جہیز
ارشاد یعقوب خان سرگروه
کہتے ہیں کہ رسم جہیز موڈرن زمانے میں بهیک
مانگنے کا ایک با ادب طریقہ ہے بے ادب لوگوں کا..دنیا میں ہر چیز کا ایک معیار ہوتا ہے اور جہیز مانگنا موڈرن زمانے کے بے مروت بهیکاریوں کا سب سے اعلی معیار ہے کهبی کبهی یہ بتیسى دکها کر مانگتے ہیں تو کبهی بتیسی چبا کر ... بیچارے دلہن والوں کا دل کرتا ہے کے سارے بتیسى گرادے مگر سماج کے جہوٹے اور کهوکهلے رسم و رواج میں بے غيرت لوگوں کے ساتھ بندهے ہوے ہیں.
لفظ جہیز جب غریب لڑکی کے باپ کانوں پر بجلی کے مانند گرتا ہے جب یہ منحوس لفظ منحوس دلہے کے منحوس باپ یا ماں کے منحوس زبان سے نکلتا ہے اس بد تمیزی کے لئے میں معافی چاہتا ہوں مگر افسوس اس منحوس رواج کے بعد لڑکی کے باپ کی زندگی میں منحوسیت کے علاوہ کچھ نہیں رہتا ...
جب کوئی لڑکے کی ماں اپنے موں میں پان دبا کر یہ سوال کرتی ہے کہ جہیز میں کیا دونگے تو دل یہ کرتا ہے کہ جہیز کی ایڈوانس بکنگ میں طمانچہ دو یا محمد علی قلعہ والا بوکس دو جس کی وجہ سے پان کی سپاری حلق میں جاکر کام کرے...کبھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ اپنے باپ کہ دیے ہوے جہیز کا بدلہ لے رہی ہے جب بیچارا شوہر جو بہت سارا جہیز کها کر بیٹها ہے کچھ جہیز کم کرانے کی ناکام کوشش کرتا ہے تو بیوی اسکی پهنسلی میں اپنی کہنی دے مارتی اور اور بڑی گول آنکھیں دکهاکر کان میں بولتی ہے تمهارے گهر والوں نے بھی تو دبا کر جہیز لیا تها .. دیکهوں ظالم کہا کا بدلہ کہاں نکال رہی ہے..لڑکا یہ فراق میں کے دو پہیوں والی یا چار پہیوں والی ملےگی ...ایسوں کو تو چار کندهوں پر ہی بهیجنا چاہئیے تاکہ یہ کسی کا جنازہ نہ اٹهوا دے .
بیچاری لڑکی آنکھوں میں یہ خواب کے ہاتھوں میں مہندی لگے مگر اس بیچاری کو کیا علم کے اس مہندی میں باپ کا لہو ملا ہونگا...
اس منحوس جہیز نے لاکھوں زندگیاں برباد کی .یہ اس کالی چڑیل کی مانند سماج کے درخت پر بیٹهی ہے کہ ہر روز کئ بلیاں لیتی ہے..کبھی دلہن جلتی ہے کبھی باپ صدمہ کا شکار یا قرض کی چکی میں پس جاتا ہے...
بس ہر جہیز مانگنے والے کے موں پر ایک طمانچہ ماروں اور بولو یہ ہے جہیز کا ایڈوانس ..
*******************
|