donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Lamhaye Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Hafeez Nomani
Title :
   Wohi Zabah Bhi Kare Hai Wohi Le Sawab Ulta

وہی ذبح بھی کرے ہے وہی لے ثواب اُلٹا


حفیظ نعمانی

 

خبروں سے دلچسپی رکھنے والے ہر آدمی نے دیکھا ہوگا کہ نہ جانے کس کس صوبہ سے ہزاروں غریب نہیں بے انتہا غریب سفید ہری پٹی کے جھنڈے لہراتے گاتے بجاتے جن میں نہ جانے کتنے اس موسم میں بھی آدھے کپڑے پہنے اور ننگے پائوں ہیں وہ دہلی کی طرف آرہے ہیں۔ یہ نہ کسی کو زندہ باد کے نعرے سے نواز رہے ہیں نہ کسی کو مردہ باد کے نعرے سے بددعا دے رہے ہیں بلکہ یہ تو بھارت ماتا کی جے یا انقلاب زندہ باد کے وہ نعرے بھی نہیں لگارہے جو کسی پارٹی کی جاگیر نہیں ہیں۔ ان غریبوں سے انڈیا ٹی وی کے نیوز ایڈیٹر رویش کمار نے ان کے مطالبات جاننے کے لئے خود جاکر سڑک پر ملاقات کی انہوں نے بتایا کہ وہ بارہ کلومیٹر دن میں چلتے ہیں اس لئے کہ صرف ایک وقت کھانا کھانے کی وجہ سے ان کے اندر اس سے زیادہ طاقت نہیں ہے اور وہ پندرہ دن سے اسی طرح سفر کررہے ہیں۔

ان میں زیادہ تعداد اُن کی ہے جن کے پاس کسی طرح کا مکان نہیں ہے نہ چھپر نہ کھپریل نہ تمبو نہ قنات اور ان میں وہ بھی ہیں جو تحویل آراضی کے اس بل کی مخالفت کرنے آرہے ہیں جس کے پاس ہونے کے بعد کسان اپنی ماں (زمین) کا مالک نہیں رہے گا اور سرکار جس کے کھیت کو صنعت کاروں اور پونجی پتیوں کے لئے جب چاہے گی لے لے گی اور کسان کو معاوضہ کے نام پر رقم دے دے گی۔ وہ کتنی ہوگی؟ اس کا فیصلہ بھی سرکار ہی کرے گی۔ دہلی کے لئے ہر طرف سے آنے والی سڑکوں پر جو جتھے کے جتھے آرہے ہیں اگر انہیں آتا ہوا ٹی وی پر وزیر اعظم نے نہ دیکھا ہو تو کسی نہ کسی ان کے مخبر یا اُن کے ان عاشقوں میں سے کسی نے (جنہوں نے نہ جانے کتنے مسلمان لڑکوں اور لڑکیوں کو یہ کہہ کر موت کے گھاٹ اتار دیا کہ یہ مودی کو مارنے آرہے تھے) ضرور دیکھا ہوگا اس کے بعد بھی یہ کیا ہوا کہ سب کا ساتھ اور سب کا وکاس کا جاپ کرنے والے اور اس پر فخر کرنے والے کہ وہ ایک چائے بیچنے والے کے وہ بیٹے ہیں جو چھینکے میں چائے کے گلاس رکھ کر گاہکوں کو دیتے تھے اور ٹرین کے ڈبوں میں آواز لگاکر بیچتے تھے اور وہ اس ماں کے بیٹے ہیں جو تیرے میرے گھروں کا پانی بھرتی تھی اور ان کے جوٹھے برتن دھوتی تھی شری مودی نے سیکڑوں جگہ خصوصیت کے ساتھ غریبوں کی آبادیوں میں یہ باتیں اس لئے کہی تھیں کہ وہ انہیں اپنوں میں سے ایک سمجھ کر شہد کے چھتے کی مکھیوں کی طرح یا ٹڈی دل کی طرح اتنے ووٹ دیں کہ وہ لاشریک بادشاہ بن جائیں۔ اور ان کی یہ حسرت اور مراد انہوں نے پوری کردی جو اَب آٹھ مہینے وکاس کا انتظار کرکے ننگے پائوں دن میں ایک وقت نہ جانے کیا کھاکر اپنے کو زندہ رکھے ہوئے آرہے ہیں۔

ان کا حق تو یہ تھا کہ جس وقت بادشاہ سلامت یا مہاراجہ کو اس کی خبر ملتی تو وہ ہر طرف بسیں دوڑانے کا حکم دیتے کہ انہیں باعزت بسوں میں بٹھاکر لائو اور ہر طرف جانے والی سڑکوں پر پوری، سبزی، کچوری، پانی اور پھلوں سے بھرے ٹرک دوڑا دو کہ وہ جب تک ملاقات نہ ہو جو دل چاہے کھائیں پئیں اور پھر ان سے مل کر معلوم کرتے کہ وہ کیا چاہتے ہیں؟ اور انہیں مالامال کرکے ان ہی بسوں کے ذریعہ ان کے ٹھکانوں پر واپس کرتے اس لئے کہ مودی کو چین، جاپان، آسٹریلیا اور سب سے بڑھ کر اس امریکہ کے صدر کے برابر انہوں نے ہی بنایا ہے کہ وہ ان سب کے ساتھ ایسے دکھائی دیں جیسے برسوں سے ان کے دوست یا رشتہ دار ہیں ورنہ مودی تو وہ تھے کہ دس برس تک امریکہ جانے کی حسرت لئے تڑپتے رہے تھے اور امریکہ نے انہیں ویزا بھی نہیں دیا تھا۔

