donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Lamhaye Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Md. Ilyas Nadvi Rampuri
Title :
   Siyasi Bazigiri Aur Musalmanane Aalam

 

سیاسی بازی گری اور مسلمانانِ عالم
 
محمد الیاس ندوی رام پوری
 
ہماری اس دنیا میں سب سے اوپر سیاست کا بھاری بھرکم ہاتھ ہے اور باقی سب کچھ یا تو اس کے دست راست جیسا ہے یا پھر دستِ تہہ سنگ طرح۔ سیاست عامل ہے اور باقی سب کچھ معمول۔ سیاست گڈرئے کے ہاتھ میں لاٹھی کی طرح ہے اور باقی سب کچھ ریوڑ کے گلے میں پٹے جیسا۔سب لکھنے پڑھنے والے ریوڑ کے کردار او ر نفسیات کے حامل ہیں جدھر کو انہیں ہانکا جاتا ہے وہ ادھر ہی کو ہنکے چلے جاتے ہیں، منہ لٹکائے ہوئے اور دم ہلاتے ہوئے۔(البتہ استثنیات تو ہر جگہ ہوتے ہیں)سیاست ایک استحصالی قوت کا نام ہے اور اس کا ڈنڈا سب پر چلتا ہے۔ سیاست جب مقامی ہوتی ہے تو وہ مست ہاتھی کی طرح ہوتی ہے اور جب عالمی ہوتی ہے تو وہ پاگل ہاتھی کی طرح ہوجاتی ہے۔قدیم زمانے میں سیاست محلوں میں رہتی تھی اور شہنشاہ اس کا باپ ہوا کرتا تھا مگر جدید زمانے میں سیاست پارلیمنٹ ہاؤس میں رہتی ہے اور جمہوریت اس کی ماں ہے۔لیکن سیاست انسان کی ایک ایسی ضرورت ہے جیسے ماں باپ ہر انسان کی لازمی ضرورت ہیں چاہے وہ انہیں تسلیم کرے یا نہ کرے۔سیاست تو ہر جگہ ہے ہمارے اپنے گھر میں بھی ، اسکول میں بھی اور محلے کی مسجد میں بھی تاہم پارلیمانی سیاست کا دائرہ ¿ کار چونکہ زیادہ وسیع اور ہمہ گیر ہوتا ہے اس لیے ہم زیادہ تر اسی کی بات کرتے ہیں۔دنیا ہٹلر کو مجرم گردانتی ہے، ایک ایسا مجرم جس کی بدی کا گراف پچھلے تمام جابرو ظالم حکمرانوں کی فہرست میں سب سے اونچا دکھا ئی دیتاہے ، اِس کی وجہ سادہ طور پریہ نہیں کہ اس نے ہزاروں افراد کو بشمول بوڑھے اور بچوں کے تہہ تیغ کر دیا بلکہ اس کی خاص وجہ اگر سنجیدہ طور پر سوچاجائے تویہ زیادہ ہے کہ اس کی تلوار کے نیچے آنے والی گردنیں صیہونیوں کی گردنیں تھیں،(اگر ہولوکاسٹ کا واقعہ سچ ہے…؟؟)جو آج کے ماحول پر پوری طرح گرفت رکھتے ہیں، سیاسی و عسکری میدانوں سے لے کر تعلیمی و صحافتی میدانوں تک ان کاہی طوطی بولتا دکھائی دیتا ہے۔ اور انہوں نے اپنی اس امیج کا فائدہ اٹھا کر تاریخ کے ساتھ خوب مذاق کیا ہے۔ اگر خدا نخواستہ ہٹلر کا نزلہ کسی دوسری قوم پر گرا ہوتا تو شاید تاریخ کے صفحات میں اُس کے جنگ جوئی کے جنونی قصوں کو اتنی زیادہ خون آشام داستانوں کے طورپر محفوظ نہیں رکھا جاتا، بلکہ اسے اُس کی زندگی کا ایک الگ تھلگ واقعہ قرار دے کر بھلانے کی کوشش کی جاتی اور اس کی جنگی قابلیت اور مہارت کو زیادہ واضح انداز میں دنیا کے سامنے پیش کیا جاتا۔بالکل اسی طرح جس طرح جارج ڈبلیو بش نے اپنے دور حکومت میں ابوغریب جیل میں جنسی ہراسانی کے گھناو ¿نے واقعہ کو الگ تھلگ واقعہ قرار دینے کی کوشش کی تھی۔ ایسا کہہ کر وہ یہ بتانے کی کوشش کر رہے تھے کہ جنس زدگی پر مبنی واقعات کا ظہور پذیر ہونا سفید فام لوگوں اور خاص طور پر امریکی لوگوں کی فطرت ثانیہ کی واضح علامت نہیں۔ ابو غریب میں جنسی ہراسانی کے غیرمہذب واقعہ میں گرچہ ان کی قوم کے کچھ اعلی پائے کے افسران ملوث پائے گئے ہیں تاہم یہ اس بات کا اشاریہ نہیں ہے کہ پوری امریکی قوم ہی جنس زدگی کی بیماری میں مبتلا ہے۔یا پھر ان کی اکثریت اس کا شکار ہے،جو اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ یہ قوم تہذیب سے عاری قوم ہے۔قارئین کو یاد ہوگا کہ جارج ڈبلیو بش نے نائن الیون کے واقعہ کو مہذب قوم پر حملہ بتایا تھا۔تو ایسے ہر واقعہ کو جو ان کی تہذیب پر کلنک جیسا ہو الگ تھلگ واقعہ قراردینا گویا ان کی ذمہ داری بنتی ہے تاکہ دنیا ان کی تہذیب داری اور شائستگی پر انگلی نہ اٹھائے۔ٹھیک اسی طرح آج نریندر مودی کے کالے کرتوتوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور گجرات میں ترقی کے نام پر مودی کو پی ایم کی سیٹ کے لیے مضبوط دعوے دار بنا کر پیش کیا جارہا ہے۔ گجرات فسادات میں اتنے لوگ مارے گئے جتنے لوگ نائن الیون میں بھی نہیں مارے گئے تھے ، جبکہ ان کو انتہائی بے دردی اور وحشیانہ طریقہ پربھی مارا گیا تھا۔ آج اِس سب کو بھلائے جانے کی بات کی جارہی ہے۔نریندر مودی کے گھناو ¿نے کرتوتوں کو ترقی او ر وکاس کے پردے میں چھپانے کی کوشش کی جارہی ہے جبکہ نائن الیون کے نام نہاد حادثہ کی بنیا د پر تین چار مسلم ممالک کو تباہ و برباد کردیا گیا اور ابھی تک غصہ ٹھنڈا ہوتا نظر نہیں آتا۔حیرت کی بات تو یہ ہے کہ جس امریکہ نے نریندر مودی کو دو ہزاردو کے مسلم کش فسادات کی وجہ سے امریکہ کا ویزا دینے سے انکار کردیا تھا آج اسی امریکہ کی طرف سے نریندرمودی کے وکاس ، قابلیت اور اگلے الیکشن میں پی ایم کی سیٹ کے لئے مضبوط دعوے داری کی باتیں زور وشور سے اٹھا ئی جارہی ہیں۔اس طرح کی کوششوں سے بخوبی سمجھا جا سکتا ہے کہ اگر ہٹلر کا نزلہ کسی دوسری قوم پر گرا ہوتا تو وہ تاریخ کے اوراق میں اس قدر ظالم نہ ہوتا۔اگر ہوتا تو ساتھ ہی ایک بہادر جنگجو بھی ہوتا۔بالکل اسی طرح جس طرح آج نریندر مودی کی قابلیت کے چرچے ہیں۔مشرقی نہاں خانوں سے لے کر مغربی ایوانوں تک۔
یہ بات اپنی جگہ ہے کہ نریندر مودی پی ایم کے عہدے کے لائق ہیں یا نہیں تاہم اتنا ضرور ہے کہ اگرنریندر مودی یا اس قماش کے دوسرے لوگ آنے والے دنوں میں پی ایم بن جاتے ہیں تو ’فسادات کی سیاست‘ آنے والی پیڑھی کے لیے ایک مثال بن جائے گی۔ اور ہماری آج کی جوان نسل جو آگے چل کر سیاست کی باگ ڈور سنبھالے گی اُس کا یقین اِس بات میں پختہ ہوگا کہ فسادات کروانا اور اقلیتوں پر ظلم ڈھانا سیاسی داو ¿ پیچ چلنے کے لیے ضروری ہے۔اور پھر ہر نوجوان اسی راستے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرے گا۔اور پی ایم کی کرسی تک پہونچنے کے لیے اقلیتوں کے خلاف فسادات بھڑکانے کو مختصر راستہ (Short cut way)تصور کرے گا۔
