donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Lamhaye Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Khalil Mahmood
Title :
   Farnavis Ke Ram Rajya Me Reyasat Ki Janta Rawan Raj Me Mubtala


فرنویس کے رام راجیہ میں


ریاست کی جنتا راون راج میں مبتلا؟

 

خلیل محمود اورنگ آباد

 

    بلی اگر اپنی آنکھ بند کرکے دودھ پینے کی عادت سے مجبور ہو تب آر ایس ایس نے  اگر صرف دیویندر فرنویس کی تنظیم کے تئیں سابقہ خدمات کو ملحوظ رکھتے ہوئے انہیں نتین گڑکری و ایکناتھ کھڑسے کے مقابل جوترجیح دی تب اسے کس مجبوری کا نام دیا جائے ؟اسمبلی الیکشن سے قبل بی جے پی کے انتخابی اسٹیج سے ریاست کی برسر اقتدارحکومت کی کارکردگی کے بخیہ ادھیڑتے ہوئے جو سہنرے خواب دکھلائے گئے تھے۔اس دوران ان کی عدم تکمیل نیز پارٹی کے موقف اور ذرائع وسائل کی منصوبہ بندی سے چشم پوشی کی قیمت آج وزیر اعلیٰ و ان کی حکومت کو جس انداز میں بھگتنی پڑرہی ہے۔وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ۔ پارلیمانی الیکشن میں جس حکمت عملی کے تحت بی جے پی کو مہاراشٹر و ملک میں عوام کی جو تائید حاصل ہوئی وہ تاثر اسمبلی الیکشن میں بھی برقرار رہنے کی بی جے پی کی خوش فہمی کی عدم تکمیل پر اسے حکومت سازی کے لئے جو پاپڑ بیلنا پڑا اس کے بھرم یا مجبوری کا نیشنلسٹ کانگریس پارٹی ‘شو سینا اور کچھ آزاد اراکین اسمبلی نے جس طرح اس کافائدہ اٹھایا اسے سیاسی بلیک میلنگ کا نام دیا جا سکتا ہے۔ اس مرحلہ سے گزرنے کیکے باوجود یہ حکومت ابھی اس مرحلہ سے جس طرح دوچار ہے وہ تلخ حقیقت بی جے پی کی نام و نمود کی سیاست کے لئے چیلینج سے کم نہیں ؟

    سانپ کے منہ میں چھچھوند رجیسی کنیت میں مبتلا فرنویس کو وزرات اعلیٰ کی ذمہ داریاں جس طرح کانٹوں بھرے تاج سی ثابت ہو رہی ہے۔جس کی چھبن و تکلیف کا کھل کر وہ اظہار کسی کے سامنے کر نہیں سکتے۔شاید ان کی سمجھ میں اب آرہا ہو کہ بی جے پی کے رکن اسمبلی کی حیثیت سے انہوں نے حکمرانوں کی دکھتی رگوں پر جس طرح ہاتھ رکھا تھا۔آج حکمرانی کے منصب پر فائز ہونے کے    با وجود اپنے محدود اختیارات کا انہیںشاید اندازہ ہو چکا ہو۔اس پر طرفہ تماشہ یہ کہ بی جے ی کے ان کے کابینی رفقاء اور شیو سینا کے حلیف ساتھی جس انداز میں ان کی کارکردگی کو ٹارگیٹ بنارہے ہیں۔اس دوران حسب توقع ان کی مدد و تعاون سے مرکزی حکومت اور اس کی نگراں اعلیٰ آر ایس ایس جس طرح خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہا ہے۔وہ اس حکومت کے وجود کے لیے سب سے بڑا گمبھیر مسئلہ ثابت ہو رہا ہے۔

    صدر امریکہ بارک اوبامہ کی ضیافت میں ان کی شمولیت سے محرومی محض بر وقت دعوتنامہ نہ ملنے کی وجہ سے فرنویس کو جس طرح اپنے ہاتھ ملنا پڑا تھااس کے لیے اسے اس انتظامیہ کی فرض شناسی کی اسے زندہ مثال قرار دیا جا سکتا ہے۔ وزیر اعظم نے وزرات عظمیٰ کا جائزہ لینے کے بعد انتظامیہ ٹیم تشکیل دینے کیلئے نہایت باریکی سے چھان پٹک کے ذریعہ چست انتظامیہ کی ضرورت کی تکمیل کی بے انتہا کوشش کی تھی؟جب کہ مہاراشٹر میں آفت سماوی کے شکار مجبور و بے بس کسانوں کو جس انداز میں ان مصائب کو بھگتنا پڑا تھا اس سلسلہ میں حکومت نے کسانوں کے نقصان کا جائزہ لے کر مرکز سے امداد کے حصول کے لیے خصوصی پیکیج میں تاخیرپر اپنے ریاستی خزانہ سے اس کی ادائیگی کے فیصلہ کے باوجودمرکز کی جانب سے پیکیج کے حصول کی کاروائی کو دو ڈھائی ماہ عرصہ گزرنے کے باوجود وہ کاروائی محض دفتریت کی بھول بھلیوں میں ابھی تک وہ کاروائی بھٹک رہی ہے۔شایدقدرت نے بھی مہاراشٹر کے کسانوں و حکومت مہاراشٹر کی آزمائش کا فیصلہ کیاہو۔ربیع کی فصل ضائع ہونے کے تناظر میں خریف کے دوران اچانک بے موسم برسات اور ژالہ باری نے جس طرح کسانوں کی کمرسی توڑدی۔ اس سلسلہ میں وقت کے مارے ان بدحال کسانوں کو امداد کے ساتھ تسلی کی جس طرح ضرورت تھی اس کے بجائے ریاست کے وزیر محصول ایکناتھ کھڑسے نے ان کاشتکاروں کو یہ مـثردہ جانفرا سنایا کہ ایک مرتبہ امداد کے حصول کے بعد متاثرہ کسان دوسری مرتبہ امداد کے حصول کے اہل نہیں ہو سکتے۔

