donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Lamhaye Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : M Wadood Sajid
Title :
   Hamara Qatil Bhi Aik Sajan Hai

ہمارا قاتل بھی ایک’ سجن‘ ہے!
 
ایم ودود ساجد
 
29سال کے بعدسکھ مخالف فسادات کے ملزم اور کانگریس لیڈرسجن کمار کی ’رہائی‘پرسکھ قوم کی ناراضگی بجا ہے۔اس لئے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ سجن کمار ان کے قاتلوں کی قیادت کر رہے تھے۔عدالت عالیہ کے حکم سے اس سلسلہ کے دوسرے ملزم اور کانگریس لیڈرجگدیش ٹائٹلرکے خلاف از سر نومقدمہ کی کارروائی شروع کردی گئی ہے۔تیسرے ملزم ایچ کے ایل بھگت اب اس دنیا میں نہیں ہیں۔سجن کمار کی ’براء ت‘کے فیصلہ کو کئی سکھ قائدین نے ٹرائل جج کا نہیں بلکہ کانگریس کا فیصلہ قرار دیا ہے۔اس پر دنیا بھر میں پھیلے ہوئے سکھ خاندانوں نے جس انداز سے مظاہرے کئے ہیں اور جن کا سلسلہ ابھی جاری ہے‘وہ عدیم المثال ہیں۔لیکن ان منظم مظاہروں اور سجن کمار کو پھانسی پر چڑھانے کے مطالبات نے دل ودماغ میں ایک دوسرا خلجان بھی پیدا کردیا ہے۔
 
`1984کے سکھ مخالف فسادات کی یاد میرے ذہن میں بھی اسی طرح تازہ ہے جس طرح ہمارے سکھ بھائیوں کے ذہنوں میں ہے۔ان کے دکھ درد کوہم سے بہترکون سمجھ سکتا ہے۔پوری دہلی پر ایک خوفناک فضا چھاگئی تھی۔اندرا گاندھی کے قتل سے لا تعلق سینکڑوں بے قصور افراد 
پرجو قیامت ٹوٹی تھی اس کاتصورہی آبدیدہ کردیتا ہے۔اندراگاندھی کے قاتلوں کے پاس قتل کا کوئی بھی جواز ہو لیکن محافظوں کے ہاتھوں وزیر اعظم کا قتل کیااس امر کا کوئی جواز تھا کہ پولس اور انتظامیہ ‘بے قصور شہریوں کے تحفظ سے غافل ہوجائے اور مقتول اندراگاندھی کے اندھے ’عقیدت مند‘شہر کو آگ اور خون میں غلطاں کردیں؟ سجن کماراورجگدیش ٹائٹلرمجرم ہیں یا نہیں‘ہمیں نہیں معلوم۔اس لئے کہ ہم نے انہیں اپنی آنکھوں سے نہ تولوگوں کو اکساتے ہوئے دیکھا اورنہ انہیں تشدد پر آمادہ ہجوم کی قیادت کرتے دیکھا۔وہ دہلی کے پولس کمشنرتھے اورنہ میئر‘وہ وزیر اعلی یا گورنر بھی نہیں تھے کہ جو شہریوں کے تحفظ کا انہیں ذمہ دار گردانا جائے۔وہ فقط دہلی کے سات ممبران پارلیمنٹ میں سے دوتھے۔اپنے علاقوں کے مکینوں کے تحفظ کویقینی بنانا ان کی سیاسی ‘سماجی اوراخلاقی ذمہ داری تھی جس میں وہ ناکام رہے۔ سجن کمار محض ایک متاثرہ خاتون اور جگدیش ٹائٹلر قتل کے ایک مفرورملزم کی گواہی کے سبب پچھلے 29سالوں سے ذلت ورسوائی کاعذاب جھیل رہے ہیں۔متاثرین کو722کروڑ سے زیادہ کا معاوضہ مل چکا ہے لیکن اس کے باوجود انہیں انصاف کی جستجوہے۔پوری قوم ایک آہنی اور سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی مانند کھڑی ہے۔
 