نریندرمودی کتنے ڈھیٹ پن کے ساتھ کہہ رہے ہیں کہ اگر میرا کوئی گنا ہ ہے تو مجھے پھانسی پر لٹکا دو۔ اگر مودی کا کوئی گناہ نہیں ہے تو ایسا کیسے ہوگیا کہ راتوں رات مسجد وں کی جگہ پختہ سڑکیں بن گئیں۔ راستوں اور گلی کوچوں میں خون بہتا رہا یہاں تک کہ تین ہزار سے چھہ ہزارتک بے گناہ لوگوں کا قتل عام کردیا گیا اور ریاست کی پولس اور سیاسی لیڈروں کو اس کا پتہ ہیں نہیں چلا۔ اور نہ وہ اس کو روک سکنے پر قادر تھے اور نہ یہ ان کی ذمہ داری تھی۔ہاں ایک بات ممکن ہے کہ ان چھ ہزار لوگوں نے خود ہی اپنے آپ کو مار لیا ہواور اپنی جائداد کو نقصان پہونچایا ہواور جلے کٹے جسموں کی جو تصویریں آج بھی کتابوں میں اور میڈیا کے ریکارڈوں میں محفوظ ہیں وہ سب جعلی ہوں ، ہوسکتا ہے کہ ان جلنے کٹنے والے ہزاروں لوگوں نے خود ہی یہ تصویریں بنائی ہوں اورمیڈیا کو بھیج دی ہوں۔
 
یہ بات اپنی جگہ بڑی حد تک تعجب خیز اور حیرت انگیز ہے کہ جس ہندوستان میں سیاسی لیڈروں سے بات بات پر استعفیٰ کی مانگ کی جاتی ہے اسی ملک میں نریندر مودی سے کسی نے بھی کم از کم اس بات کے لیے بھی استعفیٰ نہیں مانگا کہ وہ اپنی ریاست میں فسادات روکنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔اگر فسادات بھڑکانے میں ان کا رول نہ بھی ہو تب بھی ان کا یہ گناہ کم نہیں کہ وہ فسادات کو روک نہ سکے جبکہ ان کے پاس ایسا کرنے کی صلاحیت اور طاقت تھی وہ چاہتے تو صرف چند گھنٹوں میں ہی فسادات رکوا سکتے تھے۔اس کی صاف وجہ یہ ہے کہ اقلیتوں کا دکھ درد سمجھنے والا کوئی نہیں۔ہاں کچھ غیر سرکاری سطح کے لوگ ضرور ہیں جو اقلیتوں کا دکھ درد سمجھتے ہیں مگر ان کی آواز نقار خانے میں طوطی کی آواز سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی۔آج امریکہ ،یورپ اور اسرائیل کی سرپرستی میں دنیا کی امیج کچھ اس طرح کی بنتی جا رہی ہے کہ جو شخص یا ملک مسلمان قوم کو نقصان پہونچائے گا وہ مستقبل کا ہیرو بن جائے گا۔ اوبامہ نے افغانستان کو تباہ کر نے کے لیے مزید فوج بھیجنے کی وکالت کی تو انہیں امن کانوبل پرائز مل گیااور مودی نے چھ ہزار مسلمانوں کا قتل عام کروایا تو وہ ہندستان جیسے بڑے ملک میں پی ایم کی سیٹ کے لیے مضبوط دعوے دار بن کر ابھر رہے ر ہیں۔خود مسلمانوں میں جو لیڈر اپنے علاقوں میں فیک انکاو ¿نٹرکے لیے راہ ہموار کرتے ہیں یا بم دھماکوں کے بعد اپنے علاقوں سے مسلم نوجوانوں کو اٹھانے اور انہیں ٹارچر کرنے کی کھلی چھوٹ دیتے ہیں ان کا راتوں رات پرموشن ہوجاتا ہے۔اور پھر اگلے الیکشن میں کوئی طاقت انہیں ہرا نہیں سکتی۔آج دنیا کے بیشتر حصہ پر جمہوریت کی حکمرانی ہے۔ہم دیکھتے ہیں کہ آئے دن سرکاریں بنتی اور گرتی ہیں، کبھی کسی ملک میں اور کبھی کسی ملک میں۔ہم یہ سمجھتے ہیں کہ سرکار گرانے اور بنانے کے پیچھے عام آدمی کی قوت ہے جو اسے جمہوریت کی وجہ سے حاصل ہوئی ہے۔