    وزیر اعلیٰ فرنویس کے آبائی ناگپور میں آر ایس ایس کی پرتی ندھی سبھا کے سہ روزہ اجلاس کے اختتام کے بعد جس طرح ریاست میں گائے کی نسل پر امتناع ذبیحہ کے فیصلہ کی توثیق سے قبل ہی صدر جمہوریہ نے ا س بل پر دستخط کی وجہ سے اب ریاست کی صورتحال پر نظر رکھ کر وزیر اعلیٰ کو صورتحال سے نمٹنا ہوگا۔اتفاق سے وزیر اعلیٰ نے وزرات داخلہ کے قلمدان کی ذمہ داریاں خود سنبھال رکھی ہیں۔جن کی غذا میں گوشت شامل ہے۔وہ مسلمان ‘دلیت ‘ادیباسی ‘کرسچین طبقات میں اس فیصلہ کے رد عمل کی وجہ سے جو غم و غصہ کی کیفیت میں مبتلا ہیں۔اس صورتحال میں ریاست کا کسان بھی اپنے آپ کو ٹھگا ہوا محسوس کر رہا ہے۔ساورکر نے ہندو سماج کی بیداری کے لیے اپنی زندگی وقف کردی تھی۔ گائے کے تعلق سے ہندو سماج کی اندھی عقیدت کے وہ خلاف تھے۔انہوں نے کبھی بھی ذبیحہ گائو کی مخالفت نہیں کی تھی۔ہندو دانشوروں نے بھی ویدک دور میں گائے کی قربانی اور اسے برہمنوں کی غذا قرار دیا تھا۔اس کے باوجودآر ایس ایس گائے کی نسل کے ذبیحہ کے خلاف ہے۔ جس کی مرضی کے تحت مہاراشٹر کی حکومت کو عمل کرنے کی مجبوری آن پڑی ہے۔ گئو کشی امتناع کا پوسٹ مارٹم کیا جائے تو یہ واضح ہوگا گوشت خوری کے معاملہ میں مسلمان خواہ مخواہ بدنام ہیں۔ان کے علاوہ Beef کھانے والوں میں دلیت‘ادیباسی‘کرسچین‘اور دیگر طبقات بھی شامل ہیں۔ ان طبقات کی یہ غذائی ضرورت کی تکمیل کے بعد اس کا چمڑہ لیدر انڈسٹری کی ضرورت ہی نہیں بلکہ غیرملکی زر مبادلہ کے حصول کا بھی بڑا ذریعہ ہے۔ذبیحہ کے بعد مویشی کا خون فارماسٹیکل ضروریات کی تکمیل ‘اس کی چربی سے صابن اور دیگر اشیاء کی تیاری‘اس کی ہڈی کے سفوف سے شکر صاف کرنے کا کام لیا جاتا ہے۔ تین سال قبل ریاست میں گائے بیل کی جو گنتی کی گئی تھی اس کے بموجب مہاراشٹر میں اس نسل سے تعلق رکھنے والے مویشیوں کی جملہ تعداد ایک کروڑ چوپن لاکھ بتلائی گئی ہے ۔مرکزی حکومت نے گئو شالائوں کے نام پر تین گئو شالائوں کے قیام کو منظوری دی ہے۔اس میں ہر گئو شالہ میں ایک ہزاروں گایوں کی نگہداشت کی جائے گی مابقی گئو دھن رام بھروسے؟


    ملک کے آئین میں مذہب کے نام پر ریزرویشن کی مخالفت کے پس منظر میں مسلمانوں کا ریزرویشن بھی اسی تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔جب کہ حکومت کی جانب سے مختلف کمیشنوں نے مسلمانوں کی تعلیمی ‘سماجی و معاشی صورتحال کا جو تجزیہ کیا ہے۔ اس پس ماندگی کی بنیاد پر اس ریزرویشن کے مسلمان بھی اہل ہونے کے باوجود اس مسئلہ کو سیاسی عینک سے دیکھنے کے نقطۂ نظر سے بی جے پی نے بھی اسی اقدام کے ذریعہ مسلمانوں کو ریزرویشن سے محروم کرنے کا جو فیصلہ کیا ہے۔ وہ آر ایس ایس کی پالیسی کا ہی نتیجہ ہے۔جس سے بی جے پی کا فرار ممکن نہیں۔حالیہ ریاستی بجٹ میں مسلمانوں کے لیے کتنی گنجائش مختص کی گئی اس کا سرسری جائزہ لینے پر خصیص سے فراخدلی کی امید خود بے وقوفی کی دلیل کہلائے گی۔مسلمانوں کے تئیں آر ایس ایس کے ذہن میں شروع سے جو نفرت و کدورت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی اس کی کٹھ پتلی حکومت سے کیوں کر ان کے لیے فراخدلی کے مظاہرہ کی توقع اس حکومت کے سالانہ بجٹ میں مسلمانوں کے حصہ میں چٹکی بھر بجٹ مختص کرنے سے ظاہر ہے۔

(یو این این)
9890188474

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 497