donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Lamhaye Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Imran Akif Khan
Title :
   Kash Yaume Insaniyat Bhi Manaya Jata

کاش یوم’’ انسانیت‘‘ بھی منایا جاتا! 
 
عمران عاکف خان
 
imranakifkhan@gmail.com
09911657591
 
آج پوری دنیا مغرب اور اس کی چمک دمک سے اس قدر مرعوب ہو گئی ہے کہ اسے اپنی روایات و اقدار کا بھی علم نہیں ہے ۔وہ ہر معاملے میں مغرب اورصرف مغرب کو اپنا رہنما مانتی ہے اوراس کے نقش قدم پر چلنے میں فخر محسوس کرتی ہے ۔زبا ن و بیان سے لے کر زندگی کی دیگر تمام ضروریات میں مغرب ہی مغرب رچ بس گیا ہے ۔ حالت یہ ہو گئی ہے کہ موجودہ نسلوں کو اپنے آبا و اجداد کی تعلیمات اور رہنما ئیوں میں دقیانوسیت نظر آرہی ہے اوروہ اسے فرسودہ ‘یا آئوٹ آف ڈیٹ کہہ کر مسترد کررہی ہیں ۔
 
آج کے نئے دور میں مغرب اور اس کے نقش قدم پر چلنے والی دنیا نے جہاں نئی نئی اختراعات ‘تہذیب اورتمدن بر پا کیا ہے وہیں ہرچیز کی اہمیت و افادیت کواجاگر کر نے کے لیے عالمی سطح پر ایک دن بھی متعین کررکھا ہے ۔جیسے بڑی بڑی ہستیوں کے یوم پیدایش یا یوم وفات۔کسی عالمگیرسطح پر قائم کمپنی کا یوم آغاز ۔کسی مشن یا تہذیب و کلچر کا دن۔ یوم قہقہہ۔یوم چلن ۔باتیں کر نے کا دن ۔پانی کا دن ۔بجلی کا دن ۔عورتوں کا دن ۔بچوں کا دن۔مزدوروں کا دن ۔ایڈس کا دن۔تعلیم کا دن ۔افسوس کا دن ۔رونے کا دن ۔غرض کو ئی چیز ایسی نہیں ہے جس کے لیے ایک دن مخصوص نہ ہو۔یہ دن آتے ہیں اور لوگ بڑی دھوم دھام سے انھیں مناتے ہیں اور ایک دوسرے کو مبارک باد دیتے ہیںلیکن افسوس !ان دنوں میں ایک ’’یوم انسانیت ‘‘ہی نہیں منایا جاتا ہے ۔’’انسانیت ‘‘کی اہمیت و معنویت اور مقام کو بتانے کے لیے کو ئی دن متعین نہیں ہے ۔بے مطلب کی چیزوں کے لیے مغرب زدہ دنیا نے دنوں کی تخصیص کر رکھی ہے مگراس کے لیے کچھ نہیں ہے جس کے دم سے کاینات کی رنگینیاں‘رعنائیاں اورچمک دمک باقی ہے۔میں بڑے دنوں سے انتظار کر رہا ہوںاوراس دن کے استقبال کے لیے آنکھیں بچھائے ہو ئے ہوںجسے ’’یوم انسانیت‘‘کانام دیا جائے گا مگر افسوس !میری آنکھیں بے نور ہوتی جاری رہی ہیں اور وہ دن نہیں آیا ۔انسانیت کا مقام بلند کر نے والا دن اب تک نہیں آیا۔
 