مگر یہ سب نظروں کا دھوکہ ہے ، اس پر یقین کرلینا سادہ لوحی ہے اور بہت بڑی فریب خوردگی ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ اس سب کے پیچھے سیاست کی ننگی جارحیت ہے۔آج مسلم ممالک میں حکمرانوں کے خلاف جو ہوا چل رہی ہے دنیا کے بہت سارے لوگ اسے بھی عوام کی لڑائی مانتے ہیں بلکہ عوام کی جیت بھی مان رہے ہیں جبکہ صحیح بات یہ ہے کہ ان کے پیچھے بھی عالمی سیاست کام کررہی ہے۔لیبیا میں تو یہ بات جگ ظاہر ہے مگر دوسرے ممالک میں بھی عالمی سیاست کا خفیہ ہاتھ اپنے جیسے داو ¿ پیچ چل رہا ہے۔یہاں ایک فرد کو انعامات سے نوازا جاتاہے اوراسی سطح کے دوسرے کئی افرادکو اس سے محروم کردیا جاتا ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ اس کے پیچھے قابلیت اور عدم قابلیت کی بنیادی وجہ ہے ، عوام کی پسندیدگی اور ناپسندیدگی ہے۔ یہ چیز گرچہ ثانوی درجہ میں کسی حدتک درست بھی ہوسکتی ہے مگر اول درجہ کی بات یہ ہے کہ اس کے پیچھے سیاست کا بھاری بھرکم ہاتھ ہے۔اگر کوئی سماجی کارکن ، ادیب یا مذہبی وسیاسی رہنما ایک خاص فکر کوجو مادیت کو روحانیت پر غلبہ دلانے کی فکر ہے،جوساری دنیا پر عالمی طاقتوں کی اجارہ داری قائم کرنے اور اس کو دوام بخشنے کی فکر ہے اگر وہ اس خاص فکر کو آگے بڑھانے میں اپنا رول ادا کرتا ہے تو نوبل ، بوکر یا اس سطح کے دوسرے انعام حاصل کرسکنے والوں کی ممکنہ فہرست میں اپنا نام درج کرواسکتا ہے ۔یہاںانعام بانٹنے بھی سیاست ہے اور انعام سے محروم کردینے میں بھی سیاست ہے۔سیاست اور بطور خاص جمہوری سیاست عوام اورقوموں کی گردن میں پڑاہوا طوق ہے اور وہ اس کے اشاروں پر چلنے کے لئے مجبور محض ہیں۔بابری مسجد سے لے کر ورلڈ ٹریڈ سینٹر تک نفرت اور دہشت کے جتنے بھی مظاہر سامنے آئے ہیں ان میں بظاہر غیر سیاسی چہرے ہی دکھائے جاتے رہے ہیں اور آج تک میڈیا میں او ر لوگوں کے ذہنوں میں غیرسیاسی چہرے ہی گردش کر رہے ہیں تاہم ان غیر سیاسی چہروں کے پیچھے سیاسی چہروں کے وجود سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا۔اُس وقت جب یہ حادثات رونما ہوئے تھے اسی وقت بہت سارے ذمہ دار صحافیوں اور سماجی کارکنوں نے ان میں ملوث سیاسی چہروں کی نشاندہی کی تھی مگر ان کی آواز اسی طرح غیر مو ¿ثر بنا دی گئی جس طرح سیاسی لوگ اپنے خلاف گواہوں، ثبوتوں اور الزامات کو غیر موثر بنا دیتے ہیں۔آج کی دنیا میں عجیب طرح کی سیاست پنپ رہی ہے یہ کسی ایک قوم یا شخص کو گھیرنے کی سیاست ہے۔ خود ہندوستان میں شرپسند طاقتوں نے یہ عجیب وطیرہ بنا رکھا ہے کہ وہ منطق اور دلائل کی بات کرنے کے بجائے مورد الزام شخص کو یا قوم کو چاروں طرف سے گھیرنے کی کوشش کرتے ہیں اور کوو ¿ں کی طرح لپٹ جاتے ہیں۔جب بھی کوئی مسلم تنظیم یا دردمندمسلمان لیڈر دہشت گردی کے جھوٹے الزام میں تباہ وبربا د ہوجانے والے مسلم نوجوانوں اور ان کے خاندانوں کو انصاف دلانے کی بات کرتا ہے تو ہندوستان میں تیزی کے ساتھ پنپ رہی ایک خاص لیڈر شپ کو ¿و ں کی طرح لپٹ جاتی ہے اور یہ باور کرانے کی کوشش کرتی ہے کہ فلاں شخص یا تنظیم دہشت گردی کی حمایت کررہی ہے۔ بٹلا ہاو ¿س کے فیک انکاو ¿نٹر کے معاملے میں جو کچھ ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔ مسلمان ہزاروں ثبوت کے باوجود نا صرف یہ کہ ہلاک ہونے والے نوجوانوں کے خاندان کو انصاف دلانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں بلکہ اس پوزیشن میں بھی نہیں ہیں کہ وہ اس پورے معاملے کی غیرجانبدارانہ تحقیقات کی مانگ بھی کرسکیں۔ جبکہ یہاں ہمارے ملک میں کسی کے دروازے پر ایک چیونٹی بھی مرجاتی ہے تو اہل خانہ ،اہل محلہ اور بعض سیاسی جماعتوں کی طرف سے سی بی آئی جانچ کی مانگ سر ابھار نے لگتی ہے۔اور مرکزی حکومت بہت جلد اس کے لئے مجبور بھی ہوجاتی ہے۔عالمی پیمانے پر دہشت گردی کے نام پر مسلم قوم کو گھیرنے کی کوشش سرکاری سطح پر گذشتہ کئی سالوں سے جاری ہے۔ پہلے میڈیا کے پلیٹ فارم سے اس کے خلاف ہوابنانے کی کوشش ہوتی ہے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے عسکری جنگ چھیڑ دی جاتی ہے جس کے نتیجہ میں کئی مسلم ممالک کو خاک وخون میں نہلایا جا چکا ہے۔ کل تک وہ تمام مسلم لیڈر جو کبھی عالمی طاقتوں کی آنکھوں کا تارہ تھے آج وہی ان کے سب سے بڑے دشمن ہیں۔اور تعجب کی بات تو یہ ہے کہ مسلم قوم کی سیاسی لیڈر شپ نے ابھی تک اس بات کونہیں سمجھا۔ علمائے اسلام ایک عرصہ سے چِلا رہے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ عالم اسلام کے خلاف جنگ ہے۔ مگر ہمارے سیاسی رہنما اس بات کو مجذوب کی بڑ سے زیادہ اہمیت دینے کو تیار نہیں۔ہماری قوم میں میرجعفر اور میر صادق مارکہ افراد کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔اور اسی باعث ایسا ہوتا ہے کہ عالمی طاقتیں کسی بھی مسلم ملک میں حکومت گرانے اور بنانے میں اہم رول اداکرنے میں بڑی آسانی سے کامیاب ہوجاتی ہیں۔کیا ہم میں سے کوئی بھی کسی ایک مسلم ملک کے بارے میں بھی یہ کہہ سکتا ہے کہ فلاں مسلم ملک کی حکومت خارجی حمایت کے بغیر اپنا کام کررہی ہے۔ہوسکتا ہے کہ ہم ایران یا ترکی کا نام لیں اور کہیں کہ وہ عالمی طاقتوں کی حمایت کے بغیر وجود میں آ ئیں ہیں اور نہ صرف یہ کہ ان کی حمایت کے بغیر کام کررہی ہیں بلکہ اپنے کے خلاف عالمی طاقتوں کے تمام تر پروپیگنڈہ کے باوجود کام کررہی ہیں۔ خدا کرے کہ ایسا ہی ہو۔ مگر یہ بات اتنی آسانی سے یقین کرلینے والی نہیں ہے۔آج کی صورت حال تو یہ ہے کہ ساری دنیا میں کوئی بھی مسلم حکومت عالمی حمایت کے بغیر نہ بن سکتی ہے اور نہ ہی عالمی دباو ¿ کے بغیر گرائی جاسکتی ہے۔یہ کیسی دوغلی پالیسی کا مظاہر ہ ہے کہ ایک طرف ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو صرف اعانت کے جرم میں ساٹھ سال کی سزاہوئی اور دوسری طرف دو معصوم لوگوں کے قاتل ریمنڈیوس کو حیلے بہانے کرکے سزا سے بچالیا گیا۔