donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Lamhaye Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Md. Tauheed Dilkash
Title :
   Maujooda Samaj Aur Hamari Zimmedarian

 

موجودہ سماج اورہماری ذمہ د اریاں 


محمد توحید دلکش

 (Mob:9433251580)


     کائنات میں دشمنانِ اسلام نے مسلمانوں کے خلاف استعمال کیئے جانے والے بے شُمار مہلک ہتھیار ایجاد کیے ہیں جن میں ہرذی ہوش فرد مغربی تہذیب کی اندھی تقلید میں نفس امارہ کا غلام بن کر شرعی ، قانونی اور خاندانی حد بندیوں کو توڑتا چلا جارہاہے اوراپنے نفس کی دل جوئی کے لئے مغربی تہذیب کے ہر  طریقے پر لپکتے ، جھپکتے لبیک کہتے ہوئے انتہائی پرکشش ، ناجائز اور غلط طریقے پر نفسانی حیوانی خواہشات کی تکمیل کے لئے تند وتیز جھونکوں سے دیگر (مسلمانوں  ) کو بھی اپنی لپٹ میں لے رہا ہے۔ نتیجہ ہوتا ہے کہ وہ مسلمان جو پیارے نبی ؐ کی غلامی کادم بھرتے ہیں وہ بھی مغربیت کے شکار ہوگئے۔ اس بے راہ ر وی کی بنیادی کڑی گھروں میں رہنے والی عورتوں کو خاص طور پر موردِ  الزام ٹھہرایا جاتا ہے جس کی گھرپر حکمرانی ہوتی ہے۔ وہ مغربی تعلیم وتہذیب کی پرکشش جمالیات میںاس طرح منہمک ہیں کہ قرآن شریف کو صرف ایک مقدس کتاب سمجھ کر طاقوں پر غلافوں میں لپیٹ کر محفوظ  کر دیتے ہیں۔جس ضابطہ ٔ حیات کو اسلام نے 1400 سال قبل مکمل کرکے کائنات کو پیش کیا تھا ہم مسلمان آج اس سے اتنے کوسوں دور چلے گئے ہیں جہاں اپنی پہچان ہی گنوا بیٹھے ہیں۔ مسلمان جوکائنات پر چھائے ہوئے تھے، آج یورپ اس کی نقل اور چوری کرکے اپناسکہ جمائے بیٹھا ہے۔ قدیم دورکے مسلمانوں نے کس طرح بچپن ہی سے تعلیم وتربیت حاصل کرکے آسمان کی بلندیوں کو چھو کر لینے والی نسلوں کے لئے ایک نسخۂ کیمیاچھوڑا، اس کامیابی کے پیچھے آخر کس کی مدد اور کاوشیں تھیں؟ یقینا اس کامرانی کاسہرا والدین اور اساتذہ پر جاکر ذہن مرکوز ہوجاتا ہے جن کی تعلیم وتربیت اور حسن سلوک نے نسلوں کو بامِ عروج پر بیٹھا دیا۔ آج کہاں گئے وہ ماں باپ اور اساتذہ کرام، جن کے نام سنہری حرفوں سے  مُزین کر کے آویزاں کیے جائیں؟مسلمانوں کی تصنیف کردہ کتابیں آج کہاں گئیں  جن کے حوالے دنیا کی بڑی بڑی یونیورسٹیوں میں پڑھاتے وقت دیئے جاتے تھے۔ افسوس صد افسوس ! پہلے کے مسلمانوں نے دنیا میں موجود ہر شعبۂ حیات پر اپنانقش چھوڑ رکھا تھا لیکن آج ہم نقالی اور دوسروں کی پیروی پر آمادہ ہیں۔ اسٹرونومی ہو یا ایسٹروفزکس ، کمیسٹری ہو یا فزکس ، اکنامکس ہو یاسوشل سائنس ، جغرافیہ ہو  یاعلم الریاضیات، حساب ہو یا بایو لوجی ، پیور سائنس ہو یاسرجری ، انجنیئرنگ ہو یا نفسیات ، ان سبھی چیزوں کے علاوہ سیکڑوں ایجادات کومسلمانوں نے  دنیا کے حوالے کیا تھا۔ 