قارئین کر ام !کسی بھی دن کا اخبار اٹھاکر دیکھیے‘ انسان کی کشت و خون کی داستانوں سے صفحات کے صفحات سیاہ ملیں گے ۔ کہیں انھیں بم دھماکوں میں ہلاک کر دیاجاتا ہے۔کہیں فرقہ وارانہ فسادوں میں نشانہ بنایاجاتا ہے ۔کسی جگہ دہشت گردانہ حملوں میں انھیں موت کے گھاٹ اتار دیا جاتاہے۔کہیں ایسا ہوتا ہے کہ محنت کش انسان کو معاوضہ نہیں ملتا تو وہ بھوکوںمر جاتا ہے یا امیروں ‘حکمرانوں اوربڑے لوگوںکے مظالم سے تنگ آکر گلے میں پھندا لگالیتاہے۔ آج ’’انسان‘‘ اس قدر ناقدری کا شکا رہے کہ اسے ذرا ذراسی باتوں پرکاٹ کر پھینک دیا جاتا ہے۔راہ چلتے ہو ئے اسے ٹکر مادی جاتی ہے۔ گروہی تصادم میں جانبین سے مرنے والے انسان ہی ہوتے ہیں۔معمولی باتوںپر انھیں زندگی سے محروم کردیا جاتا ہے۔کہیں منظم طور پر غنڈہ گر دی کی وارداتیں انجام دی جاتی ہیں تو کہیں ٹارگیٹ کلنگ طور پر انسان کا قتل کر دیا جاتاہے۔آپسی دشمنی کی پیاس بجھانے کے لیے پیچھے سے وار کیے جاتے ہیں۔ کہیں ریاستوں میں بے بنیاد الزمات لگا کرفرقہ پرست وحکومتیںانسانوںکی’’ نسل کشی‘‘ کے سلسلے شروع کرتی ہیں اورلاکھوں لوگ فنا کے گھاٹ اتار دیے جاتے ہیں۔معصوم بچو ںکومائوں کی کوکھ سے چھین کر ‘پیٹ سے نکال کر تلواروں کی انیوں پر اچھال دیا جاتا ہے۔کہیں اپنے اقتدار کی بقا اوردوامی کے لیے اپنے لاکھوں شہریوںکو ٹینکوں ‘دبابوں اوربمباریوںکے ذریعے ہلاک کر دیا جاتا ہے۔مظلوموں کو بے دریغ ظلم کی چکیوں میں پیس دیا جاتا ہے ۔کہیں کہیں ہوس اقتدار اس قدر سوار ہوتی ہے کہ بڑی بڑی طاقتوں کے حکمران کمزورملکوں کوصرف اس لیے جہنم کا نمونہ بنا دیتے ہیں کہ یہ ان کی ہمسری نہ کر سکیں ۔دنیا میں ایٹمی طاقت کا امتیاز ہمارے ہی پاس رہے کو ئی اور اس کے لایق نہیں ہے ۔اگر کو ئی اس کی داداگیری کو چیلنج کرے تو اس پر عالمی سطح پر پابندیاں عاید کر دیتا ہے یا پھر اس کے خلاف دنیا بھر میں سازشوں کا جال بچھا د یا جاتاہے جس سے ا س کی فلاح و ترقی کی راہیں مسدود ہوجاتی ہیںاور اس کا امن و امان غارت ہو جاتا ہے۔
 
یہ میرے عہد کے فسانے ہیں جو بتا رہے ہیںکہ دنیا میں انسان سے بڑھ کر کو ئی دوسری مخلوق ظلم کی شکار نہیں ہے ۔اسے ہر کو ئی اپنے مطلب کے لیے استعمال کر تا ہے۔استعمال نہیں بلکہ اس کی عمر کا لحاظ کیے بنااس کا استحصال کر تا ہے ۔اس اسے اس کی طاقت و حیثیت سے زیادہ کام لیا جاتاہے اور معاوضے کے نام پر تھوڑے سے پیسوں کے علاوہ کچھ نہیں دیاجاتا۔اکثر دیکھنے میںآتا ہے کہ کو ئی انسان اپنے مالک کی خدمت میں اپنی عمر عزیز کے قیمتی ماہ سال لگا دیتا ہے مگر اس کی ایک معمولی سی خطا پر اسے دودھ سے مکھی کی طرح نکال پھینک دیا جاتاہے۔ کبھی کو ئی انسان کسی کے لیے محنت کر تا ہے ۔کسی کا پروجیکٹ تیار کر تا ہے ۔کسی کے لیے کام کر تا ہے مگر اس کا پسینہ سوکھنے کے بعد بھی اس کا معاوضہ نہیں ملتا۔ اگر وہ بار بار مطالبا کر ے تو اسے اس قدر جھڑکا جاتا ہے کہ اگر غیر ت مند و خوددار ہے تو پھر کبھی ’’قاہر‘‘ کے درپے نہیں جاتااوراپنا من مار کر رہ جاتاہے ۔اندازہ لگا ئیے اس وقت اسے کتنی تکلیف ہوتی ہوگی جب اس کی محنت کے صلے میں جھڑکیاں ملتی ہوں گی ۔ یہ ہے دنیامیں انسان کی قیمت‘وقعت ‘مقام اور مرتبہ‘ جسے خداوند عالم نے زمین پر اپنا خلیفہ کہا ہے اوراسے اپنے انوار سے معمور کیا ہے ۔کاینات میں سب سے افضل بنایا ہے۔جس کے لیے بزم کاینات سجائی گئی ہے۔ بیکراں آسمان تانا گیا ہے۔ لامتناہی زمین پھیلائی گئی ہے ۔دنیا کے چمن ‘پہاڑ ‘دریا اورجھرنے بنائے گئے ہیں۔اس انسان کو آج انتہا ئی بے دردی سے اسی کے خون میں نہلادیا جاتا ہے۔کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اس دنیا میں سب سے بے وقعت اگر کو ئی چیز ہے تو وہ ہے انسان اوربس انسان ہے جس کے بنا دنیا کاکو ئی وجودنہیں ہے ۔آج ہر چیز کی قیمت مہنگا ئی کے آسمانوں کی حدوںسے بھی بلندی پر پر واز کر رہی ہے مگر ایک ’’انسان ‘‘ کا خون ہے جس کی کو ئی قیمت نہیں ہے ۔پانی بھی ہمارے شہر میں بکتا ہے مگر لہو کا کو ئی مول بھا ئو نہیں ہے۔ہوا بھی آج خریدی و بیچی جاتی ہے مگر انسانی خون کاکو ئی خریدار نہیں ہے ۔ 
 
