donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Lamhaye Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghufran Sajid Qasmi
Title :
   Muzaffar Nagar Fasad Zadgan Ki Bebasi Aur Hukoomamat Wa Qayedeen Ki Behisi


باسمہ تعالیٰ

 

مظفرنگرفسادزدگان کی بے بسی اور حکومت وقائدین کی بے حسی


نوائے بصیرت…………………………………………………غفران ساجد قاسمی

چند مہینوں قبل جب ہندوستان کی معیشت کے لڑکھڑانے کی وجہ سے عالمی منڈی میںروپیہ کی قدرمیںریکارڈگراوٹ آئی کہ روپیہ ڈالرکے مقابلے میںاتناکمزورہوگیاکہ ایک ڈالر کے مقابلہ روپیہ کی قدر۶۰؍سے بھی زیادہ ہوگئی اس وقت کسی صاحب نے فیس بک پہ ایک مزاحیہ کارٹون شائع کیاجس کے نیچے یہ لکھاتھاکہ روپیہ اتنا بھی نیچے نہیں گرا ہے جتناکہ آج روپیہ کے لیے انسان گرچکاہے۔آج کاانسان دولت اوراقتدارکے لیے اپنے ضمیرکے ساتھ ساتھ اپنی قوم کوبھی غیروںکے ہاتھوںگروی رکھ چکاہے۔فیس بک پر شئیر کیا گیا یہ کمینٹ گرچہ کچھ لوگوںکے لیے مزاح کاسامان بناہو،لیکن اہل عقل وخرداورارباب حل وعقدکے ضمیرکوجھنجھوڑکررکھ دیااوروہ سوچنے پرمجبورہوگئے کہ اللہ نے جس انسان کو اشرف المخلوقات کادرجہ دیااوران ہی میںسے جن کواللہ نے ان کی قیادت کی ذمہ داری سونپی وہ اپنے چندذاتی اوروقتی مفادات کے لیے اپنے ضمیرکے ساتھ ساتھ اپنی قوم کوبھی غیروںکے ہاتھوںبیچ دیاواقعتاانسان کے گرنے کی اس سے زیادہ اورکیاحدہوسکتی ہے۔روپیہ کی گراوٹ والے واقعہ کوذہن میںرکھیںاورحالیہ دنوںمظفرنگرمیںرونماہونے والے بھیانک فسادات کوسامنے رکھیںاوراس کے بعداس فسادات پربجائے اس کے کہ فسادزدگان کی بازآبادکاری اوران کی راحت کاخیال رکھاجاتاجس طرح اس فسادکے واقعہ پر سیاسی پارٹیاںگھٹیا اورمفادپرستی کی سیاست کررہی ہے اورہمارے قائدین جن پرفسادزدگان کے ساتھ ساتھ پوری مسلم قوم آس لگائے بیٹھی ہے ان کی بے حسی اورضمیرفروشی پر غورکریں تو بات صاف اورواضح طورپرسمجھ میںآجائے گی کہ واقعتاابھی بھی روپیہ اتنانہیںگراہے جتناکہ روپیہ کے لیے انسان گرچکاہے اورجب انسانوںمیںقائدین شامل ہوجائیں تو پھر تو اس کی گراوٹ اورپستی کا معیارکہیں اورزیادہ بلند ہوجاتا ہے۔

