donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Lamhaye Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Hafeez Nomani
Title :
   Hukmaran Bhi Hazbe Mokhalif Ki Zaban Bole To

حکمراں بھی حزب مخالف کی زبان بولے تو؟


حفیظ نعمانی

 

کرناٹک کا مرکزی شہر بنگلور ملک کے چند خوبصورت اور پرانے شہروں میں امتیازی حیثیت کا شہر ہے لیکن اس وقت وہاں بی جے پی کی حکومت نہیں ہے۔ اس لئے وہ سنگھ کو کھٹک رہا ہے۔ بجرنگ دل کی دو روزہ کانفرنس میں وہاں جو کچھ کہا گیا اس سے یہ سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ کرناٹک سنگھ کے نشانے پر ہے۔ کانفرنس میں ایک نیا نعرہ دیا گیا ہے کہ ’’ہندو گھٹا اور ملک بٹا‘‘ اور ہندو کے گھٹنے کا سبب یہ بتایا گیا ہے کہ اگر مسلمانوں کی آبادی بڑھی تو ہندو کم ہوجائیں گے۔ اس کا علاج یہ تجویز کیا گیا ہے کہ جہاں کہیں مسلمانوں کی آبادی 20  فیصدی ہے وہاں نس بندی مسلمانوں کے لئے لازمی کردی جائے تاکہ آبادی کا تناسب 80  ہندو اور 20  مسلمان سے آگے نہ بڑھے۔

بجرنگ دل کا مطلب ہے بجرنگ بلی کی فوج ایسے ہی جیسے پاکستان میں جیش محمد ہے یعنی حضرت محمدؐ کی فوج یا لشکر۔ ظاہر ہے کہ جب نام ایک جیسے ہوں گے تو کام بھی دونوں کا ایک جیسا ہی ہوگا۔ اس کے باوجود ملک میں حکومت کانگریس کی رہی ہو، جنتا پارٹی کی رہی ہو، جنتادل کی رہی ہو یا بی جے پی کی۔ کسی نے بجرنگ دل یا شیوسینا یا رام سینا کسی پر بھی ہاتھ نہیں ڈالا۔ ایسے ہی جیسے پاکستان جیش محمد، لشکر طیبہ، جماعت الدعوۃ اور حزب المجاہدین پر کبھی ہاتھ نہیں ڈالتا۔ بلکہ دونوں ان کی سرپرستی کرتے ہیں۔

اس کانفرنس میں کہا گیا کہ تمام ملک کے ہندوئوں کو اس پر نظر رکھنا چاہئے کہ کسی بھی علاقہ میں مسلمانوں کی تعداد 20  فیصدی سے زیادہ نہ ہونا چاہئے اور ہندو اس کا خیال رکھیں کہ ان کی تعداد 80  فیصدی سے کم نہ ہونا چاہئے اور سب سے دلچسپ بات یہ کہی ہے کہ جہاں بھی مسلمان 20  فیصدی سے زیادہ ہوجاتا ہے وہاں سیکولر اقدار باقی نہیں رہتیں۔ ملک کے جس شہر میں ہندو فرقہ اقلیت میں ہے وہاں ہندوئوں کے لئے شدید خطرات پیدا ہوگئے ہیں۔ جیسے وادی کشمیر، بہار اور بنگال کے تین تین اضلاع کیرالہ کا ایک اور آسام کے 9  اضلاع میں مسلمانوں کا اکثریت میں ہونا باعث تشویش ہے۔ کیونکہ یہی وہ اضلاع ہیں جہاں دوسری قوموں کا رہنا دشوار ہوگیا ہے۔ بجرنگ دل نے الزام لگایا کہ مرکزی حکومت اور ریاستی حکومتیں مسلمانوں کی پشت پناہی کررہی ہیں۔ سریندر جین نے الزام لگایا کہ مسلمان پورے ملک میں مالدہ سے ممبئی تک بڑے پیمانے پر فساد برپا کررہے ہیں۔

