donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Lamhaye Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Hafeez Nomani
Title :
   Lakeer Ko Chhota Karne Ka Mashhoor Tariqa

لکیر کو چھوٹا کرنے کا مشہور طریقہ


حفیظ نعمانی

 

کسی بھی صحافی کا اپنے وزیر اعظم کے بارے میں لکھنا کوئی فخر کی بات نہیں ہے۔ وزیر اعظم جب تک وزیر اعظم ہیں ملک کے سربراہ ہیں۔ لیکن جب ہر کوئی یہ محسوس کرنے لگے کہ وہ ہر جگہ ناکام ہوتے جارہے ہیں اور ان کی ناکامی سے ہر ہندوستانی سبکی محسوس کررہا ہے تو لکھنے والوں کو لکھنا ہی پڑتا ہے کہ غلطی کہاں ہورہی ہے؟ 2014  میں جیسے شری نریندر مودی کو حمایت ملی وہ ایسی تھی جیسی کبھی پنڈت نہرو کو ملتی تھی یا پاکستان کے دو ٹکڑے کرکے اور بنگلہ دیش بنوانے کے انعام کے طور پر ہندوستانی عوام نے مسز اندرا گاندھی کو دی تھی۔ یا مسز اندرا گاندھی کے قتل کے صدمہ سے غمزدہ ہوکر عوام نے راجیو گاندھی کو دی تھی۔
اور یہ کامیابی ہی تھی جس نے مودی صاحب کو یہ سوچنے کے قابل بنایا کہ وہ پنڈت نہرو اور اندرا گاندھی سے زیادہ کامیاب وزیراعظم بن سکتے ہیں۔ اور یہی سوچ کر انہوں نے سب سے پہلے چین کو شیشہ میں اتارنا چاہا۔ تاکہ قوم کو دکھا سکیں کہ چین نے جو 1962 ء میں کیا اس میں نہرو جی کی ہی کوئی کمی تھی۔ چین کے صدر کا احمد آباد میں جیسا والہانہ استقبال کیا گیا۔ اور جیسے انہیں محبوب کی طرح بغل میں بٹھاکر جھولا جھلایا گیا، کھانا کھلایا گیا اور ہر وہ بات کی گئی جس کے بعد کوئی بھی سوچ سکتا ہے کہ اب شیشے میں اتارلیا۔

پھر اس کے بعد مودی صاحب یہ سوچ کر چین گئے کہ وہاں ان کی ایسی ہی خاطر ہوگی جس کے بعد چینی صدر بھی براک اوبامہ کی طرح ذاتی دوست بن جائیں گے۔ لیکن اور جو کچھ بھی ہوا وہ تو ایک طرف ایک مقامی اخبار میں  ان کے دورہ کی خبر اور ہندوستان کا نقشہ چھپا۔ ایسا نقشہ جس میں کشمیر نہیں تھا۔ اور ہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ چین میں جو ہندوستان کا نقشہ پڑھایا جاتا ہوگا وہ وہی ہوگا جس میں کشمیر نہیں ہے۔ اس کا ثبوت اس سے بڑا کیا ہوگا کہ اظہر مسعود جس کی نہ کوئی سرکاری حیثیت ہے اور نہ قومی وہ بھی چین کو پیارا ہے۔ اور اس لئے پیارا ہے کہ وہ ہندوستان کا بدترین دشمن ہے۔

اب یہ تو سب دیکھ رہے ہیں کہ مودی سرکار کے ہر وزیر اور افسر کے دل سے چین کی محبت نکل گئی۔ اور انہیں بھی یقین ہوگیا کہ پنڈت نہرو کی غلطی نہیں تھی چین کی فطرت ہی ایسی ہے کہ وہ یا دشمن بناتا ہے یا غلام اور دوست بنانے کا اس کے دل میں کوئی خانہ نہیں ہے۔ اور پاکستان نے اس کی غلامی قبول کرلی ہے۔ اس لئے وہ مسعود اظہر ہو یا حافظ سعید سب کی سرپرستی کرے گا۔

