donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Lamhaye Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Hafeez Nomani
Title :
   Yaro Mujhe Maaf Karo Main Nasha Me Hoon

؎یارو  مجھے معاف کرو میں نشہ میں ہوں


حفیظ نعمانی

 

آزادی کے بعد جب حکومت ملک کے ہندوئوں کے ہاتھ میں آئی تو انہوں نے مسلمانوں کے ساتھ وہ سب کیا جو اچانک خرانہ مل جانے کے بعد سیکڑوں برس کے ننگے بھوکے کرتے ہیں۔ ملک کو تقسیم کرانے کے گناہگار بیشک مسلمان ہیں لیکن سردار پٹیل، پنڈت پنت اور پرشوتم داس ٹنڈن جیسے لاکھوں ہندو بھی یہی چاہتے تھے کہ ہمارا بڑا حصہ ہمیں مل جائے تو ہم مسلمانوں کے ساتھ وہ کریں جو ہزار برس سے کرنا چاہتے تھے۔ ہندوستان کے ہندوئوں نے حکومت کے بل پر جو کچھ کیا اسے زمین بھی جانتی ہے اور آسمان بھی لیکن 28  برس پہلے 22  مئی 1987 ء کو جو میرٹھ میں ہوا وہ پوری کانگریس کے لئے ڈوب مرنے کے لئے کافی ہے۔ کسی نے کہا ہے  ؎

حیا و شرم و ندامت اگر کہیں بکتی
تو ہم خریدتے ایک اپنے مہرباں کے لئے

اُترپردیش کانگریس کمیٹی کے دفتر میں اقلیتی شعبہ یعنی کانگریس کے زرخرید بے ضمیر مسلمانوں کی میٹنگ ہوئی اس میں بے شرم کانگریسیوں نے ملائم سنگھ حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ دہلی کی عدالت کے فیصلہ کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل کرے۔ خود کانگریسیوں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ ہاشم پورہ کے مسلمانوں کے زخموں کو بھرنے کے لئے تحریک چلائیں گے۔
محترمہ بیگم حامدہ حبیب اللہ ہوں، محترم دوست ڈاکٹر عمار رضوی ہوں یا حاجی سراج مہدی ان میں سے کسے معلوم نہیں کہ ہاشم پورہ کے مسلمانوں کے دلوں کو زخمی کرنے والے سب سے بڑے مجرم آنجہانی راجیو گاندھی ہیں اس کے بعد وہ جنہیں ویر بہادر کہا جاتا ہے جس کا صرف ایک دھرم تھا کہ مسلمانوں کا خون بہانا اور پیسہ کمانا۔ ہاشم پورہ کے ہر مسلمان کا خون اُن ہی دونوں کی گردن پر ہے جس کی عینی گواہ محسنہ قدوائی آج بھی کانگریس کے ساتھ چپکی ہوئی ہیں اور اس کے باوجود چپکی ہوئی ہیں کہ وہ اس وقت میرٹھ کی ممبر پارلیمنٹ تھیں اور 47  جوانوں میں سے ایک بچے ہوئے مگر زخمی کو وہی لے کر راجیو گاندھی کے پاس گئی تھیں اور ان سے رو روکر بتایا تھا کہ ویر بہادر نے کیا کیا کرایا ہے؟ اگر راجیو گاندھی مسلم دشمن نہ ہوتے تو وہ نہ بابری مسجد کے تالے کو کھلواکر پوجا پاٹ شروع کراتے اور جب مسلمانوں نے اس اقدام پر احتجاج کیا کہ 1948 ء سے لگے ہوئے سرکاری تالے کو انہوں نے کیوں کھلوایا؟ تو وہ ویر بہادر کو حکم نہ دیتے کہ میرٹھ میں آکر دکھائو کہ مسلمانوں کو احتجاج کی کیسی قیمت ادا کرنا پڑے گی؟