کسان نوازی اور احسان شناسی کا تقاضہ تو یہ تھا کہ وہ جس طرح قاعدے قانون اور پروٹوکول کو روند کر اوبامہ کو گلے لگانے کے لئے ان کے ہوائی جہاز کی آخری سیڑھی کے پاس جاکر کھڑے ہوگئے تھے اس سے بھی زیادہ والہانہ انداز سے ان سے ملنے کے لئے دہلی کی سرحد پر کھڑے ہوجاتے اور جب وہ آجاتے تو ان میں سے ہر ایک کو گلے لگاتے اس لئے کہ اوبامہ نے مودی پر احسان نہیں کیا ہے یہ ان کا احسان ہے کہ انہوں نے مودی کو کروڑوں ووٹ دے کر ظل الٰہی، جہاں پناہ اور فخر ہندوستان بنا دیا پھٹے کپڑوں، بھوکے پیٹ اور ننگے پائوں والے اگر ان کو ووٹ نہ دیتے تو وہ گجرات سے باہر قدم نکالنے کے قابل بھی نہ ہوتے۔


تحویل آراضی بل کی اجلاس شروع ہونے سے پہلے ہر طرف سے مخالفت ہورہی تھی اس مخالفت کی وجہ سے مودی نے کہہ دیا تھا کہ اس بل کو ہوسکتا ہے فی الحال روک لیا جائے لیکن بجٹ سیشن کے دوسرے ہی دن سب سے پہلے اسی بل کو پیش کردیا اس کا پیش کرنا اس کا اعلان تھا کہ وہ احسان فراموش ہیں اور وہ چائے والے کے بیٹے ہوں یا نہ ہوں اب تو ان کے اشاروں پر چلنے کے لئے مجبور ہیں جنہوں نے کلدیپ نیر کے کہنے کے مطابق پانچ لاکھ کروڑروپئے پھونک کر ان کی حکومت بنوائی ہے۔ یا اُن کے ہیں جو انہیں دس لاکھ روپئے کا سوٹ بنواکر دیتے ہیں اور ان کے ہیں جو ان کے اسی سوٹ کو نیلام میں خریدنے کے لئے گیارہ لاکھ کی پہلی بولی لگاتے ہیں اس کے بعد وہ پچاس لاکھ ہوجاتی ہے پھر ایک کروڑ اور تین دن تک اسی طرح بڑھتے بڑھتے چار کروڑ 31  لاکھ پر ختم ہوتی ہے اور وہ سرمایہ داروں، صنعت کاروں اور اُن پونجی پتیوں کے ہیں جو جاپان، چین، آسٹریلیا اور امریکہ میں ان سے ملے تھے اور مودی انہیں دعوت دے کر آئے ہیں کہ وہ اپنا سرمایہ ہندوستان آکر لگائیں ہم انہیں زمین، پانی، بجلی، مزدور اور ہر قسم کی سہولت دیں گے اور انہوں نے آنے کا اشارہ دے دیا ہے اسی لئے اس بل کو پاس کرایا جارہا ہے کہ ان میں جو کوئی جس جگہ اپنے کارخانے لگانا چاہے وہ زمین لینے کے لئے کسان کی مرضی کی ضرورت نہ پڑے۔

زمین کی ملکیت کے بارے میں ہمیشہ سے تنازعہ چل رہا ہے کہ مالک کون ہے۔ 2013  ء میں ملک کی تمام پارٹیوں نے متفقہ طور پر یہ فیصلہ کردیا تھا کہ مالک وہ ہے جس کے پاس زمین ہے اور وہ اگر نہ چاہے تو کوئی کسی قیمت پر بھی نہیں لے سکتا۔ یہ بل اس لئے پاس کیا گیا تھا کہ اب تک جتنی زمین بھی سرکار نے کسانوں سے من مانے پیسے دے کر لی ہے اس میں آدھی سے زیادہ آج تک خالی پڑی ہے۔ صرف ایک سال کے بعد اس قانون کو مودی نے جوتے سے مسل دیا جس پر بی جے پی نے بھی دستخط کئے تھے اور یہ بل پیش کردیا جس کے بعد زمین کے مالک مودی ہوجائیں گے۔ مودی کہتے ہیں کہ یہ کسان کے مفاد میں ہے اور ہر کسان کہہ رہا ہے کہ یہ ہمارے قتل کا سامان ہے۔ شاید مودی بھول گئے کہ وہ کون سے پاپ تھے جن کی وجہ سے نہرو گاندھی خاندان دو کوڑی کا ہوگیا۔ کاش مودی سمجھ لیں کہ   ؎

یہ شہرت ایک ہی سے عمر بھر رشتہ نہیں رکھتی
طوائف ہے مگر خود کو مہارانی سمجھتی ہے

(یو این این)

 

***********************

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 568