    20 ویں صدی کے آخری عشرے کا اگر بغور تجزیہ کریں تو یہ پتہ چلے گا کہ انسانی زندگی بہت ہی برق رفتاری سے بام عروج پر دسترس حاصل کرچکی ہے۔ ہمارے جینے کے انداز اعلیٰ سے اعلیٰ ترین ہوتے ہوئے اور سربلند ہوکر آسماں کی سیر کرتے ہوئے بھی معاشی  شیرازہ بکھرتا جارہا ہے جو رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ سائنس  اورٹیکنا لوجی کی تعلیم کے ہر شعبے میں ایسے ایسے کارنامے انجام دیئے ہیں کہ دل ودماغ ششدر رہ جاتا ہے۔ تعلیم کا بڑھتا رجحان بلاشک وشبہ ایک انسانی سانچہ میں ڈھالنے کا عمل اسلام کی روسے سامنے نہیں آرہا ہے۔ اس مادیت کے دورمیں کچھ کر گزرنے کا جذبہ تو نئی نسل میں سرچڑھ کر بول رہا ہے لیکن انسانی اقدار اور پاکیزہ روایات کا تصور ، مفاہمت ، مصالحت ، رواداری ،حلم و برد باری ، قربانی، ملی اتحاد اور اصول وضوابط ،طریقۂ زندگی سے نکلتے جارہے ہیں۔ ہمارے سماج کے نوجوان تعلیم یافتہ ضرور ہورہے ہیں لیکن ان میں اسلامی اوصاف پیدا ہونے کے بجائے مغربیت  پیوست ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ آخرکیوں ؟ ان کے اصل ذمہ دارکون ہیں ؟ جوہماری نوجوان نسل کو بے راہ روی کا شکار بناکر اسلامی خوبیوں کے فقدان میں ڈوبوئے جا رہے ہیں؟ ہمارے اوصاف تو ایسے نہ تھے کہ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود بڑوں کا ادب نہ کریں ، والدین واساتذہ کرام کی فرما نبرداری نہ کریں ، چھوٹوں پر شفقت نچھاور نہ کریں ، سچائی کا دامن پکڑکر غلط کاموں سے رکے رہیں۔ حرام وحلال میں تمیز نہ کریں، غریب ، محتاج اور یتیموں کا خیال نہ رکھیں ، یقینا ،  اللہ کی رسی پر اپنی گرفت ڈھیلی پڑ گئی ہے اور پھر باطل طاقتیں مسلط ہوکر سارے معاشرتی معاملات کا شیرازہ بکھیر کر ریزہ ریزہ کرنے کے لیئے سینہ سپرہیں۔ اس اخلاقی پستی کے ذمے دار والدین اور ان کے عزیز واقارب کے علاوہ استاد محترم بھی ہیں۔ کسی گھرمیں جب بچہ تین سال مکمل کرتا ہے تو والدین کسی انگلش میڈیم میں داخلہ کے لئے سر بہ سر ہوجاتے ہیں اورکسی نہ کسی طرح اسکول میں داخلہ کرادیتے ہیں۔ اب کیا ؟ آپ کا بچہ امی ، ابو ، اللہ ، رسول ؐ اور کلمہ کے بول سیکھنے کے بجائے انگریزی گیتوں کے ساتھ مثلاً ’’اے ‘‘ فور اپیل کے ساتھ مختلف طرح کے ڈانس یعنی ایکشن پلے کرنے لگتا ہے۔ اسلام علیکم کہنے کے بجائے گڈ مارننگ اوراللہ حافظ کے جگہ بائی بائی اور ٹاٹا کی رٹ زبان پر ہر و قت  رہتی ہے اور گھر کے سارے افراد یہی کلمات کو باربار سکھانے میں ہمہ وقت مصروف رہتے ہیں۔ بچہ آہستہ آہستہ اسلامی تعلیمات سے دور ہوتا جاتا ہے وہ یہ بھی بھول جاتا ہے کہ وہ ایک مسلمان ہے اور اس کا مذہب اسلام ہے۔ جس کا دنیا میں کوئی ثانی نہیں۔ اس سے بہتر کسی اور مذہب میں زندگی گزارنے کا  کوئی طریقہ نہیں۔ آہستہ آہستہ مغربیت کا طرزِ عمل اس بچہ میں کوٹ کوٹ کربھرجاتاہے۔ لڑکے اور لڑکیاں آزادانہ بازاروں ، پارکوں ، کلبوں ، دفتروں ، تفریح گاہوں ، فلموں ، سیریلیوں کے ساتھ ساتھ برتھ ڈے، دھوم دھام سے شادی کی سال گرہ اور غیر مہذب پروگراموں میں ان کی شمولیت ، دفتروں اور بازاروں میں کھلے عام بے حجاب ہوکر خرید وفروخت ، جدیدیت کے ملبوسات زیب تن کرکے عریاں پن میں سرِ راہ چلنا اور ایک دوسرے سے بغل گیر ہونا مسلمانوں کی قدر و منزلت کو تارتار کردیتا ہے۔ بچے بڑے ہوکر کالج تک پہنچ جاتے ہیں پھر بے راہ روی کا شکار ہوکر معاشرے کے لئے ایک بدنماداغ بن جاتے ہیں اور معاشرتی سطح پر ایسی تبدیلیاں موجودہ نسل کو تباہی کی طرف لے جاکر بے شمار برائیوں ، مفاد پرستی اور جرائم کی وادیوں میں ڈھکیل دیتی ہیں جہاں نہ والدین کا پاس ہوتا ہے اور نہ ہی قوم وملت کا خیال رہتا ہے۔ بس اپنی زندگی کے لمحات کو حسین اور پر لطف بنانے کے لئے کسی بھی حد تک گزرجانے پر ہمہ وقت تیار رہتا ہے۔ کیا ہماری نوجوان نسل جو تعلیم یافتہ ہوکر بھی ہمارے اسلامی معاشرہ اور ملک کیلئے نقصاندہ نہیں ہیں، ہمیں اپنے مذہب ، سماج ، معاشرہ ، کنبہ اور ملک کوا یسی تبدیلیوں کی طرف جانے سے  روکنا ہوگا۔ 

