donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Lamhaye Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Jalaluddin Aslam, New Delhi
Title :
   Hain Makro Seyasat Ke Saude Kirdaro Amal Ki Mandi Me

ہیں مکر و سیاست کے سودے، کردار و عمل کی منڈی میں


جلال الدین اسلم، نئی دہلی

موبائل نمبر: 09868360472

 

سیاست، دولت کا خمیر ایک ہی ہے۔ دونوں ہی مکر و فریب، دھوکہ، زور زبردستی اور ظلم و جبر کے ذریعہ ہی پنپتی اور طاقت و توانائی حاصل کرتی رہی ہیں اور جب کسی ملک کے عوام میں حد درجہ بے حسی و انتشار بھی پایا جاتا ہو تو یہ طاقتیں موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی انتہا کو پہنچ جاتی ہیں۔ اب صورت حال یہ ہے کہ ملک کی کوئی بھی سیاسی پارٹی ایسی نہیں جو کرپشن اور بے ایمانی سے پاک ہو۔

گذشتہ چند دہائیوں کے دوران سیاست کے بل پر دولت کمانے کا جس تیزی سے رجحان پیدا ہوا ہے اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سیاست اور کاروباری مفادات ایک دوسرے کے لیے کتنے مفید اور اہم ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج سیاسی پارٹیوں میں ایک طرح کی محاذ آرائی ہے۔ ملک کے اقتدار پر قبضہ جمانے کے لیے تقریباً تمام ہی پارٹیاں ایک دوسرے کو زیر کرنے کے لیے جو ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہیں وہ ملک کے نہ صرف سیاسی استحکام کے لیے خطرہ ہیں بلکہ خود ان کے وجود کے لیے بھی سوالیہ نشان بنتے جارہے ہیں۔

ملک کی سب سے بڑی اور سب سے پرانی سیکولر جماعت کانگریس ہے۔ تقریباً نصف صدی تک یہ ملک پر حکمرانی کرتی رہی ہے، اس کے دور اقتدار میں ہی کرپشن نے جنم لیا اور پھر ملک بتدریج سیاست سے حکومت، حکومت سے دولت اور دولت سے سیاست کے چکر میں پھنستا ہی چلاگیا جس کا آغاز ملک کے اولین وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو کے دور میں ہی ہوا اور پھر ہر آنے والی حکومتوں کے دور میں اس چکر میں تیزی ہی آتی گئی، جس کے نتیجے میں ایک سے بڑھ کر ایک اسکینڈل آج ہمارے سامنے ہے۔ علاوہ ازیں انتخابات کے دوران جس طرح کا غیر قانونی سرمایہ سیلاب کی طرح بہایا جارہا ہے وہ کسی بھی جمہوری ملک کے لیے سودمند نہیں۔ جس چیز نے کانگریس جیسی عظیم پارٹی کے زوال کی خشتِ اول رکھی وہ یہی چیز تھی جسے عرف عام میں ضمیرِ تاجرانہ کہا جاتا ہے اور یہی چیز ان تمام سیکولر پارٹیوں کے لیے زندگی اور موت کا سبب بھی بنی ہوئی ہے جو اسکینڈلوں کے ذریعہ ہی اقتدار حاصل کرنا چاہتی ہیں اور عوام کی ذہنی کیفیت ایسی ہوتی جارہی ہے کہ اب کسے رہنما کرے کوئی۔

