donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Lamhaye Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Meem Zad Fazli
Title :
   RSS Ke Nazariyat Thopne Ki Sazish To Nahi


مسلم پرسنل لاء کا آبزرویشن ۔۔۔۔۔


آر ایس ایس کے نظریات تھوپنے کی سازش تو نہیں؟


میم ضاد فضلی


یوں تو وطن عزیز کی آزادی کے ساتھ ہی مسلمانوں کی داخلی زندگی میں انسان کے وضع کردہ قانو ن کورواج دینے کی ترغیبی وجبری کوششیں ہوتی رہی ہیں۔مغربی بنگال میں قرآن کریم کیخلاف کئی برس تک مہمات چلائی گئیں۔ان مہموں کے ذریعہ یہ مذموم کوشش کی گئی کہ کسی طرح مسلمانوں کو قرآنی تعلیمات سے دور کردیا جائے اور انہیں اپنے مذہب سے اس قدر بیزار کردیا جائے کہ خود بندۂ مومن کے اندر مذہب کے نام سے ہی نفرت پیدا ہوجائے۔مگر تاریخ شاہد ہے کہ اس قسم کی طاغوتی سازشیں اسلام کے آ فاقی نظام کو مسلمانوں کی زندگی سے مٹادینے میں کبھی بھی کامیا نہیں ہوسکیں۔ملت اسلامیہ نے ہر نامساعد حالات کاپامردی سے مقابلہ کیا،اپنی بے سروسامانی کے باوجود آئین خداوند ی کو اپنے لئے دینی ودنیوی فلاح کی ضمانت تصور کرکے اس پر عمل پیرا رہے۔جبکہ باطل قوتوں نے قانون شر یعت سے مسلمانوں کو دور کرنے کی کوئی بھی ترکیب فروگزاشت نہیں کی ۔مگر مسلمانوں نے خلاق دوعالم کے بھیجے ہوئے آسمانی قانون کو اپنی معاشرتی زندگی سے جدا کرنے کے خیال کو بھی ابدی تباہی و خسران باور کیا۔ وطن عزیز ہندوستان میں مسلمانوں کے عائلی قانون پر شب خون مار نے کا سلسلہ آج بھی جاری وساری ہے ،بلکہ مرکز میں بی جے پی کے اقتدار میں آ نے کے اسلام مخالف سازشوں کو پوری توانائی بخشی جارہی ہے اور ایک مرتبہ پھر عدالت عظمیٰ کے توسط سے مسلمانوں کے پرسنل لاء پر انگشت نمائی کی کوشش کی گئی ہے۔چناں چہ گزشتہ دنوں سپریم کورٹ نے خود سے مسلم خواتین کے حقوق کا جائزہ لینے اور آبزرویشن کا فیصلہ کیا تھا ۔یہاں موقع نہیں ہے کہ یہ بتا یا جائے آج خواتین کو ان کے حقوق دینے کی جوباتیں ہورہی ہیں ،یہ مذہب اسلام کی ہی مرہون منت ہے ۔ورنہ اسلام سے قبل صنف نازک کیساتھ مرد معاشرہ کس قسم کے سلوک روا رکھتا تھا اس سے تاریخ بھری پڑی ہے۔دیگر مذاہب کو کھنگال لیجئے ان کے یہاں خواتین کو کس حیثیت سے پیش کیا گیا ہے یہ آ ئینہ کی طرح واضح ہوجائے گا۔

بہرحال آج ہم انسان کے ذریعہ مرتب قانون اور خالق دوعالم کے ذریعہ پیش کردہ فطری قانون یعنی شریعت کی وضاحت ضروری سمجھتے ہیں۔قانون یونانی لفظ ہے جو سریانی زبان کے ذریعے عربی زبان میں آیا۔ بعض اہل لغت نے اسے رومی یافارسی لفظ قرار دیا ہے۔ابتداء میں قانون کا لفظ’ مِسطَرۃ‘ کے معنی میں مستعمل ہوا، جو لائنیں کھینچنے کے پیمانے کو کہتے ہیں۔ ابن منظور افریقی (م: 711ھ) نے قانون کا معنی: مِقیَاسْ کْلِّ شَئٍی۔ لکھا ہے یعنی یہ لفظ ہر چیز کا ٹھیک اندازہ کرنے کا آلہ، پیمانہ یا ترازو کیلئے مستعمل ہوا جورفتہ رفتہ عام معنی اختیار کر گیا جسے قاعدہ کہتے ہیں۔ جیسے قانون فطرت، حرکت کا قانون، کشش وجذب کاقانون اور قانون صحت وغیرہ بمعنی قاعدہ کے کلمات ہیں۔ انہیں قانون تو کہاجاتا ہے۔ مگر یہ بدلتے رہتے ہیں کیونکہ طبعی قانون کو آج مأخذ بنانا اور کل اس کا متضاد آنا ممکن ہے۔ جن کا ابھی تک علم نہیں ہوسکا۔کچھ کی تردید میں متضاد قانون بھی آچکے ہیں۔طبعی قانون کو انسانی فلاح کا ضامن سمجھنا انسانیت کی تذلیل، اس سے دشمنی اور حیوانیت کے نچلے درجے تک گرنا ہے۔رسم ورواج بھی بعض سوسائٹیوں کا قانون رہے ہیں ۔ ایک شخص نے کسی چیز کو رواج دیا تو اس کے کچھ پیروکاروں نے اسے پسند کرکے اس کے بعد بھی اسے جاری رکھا جو بعد میں رسم ورواج نام پا کر قانون بن گیا۔اس کی پابندی بھی دراصل حیوان کی طرح لگی بندھی زندگی والی عادت ہے۔ اس لئے یہ قانون بھی خلاف عقل اور سفیہانہ ہے۔اس کا نفسیاتی اثر یہ ہے کہ عقل ، اصول پسندی کے جوہر سے خالی ہوجاتی ہے یا اس کا اثر بہت ہی کم نمایاں ہوتا ہے۔اس میں ایک اندھا دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر چلتا ہے۔خواہ وہ بینا ہی کیوں نہ ہو۔ مگر رواج خود اندھا ہوتا ہے جو اس نابینا عقل کی قیادت کرتا ہے۔ پھر اس نابینا قائد سے کیا توقع کی جاسکتی ہے؟اس لئے یہ قانون بھی غلط، گمراہ کن اور مضر ہے۔ہندو دیو مالائی اساطیر جو آج مذہبی قانو ن کی شکل اختیار کرچکی ہیں،انہیں بھی سوسائٹی کے ذریعہ وضع کردہ رسم ورواج کا مرہون منت ہی کہا جاسکتا ہے ،جو نسلاً بعد نسلٍ ترقی پاکر قانون کی شکل اختیار کرگیا ۔حالاں کہ ان دقیانوسی رسوم کو عقل بھی قبول کرنے کو آ مادہ نہیں ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہندو مذہبی کتب میں برہمن واد کے پر چار اور ’’شدر‘‘کی تراکیب کو کتاب سے ہی جدا کردیا گیا۔