یقین جانیے اس وقت میرا دل کرب و افسوس کے درد سے چیخ اٹھتا ہے جب میں پڑھتا ہوں کہ بم دھماکوں میں ہزارو ںلو گ جاں بحق ہو گئے ۔فرقہ وارانہ فسادات میں متعدد لوگ کام آگئے ۔ایک مزدور نے معاوضہ نہ ملنے کے سبب خودکشی کر لی ۔ایک خاندان نے بھوکوں مرنے کے سبب اجتماعی خودکشی کر لی۔ غنڈوں نے شہر پر یلغار کر کے امن و سکون غارت کر دیا ۔ آہوں سے میرا دل پھٹا جاتا ہے مگر۔۔۔۔۔۔۔ میں’’ بدنامی‘‘ کے خوف سے انھیں باہر نہیں آنے دیتا اور وہ ننھے سے دل میں زخم کر کے دم توڑ جاتی ہیں۔ہاں! آنسو کسی طرح نہیں رکتے۔نمکین پانی آنکھوں میں جلن کرتا ہوا رخسارو ںپر آجاتا ہے ۔
 
 وہ لوگ یادرکھیںجو انسانوںکا خون بہاکر مسرت کا اظہارکرتے ہیں۔ان کی لاشیں بچھا کر فتح کا جشن مناتے ہیں ۔عراق و افغانستان کو تباہ کر نے کے بعد دوسرے ممالک بد نظر لگا ئے ہو ئے ہیں ۔وہ لوگ جو اپنا اقتدار بچائے رکھنے کے لیے اپنے ہی لوگوں کے خون سے زمین کو لال کر رہے ہیں۔وہ ایک عظیم ہستی کی تخلیق اورتعمیر کو منہدم کررہے ہیں ۔خدا کے بنا ئے ہو ئے شاہ کار کو تباہ کر رہے ہیں۔اللہ پاک کے پیدا کیے ہو ئے سب سے خوبصورت کھلونے کو توڑ رہے ہیں۔انھیںپتا نہیں ہے وہ کتنا بڑا گناہ کررہے ہیں۔انھیں اندازہ نہیں ہے کہ انھوں نے ایک ایسی آگ جلائی ہے جو خود ان کو ہی فنا کر دے گی۔ اس کا انجام اتنا بھیانک ہوگا کہ وہ خو ن کے آنسو بھی رئیں گے بھی تو بھگتان نہیں ہوسکے گا۔وہ اتنا بڑا جرم کر رہے ہیں جس سے زمین و آسمان پھٹ جا ئیں ۔وہ خداکے عذاب کو دعوت دے رہے ہیں جس کی تبا ہی عالم گیر ہوتی ہے اورزمین اسے ایک ساعت کے لیے بھی بر داشت نہیں کرسکتی۔ 
 
اگر یہ لوگ سمجھ رہے ہیں کہ وہ بہت بڑا کام کر رہے ہیں ‘اپنے دشمنوںکو تہہ تیغ کر کے اپنی حکومت کے خطرات کوکم کررہے ہیں تو یہ ان کی عظیم ترین بھول ہے ۔ان کے لیے صرف میں اتنا ہی کہوں گا۔
 
اسی خون میں تمہارا سفینہ ڈوبے گا
تم نے قتل عام نہیں خودکشی کی ہے 
 
*********************
Comments


Login

You are Visitor Number : 785