donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Lamhaye Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Imran Akif Khan
Title :
   Israel Nawaz Muslim Danishwar

اسرائیل نواز مسلم دانشور!!
 
عمران عاکف خان
imranakifkhan@gmail.com
09911657591
 
دہلی کے ایک موقر روزنامے میں ایک خبر پڑھ کر میری غیرت ایمانی کو شدید ٹھیس لگی اور میں دل پکڑ پکڑ کر رہ گیا۔اخبار میں موٹے موٹے حرف میں سرخی لگی تھی ’’عالمی یوم قدس ‘‘کے موقع پر ملت فروش مسلم رہنمائوں کی اسرائیل کی دعوت افطار میں شرکت ۔‘‘یہ سرخی میرے اعصاب پر ایٹم بم بن کر گری اور میں بری طرح مضمحل ہوگیا ۔ اضمحلال کی حالت میں دل کو چیرتے ہو ئے یہ احساسات نکلے۔۔۔۔۔ افسوس یہ کیسے مسلمان ہیں جو ایسے ملک کی دعوت افطار میں شریک ہو ئے جس نے اپنے حامیوں کے ساتھ فلسطین‘مصر ‘عراق‘افغانستان ‘پاکستان غرض تمام عالم اسلام کو جہنم کا نمونہ وبنا رکھا ہے؟یہ کیسے مسلمان ہیں جنھیں ایک ساعت کے لیے بھی مظلوم فلسطین کی ماں بیٹیوں ‘باپ بھا ئیوں اور معصوم بچوں کی مظلومیت کا خیال نہیں آیا؟۔۔۔۔۔۔۔خبر کے ساتھ ایک تصویر بھی روزنامے میں شائع کی گئی ہے جس میںان نام نہاد مسلمانوں کے ساتھ ایسے حضرات کی بھی تصویر یںہیں جن کے بارے میں اس قسم کی ملت فروشی کا گمان بھی نہیں کیا جاسکتا۔۔۔۔۔۔ایسے لوگوں میں آل انڈیا تنظیم ایمہ کے صدر مولانا عمیر الیاسی اور کئی روزناموں کے ایڈیٹر ایس ایم آصف نمایاں طور پر نظر آرہے ہیں ۔
 
اخبار لکھتا ہے:’’جمعۃ الوداع کے موقع پر پوری دنیا میں ایک طرف ’’یوم القدس ‘‘کا اہتمام کر کے اسرائیل کے مظالم کے خلاف احتجاج کیا جارہا تھا دوسری جانب دہلی میں واقع اسرائیلی سفارت خانے میں چند ملت فروش نام نہاد مسلم لیڈران دعوت افطار کھاکر اسرائیل کے مظالم کو صحیح ٹھیرا رہے تھے ۔اس دعوت میں جبہ و دستار والوں سے لے کر چند لبرل قسم کے مسلم دانشوران شریک تھے۔اخبار‘ اسرائیلی سفارت خانے کی ویب سائٹ کے حوالے سے مزید لکھتا ہے کہ اس موقع پر ایمبسی کے 60لائف ممبر مسلم شریک تھے۔گو سفارت خانے نے شرکا کے نام ظاہر نہیں کیے تاہم تصویر میں غور کر نے سے چند لوگ صاف طور پر پہچانے جارہے ہیں جن میں کئی روزناموں کے مالک ایس ایم آصف اور مولا نا عمیر الیاسی نظر آرہے ہیں مگر جب ان سے باری باری رابطہ کیا گیا تو اس سے صاف منکر ہو گئے نیز مزید گفتگو کر نے پر فون ہی کاٹ دیاجس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ’’دال میں کچھ کالا ضرورہے یا پوری دال ہی کالی ہے۔‘‘
 