کسی نے ٹھیک ہی کہا تھا کہ انگریز حکمرانوں سے ہمارے دیسی حکمراں کسی بھی طور کم نہیں، جس طرح وہ ملک و قوم کو لوٹتے رہے اسی طرح یہ دیسی حکمراں بھی ملک و قوم کی بوٹیاں نوچ رہے ہیں۔ بے روزگاری اور غربت بڑھتی جارہی ہے لیکن ہمارے لیڈر و سیاست داں دیکھتے ہی دیکھتے لکھ پتی اور کروڑ پتی بنتے جارہے ہیں، مفلس کی مفلسی کا گراف ہر روز ہی نیچے آرہا ہے اور ہمارا سیاست داں طبقہ چشم زدن میں ہی غربت کا لبادہ اتار کر پُرتعیش زندگی میں داخل ہوجاتا ہے۔ یہ کتنی حیران کن بات ہے کہ ملک کی کسی بھی پارٹی کا خواہ معمولی کارکن ہی کیوں نہ ہو، اس کی حالت آن واحد میں ہی سدھر جاتی ہے اور اگرا ن میں سے کوئی قانون ساز ادارے کا نمائندہ منتخب ہوجائے یا کرسیٔ صدارت تک پہنچ جائے تو اس کے وارے نیارے ہی ہوجاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر الیکشن میں کروڑوں روپے پانی کی طرح بہا دیئے جاتے ہیں۔ جب کسی جمہوری ملک کے ایسے حالات بن جائیں تو ظاہر ہے اس کے الیکشن میں نمائندوں کا انتخاب رائے دہندگان کی رائے سے کہیں زیادہ ناجائز دولت اور دوسرے ہتھکنڈے ہی کریں گے اور یہی کچھ ہمارے ملک میں ہورہا ہے۔

ان حالات میں بھلا ان سیاست دانوں سے کیا ایسی امید کی جاسکتی ہے جو ملک سے غربت، پس ماندگی اور بے روزگاری دور کرنے میں کوئی رول ادا کرسکتے ہیں، جن کے وسیع و عریض شکم ہل من مزید کی مانند منھ پھاڑے سب کچھ ہضم کرنے کے لیے بے قرار ہیں۔ بہرحال سال کے اواخر میں پھر الیکشن ہونے والے ہیں۔ ضرورت ہے کہ ملک کے عوام اسی طرح اپنے حکمرانوں کو سبق پڑھائیں گے جس طرح دہلی کے عوام نے حالیہ اسمبلی الیکشن میں پڑھایا ہے۔ مذہب کی بنیاد پر نفرت کی سیاست کرکے ملک کے اقتدار پر قبضہ کرنے اور ملک کے سیکولر آئین کی دن دہاڑے دھجیاں اڑانے والوں کو دہلی کے عوام نے جو پیغام دیا ہے وہ پورے ملک کے سیکولر اور انصاف پسند عوام کے لیے مشعل راہ ہے۔ فسطائیت کے تئیں جس طرح عام رائے دہندگان نے اپنی رائے دی اسی طرح دہلی کے مسلمانوں نے بھی بڑی دانش مندی کامظاہرہ کیا ہے، مسلمانوں کے مشترکہ فیصلے نے جہاں فرقہ واریت کے بڑھتے قدم کو روک دیا ہے وہیں نام نہاد مسلم قیادت کو بھی ایسا سبق سکھایا ہے کہ ان کے بھی چودہ طبق روشن ہوگئے۔ عین وقت پر کسی پارٹی کے لیے مسلمانوں سے اپیل کی سیاست کو جس طرح مسلمانوں نے مسترد کیا ہے اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ مسلمان اپنے نمائندوں اور لیڈروں سے کتنے بدظن ہوچکے ہیں۔