یہ حقیقت ہے کہ ہم لکھنؤ میں رہتے ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ہم سنبھل کے رہنے والے ہیں جہاں 70  فیصدی مسلمان اور 30  فیصدی ہندو ہیں۔ لیکن اب ضلع بننے کے بعد بہت بڑی تعداد میں وہ دیہات شامل ہوگئے ہیں جن میں ہندو اکثریت میں ہیں اس لئے سنبھل اب مسلم اکثریت کا ضلع نہیں رہا۔ سنبھل جب ضلع نہیں تھا مراد آباد کی ایک تحصیل تھی اس وقت جب بھی کبھی وہاں کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آیا اور کرفیو لگا تو کسی ہندو محلہ میں کرفیو نہیں ہوتا تھا۔ لیکن چھوٹے سے چھوٹے مسلم محلہ کو بھی پولیس کرفیو میں ایسے باندھ دیتی تھی کہ کسی کو ایک دوسرے کی خبر نہیں ملتی تھی۔ اور ہمیں یاد نہیں کہ کسی بھی دفعہ کے تحت ہندوئوں کی گرفتاری ہوئی ہو۔ لیکن مسلمان سیکڑوں کی تعداد میں گرفتار کرلئے جاتے تھے۔

1978ء میں جب سنبھل میں فساد ہوا تو ایک ہفتہ کے بعد ہم شری نرائن دت تیواری کی قیادت میں 15  ممتاز لیڈروں کا وفد لے کر سنبھل گئے تھے۔ یہ معلوم ہوچکا تھا کہ پورا سنبھل کرفیو میں بند ہے۔ وفد جب سنبھل میں داخل ہوا تو ایس ڈی ایم رائے زادہ میونسپل بورڈ کے باہر کھڑے تھے اور ان کے ارد گرد بلامبالغہ پچاس کے قریب ہندو نوجوان کھڑے تھے۔ ہم یہ سمجھے کہ شاید سابق وزیر اعلیٰ نرائن دت تیواری جی کے خیال سے کرفیو میں ڈھیل دے دی گئی ہے۔ لیکن جب ہندو محلہ کی سرحد ختم ہوگئی اور مسلم محلہ دیپاسرائے کی سرحد شروع ہوئی تو معلوم ہوا کہ کرفیو ہے۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب جنتا پارٹی کی حکومت تھی۔ اس فساد کی ذمہ داری بھی مسلمانوں پر ڈالی گئی اور وہی گرفتار ہوئے۔ 1980 ء میں صرف دو سال کے بعد مراد آباد میں عید کے دن عیدگاہ میں نماز شروع ہونے سے چند منٹ پہلے پولیس اور مسلمانوں کے درمیان کہا سنی ہوئی جس کے نتیجہ میں پولیس نے گولیاں برسانا شروع کردیں اور درجنوں مسلمان نماز پڑھے بغیر ہی اپنے پیدا کرنے والے کے پاس پہونچ گئے۔ اور اس کے بعد ہمیں یاد نہیں کسی ہندو کی گرفتاری ہوئی ہو بلکہ ہر محلہ سے صرف مسلمان ہی گرفتار کئے گئے اور جیسی جیسی ان کے ساتھ سختیاں ہوئی ہیں وہ اگر مراد آباد کے ہندوئوں کے ساتھ کی جاتیں تو شاید مراد آباد ہندوئوں سے خالی ہوجاتا۔ واضح رہے کہ 1980 ء میں اُترپردیش میں کانگریس پھر برسراقتدار آگئی تھی۔

مرکز میں حکومت کانگریس کی ہو یا بی جے پی کی اسے اس پر تو نظر رکھنا چاہئے کہ کہاں کیا ہورہا ہے اور کون کیا کہہ رہا ہے؟ اور یہ تو ملک کے 100  کروڑ ہندوئوں کے لئے شرم کی بات ہے کہ وہ 80  فیصدی سے کم ہوئے تو 20  فیصدی سے زیادہ مسلمان انہیں پھاڑکر دریا میں پھینک دیں گے اور ملک کے ہندوئوں کو یہ پیغام دینا کہ مسلمانوں کو 20  فیصدی سے زیادہ نہ ہونے دینا اور ہندوئوں کو 80  فیصدی سے کم نہ ہونے دینا۔ جبکہ پورے ملک میں ہندوئوں کی حکومت ہے اور اسلحہ کے لائسنس مسلمانوں کے پاس نہ ہونے کے برابر ہیں جبکہ ہندو چاہے اسے بندوق پکڑنا بھی نہ آتی ہو لائسنس لینے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔ جس کا ثبوت یہ ہے کہ جب ڈی ایس پی ضیاء الحق کا کنڈہ میں قتل ہوا تھا اور گائوں کی تلاشی لی گئی تھی تو ہندوئوں کے گھروں سے اتنی لاٹھیاں نہیں نکلی تھیں جتنی بندوقیں نکلی تھیں۔

