیں ۔  ہر شہر میں ایک سے زیادہ دار القضاء ہیں مگر اکثر اشخاص ایک دار القضاء سے دوسرے دار القضاء کو جا تے ہیں اور وہاں اگر فیصلہ انکے حق میں نہیں ہو تا تو عدالتوں کا رخ کر تے ہیں ۔  دارالقضاوں کے علاوہ بھی کچھ رعب دار حضرات ایسے معاملے نپٹا رہے ہیں مگر وہاں بھی حالات اچھے نہیں ہیں ۔  اکثر مرد  صرف ضد اور ستانے کے لئے عورت کو معلق لٹکائے رکھتے ہیں ۔  نہ اسے طلاق دیتے ہیں اور نہ ہی اسکی طرف سے دی جا نے والی خلع پر دستخط کر تے ہیں ۔  ایسے میں عورتیں اگر شوہر اور اسکے رشتہ داروں پر غلط الزامات لگا کر انہیں عدالتوں میں نہ کھینچیں تو کیا کریں ؟ سب سے زیادہ فائدہ اڈوکیٹس کو ہو تا ہے  جبکہ دونوں فریق عدالت کے چکر کاٹتے کاٹتے اور کافی وقت اور روپیے برباد کر نے کے بعد مجبورا اپنی ضد کو ختم کر کے معاملہ کو عدالت کے باہر سلچھا لیتے ہیں ۔ یہ عمل پانچ یا دس سال تک چلتا ہے اور دونوں بربادی کے دھانے پر پہنچ جا تے ہیں ۔  خلع کا بھی عجیب معاملہ ہے کہ خلع اس وقت تک نہیں ہو تی جب تک شوہر اس پر اپنے دستخط نہیں کر دیتا ۔  کئی معاملے ایسے آئے ہیں جنمیں شوہر صرف ستا نے کے لئے دستخط نہیں کر تا اور معاملہ برسوں معلق رہ جا تا ہے ۔  اگر ہمارے دار القضاء چاہے تو ایسے معاملات میں فیصلے سنا سکتے ہیں اور نکاح  فسخ کر سکتے ہیں ۔  اس پر اہل علم کو غور کر نا ہے  مگر افسوس کے انکا کوئی ملا جلا ادارہ نہیں ہے ۔ اتحاد کی بات تو بڑے زور و شور سے کر تے ہیں مگر خود متحد نہیں ہو تے اور غور و فکر نہیں کر تے ۔  اگر طلاق اور خلع کے معاملے مشکل اور تکلیف دہ بن گئے ( جیسا کہ آج ہو رہا ہے ) تو یہ سب مسجدوں اور دار القضاوں سے نکل کر غنڈے موالیوں کے پاس  یا عدالتوں میں چلے جائیں گے یا پھر نکاح اور طلاق عدالتوں میں ہو نے لگیں گے اور یہ لڑائی جھگڑے اخباروں اور ٹی وی کی زینت بن جائیں گے ۔  اگر ایسا ہوا تو اسکے لئے مسلم معاشرہ  اور اہل علم ہی ذمہ دار ہو نگے ۔  ہمارے معاشرے میں کئی لڑکے اور لڑکیاں انمیں پھنسے ہوے ہیں ۔  اگر مسلم معاشرے نے اس پر توجہ نہیں دی تو زنا بڑھ جائے گا اور لڑکے لڑکیاں غلط راستوں پر نکل جائیں گی ۔ پھر مسلم معاشرے کو سر پیٹنے کے سوائے کوئی راستہ نہیں رہ جائے گا  ۔  ( کچھ مسلم لڑکیاں غیر مسلموں کے ساتھ شادی رچا کر چلی جا رہی ہیں ) ۔  مولانا مجاہد الاسلام اور دیگر علمائے حق کی ہمیشہ یہ کوشش رہی کہ ایسے معاملے کسی بھی صورت میں پولیس اور عدالت نہ جائیں بلکہ محلے کی مسجد میں سلجھ جائیں ۔  محلے کی ہر مسجد کو ایسے مسائل کو حل کر نے کے لئے تیار رہنا ہو گا کیونکہ وہاں عالم بھی ہونگے اور عمائدین  مسجد کمیٹی بھی ۔  تجربے کے طور پر کسی شہر کے ہر بڑے محلے میں کسی مسجد کو چن کر وہاں عورتوں کے لئے کونسلنگ سنٹرس کھولے جائیں اور کچھ لیڈی سوشیل ورکرس کو ایسے کام سونپ دیے جائیں  ۔ یہ مذہبی مسلے سے زیادہ سوشیل مسلہ ہے ۔ کیا یہ ممکن ہے کہ ہمارے مذہبی حضرات کوئی ایسا ادارہ قائم کریں جہاں ہر مکتب فکر کے دو نوجوان ہوں جہاں ملت کے سنگین مسائل پر غور و خوص ہو اور حل تلاش ہو ( جہاں عقائد پر بحث نہ ہو ) اور نوجوان دانشوروں سے تبادل خیال بھی ہو جیسا کہ آج کچھ گیارہ افراد  عصری لیڈرشپ پر ( تھنک ٹینک ،  ویزن کرناٹک )  کرناٹک میں کام کر رہے ہیں  ۔  حل صرف یہ ہے کہ شادیاں آسان اور کم خرچ والی ہوں اور طلاق اور خلع کا راستہ آسان ہو  ۔  