donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Lamhaye Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Hafeez Nomani
Title :
   Woh Apni Khoo Na Chhorhenge Ham Apni Waza Kiyon BadleN

وہ اپنی خو نہ چھوڑیں گے ہم اپنی وضع کیوں بدلیں


حفیظ نعمانی

ہندوستان کے ہر سیاسی لیڈر کو معلوم بھی ہے اور اس کا تجربہ بھی کہ ہندو پاک کے درمیان دوستانہ تعلقات کی کوشش دو چار قدم چلتی ہے اور تھک کر بیٹھ جاتی ہے یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہر بار رہ رہ کر ہندوستان ہی پہلے دوستی کا ہاتھ بڑھاتا ہے پھر یا تو کچھ ہندوستان میں ہوجاتا ہے جیسے پارلیمنٹ پر حملہ یا 26/11  کو ممبئی میں کئی جگہ حملے اور یہ نہیں تو پاکستان کے ہائی کمشنر سے سید علی شاہ گیلانی، میرواعظ اور یاسین ملک کے ساتھ راز و نیاز۔ شری مودی نے اقتدار سنبھالنے سے پہلے نواز شریف کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا، انہیں اپنی حلف برداری کی تقریب میں مدعو کیا، انتہائی گرم جوشی کے ساتھ استقبال کیا، بند کمرہ میں دل کی بات کی اور چلتے وقت ان کی والدہ کے لئے ایک بہت پیاری شال بھیجی۔ وزیر اعظم پاکستان نواز شریف نے بھی محبت کا جواب محبت سے دیا کہ فیصل آباد کی بنی ہوئی ایک ساڑی شری مودی کی ماتاجی کے لئے بھیجی اپنے ملک کے سب سے مشہور آم بھی بھیجے۔ مودی صاحب نے سمجھ لیا کہ فصل پک کر تیار ہوگئی ہے اب دیر نہیں کرنا چاہئے، انہوں نے ایک قدم اور بڑھایا اور مذاکرات کے لئے خارجہ سکریٹری کو بھیج دیا۔ دونوں کے درمیان مذاکرات بھی ہوئے لیکن وہی ہوا جو ہمیشہ ہوتا آیا ہے کہ پاکستان کے ہائی کمشنر صاحب نے گیلانی صاحب اور دوسرے لیڈروں سے ملاقات کرلی۔ جبکہ پاکستان ہی نہیں پوری دنیا کو معلوم ہے کہ ہندوستان کشمیر کے اٹوٹ انگ کے موقف سے ایک منٹ کے لئے بھی دستبردار ہونے کے لئے تیار نہیں ہے اور گیلانی صاحب آج بھی کہہ رہے ہیں کہ ہندوستان کو یہ تلخ حقیقت ماننی ہی ہوگی کہ جموں کشمیر ایک متنازعہ علاقہ ہے اور وہ اس کا حصہ نہیں ہے۔