پاکستان نے اندرا گاندھی کو تو نہ معاف کیا ہے نہ کرے گا۔ لیکن وہ دس برس ڈاکٹر منموہن سنگھ کے ساتھ اور چھ برس اٹل جی کے ساتھ منافقت کا کھیل کھیلتا رہا۔ کبھی محسوس ہوتا تھا کہ اب دونوں کے درمیان آر پار کی جنگ ہوکر رہے گی۔ اور کبھی محسوس ہوتا تھا کہ دونوں اب بڑے چھوٹے بھائی کی طرح رہیں گے۔ لیکن سولہ برس کا حاصل یہ رہا کہ دونوں جہاں تھے، مودی کو وہ وہیں کھڑے ملے۔ اس کے بعد مودی صاحب نے سوچا کہ کیسے پاکستان دوست نہیں بنے گا؟ اور انہوں نے سب سے پہلے اپنی تاج پوشی کے جشن میں بلاکر سب کو حیرت زدہ کردیا۔ اور پاکستان میں شدید مخالفت کے باواجود نوز شریف آبھی گئے۔ اور مودی صاحب کو یہ خوش فہمی ہوگئی کہ لوگوں کو دوست بنانا آتا ہی نہیں ہے۔ اور ہم نے نواز شریف کو دوست بنا لیا۔ ہندوستان سے نواز شریف کی والدہ کے لئے قیمتی شال گئی۔ جواب میں ماتا جی کے لئے قیمتی ساڑی آئی نواز شریف نے ہندوستان کے آم کھائے اور مودی صاحب کو پاکستان کے آم کھلائے۔ اور اس کا بھی اعلان ہوچکا تھا کہ پاکستان میں ہونے والی سارک کانفرنس میں وزیر اعظم مودی شریک ہوں گے۔ اور انہوں نے ایک بہت بڑا فیصلہ کرلیا کہ وہ افغانستان سے واپسی پر اچانک نواز شریف سے ملنے پاکستان جاپہونچے۔ اور 70  سال کے بعد اس سے بھی بڑا فیصلہ کردیا کہ پٹھان کوٹ کے حادثہ کی حقیقت جاننے کے لئے پاکستان کی ٹیم کو اجازت دے دی اور محبت کا خزانہ لٹانے کا بدلہ یہ ملا کہ پٹھان کوٹ ہندوستان کا اپنا ڈرامہ تھا اور گفتگو کے دروازے بھی بند۔

ملک کی تقسیم سے پہلے مسلم لیگ کا ایک بڑا اخبار ’’انجام‘‘ دہلی سے نکلتا تھا۔ اس میں ہر دن ایک کارٹون صفحہ نمبر 2 پر ہوتا تھا۔ جس میں گاندھی جی گائو تکیہ کے سہارے بیٹھے دکھائے جاتے تھے اور حقہ کی چلم کی جگہ کسی نیشنلسٹ لیڈر۔ مثلاً مولانا آزاد، عبدالغفار خان، حافظ ابراہیم، مولانا حفظ الرحمن یا مولانا لدھیانوی یا مولانا بخاری کا چہرہ ہوتا تھا۔ اس کے نیچے لکھا رہتا تھا کہ انہوں نے مسٹر جناح یا پاکستان کی مخالفت میں کیا بیان دیا؟ اور کارٹون کا عنوان اوپر جلی حروف میں ہمیشہ ایک ہی مصرع ہوتا تھا کہ ’بے جان بولتا ہے مسیحا کے ہاتھ میں‘ آج نہیں برسوں سے پاکستان کی حیثیت یہی ہے کہ وہ چین کے ہاتھ میں ہے اور ہندوستان کے ساتھ اس کا ہر کھیل چین کی ہدایت پر کھیلا جاتا ہے۔ وہ ہندوستان دشمنی میں اندھا ہوگیا ہے۔ اور اس نے سمجھ لیا ہے کہ اگر وہ چین اور صرف چین کا رہے گا تو ہندوستان اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ ایک مہینے کے بعد مودی صاحب کو دو سال حکومت کرتے ہوجائیں گے لیکن وہ نہ چین کو دوست بنا سکے اور نہ پاکستان کو۔

نریندر مودی صاحب اگر نہرو، اندرا گاندھی اور دوسروں کو نااہل ثابت کرنے کے بجائے ملک کے لئے کچھ اور ایسے کام کرتے جن سے ملک کی حالت بگڑتی جارہی ہے تو وہ اپنا ایک مقام بنانے میں کامیاب ہوجاتے۔ جیسے ملک میں کرکٹ کی لعنت کو کنٹرول کرتے۔ آج حالت یہ ہے کہ ملک کی وزارت سے زیادہ اہم ملک کی کرکٹ ٹیم بن گئی ہے۔ ہندوستان کا کوئی بچہ بھی ٹیم کی ہار برداشت نہیں کرتا۔ اور اگر ٹیم ہار جائے تو محسوس ہوتا ہے جیسے جنگ ہارگئے۔ صرف اس لئے کہ ہر نوجوان کی زبان پر ہے کہ کرکٹ ہمارا دھرم ہے اور جب سچن کھیل رہے تھے تو وہ بھگوان تھے اور اب سال چھ مہینے میں وراٹ کوہلی بھگوان بن جائیں گے۔

پورے ملک کا یہ مزاج بنا دیا گیا ہے کہ اگر ٹیم ہار جائے تو سب کو رونا چاہئے۔ اس لئے کہ ہماری ٹیم دنیا کے سب زیادہ دولتمند کھلاڑیوں کی ٹیم ہے اور وہ اس ٹیم سے ہاری ہے جو دنیا کی سب سے غریب ٹیم ہے اور جس کے کھلاڑی دنیا کے سب سے کالے کھلاری ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ ان غریبوں اور کالوں کا دل بڑھایا جاتا اور جب انہوں نے ہمارے دشمن انگریزوں کو ہرایا تو اور زیادہ خوش ہونا چاہئے۔ لیکن اس خوشی اور غم کا نتیجہ یہ ہوا کہ راجستھان اور کشمیر یونیورسٹی میں وہ ہوا جو حیدر آباد اور نہرو یونیورسٹی میں ہوا تھا اور جہاں سے مہینے گذرنے کے بعد بھی دھواں نکل رہا ہے۔