سکھ قوم کے اس جذبہ کی ستائش کی جانی چاہئے۔یہ اس کی جہد مسلسل کا ہی نتیجہ تھا کہ یوپی اے (اول)کی حکومت نے محض ایک سال کے اندر اندر متاثرین کومعاوضہ کے طورپرکل سات ارب22کروڑ نولاکھ کچھ روپیہ عطا کردئے۔یہ اس رقم سے الگ ہے جو ہلاک شدگان کے ورثا اور زخمیوں کو وقتاً فوقتاً ملتی رہی۔ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے بلکہ انتہائی اطمینان ہے۔اب کل ملاکر فی متاثر کو 25لاکھ یا اس سے زائد ملے۔اگر فی کس ۲۵کروڑ روپیہ بھی دے دیا جائے تب بھی یہ رقم اس قیمتی جان کی تلافی نہیں ہوسکتی جو اپنے پیاروں سے چھن گئی۔متاثرین کو اسی وقت کچھ قلبی اطمینان ہوگا جب قاتلوں اور ا ن کے آقاؤں کو انصاف کے آستانہ پرگھسیٹ کر لایا جائے۔اس عمل میں بظاہر سی بی آئی ناکام ہے۔اب اس نے اعلان کیا ہے کہ وہ سجن کمار کو بری کئے جانے کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل کرے گی۔
 
2005میں جس وقت وزیر اعظم منموہن سنگھ کی قیادت میں کابینہ نے متاثرین کیلئے مذکورہ رقم منظور کی تھی تو ہم نے بھی ایک توقع باندھ لی تھی ۔ہم نے سوچا تھا کہ چونکہ وزیر اعظم کا تعلق اقلیتی طبقہ سے ہے اس لئے جس طرح انہوں نے دوفیصد اقلیت کا دکھ درد محسوس کیا ہے اسی طرح وہ 20فیصد اقلیت کا بھی دکھ درد محسوس کریں گے۔لیکن دکھ ہوا کہ یوپی اے (دوم) بھی اپنے خاتمہ پر ہے اور ہندوستا ن کے ہزاروں فسادزدہ مسلمانوں کو معاوضہ تو کیاملتا ‘ان کے قاتلوں کی تلاش تک نہیں کی گئی۔انہوں نے جن قاتلوں کی نشاندہی کی بھی ان کو ہاتھ تک نہیں لگایا گیا۔انہوں نے ایک نہیں ساڑھے 23ہزار1984'‘دیکھے ہیں۔اور سینکڑوں فسادات تو 1984سے بہت پہلے دیکھے ہیں۔آزادی کے بعد سے اب تک چھوٹے اور بڑے مسلم کش فسادات کی تعداد50 ہزار کو تجاوز کرچکی ہے۔لیکن کسی ایک فساد کے متاثرین کو ایک روپیہ تک نہیں ملا ہے۔مسلمانوں نے جب محض 2002کے گجرات فسادات اور خاص طورپرگلبرگہ سوسائیٹی کے بھیانک قتل عام کی تحقیقات سی بی آئی کے ذریعہ کرائے جانے کا مطالبہ کیا تو سپریم کورٹ نے سی بی آئی کی جگہ ایس آئی ٹی بناکر اسے یہ کام سونپ دیا۔ایس آئی ٹی کی نگرانی آر کے راگھون کے سپرد کی گئی جنہوں نے تمام واقعاتی اور بالواسطہ شواہد کے باوجود گجرات کے وزیر اعلی نریندر مودی کو کلین چٹ دیدی۔انہوں نے کہا کہ مودی کے خلاف کوئی ریکارڈ دستیاب نہیں۔لیکن راگھون سے کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ جب تمام کال ریکارڈ 
 
عمداً تلف کردئے گئے ‘اور جن کا گجرات حکومت کے افسروں نے اعتراف بھی کرلیاتو ریکارڈ کہاں سے ملے گا؟سوال یہ ہے کہ ریکارڈ ضائع کرنے والوں کی گردن کیوں نہیں پکڑی گئی؟انصاف کا تقاضہ اور اصول یہ ہے کہ معاملہ کو اس کے منطقی انجام تک پہنچایا جائے۔لیکن مسلمانوں کے معاملہ میں منطقی آغاز ہی مجرمانہ کوتاہی سے کیا جاتا ہے۔
 