اخبار مزید لکھتا ہے۔ ’’مولانا متعدد بار اسرائیل کا دورہ کر چکے ہیں اور اس کے حق میں بیان بھی دے چکے ہیں وغیرہ۔۔۔۔۔‘‘
مسلمانان ہند اپنے ان رہنمائوں کی حقیقت دیکھیں اور احساس کر یں کہ اسرائیل کس قدر ہمارے اندر تک داخل ہوچکا ہے ۔اس نے ہمارے کیسے کیسے قلعوںکو توڑ دیا ایک طرف یہ لوگ ہم سے ہمدردیاں کر تے ہیں اور دوسری جانب اسرائیل جیسے شیطان کے آگے سجد ہ کر تے ہیں ۔اس سے مل کر فلسطین اور مشرق وسطیٰ کے بے گناہوں کی جانوںکا سودا کر تے ہیں ۔اسرائیل کو اس کی سیاہ کاریوں پر شہہ دیتے ہیں اور اس کے کارناموں کو صحیح ٹھیرانے کی کوشش کر تے ہیں ۔کیا یہ مسلمان ہیں ؟کیا اسی کا نام ایمان ہے ؟کیا اسی کو غیرت ایمانی کہاجاتاہے؟یقینا جواب ’’نا‘‘میں ہو گا۔یہ لوگ ایسے ہیں جن کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ مسلمان تو ہوں گے لیکن ایمان انھیں چھوکر بھی نہیں گذرا ہوگا۔سچ ہے ۱یہ لوگ ایسے ہی ہیں ۔
اسرائیل کے مظالم طشت ازبام ہیں اور دنیا کا بچہ بچہ اس کی درندگی اور سفاکیت سے واقف ہے لیکن اس کے باوجود اس نے عامۃ الناس کو گمراہ کر نے کے لیے مختلف قسم کے پرو پیگنڈے اپنائے ہیں ۔چنانچہ مذکورہ اخبار لکھتا ہے۔
 
’’ویب سائٹ کے مطابق اس موقع پر اسرائیلی سفیرنے مسلمانوں اور اسرائیلیوں کے درمیان بہتر تعلقات کی خواہش کا اظہار کرتے ہو ئے کہا کہ مسلمان اور اسرائیل ایک باپ حضرت ابراہیم کی اولاد ہیں ۔اسرایلی سفیر نے کہا کہ رمضان صرف مسلمانوں کا تہوار نہیں ہے بلکہ پوری دنیا کا تہوار ہے ۔اسرائیلی سفیر نے بڑی ڈھٹائی سے یہ دعوا کیا کہ ان کے ملک میں بھی 12فیصد مسلمان ہیںجنھیں ہر قسم کی آزادی حاصل ہے ۔‘‘
عزیزقاری!اسرائیل سفیر کی یہ فریب کاری دیکھیے!جھوٹ دیکھیے اور گمراہی کا نمونہ دیکھیے!ان پر فریب باتوں میں  سیدھے سادے لوگ کیوں  نہیں آئیں گے۔۔۔۔۔ مگر حقیقت اس کے بر خلاف ہے۔قران ان کی اصلیت بتا تے ہو کہتا ہے کہ ’’یہ یہود تم سے اس وقت راضـی نہیں ہوں گے جب تک تم ان کی خواہشات کے مطابق عمل نہ کر و ۔‘‘(آل عمران)
 
خدائے پاک کا یہ فرمان دیکھیے اور جان لیجیے کہ موجودہ اسرائیلیوں کا یہ دعوا بالکل غلط ہے کہ وہ ’’حضرت ابراہیمعلیہ اسلام کی اولاد ہیں ۔‘‘اس لیے کہ ان کے کارنامے ان کے دعوئوں کو غلط ثابت کر نے کے لیے کافی ہیں ۔ انھوں نے فلسطین کا وہ حال کر رکھا ہے جیسا کسی چیچک زدہ انسان کا ہوتا ہے ۔بچوں تک کو یہ سفاک لوگ کتوں سے نچواتے ہیں اور ننھی معصوم لڑکیاں ‘خواتین‘دوشیزائیں ان کی حیوانیت کی شکار ہوتی ہیں ۔کیا فلسطین میں مسلمان نہیں ہیں ؟کیا وہاں بسنے والے انسان حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد نہیں ہیں ؟انھیں اسرائیل اپنا بھا ئی کیوں مانتا ؟ انھیں کیوں ستاتا ہے اورکیوں ان پر زمین تنگ کر تا ہے؟اس طرح کے اور بھی سوالات ہیں جو ایک طویل عرصے سے اسرائیل سے کیے جارہے ہیں مگر وہ مسلسل چپ سادھے دنیا کو گمراہ کیے جارہا ہے ۔
 