اب 45  دن آئی۔ پی۔ ایل۔ کا ملک پر بخار رہے گا کم از کم مودی صاحب عیاشی، جوئے اور پانی کی طرح شراب بہانے کے اس دھندے پر ہی لگام لگادیتے؟ جس کی وجہ سے ملک کے لاکھوں نوجوان برباد ہورہے ہیں۔ وہ پڑھنے میں دل اس لئے نہیں لگاتے کہ 45  دن میں کروڑوں کمانا چاہتے ہیں اور کھلاڑی اس لئے نہیں بن پاتے کہ جس میں اتنی طاقت نہیں اور کھانے کے لئے چنے کی طرح  خشک میوے نہیں۔ اور اگر کوئی بن جاتا ہے تو ہزار میں وہ ایک ہوتا ہے اور 999  ناکارہ ہوکر رہ جاتے ہیں۔ مودی صاحب جب آئے ہیں تو بدنامی عروج پر تھی اور اس کے بند کرنے کا مطالبہ زوروں پر تھا۔ اگر وہ اس کو بند نہ کراتے مگر اسے کھیل کی طرح کھیل رہنے دیتے تب بھی ملک پر ان کا احسان ہوتا۔ اور اگر اب وہ حکم دیتے کہ پیاس سے جاں کنی کی حالت والے مہاراشٹر میں کوئی میچ نہیں ہوگا تو ساٹھ لاکھ لیٹر پانی زمین پر بہانے اور دو لاکھ لیٹر پانی پینے اور نہانے سے بچ جاتا۔ لیکن اس وقت مودی صاحب کے اوپر صوبوں کے  الیکشن سوار ہیں جنہیں وہ وزیر اعظم کے سنگھاسن سے اترکر صوبائی لیڈروں کی طرح لڑرہے ہیں۔ اور وہ لوگ حیرت سے انہیں دیکھ رہے ہیں جنہوں نے اندرا گاندھی، اٹل جی اور منموہن سنگھ کو صوبائی الیکشن میں دلچسپی لیتے دیکھا تھا۔ صوبائی الیکشن وزیر اعظم نہیں پارٹی کا صدر لڑاتا ہے۔ اور جب بی جے پی کے پاس 55  اِنچ کے سینہ والا صدر موجود ہے تو وزیر اعظم کون ہوتے ہیں؟ نہ کرنے والے کام کرنا اور کرنے والے نہ کرنا کسی بھی وزیر اعظم کو وہاں نہیں  پہونچا سکتے جہاں وہ کامیاب ہوسکیں۔

وزیر اعظم ہوں یا کوئی اور وزیر سب نے بچپن میں یہ کھیل ضرور کھیلا ہوگا کہ کاغذ پر ایک لائن کھینچ کر دوستوں سے کہا کہ اسے نہ کاٹو نہ مٹائو لیکن چھوٹا کردو۔ اور جب کوئی نہ کرسکا تو اس کے برابر ایک بڑی لائن کھینچ دی اور اسے چھوٹا کردیا۔ مودی صاحب بھی اگر پنڈت نہرو، مسز اندرا گاندھی، اٹل جی یا منموہن سنگھ کو چھوٹا کرنا چاہتے ہیں تو ان کے ناموں کو مٹانے کے بجائے روشن حروف میں  اپنا نام لکھ دیں اور ہندوستان سے ہر اس چیز کو مٹادیں جس سے پانچ فیصدی دولتمند خوش ہورہے ہیں اور 95  فیصدی کو دُکھ ہوتا ہے یا وہ اپنے کو بدنصیب سمجھتے ہیں اور اس کے لئے کیا کیا کرنا پڑے گا؟ یہ ہر وزیر بھی جانتا ہے ہر ایم پی اور ایم ایل اے بھی۔ اگر تین سال میں وہ ساری طاقت جھونک کر انڈیا اور بھارت کا فاصلہ اتنا کم کردیں کہ ہر غریب کو نظر آجائے تو انہیں صوبوں میںاپنی حکومت کے لئے اتنی کیا؟ ذراسی بھی محنت نہیں کرنا پڑے گی۔ لیکن اس کے لئے سرمایہ دار دوستوں کے اوپر حملہ کرنا پڑے گا جو شاید مودی صاحب نہ کرسکیں اور چھوٹی لکیر ہمیشہ چھوٹی ہی رہے گی۔(یو این این)


 فون نمبر: 0522-2622300  


************************

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 619