     اس سے بچنے  کی فقط چند صورتیں ہیں۔سب سے پہلے تو والدین اپنے بچوں کو دینی وعصری تعلیم دلانے کی کوشش شروع سے ہی کریں۔ بچے کے حرکات وسکنات پر ہمہ وقت دھیان رکھیں کہ بچہ ایسے موضوعات یا حرکات کا انتخاب تو نہیں کررہا ہے جو اس کے مستقبل اور عملی زندگی میں مضر ثابت ہو۔ بچے کو شروع سے ہی اسلامی ماحول اور اسلامیات کی معلومات بار بار فراہم کرتے رہیں جس سے اس کا ذہن ہمیشہ تر وتازہ رہے۔ گھروں میں بڑے بزرگ بھی بچے کے سامنے بے جاحرکتیں نہ کریں جن کی بچے فوراً نقالی شروع کردیں۔ گھرکے ماحول کو ہمیشہ صاف ستھرا رکھیں۔ بچپن میں بچے جو کچھ آس پاس، والدین ، بھائی بہن ، استاد اور معاشرے سے سیکھتے ہیں اسی پر ان کے مستقبل کی عمارت کی بنیاد پڑتی ہے۔ 

    والدین کو چاہئے کہ اپنے لڑکے اور لڑکیوں پر ہمیشہ کڑی نظر رکھیں۔ انہیں ہمیشہ اپنے مسلمان ہونے کا احساس دلاتے رہیں کہ ہم پہلے مسلمان ہیں۔ اسلام ہمارا مذہب ہے اور شریعت ہمارا قانو ن ہے۔ رسول اللہ ؐ کے بتلائے ہوئے راستے پر عمل کرنا ہی دونوں جہان میں بھلائی اور سکون کا ضامن ہے۔ والدین اور بڑوں کو چاہئے کہ وہ اپنی شخصیت کو بھی ایک سچے انسان کی صورت بچوں کے سامنے پیش کریں۔ بچوں کے ساتھ کبھی بھی مذاق میں جھوٹ نہ بولیں اورنہ کسی قسم کا جھوٹا وعدہ ہی کریں۔ بچے کی نفسیات پر بھی گہری نظر رکھی جائے کہ وہ کیا پسند کرتاہے۔اور کس چیز سے نفرت کرتا ہے پھر اسکی پسند اور ناپسند کا بغور تجزیہ کریں کہ اس کے اقوال وافعال میں کس قدر سچ اورجھوٹ شامل ہیں۔ والدین اپنے دل میں پختہ اور مصمم ارادہ کرلیں کہ بس ہمیں اپنی اولاد کی شخصیت ، نفسیات ، نشو ونما ، حرکات وسکنات ، عادات واطوار ، رہن سہن ، جلوت وخلوت ، کھیلنا کودنا ، ہنسی مذاق ، عیش وعشرت ، امیری غریبی ، دکھ تکلیف اور حسن سلوک ، محبت والفت کو پہلے ہی دن سے اللہ اور رسولؐ کی سنت پر عمل کرانے کے لئے ان کی تربیت میں

(لگ جانا  ہے، تبھی جاکر آپ کی اولادیں آنے والی نسلوں کے لئے درمثالی ثابت ہوں گی ۔ (آمین 

*******************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 662