حیرت ہے کہ اقلیتی شعبہ کی میٹنگ میں ایک بھی مسلمان ایسا نہیں تھا جو اُن کانگریسیوں سے کہتا کہ اُترپردیش کی حکومت سے ہم کس منھ سے کہیں؟ جس پی اے سی نے چاند ماری کی اور بعد میں سب کو ندی میں پھینک دیا اس وقت یوپی میں ویر بہادر تھا اور مرکز کی حکومت راجیو گاندھی کے ہاتھ میں تھی۔ اگر فوراً اُن کی گرفتاری نہیں ہوئی اور یہ معلوم ہونے کے باوجود کہ 41  ویں بٹالین کی وہاں پوسٹنگ تھی پوری بٹالین کو ملزم نہیں بنایا؟ اور مسلمانوں کے زخموں کو اور گہرا کرنے کے لئے سی بی سی آئی ڈی کی انکوائری کرائی؟ ویر بہادر اور راجیو گاندھی نے کیا کوئی ایک کام بھی ایسا کیا جو انصاف کے ترازو پر تولا جاسکے؟ جس وزیر اعلیٰ نے ایسی خون کی ہولی کھیلی جس کی ہندوستان کی ہزاروں کی تاریخ میں بھی کوئی مثال نہ ملے اُسے پوری دنیا کے مسلمانوں کے احتجاج کے بعد گرفتار کرکے ہاشم پورہ کے مسلمانوں کے سپرد کرنے کے بجائے یا برخاست کرنے کی جگہ اُسے مرکزی حکومت کے اس محکمہ کا وزیر بنا دیا جو پنڈت سکھ رام شرما کے پاس تھا اور جس نے اتنے نوٹ کمائے تھے کہ اپنا گھر، بیٹے کا گھر اور بیٹی کے گھر کے محفوظ ٹھکانے بھرنے کے بعد بھی چار لاکھ بچ گئے تھے جنہیں انہوں نے بھگوان کے چرنوں میں ڈال دیا تھا۔ اور اسی محکمہ کا وزیر ڈی ایم کے کا راجہ تھا جس نے ایک لاکھ کروڑ سے زیادہ کا نقصان ملک کو پہونچایا۔ ہم اُسے ہاشم پورہ کے قتل عام کا انعام نہ کہیں تو کیا کہیں؟
کانگریس اقلیتی شعبہ کے چیئرمین مسٹر خورشید احمد سید نے کانگریس کے کارکنوں سے اپیل کی کہ اقلیتوں کے مسائل کو حل کرائے اور اس شعبہ کو بھرپور تعاون دیں اور ہاشم پورہ قتل عام کا جو المناک حادچہ پیش آیا تھا اس کی دہشت مسلمان آج بھی بھول نہیں سکے ہیں۔ لیکن افسوس کہ ریاستی حکومت کے ثبوتوں کے فقدان کی وجہ سے جو فیصلہ آیا اس سے متاثرین کے زخم پھر ہرے ہوگئے۔ خورشید صاحب ہمیں معاف کریں ہم نہیں جانتے ہیں کہ وہ کیا ہیں؟اُن کی عمر کیا ہے؟ اور وہ سیاست میں کہاں تھے اور کب سے کانگریس میں ہیں؟ لیکن اقلیتی شعبہ میں وہ لوگ موجود ہیں جو جانتے ہیں کہ ثبوت نہ مایاوتی نے پیش کئے تھے نہ ملائم سنگھ نے اور نہ اُن کا زمانہ تھا وہ زمانہ کانگریس کا تھا جو اُس وقت بھی مسلمانوں کی دُشمنی تھی جب نہرو وزیر اعظم تھے اور اس وقت بھی دشمنی تھی جب راجیو گاندھی وزیر اعظم تھے 1961 ء میں جب جبل پور میں سیکڑوں مسلمانوں کو قتل کیا گیا اُن کے مکان اور دُکانیں جلاکر راکھ کردی گئیں اس وقت نہرو کے دوست کیلاش ناتھ کاٹجو مدھیہ پردیش کے وزیر اعلیٰ تھے۔ نہرو جی جیسے پنت جی کی اس حرکت پر اُن کا کچھ بگاڑ نہیں پائے تھے جو انہوں نے راتوں رات بابری مسجد میں مورتیاں رکھواکر کی تھی ایسے ہی جب کاٹجو نے انہیں جواب دیا کہ ابتدا مسلمانوں نے کی تھی تو انہوں نے اسے بھی سچ مان لیا تھا اس لئے کہ کانگریس کے اندر پٹیل اور پنت کا مسلم دشمن گروپ ہمیشہ بااثر رہا ہے۔

اقلیتی شعبہ نے عدالت کے فیصلہ کے خلاف مسلمانوں کے ووٹ لینے کے لئے تحریک چلانے کی بات کی ہے پورے اقلیتی شعبہ کو معلوم ہونا چاہئے کہ جس اخبار میں آپ یہ مضمون پڑھ رہے ہیں وہ تو شاید میرٹھ نہ جاتا ہو لیکن دہلی کے کئی اخبار ہمارا کالم بڑے شوق سے چھاپتے ہیں ان کو ہم نے چند دن کے اندر اتنا بھر دیا ہے کہ وہ اگر ترنگا لے کر ہاشم پورہ گئے تو بہت مارے جائیں گے۔