حیرت اس پر ہے کہ ہندو سماج میں طاقت کا سمبل (علامت) بجرنگ بلی ہیں اور بجرنگ دل کے لیڈر اتنے بہادر ہیں کہ اگر مسلمان 25  فیصدی ہوجائیں گے تو ان کے نزدیک 75  فیصدی ہندوئوں کا کام تمام کردیں گے اور یہ بزدلی اس کے باوجود ہے کہ پوری پولیس پورے نیم فوجی دستے اور ضرورت پڑے تو پوری فوج 80  فیصدی ہندوئوں کی پشت پر ہر وقت کھڑی رہتی ہے اور ہر جگہ کی پولیس باوردی ہندو کا فریضہ ادا کرتی ہے۔ اور یہ آخری درجہ کی بات ہے 1993 ء میں ممبئی میں جو جسٹس شری کرشنا کی رپورٹ کے مطابق 900  سے زیادہ مسلمان قتل ہوئے ان کو مارنے والوں میں بجرنگ دل جیسی ہندو تنظیموں کے علاوہ پولیس کو بھی نامزد کیا تھا۔ اور یہ تو جگہ جگہ دیکھا ہے کہ ہر فسادی ٹولے کے پیچھے مسلح پولیس فسادیوں کی حفاظت کے لئے ساتھ رہتی ہے۔

اس وقت نام کے لئے تو بی جے پی کی حکومت ہے لیکن ہر کوئی جانتا ہے کہ بی جے پی آر ایس ایس کی ایک سیاسی شکل ہے۔ پوری بی جے پی میں کوئی نہیں ہے جو یہ فیصلہ کرے کہ صدر کون بنے گا؟ شری گڈکری کو جب بنایا تھا تو موہن بھاگوت صاحب نے یہ کہہ کر بنایا تھا کہ یہ ان کا فیصلہ ہے۔ پھر راج ناتھ سنگھ کو بنایا تب بھی یہ کہا گیا کہ سنگھ کے نزدیک سب سے زیادہ بھروسہ ان پر ہی کیا جاسکتا ہے۔ اور جب حکومت بن گئی تو موہن بھاگوت صاحب نے اپنے سب سے معتمد رام مادھو کو جنرل سکریٹری بناکر پارٹی میں بٹھا دیا۔ جو امت شاہ سے زیادہ اختیارات کے مالک ہیں۔ ایسے حالات میں آر ایس ایس پریوار کی ہی ایک تنظیم جسے بجرنگ دل کہا جاتا ہے وہ کردار ادا کرے جو حزب مخالف کا ہوتا ہے اور وہی کردار دوسری تنظیم وشوہندو پریشد ادا کرے اور ان سے بھی اہم یہ کہ مسٹر سبرامنیم سوامی بھی حزب مخالف کے لہجہ میں بات کریں تو کیا یہ سیاسی مذاق نہیں ہے؟

حکمراں ٹولہ کی ایک اکائی کہے کہ مرکزی اور صوبائی سرکاریں سب مسلمانوں کی حمایتی کرتی ہیں اور سبرامنیم سوامی جیسا قانون داں کہے کہ مسلمان انہیں تین مسجدیں دے دیں اور چار ہزار اپنے پاس رکھیں۔ کیا وہ زبان نہیں ہے جو وہ 2004 ء سے 2014 ء تک بولتے رہے ہیں۔ کیا یہ مناسب نہ ہوگا کہ سنگھ کے سربراہ بھاگوت صاحب ان سب کو بلاکر کہیں کہ جب تک حکومت ہے اس وقت تک تو ایسی باتیں نہ کہو جو مذاق بنوائیں۔ مسلمان 20  سے کم رہیں اور ہندو 80  سے زیادہ رہیں کیا یہ ثابت نہیں کرتا کہ اگر مسلمان 25  ہوجائیں تو 75  ہندوئوں پر بھاری ہیں اور کیا یہ ہندوئوں کی توہین نہیں ہے؟

(یو این این)


****************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 485