اگر اس پر کام نہ ہوا تو یہ ایک ایسا پھوڑا بن جائے گا جسے نہ بتا سکتے ہیں اور نہ ہی علاج کرا سکتے ہیں  ۔ سچ پوچھو تو کہنے کو بہت کچھ ہے مگر قلم میں اتنی طاقت نہیں پاتا کہ کہ وہ ان مسائل کو کھل کر اجاگر کر سکے ۔  کاش ہمارے اہل علم متحد ہو تے اور اس ذمہ  داری کو محصوص  کر تے ۔۔  ائے اہل علم اور اہل دانش یاد رکھو کہ آپکی ضد ، آپکی انا  اور آپکی آپسی دوری ملت مسلمہ کو کمزور کر رہی ہے  ،  اسکے سامنے غیر ضروری مسائل کھڑا کر رہی ہے  ،  فروئی مسائل پر بحث و تکرار کر وا رہی ہے اور مسلمانوں کو متحد نہیں بلکہ مسلکی اور نظریاتی ٹکڑوں میں بانٹ رہی ہے ۔  کاش  ہم اسلامی مسجدوں کی جگہ مسلکی مسجدوں کو بڑھاوا نہ دیتے ،  مسلکی جلسے جلوسوں کی اغوائی نہ کر تے اور دوسرے مسلکوں پر کیچڑ اڑانے سے پرہیز کر تے تو ہمیں دنیا بھر میں قدر اور عزت کی نگاہ سے دیکھا جا تا اور ہمارے دشمن ہمارے اتحاد سے ڈرتے ۔  انا ، غرور اور بڑائی تو شیطان کا وصف ہے ، اگر یہ ہم انسانوں میں آ جائے تو ہم دلوں کو جوڑنے والے نہیں بلکہ توڑنے والے بن جائیں گے ۔  اللہ والے تو وہ ہو تے ہیں جو خود آگے بڑھ کر دوسروں سے ملنے اور انکی دلجوئی کر نے جا تے ہیں  مگر اللہ والوں  اور دانشوروں کے حلیے میں اگر کوئی ملنے ملانے کے لئے خود وقت نہ نکالے اور دوسروں کو وقت نہ دے تو سچ بتانا کیا وہ اللہ والے ہو سکتے ہیں ۔  خود تو آپس میں متحد نہ ہو کر دوسروں کو اتحاد کا سبق دینا یہ کہاں کا انصاف ہے  ۔ خود آگے بڑھو اور ان سے ملو جن سے تمہاری دوریاں ہیں پھر دیکھو کہ اللہ کیسے تمہارے دلوں میں محبت ڈالتا ہے ۔  تم اجتماع کر تے ہو وہ نہیں آتے اور وہ اجتماع کر تے ہیں تم نہیں جا تے  ۔  بھلا تم ہی بتاو کہ یہ تمہارا کیسا عمل ہے ؟ اس طرح ملت مسلمہ میں دن بہ دن مسائل بڑھتے رہیں گے  ،  عام مسلمان پستا رہے گا اور تم  اہل علم اور اہل دانش ہی اسکے ذمہ دار ہو گے ۔  قرآن کچھ سمجھا رہا ہے اور ہم کئی جگہ اسکا الٹا کر رہے ہیں ۔  غیر ہمارے ان حالات کو دیکھ کر سمجھ رہے ہیں کہ ہم ہماری عورتوں پر ظلم کر رہے ہیں  اور پھر یونیفارم سیول کوڈ کی بات کر رہے ہیں  ۔ جولائی  8 کو  Times Now چینل پر ارناب گوسوامی جیسے سیکولر  اینکر نے عورتوں کے معاملے میں شریعت  کے غلط استعمال پر تابڑ توڑ حملے کئے  اور کوئی  اسکا ٹھیک جواب دے نہ سکا ۔ اگر مسلم عورتوں اور مردوں کے درمیان ڈبیٹ ہو گیا تو یقینا عورتیں ہمارے طرز عمل پر نکتہ چینی کریں گی ۔ اسلئے سب سے پہلے ہمارے اندرونی معاملات سلجھانا بہت ضروری ہے مگر افسوس اس بات کا ہے کہ ہماری کوئی لیڈرشپ نہیں ہے اور کوئی ایسا نہیں ہے جس کے کندھے پر سر رکھ کر مظلوم  رو سکیں اور جو ہمیں کہے کہ میں ہوں  تمہیں سہارا دینے کے لئے  ۔  رویں تو کس کے آگے اور مظلوموں کی آواز کون سنے گا  ؟  کیا یہ ممکن ہے کہ ہر شہر میں موجود دو چار دار القضاء دو چار مہینوں میں ایک مرتبہ مل بیٹھ کر غور کریں کہ بئے نئے مسائل کا علاج کیا ہو نا چاہیے  ۔  اگر کوئی ہم سے (  ویزن  کرناٹک ،  تھنک ٹینک  ) اس سلسلے میں بات کر نا اور حل  پیش کر نا چاہیں تو ہم انہیں خوش آمدید کہتے ہیں کیونکہ یہ مسلہ کسی ایک شخص کا نہیں بلکہ تمام مسلمانوں کا مسلہ ہے  ۔


^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 536