اقلیتی شعبہ کی میٹنگ میں ہاشم پورہ کے فیصلہ پر رونے گانے کا ڈرامہ کرنے کے بعد سابق وزیر اعظم کے نام عدالت کے سمن پر بھی ماتم کیا گیا۔ بیشک وہ بہت ایماندار ہیں لیکن کیا یہ گناہ نہیں ہے جو وہ وفاداری میں کرتے رہے؟ کسی کو معلوم نہ ہو تو وہ شری نرائن دت تیواری سے معلوم کرلے یا ڈاکٹر عمار رضوی سے کہ اندراجی اور راجیو گاندھی کس طرح وصول کرتے تھے اور کون کون اُن کے نوٹوں کے بریف کیس کس کس وقت لاکر دیتا تھا؟ سردار جی تو شرافت میں مارے گئے اور جب انہوں نے اپنے ہاتھوں سے گلے میں گھنٹی باندھ ہی لی تو اُسے اس کی قیمت بھی ادا کرنا پڑے گی۔ اقلیتی شعبہ کا وہ کون ممبر ہے جس نے وہ منظر نہ دیکھا ہو جو 1984 ء کے سکھوں کے قتل عام کے بعد اور اس کی تحقیقاتی رپورٹ ہاتھ میں آنے کے بعد سردار جی لوک سبھا میں اس رپورٹ کو گرنتھ صاحب کی طرح لے کر آئے تھے اور بھراّئی ہوئی آواز اور آنسو بہاتی آنکھوں سے ممبروں کو اس کے اقتباس سنائے تھے پھر اس فہرست کو سنایا تھا جس میں ہزاروں کروڑ روپئے کا معاوضہ کے طور پر اعلان کیا تھا۔ واضح رہے کہ اس سے پہلے عبوری اور ہنگامی امداد کے طور پر سیکڑوں کروڑ دو بار میں دیئے جاچکے تھے۔ ظاہر ہے کہ سونیا صاحبہ کا اس لئے فیصلہ تھا کہ اندراجی اور راجیو گاندھی کے بعد اُن کی یا اُن کی اولاد کی طرف بندوق کا رُخ نہ رہے۔
ہم معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ ہے کوئی کانگریس جو یہ بتاسکے کہ میرٹھ کے غریب مسلمانوں کو راجیو گاندھی نے اپنی زندگی میں کیا دیا؟ وہ جب میرٹھ کی بیوائوں اور یتیموں کی فریاد کے نتیجہ میں وہاں پہونچ گئے جہاں انہوں نے اپنے ویربہادر کے ذریعہ 42  جوان مسلمانوں کو پہونچایا تھا تو اس کے بعد بابری مسجد کی شہادت کے مجرم کانگریسی وزیر اعظم نرسمہا رائو نے کیا دیا؟ اور اُس کے بعد دس برس پردہ کے پیچھے سے حکومت کرنے والی سونیا نے کیا دیا؟ جبکہ سکھوں کو تو راجیو گاندھی نے وزیر اعظم کا حلف اُٹھانے کے فوراً بعد ننگے پائوں دوڑ دوڑکر بچایا تھا اس کے برعکس ہاشم پورہ اور ملیانہ کے مسلمانوں کو روزے کی حالت میں راجیو گاندھی نے مروایا تھا اس کے بعد بھی ان میں کے ہر گھر میں اندھیرا ہے یا کسی بیوہ کے سر پر دوپٹہ نہیں ہے یا کسی کے مکان میں دروازہ بھی نہیں ہے اور سیکڑوں یتیم بچیاں جن میں سے نہ معلوم کون ’’چھوڑ بابل کا گھر‘‘ گائے بغیر کہیں فیصلہ کی تفصیل سن کر آنسو بہا رہی ہوگی اور نہ جانے کتنی سسرال کے نام سے آشنا بھی نہ ہوسکیں گی۔ افسوس اسی بات کا ہے کہ سونیا جانتی ہیں کہ اُن کا شوہر قاتل تھا سونیا کو معلوم ہے کہ صرف ہندو ووٹوں کے لئے بابری مسجد کا تالا کھلوایا تھا سونیا خوب سمجھتی ہیں کہ اندراجی کو تو بینت سنگھ نے اس لئے مارا تھا کہ انہوں نے گولڈن ٹیمپل پر بم باری کرائی تھی۔ لیکن کوئی مسلمانوں میں ایسا نہیں تھا جو انہیںہاشم پورہ اور ملیانہ کی پاداش میں اُن کی ماں کے پاس پہونچا دیتا لیکن پھر وہ ہوا جو مشہور ہے کہ ’’جس کا کوئی نہ ہو اس کا خدا ہوتا ہے‘‘ اور پھر اس سے بھی بھیانک ہوگیا جو اندرا گاندھی کے ساتھ ہوا تھا۔ اور یہ بھی سونیا گاندھی کو معلوم ہے کہ اُترپردیش، بہار اور بنگال یا ہریانہ اور دہلی میں جو کانگریس کے ساتھ ہوا وہ مسلمانوں کی آہوں اور بددُعائوں کا ہی نتیجہ ہے اس کے بعد بھی اگر اپنا گناہ قبول نہ کیا تو۔۔۔۔

 

**************************

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 593