مظفرنگرمیں چارمہینہ قبل ہولناک فسادات ہوئے جس میں صرف مسلمانوں کا ہی جانی ومالی نقصان ہوا،فسادات کے بعدفسادزدگان اوربے بس ومجبورمسلمان اپنی بچی کھچی جان کو لے کرکیمپوںمیںپناہ گزیںہوگئے،حکومت یہ دعوے کرتی رہی کہ پناہ گزینوں کوحکومت کی جانب سے تمام سہولتیںمہیاکرائی جارہی ہیں،حکومت کے ساتھ ان کے حاشیہ بردارمسلم وزیراورمسلم قائدین بھی حکومت کی ہاں میںہاں ملاتے رہے،لیکن آہستہ آہستہ حکومت کے دعوؤںکی پول کھلتی چلی گئی جب سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے بچوںکی اموات میںاضافہ ہونے لگااوراس طرح ایک سرکاری اعدادوشمارکے مطابق اب تک ۳۴؍بچوںکی موت ہوچکی ہے جس کی وجہ یہی بتائی گئی کہ کیمپوںمیںطبی ودیگرانسانی سہولیات کی کمی کی بنیاد پر ان بچوںکی موت ہوئی ہے۔اسی طرح اب بھی ان کیمپوںمیںپناہ گزینوںکی تعدادتقریبا۵۰؍ہزارکے قریب بتائی جارہی ہے،جوسہولیات کی کمی کے باعث بہت ساری پریشانیوںمیںمبتلاہیں،راشن کے نام پراتنادیاجاتاہے کہ بہ مشکل ہی اس سے پیٹ بھراجاسکے،سردی کاموسم ہے،ان علاقوںمیںسردی بھی اپنے شباب پرہے،ایسے میںخیموں میںایک کمبل میںکس طرح گذاراہوسکتاہے یہ سوچ کرہی کلیجہ منہ کوآتاہے۔اورستم بالائے ستم یہ کہ ان سب کے باوجوداب مسلمانوںکے دم پرحکومت میںآنے والے ملائم سنگھ نے کیمپوںپربلڈوزرچلانے کاحکم دے کرظلم کی انتہاہی کردی ہے،لیکن ان سب کے باوجودہمارے قائدین کی زبان خاموش ہے۔حکومت اورحکومت کے جومسلم وزیرہیںان سے ہم کیاگلہ کرسکتے ہیںیہ توساراظلم ان کے اشارے پرہی ہورہاہے اورانہوںنے اپنے عمل سے یہ بتلادیاکہ وہ صرف زبان سے مسلمانوںکے ہمدردہیںعملی طورپروہ دشمنوں سے بھی بدترہیں۔