اسرائیل کے مظالم کی یہ خونی داستان کو ئی نئی نہیں ہے بلکہ گذشتہ60 سال سے لکھی جا رہی ہے ۔ ایک طویل عرصے سے بے بس و نہتے فلسطینیوں پر اس کا ظلم جاری ہے۔جس میں روز بروز شدت آتی جارہی ہے۔ اس کے باوجود عالم یہ ہے کہ خود کو مسلمان کہلوانے والے کچھ لوگ اس کی ہمنوائی میں آگے آگے نظرآتے ہیں۔انھیں اسرائیل سے نوازشیں ملتی ہیں اور عنایات و الطاف کے بادل ہمیشہ ان پر سائبان رہتے ہیں ۔سمجھ میں نہیں آتا کہ اس کے باجود لوگ کیوں ان کی اقتدا کر تے ہیں ‘ انھیں اپنا رہنما تسلیم کر تے ہیں اور ان کے ہاتھوں کو چومتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ میں عامۃ الناس کو یہ تحریری آئینہ دکھا کر اور مظلوم فلسطین اور تباہ حال عالم اسلام کا واسطہ دے کر کہہ رہا ہوں کہ خدارا ہوش کے ناخن لیں اور ایسے نام نہاد مسلمانوں اور ملت فروشو ں کا اجتماعی طور پر بائیکاٹ کر یں ۔یہی ایمان کا تقاضا بلکہ وقت تقاضا ہے ۔معصوم فلسطینیوں کی دل خراش چیخیں یہی کہہ رہی ہیں۔ذرا سن کر تو دیکھیے! ذار احساس تو کر کے دیکھیے! ذرا سوچ کر تو دیکھیے! آپ کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو آجائیں گے جو ان نام نہاد مسلمانوں ‘ایمہ اور لبرل دانشوروں کی عقیدت کا غبار دھل دیں گے۔
**********
 
احساس
 
الوداع کے موقع پر پوری دنیا میں ایک طرف ’’یوم القدس ‘‘کا اہتمام کر کے اسرائیل کے مظالم کے خلاف احتجاج کیا جارہا تھا دوسری جانب دہلی میں واقع اسرائیلی سفارت خانے میں چند ملت فروش نام نہاد مسلم لیڈران دعوت افطار کھاکر اسرائیل کے مظالم کو صحیح ٹھیرا رہے تھے ۔اس دعوت میں جبہ و دستار والوں سے لے کر چند لبرل قسم کے مسلم دانشوران شریک تھے۔اخبار‘ اسرائیلی سفارت خانے کی ویب سائٹ کے حوالے سے مزید لکھتا ہے کہ اس موقع پر ایمبسی کے 60لائف ممبر مسلم شریک تھے۔گو سفارت خانے نے شرکا کے نام ظاہر نہیں کیے تاہم تصویر میں غور کر نے سے چند لوگ صاف طور پر پہچانے جارہے ہیں جن میں کئی روزناموں کے مالک ایس ایم آصف اور مولا نا عمیر الیاسی نظر آرہے ہیں مگر جب ان سے باری باری رابطہ کیا گیا تو اس سے صاف منکر ہو گئے نیز مزید گفتگو کر نے پر فون ہی کاٹ دیاجس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ’’دال میں کچھ کالا ضرورہے یا پوری دال ہی کالی ہے۔‘‘
 
**********************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 747