یہ ایک علمی سوال ہے۔کیا دہلی کے پولس کمشنر‘وزیر اعلی‘مرکزی وزیر داخلہ اور خود وزیر اعظم اس سادہ سوال کا جواب دیں گے کہ اگر مودی کو کلین چٹ دئے جانے پرمسلمانوں نے میٹرو ٹرینیں روکی ہوتیں‘وزیر داخلہ اور وزیر اعظم کے دفتر کا محاصرہ کیا ہوتا اور سڑکوں پر لوگوں کا چلنا پھرنا دوبھر کردیا ہوتا تو کیا انہیں بھی بخش دیا جاتا؟جج پر جوتا اچھالنے والے کو تو دہشت گرد قرار دے کر اس کی اوراس کے اہل خانہ کی زندگی برباد کردی گئی ہوتی۔خدا کا شکر ہے کہ ہم نے مودی اور دوسرے قاتلوں کے خلاف کبھی نہ ٹرینیں روکیں‘نہ وزرا کے دفتروں اور رہائش گاہوں کا محاصرہ کیا‘ نہ سڑکوں کو جام کیا اور نہ کسی جج پر جوتا اچھالا۔ہندوستان کا کون سا صوبہ اور کون سا شہر ایسا ہے کہ جو ہمارے خون سے نہایا نہ ہو؟کون سی سیاسی جماعت ایسی ہے کہ جس کا دامن مسلم کش فسادات سے پاک ہو؟لیکن اس کے باوجود کبھی ہم نے امن وقانون کے لئے مسئلہ پیدا نہیں کیا۔دوسرے لوگ وزیر اعظم سے وقت مانگتے ہیں تو انہیں آسانی سے وقت مل جاتا ہے۔یہاں تک کہ صدر جمہوریہ بھی ایک لمبے چوڑے وفد کو وقت دیدیتے ہیں۔ان کے قائدین وہاں جاکر فدویانہ انداز میں بات نہیں کرتے۔وہ اپنی قوم کے مجموعی مفادات کو سامنے رکھتے ہیں۔کیا ہم مسلم قائدین سے سوال کرسکتے ہیں کہ انہوں نے بھی کبھی اپنے ذاتی مفادات کو بالا ئے طاق رکھ کر حکام اور وزراء کے سامنے مسلمانوں کے مجموعی مفادات پر پوری طاقت سے گفتگو کی ہے؟آخر ان کی صدا اور ان کے احتجاج میں دم کیوں پیدا نہیں ہوپاتا؟مجھے یاد ہے کہ مرکزی وزیر کپل سبل نے 2004کے عام انتخابات میں اپنے حلقہ انتخاب کے مسلم ووٹروں سے وعدہ کیا تھا کہ اگر وہ جیت گئے تو وہ مودی کے گلے میں قانون کا طوق ڈلوائیں گے۔یوپی اے کی دونوں میعادوں میں یہ ہوا کہ بے گناہ مسلم نوجوانوں کے گلے میں طوق پڑگیا۔ہمارے مسلم قائدین کو یہ توفیق نہ ہوسکی کہ کپل سبل سے پوچھتے کہ آخر آپ کے وعدے کا کیا ہوا؟دور کیوں جاتے ہیں ‘انہی کے حلقہ انتخاب کا ایک بدنصیب نوجوان 14سال کی بے گناہی کی سزا کاٹ کر عدالت سے باعزت بری ہوا ہے۔اب وہ بازآباد کاری کے لئے دردرکی ٹھوکریں کھاتا پھر رہا ہے لیکن اس کی باز آباد کاری کا حکومت یا کپل سبل کے پاس کوئی منصوبہ نہیں۔ذہن میں رہ رہ کر یہ سوال اٹھتا ہے کہ اگر یہ نوجوان کسی اور فرقہ کا ہوتا تو کیا اس وقت بھی حکومت اور خود اس کے فرقہ کے عمائدین اس کے ساتھ یہی سلوک کرتے؟
 
۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 722