خیر!گلہ ہمیں حکومت سے نہی ںہے،کیوںکہ گذشتہ ۶۷؍سالوںسے ہمارے ساتھ ایساہی ہورہاہے اورہم ہیںکہ صرف گلے شکوے اوروعدوںپرہی جئے جارہے ہیں۔ تو ادھرادھرکی نہ بات کرتویہ بتاکہ قافلہ کہاںلٹا۔مجھے رہزنوںسے گلہ نہیںتیری رہبری کاسوال ہے۔ظاہرسی بات ہے کہ جوفسادات ہی مسلمانوںکی ہمدردکہلانے والی سیاسی جماعت کی حکومت کے پولس کارندوںکے سامنے ہوئے ،جن میںارکان اسمبلی اورپولس کے اعلیٰ افسران بھی شریک تھے توپھرہماراان سے گلہ کرناہی فضول ہے۔فسادات کوچارمہینے گذر گئے، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ آج تک فسادات کے ملزمین کے خلاف کسی طرح کی کارروائی کی گئی ہے اورنہ ہی فسادزدگان کی بازآبادکاری اوران کی حفاظت کاکوئی معقول انتظام کیاگیاہے،لیکن اس سے زیادہ حیرت وافسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے وہ مسلم قائدین جن کی طرف مسلم قوم آس لگائے بیٹھی ہے انہوںنے اپنے ضمیرکے ساتھ اپنی قوم کا بھی سوداکرلیااورخودعیش کی زندگی بسرکررہے ہیں جس کی وجہ سے حکومت آزادہے اوروہ اپنی من مانی کرنے میںمصروف ہے۔مظفرنگرفسادات کے بعدفسادات کی تحقیقات کے لیے خصوصی ٹیم (ایس آئی سی)تشکیل دی گئی تھی لیکن جب حکومت ہی ایماندارنہ ہوتوکسی طرح کی تحقیقاتی ٹیم کیاکرسکتی ہے اوراس خصوصی ٹیم نے بھی اپنی ناقص اورسست کارکردگی سے یہ ثابت کردیاکہ ہمیشہ کی طرح اس باربھی اس تحقیقاتی ٹیم کی تشکیل کامقصدمسلمانوںکی منہ بھرائی تھی اورمسلمانوںکے غصہ کوٹھنڈاکرنے کی ایک گھناؤنی سازش تھی۔تحقیقاتی ٹیم کی اب تک کی رپورٹ کے مطابق کل ۵۷۱؍مقدمات کی تفتیش کی گئی جس میں۶۳۸۶؍لوگوںکوملزم بنایاگیا،ان مقدمات میں۵۳۸؍کاتعلق مظفرنگرسے،۲۷؍کاتعلق شاملی سے، ۲؍کاتعلق باغپت سے اور۱۔۱ مقدمہ کاتعلق میرٹھ اورسہارنپورسے ہے۔لیکن ۴؍ماہ گذرجانے کے بعدبھی اب تک صرف ۲۳۰؍ملزمین کے خلاف چارج شیٹ داخل کی گئی ہے۔ اسی طرح اس ٹیم کی ناقص کارکردگی کاہی جیتاجاگتاثبوت ہے کہ ۲۸؍شکایت کنندگان کااب تک پولس پتہ بھی نہیںلگاسکی اورشواہدنہ ہونے کی وجہ سے ۹؍مقدمات میںفائنل رپورٹ بھی پیش کردی گئی۔اسی طرح آبروریزی کے ۲۷؍ملزمین کے خلاف ابھی تک کوئی کارروائی نہیںہوسکی ہے۔۵۲۲؍ملزمین کے خلاف گرفتاری وارنٹ ہونے کے باوجودبھی ابھی تک ان کی گرفتاری عمل میںنہیںآئی ہے۔قتل کے ۴۸؍مقدمات میںبھی ۸۹؍ملزمین کے خلاف گرفتاری وارنٹ جاری ہونے کے بعداب تک ان کی گرفتاری بھی نہیںہوسکی ہے۔ذراان اعدادوشمارکوپڑھیںاورغورکریںکہ آخرکیوں؟یہ سب صرف مسلمانوںکے ساتھ ہی کیوںہورہاہے؟کیاقصورہے مسلمانوںکا؟کیاصرف مسلم ہوناہی ان کے لیے مصیبت کاسبب ہے؟یاان کاآزادی کے بعدپاکستان پراپنے ملک ہندوستان میںہی رہنے کوترجیح دیناان کاسب سے بڑاگناہ ہے؟آخرکیاوجہ ہے کہ آزادی کے بعدسے اب تک سنکڑوںفسادات ہوئے جن میںصرف اورصرف یکطرفہ طورپرمسلمانوںکاہی نقصان ہوا،اس کے باوجودبھی آج مسلمان قومی دھارے میںجڑے رہنے کی خواہش میں ان ہی سیاسی جماعتوںسے اپنی وفاداری وابستہ کئے ہوئے ہیںجوانہیںوقفہ وقفہ سے فسادات کی آگ میںجھونکتی رہتی ہیں،کیامسلمان اب بھی نہیںجاگیںگے؟کیااب بھی وقت نہیں آیا ہے کہ مسلمان اپنی طاقت کومنوائے اوران جماعتوںکوواضح طورپرپیغام دے کہ ہم اب جاگ چکے ہیں،اورہم متحدہوچکے ہیںاب ہماری وفاداری ان ہی جماعتوںکے ساتھ ہوگی جوہمارے جان ومال عزت وآبروکی حفاظت کی ضامن ہوگی۔جاگناہوگا،مسلمانوںمیںسے ہی کسی کوپرانی روایت اوربھیڑچال کی روش کوختم کرتے ہوئے اناہزارے اور کیجریوال بنناہوگاورنہ پھرہمیشہ کی طرح آئندہ بھی کٹنے اورمرنے کے لیے تیاررہیں۔