پاکستان کا ہر لیڈر بھی یہی کہتا آیا ہے کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے وہ صرف یہ چاہتا ہے کہ تقسیم کے بعد پنڈت نہرو نے جو درجنوں بار اور کئی موقعوں پر کہا تھا کہ کشمیر کا ہندوستان سے الحاق عارضی ہے۔ اقوام متحدہ کی نگرانی میں استصواب رائے کرایا جائے گا کہ کشمیری ہندوستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا پاکستان کے ساتھ یا آزاد کشمیر اور اسی فیصلہ پر عمل ہوگا۔ اس بات سے کون انکار کرسکتا ہے کہ پنڈت جی نے جگہ جگہ یہ کہا- کشمیر کے لئے دفعہ 370  ہندوستان نے ہی منظور کی تھی کشمیر کو ایک صوبہ کے بجائے دوست ملک بھی ہندوستان نے ہی بنایا تھا۔ کرن سنگھ کو صدر ریاست اور شیخ عبداللہ کو وزیر اعظم بھی ہندوستان ہی نے بنایا تھا کشمیر کا دستور اور اس کا قومی پرچم بھی پنڈت نہرو کی حکومت نے ہی کشمیر کو دیا تھا۔ بعد میں جب مہاسبھا کے جھنڈے کے نیچے سردار پٹیل پنڈت پنت اور پرشوتم داس ٹنڈن جیسے کانگریس کے لیڈر بھی یہی کہنے لگے کہ ایک ملک میں دو صدر، دو وزیر اعظم، دو دستور اور دو پرچم نہیں ہوسکتے اور نہرو جی کو یہ خطرہ محسوس ہونے لگا کہ ان کے خلاف بغاوت بھی ہوسکتی ہے تو انہوں نے اپنے ہی کئے پر کالک پوتی انتہائی بھونڈے طریقہ سے صدر اور وزیر اعظم کا عہدہ ختم کیا اور آخری درجہ کی احسان فراموشی کرتے ہوئے شیرکشمیر کہے جانے والے شیخ عبداللہ کو جیل میں ڈال کر مخالفوں کا غصہ ٹھنڈا کیا اور اپنی کرسی بچالی۔ اس فیصلہ میں نہ پاکستان شریک تھا نہ کشمیر کے لیڈر نہ کشمیری عوام جس کا ثبوت یہ ہے کہ کمزور آواز سہی لیکن یہ آواز اُٹھتی رہتی ہے کہ ہم آزاد کشمیر سے کم پر راضی نہیں ہیں۔


ڈھائی مہینے پہلے ہونے والے کشمیر کے اسمبلی الیکشن کے نتیجہ کے بعد یہ بھی ہوسکتا تھا کہ صرف کشمیر کے لوگ اپنی حکومت بنا لیتے اور جموں بی جے پی کی 25  سیٹیں کلیجے سے لگائے بیٹھا رہ جاتا لیکن پھر یہ نہیں ہوسکتا تھا کہ علیٰحدگی پسند لیڈر مسرت عالم بھٹ کی رہائی کا سہرا مفتی صاحب اپنے سر پر باندھ پاتے۔ کیونکہ مودی حکومت کسی ایک چھوٹے سے معاملہ کو بہانہ بناکر حکومت کو برخاست کردیتی اور صدر جمہوریہ بغیر کسی حجت کے اس فیصلہ پر مہر لگادیتے۔ اس لئے کہ سب کو معلوم ہے کہ ملک میں مسلمان کے لئے قانون الگ ہے اور غیرمسلموں کے لئے الگ۔ اور اتفاق سے ملک کی ریاستوں میں کشمیر ہی ایک ایسی ریاست ہے جہاں مسلمانوں کی حکومت ہے۔

سید علی شاہ گیلانی نے اپنے ساتھی مسرت عالم کی رہائی پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کا کوئی احسان نہیں ہے۔ جبکہ انہیں مفتی سعید صاحب کی اس جرأت پر ان کو مبارکباد دینا چاہئے تھی کہ وہ بی جے پی کو ساتھ لے کر اس طرح حکومت کررہے ہیں جیسے آزاد کشمیر کے بعد ہوتی۔ گیلانی صاحب ہوں، میرواعظ یا یاسین ملک کوئی یہ نہیں کہتا وہ کشمیر پاکستان کو دینا چاہتے ہیں۔ مفتی صاحب نے کشمیر کے قومی پرچم کی عظمت کو برقرار رکھا اور کشمیر کے دستور کا خود بھی حلف لیا اور سب کو اسی لئے حلف دلایا گیلانی صاحب اور ان کے تمام ساتھیوں کا اس بات پر شکریہ ادا کیا کہ انہوں نے الیکشن کے دوران کوئی تخریبی کارروائی نہیں کی اور ہر ہندو کو اس کی شکایت ہے کہ مفتی صاحب نے الیکشن پرامن کرانے کے لئے فوج کا، الیکشن کمیشن کا اور عوام کا شکریہ ادا نہیں کیا یہ بات اتنی زور سے اور اتنی جگہ کہی گئی کہ مفتی سعید صاحب کے علاوہ کوئی دوسرا ہوتا تو اپنی غلطی تسلیم کرکے معذرت چاہتا اور سب کا شکریہ ادا کرتا۔ لیکن مفتی صاحب نے وہی کیا جو رامائن پوری لکھنے کے بعد تلسی داس جی نے کیا تھا کہ بھگوان کا بھی شکریہ اور شیطان کا بھی شکریہ ادا کیا تھا۔ جب ان سے معلوم کیا کہ شیطان کا شکریہ کیوں؟ تو انہوں نے جواب دیا تھا کہ بھگوان کا اس لئے کہ اس نے لکھنے کے درمیان میری مدد کی اور شیطان کا اس لئے کہ اس نے رکاوٹ نہیں ڈالی۔