ایک طرف پاکستان میں پھانسی کی سزا کے خلاف پارلیمنٹ میں عرضی داخل کی جارہی ہے اور دوسری طرف سلمان تاثیر کے قاتل کودوبار پھانسی کی سزا سنائی جارہی ہے۔امریکہ میں پھانسی کی سزا بہت بھیانک سزا سمجھی جاتی ہے اور اسی لئے وہاں کے قانون میں اس کی اجازت نہیں مگر جب امریکی کسی مسلمان کو پھانسی پر چڑھانا چاہتے ہیں تو وہ دوسرے ملک میں اس کو پھانسی پر چڑھا دیتے ہیں ۔اس طرح ان کے اپنے قانون کا تحفظ بھی ممکن ہوجاتا ہے اور وہ متعلقہ شخص کو پھانسی پر چڑھا کر اپنی روح کو تسکین پہونچانے کا سامان بھی پیدا کرلیتے ہیں۔کہتے ہیں کہ ریمنڈیوس کوسفارتی استثنیٰ حاصل تھا ۔پتہ نہیں یہ انصاف کی فراہمی کا کیسا قانون ہے کہ اگرآپ کسی ملک کے سفارت کار ہیں تو معصوم لوگوں کا قتل بھی کرسکتے ہیں۔ہوسکتا ہے کہ آپ میں سے بہت سارے لوگوں کو اس با ت پر حیرت ہو کہ امریکہ میں پھانسی کی سزا بہت بھیانک ہے مگرقیدیوں کے رونگٹے کھڑے کردینے والا’ ٹارچر‘ بالکل بھی بھیانک نہیں جو بعض اوقات سالہاسال تک جاری رہتا ہے اور جس میں قیدیوں پر ظلم کے نئے نئے طریقے اور حربے آزمائے جاتے ہیںاور جس میں پانی میں ڈبونے کی وہ سزا بھی شامل ہے جس میں ملزم کوبار بار مرنے کا احساس ہوتا ہے۔اور اس سے کہیں زیادہ تکلیف ہوتی ہے جو پھانسی دیے جانے پر ہوتی ہے ۔در اصل پھانسی دینے سے ملزم بہت جلد ٹھنڈا ہوجاتا ہے اورملزم کے دیر تک تڑپتے اور چلاتے رہنے سے لذت حاصل کرنے کے امریکیوں کے جذبے کو تسکین نہیں ملتی۔اس لیے بطور خاص انہوں نے پھانسی کی سزا کو ٹارچر کی سزا سے بدل دیا۔ادھر گزشتہ چند سالوں میں امریکی کیمپوں میں ٹاچر کرنے کے جو درناک مناظر سامنے آئے ہیں ان سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ٹارچر کرناپھانسی پر چڑھانے سے بہت زیادہ بھیانک ، دردناک اور وحشت ناک ہے۔جہنم میں جہنمیوں کو موت نہیں دی جائے گی بلکہ انہیں مسلسل ٹارچر کیا جاتا رہے گا ۔اسے پتہ لگتا ہے کہ ٹارچر کرنا پھانسی پر چڑھانے سے کہیں زیادہ بھیانک ہے۔قرآن میں ظلم کرنے والوں کو یہ کہہ کر ڈرایا گیا ہے کہ وہ جہنم میںسزاکے خوف سے موت مانگیں گے مگر انہیں مت نہیں دی جائے گی۔
 
آج جنگ کو جان بوجھ کر پیچیدہ بنایا جاتا ہےے تاکہ لڑنے والے اور لڑنے والوں کے خلاف تحفظات رکھنے والے ہمیشہ کنفیوزن میں مبتلا رہیں اور وہ کبھی بھی ایک پلیٹ فارم پر جمع نہ ہوسکیں۔اور بڑی طاقتیں آسانی کے ساتھ ایک ایک کرکے سب کو نگلتی رہیں۔جب امریکہ افغانستان پر چڑھ آیا تو اس وقت کے صدر پاکستان پرویز مشرف نے افغانستان کے خلاف امریکہ کا ساتھ دیا۔ اس وقت وہ کہتے تھے کہ ’میں نے پاکستان کو بچانا ہے‘ مگر آج دس سال بعد جب اس جنگ نے پاکستان کا رخ کرلیا ہے تو ہمیں صاف صاف پتہ چل رہا ہے کہ اُس وقت امریکہ کا ساتھ دینا پاکستان کو بچانا نہیں تھا بلکہ مسلم ممالک کے خلاف عیسائیوں اور یہودیوں کی مشترکہ جنگ کے ہدف کو آسان بنانا تھا۔