مظفرنگرفسادات نے مسلمانوں کوآنکھیں کھول کراوردیکھ کرچلنے کاموقع فراہم کیاہے۔مسلمانوںکودیکھناہوگاکہ سیاسی جماعتوںکے ساتھ ساتھ مسلم قائدین میںسے کس نے مسلمانوں کے زخموںپرمرہم رکھاہے اورکس نے مسلمانوں کے زخموںکوکریدکراس پرنمک پاشی کی ہے۔اورپھراسی کے تناظرمیںمسلمانوں کواپنے مستقبل کالائحۂ عمل تیار کرنا ہوگا اوریہ صرف مظفرنگریایوپی کے مسلمانوں کے لیے نہی ںبلکہ پورے ہندوستان کے مسلمانوںکے لیے سنبھلنے کاموقع ہے۔ذرایادکریں! جب راہل گاندھی مظفرنگرپہونچتے ہیںتووہ کس طرح مسلم نوجوانوںکے آئی ایس آئی سے جڑے ہونے کی بات کہتے ہیں،اوراس طرح مظلوم اورستم رسیدہ مسلمانوںپرمزیدظلم وستم ڈھانے کاراستہ کھولتے ہیں، تو وہیں دوسری طرف راہل گاندھی کے اس دورہ نے ملائم کواتناآگ بگولہ کردیاکہ اس نے کیمپوںمیںمقیم مظلوم اوربے بس فسادزدگان کوکانگریس اوربی جے پی کاکارکن کہہ کرکیمپوںکوختم کرنے کاہٹلری فرمان جاری کردیا،اس معاملہ میںملائم مودی سے دس قدم آگے بڑھ گئے کہ مودی نے بھی گجرات کے کیمپوںمیںم قیم افرادکونشانہ بنایاتھالیکن اس نے کیمپ پر بلڈوزرچلانے کی ہمت نہیںکی تھی، لیکن ملائم نے کیمپوںپربلڈوزرچلانے کاحکم جاری کردیاجس سے مسلمانوںکے تئیںان کی سوچ ظاہرہوتی ہے۔اسی طرح اس موقع پر مسلمانوں کواپنے قائدین کوبھی پہچانناہوگاکہ کون سچااورہمدردقائدہے جس نے اس مصیبت کی گھڑی میںان کاساتھ دیااورکون ہے جس نے صرف اپنابینراورنام ونمودکے لیے کبھی مکانات کی تعمیرکااعلان کرکے توکبھی کمبل کی تقسیم کااعلان کرکے صرف انہیںبہلانے کی کوشش کی ہے۔بہت ہی معتبرذرائع سے مجھے یہ اطلاع ملی ہے کہ کچھ اللہ کے نیک بندے ایسے ہیںجوخاموشی سے فسادزدگان کی راحت رسانی کاکام کررہے ہیںنہ تووہ کوئی بینراستعمال کررہے ہیںاورنہ ہی اخباروںکی شہ سرخیوںمیںجگہ پانے کی کوشش کرتے ہیںبس اللہ کے لیے اپناکام کیے جارہے ہیں،لیکن ایسے لوگوںکی تعدادزیادہ ہے جوکام کم کرتے ہیںبینرکااستعمال زیادہ کرتے ہیںاوراخبارکی شہ سرخیوںمیںاس طرح چھاجاتے ہیںکہ گویاسارے جہاںکادردان ہی کے جگرمیںہے۔اس وقت سب سے زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت پردباؤبنایاجائے کہ حکومت فسادزگان کی بازآبادکاری سے پہلے ان کے جان ومال اورعزت وآبروکی حفاظت کویقینی بنائے،اوراس کے لیے ضروری اقدامات کرے تاکہ فسادزدگان اپنے گھروںکوواپس لوٹ سکیں اور انہیں وہاںکسی قسم کاخطرہ نہ ہو،اگرجان ومال اورعزت وآبرومحفوظ رہے گی تورزق کامالک تواللہ ہے محنت مزدوری کرکے اپناآشیانہ پھرسے بسالیںگے اورکاروبارزندگی پھرسے پٹری پر لوٹ آئے گی۔اس وقت میری ان تمام قائدین سے جوفسادزدگان کی راحت رسانی میںمصروف ہیںیہ درخواست ہے کہ وہ راحت رسانی کے کام کے ساتھ ساتھ حکومت پراجتماعی طورپردباؤبنائیںکہ پہلے حکومت ان کے جان ومال اورعزت وآبروکی حفاظت کی ضمانت دے اس کے بعدہی کیمپ خالی کرنے کاحکم نامہ جاری کرے،اگرحکومت اس ضمانت دینے میںپیچھے ہٹے توپھریک جٹ ہوکرمسلمانوںکوتحریک چلانی ہوگی اوراس وقت تک یہ تحریک جاری رہے گی جب تک حکومت مسلمانوں کی حفاظت کی ضمانت نہ دیدے اوراسے عملی طورپرکرکے بھی دیکھائے۔جن قائدین نے اپنے ضمیرکاسوداکرلیاہے ان کاانتظارکرنے کے بجائے نئے چہروںکوسامنے آناہوگااوروہی مثال پیش کرنی ہوگی جوکہ موجودہ دورمیںدہلی میںکیجریوال نے پیش کی ہے تبھی کامیابی ہماراقدم چومے گی ورنہ……؟؟؟


٭جنرل سکریٹری: رابطہ صحافت اسلامی ہند
٭رابطہ کے لیے: gsqasmi99@gmail.com 

 

************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 479