ہم نے بات شروع کی تھی ہندو پاک مذاکرات کی۔ واقعی ہماری سمجھ میں نہیں آتا کہ ہندوستان کیوں یہ فیصلہ نہیں کرتا کہ پاکستان کو ذہن سے نکال دینا چاہئے؟ پاکستان ایک ملک نہیں ہے۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ پنجاب، سندھ، سرحد اور بلوچستان میں رہنے والوں نے پاکستان نہیں بنایا۔ مسٹر جناح، نواب زادہ لیاقت علی خاں، اسکندر مرزا، نظام الدین، چودھری خلیق الزماں سہروردی، نواب اسماعیل اور 1964 ء تک بننے والے تمام گورنر جنرل یا صدر یا وزیر اعظم جتنے بھی ہوئے ان میں سے ایک بھی ان صوبوں کا نہیں تھا جہاں پاکستان ہے۔ پاکستان بنانے والے اب وہاں بن بلائے مہمان جیسی زندگی گذار رہے ہیں اور مہاجر کہلاتے ہیں۔ جو حالت ہمارے ملک میں آدی واسیوں کی ہے مہاجر ان سے بھی زیادہ پسماندہ ہیں۔ اور حکومت صرف پنجابی اور وہ سندھی کررہے ہیں جو پہلے سے ہی مسلم اکثریت کے صوبوں میں رہتے تھے وہ پہلے بھی اپنے حال میں مست تھے اور اب بھی مست ہیں انہیںہندوستان کے ہندوئوں سے ہی نہیں ہندوستان کے مسلمانوں سے بھی نفرت ہے۔ وہ چین اور امریکہ یا برطانیہ کی غلامی کرلیں گے ہندوستان سے دوستی نہیں کریں گے اسی لئے ہر بار مذاکرات شروع ہوتے ہیں اور راستہ میں ہی ناکام ہوجاتے ہیں۔


جو حال پاکستان کا ہے وہی گیلانی کمپنی کا ہے۔ ہندوستان اعلان کرچکا تھا کہ ان سے کوئی بات نہیں کی جائے گی مفتی صاحب نے مودی صاحب کو آمادہ کرلیا کہ ان سے مذاکرات کئے جائیں گے۔ یہ بھی مفتی صاحب کا بڑا کارنامہ ہے۔ لیکن گیلانی گروپ کے تیور دیکھ کر ہمیں وہ کہاوت یاد آرہی ہے جو کتے کی دُم کے بارے میں مشہور ہے۔ گیلانی صاحب بھی زندگی کے آخری پڑائو پر پہونچ چکے ہیں انہیں دماغ سے آزاد کشمیر کو نکال دینا چاہئے اور پوری طاقت کے ساتھ مفتی صاحب کی حمایت میں کھڑا ہوجانا چاہئے۔ ہندوستان میں حکومت کسی کی بھی ہو بہرحال ہندوئوں کی ہوگی وہ آدھا ملک چھوڑ دیں گے مگر کشمیر کو نہیں چھوڑیں گے۔ مفتی صاحب کی صورت میں کشمیریوں کو جو مل گیا ہے اس کی قدر کرنا چاہئے اور پروردگار کا شکر۔ پورے ملک میں کوئی نہیں ہے جو مسلمان ہوتے ہوئے اپنا ہاتھ اوپر رکھے اور کان پھاڑ دینے والے مخالفوں کے شور کو مکھی اور مچھر کی آواز کے برابر بھی نہ سمجھے۔   ؎


تاریکی کے بعد سحر کا ایک نیا پیغام لئے
سورج کب سے جھانک رہا ہے گھر کے روشن دانوں میں

(یو این این)

************************

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 588