اُس وقت کے صدر کو یہ عقل نہیں آئی کہ آج جو لوگ لاکھوں کلو میٹر دور سے ان کے ملک کو پتھروں کے دور میں پہونچانے والی سنگین دھمکیاں دے رہے ہیں تو کل جب وہ ہمارے پڑوس میں آجائیں گے تو کس نوعیت کی دھمکیاں دیں گے اور ہم سے کیا کچھ اور کتنا کچھ چاہیں گے۔موجودہ دنیا کی سب سے زیادہ خطرناک چیز سیاست ہے۔ آج دنیا کو جتنا خطرہ گلوبل وارمنگ اور تیسری عالمی جنگ سے ہے سیاست کا خطرہ ان سے بھی زیادہ بڑھا ہوا ہے۔البتہ یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ سیاست بذات خود کوئی برائی نہیں ، برے تو وہ بازی گرہیں جو سیاست میں قدم جمانے اور جمائے رکھنے کے لئے کچھ بھی کرگزرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں ، وہ بسیتوں کو جلا سکتے ہیں ، کسی کی عزت لوٹ بھی سکتے ہیں اور لٹوا بھی سکتے ہیں یہاں تک کہ خود اپنی ماں بیٹیوں کو بھی فروخت کرسکتے ہیں۔’سیاست ایک گندے نالے کی طرح ہے‘یا ’گندے نالے کے کیڑے کی طرح ہے‘ سیاست کے بارے میں لوگوں کی یہ رائے اس وجہ سے بنتی ہے کہ سیاست میں نناوے فیصد لوگ بے ایمان، کرپٹ اور بدکردار ہیں۔اگر ان میں سے آدھے لوگ بھی ایماندار ہوجائیں تو سیاست خود بخود دودھ کی دھلی بن جائے۔دنیا کے بہت سارے لوگ اور بطور خاص مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ امریکہ کی اصل طاقت تعلیم اور بطور خاص ٹیکنا لوجی میں اس کی پیش قدمی میں ہے۔یہ بات اپنی جگہ درست ہے مگر دنیا پر امریکی داداگیری قائم کرنے اور رکھنے میں ان جیسی چیزوں کا بہت زیادہ رول نہیں۔کیونکہ یہ چیزیں تو دوسرے کئی ممالک کے پاس بھی ہیں۔دنیا پر دھاک بٹھانے اور قائم رکھنے کے جو اس کے حربے ہیں وہ عالمی میڈیا پر مکمل گرفت اور اس کی نگرانی،ویٹو پاوراور اس کا جائز وناجائز استعمال، اقوام متحدہ اوربڑی طاقتوں کے تئیں اس کا جانبدارانہ رویہ، ناٹو اتحاد اور اس کے ذریعہ کمزور ممالک پر فوجی کنٹرول قائم کرنے کی حکمت عملی اور یہودیوں اور عیسائیوں کا باہمی تعاون ہے۔امریکہ سیاسی حربے آزمائے بغیر دنیا پر اپنا تسلط قائم نہیں رکھ سکتا۔سیاست میں بابری مسجد کی شہادت اور نائن الیون جیسے واقعات اسی طرح کی حیثیت رکھتے ہیں جس طرح لوگ منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے مرغیوں کو سیکھ پر چڑھاتے ہیں۔اور کھیتی باڑی کرتے وقت اربوں کھربوں کیڑوں مکوڑوں کو ہلاک کرتے ہیں۔تو سیاسی بازیگروں کے نزدیک غریب ممالک اور بے بس اقلیتوں کا بس یہی ایک مصرف ہے کہ وہ ان کے مردہ یا زندہ جسموں کو زینہ بناکر سیاسی آسمان کی بلندیاں حاصل کرلیں۔اور دنیا رپر اپنی ،اپنی قوم اوراپنے ملک کی دھاک قائم کریں۔اس کے علاوہ باقی جو کچھ بھی ہے وہ سب دھوکہ ہے ۔چاہے وہ سب کے لیے حقوق کی بحالی اورتعمیرو ترقی کے مسحورکن عنوانات سے ہی کیوں نہ ہو۔ عالمی سیاست کے مزاج اور افتادہ طبع کا یہ ایک سرسری سا جائزہ ہے اور مسلمان رہنماو ¿ں کو اِس کی روشنی میں اپنی حکمتِ عملی تیار کرنی ہے۔
+++++
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 780