2014 کے پارلیمانی انتخابات کے دوران ملک کی فاشسٹ قوتوں نے نمایاں کامیابی حاصل کرلی تو ان کے دماغ آسمان چھونے لگے تھے، پورے ملک کو ہی نفرت کی آگ میں جھونک دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ عوام میں ایک طرح سے ہیجانی کیفیت بھی پائی جانے لگی تھی، لوگوں کا سکون چھن گیا تھا، ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے سارا ملک انہی کا ہے اور اب انہی کے رحم و کرم پر سبھی کو جینا ہے۔ لیکن وقت نے ایسی کروٹ لی کہ دہلی اسمبلی انتخابات کے دوران رائے دہندگان خصوصاً دہلی کے مسلمانوں نے اپنے مشترکہ فیصلے سے ان تمام فاشسٹ قوتوں کو ان کے اصل مقام پر پہنچادیا اور یہ بھی بتا اور جتا دیا کہ یہ ملک تمہارا ہی نہیں بلکہ ہم سب کا ہے۔
خدا کا شکر ہے کہ اس وقت ملک کی سیاست نئی کروٹ لے رہی ہے، ان تمام سیاست دانوں اور لیڈروں کے دن پورے ہوتے نظر آرہے ہیں جن کی سیاست کی بنیاد نفرت اور قوم دشمن سرگرمیوں پر ہے یا جن لوگوں کا سیاسی وجود کرپشن اور بد عنوانیوں پر قائم ہے۔ دیر سے ہی سہی گذشتہ دنوں وزیر اعظم ہند نریندر مودی نے بہت ہی واضح اور دو ٹوک انداز میں ان تمام فاشسٹ قوتوں کو جو مذہب کی بنیاد پر نفرت کی سیاست کر رہے ہیں تنبیہ کی ہے کہ وہ اب اپنی اپنی دکانیں بند کردیں، اس کاروبار سے ملک و قوم کو نقصان کے سوا کچھ حاصل نہیں ہو پا رہا ہے۔ بہرحال وزیر اعظم کا بیان ملک کے بدلتے سیاسی مزاج اور موجودہ حالات میں سب سے بڑا دھماکہ اور سب سے بڑا دل پذیر سچ ہے جسے دیر آید درست آید بھی کہہ سکتے ہیں۔

اس وقت دہلی میں عام آدمی پارٹی اور اس کے سپریمو کیجریوال کی حکومت ہے جو ’سب کا ساتھ اور سب کا وکاس‘ کے بعد اب وہ بھائی چارا کی فضا بنائیں گے، دیکھنا یہ ہے کہ کیجریوال اپنے وعدوں اور رائے دہندگان کے ارمانوں پر کتنے کھرے ثابت ہوتے ہیں، وہ بھی ایسے حالات میں جب کہ ان کے مخالف انہیں چاروں طرف سے گھیرنے اور ہر موڑ پر رکاوٹ پیدا کرنے کی فکر میں ہیں۔ ایسے میں دیکھنا یہ بھی ہے کہ آنے والے آڑے وقتوں میں کیجریوال کا کون کتنا ساتھ دے پاتا ہے۔ جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے وہ جس طرح پورے اعتماد کے ساتھ اپنا اجتماعی ووٹ عام آدمی پارٹی کے دامن میں ڈال دیا ہے اسی طرح وہ مصیبت کی گھڑی میں بھی پارٹی کے ساتھ کھڑے نظر آئیں گے۔ مسلمان جس طرح ملک کی دوسری سیکولر پارٹیوں پر بھروسہ کرتے رہے اور دھوکہ کھاتے رہے اس طرح عام آدمی پارٹی سے بہرحال اُمید نہیں کی جاسکتی کیوں کہ اسے یہ احساس ہے کہ مسلمانوں نے انہیں مسند اقتدار پر بٹھانے میں نہ صرف اہم رول ہی ادا کیا ہے بلکہ بے لوث خدمات بھی انجام دی ہیں۔

ان حالات میں ضرورت اس بات کی ہے کہ جس طرح دہلی میں مسلمانوں نے اپنی مشترکہ حکمت عملی سے اپنا وزن بڑھایا ہے اسی طرح ملک گیر سطح پر اپنا سیاسی منشور اور لائحہ عمل تیار کریں تبھی وہ قومی سیاست میں بھی اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرسکیں گے، سیاسی طاقت کے بغیر آپ کو اقتدار میں باعزت اور جائز حصہ نہیں مل سکتا۔ ہمیشہ کی طرح ہی آپ کے مطالبات سرد خانے میں پڑتے رہیں گے اور ایک ایک کرکے تمام پارٹیوں کو آزمانے کے بعد بھی آپ کا ہاتھ خالی کا خالی ہی رہے گا۔

(یو این این)

*********************

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 514