اس کے بر عکس مذہب اسلام نے بنی نوع انسان کیلئے جو نظامہائے زندگی مرتب فرمائے اسے شریعت کہا جاتا ہے۔ اس کا منبع قرآن عظیم ہے ،جس میں رائی برابر بھی تبدیلی یا ترمیم کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔اسلامی شریعت کا منہج یہ ہے کہ اس کے ماننے والوں کو خود کوشریعت کا تابع کرنا پڑتا ہے۔ اپنی مرضی یا موقع ومحل کے لحاذ سے کسی کو شریعت میںتنسیخ و ترمیم کی اجازت نہیں ہے۔یعنی زندگی کے تام مراحل میںخوکو شریعت اسلامی کی تعلیمات کے مطابق ڈھالناہوگا۔شریعت کو بدلنے کی جرأت مسلمانوں کیلئے نہ کبھی قابل قبول رہا ہے اور نہ کبھی یہ ممکن ہوسکتا ہے۔سپریم کورٹ کے مذکورہ قدم کو بھی شریعت میں مداخلت کے طور پر ہی دیکھا جارہا ہے۔عدالت عظمیٰ کے اسی ابہام کو دور کرنے کیلئے آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے کہا ہے کہ ملک کی سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار میں یہ نہیں ہے کہ وہ کسی کمیونٹی کے پرسنل لاء جو قرآن پر مبنی ہے اس کا جائزہ لے ۔بورڈ نے کہاہے کہ پرسنل لاء کوئی پارلیمنٹ سے پاس کیا ہوا قانون نہیں ہے۔واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے مسلم پرسنل لاء میں تین بار طلاق کہہ کر ازدواجی تعلق ختم کرنے کے قانونی جواز کی انکوائری کرنے کی ہدایت دی تھی۔ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق بورڈ نے اپنے وکیل اعجاز مقبول کے ذریعے سپریم کورٹ میں اپنا موقف واضح کیا ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ مقننہ سے منظور کئے قانون اور مذہب سے جاری ہدایات کی روشنی میں سماجی قوانین کے درمیان ایک واضح لکیر ہونی چاہئے۔بورڈ کے وکیل نے کہا کہ اسلامی لاء یعنی شریعت کے قوانین سیدھے طورپر مقدس قرآن اور اسلام کے نبی ؐکی حدیث سے لئے گئے ہیں ۔ ساتھ ہی اسے آئین کے آرٹیکل 13 کے مطابق اظہار رائے کے دائرے میں نہیں لایا جاسکتا ۔ وکیل نے کہا کہ مسلمانوں کے پرسنل لاء مقننہ یعنی پارلیمنٹ سے پاس نہیں کئے گئے ہیں۔ حلف نامہ میں کہا گیاہے کہ مسلم پرسنل لاء ایک فطری نظام حیات ہے، جسے مسلمانوں کی عائلی زندگی سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے اسے آرٹیکل 25 اور 26 کے تحت اورمذہبی آزادی کے مسئلے کو آئین کے آرٹیکل 29 کے ساتھ پڑھا جانا چاہئے۔قابل ذکر ہے  کہ سپریم کورٹ نے خود سے مسلم خواتین کے حقوق کا جائزہ لینے اور آبزرویشن کا فیصلہ کیا تھا ۔انسانی قانون کے وضع کرنے والوں کو یاد رہنا چاہئے کہ شریعت اللہ کی تخلیق اور آئین الٰہی کے تفصیلی ضا بطو ں کا نام ہے۔ جس میں اس کی قدرت، کمال اور عظمت کی جھلک اور اس کے ماضی و مستقبل کے تمام ممکنات پر محیط علم کی روشنی موجود ہے۔ جو تمام مسائل و معاملات کا احاطہ کر گئی ہے۔ اس کا فیصلہ ہے کہ اس شریعت میں کوئی ترمیم و بتدیلی ممکن نہیں۔ شریعت کسی سماج یا سوسائٹی کی ایجاد نہیں،بلکہ خود سوسائٹی شریعت کی ساخت ہے۔لفظ شریعت ایک مقدسHoly لفظ ہے۔ جس کے ساتھ لفظ اسلامی کی قید درست نہیں۔ کیونکہ شریعت اسلامی ضابطوں کے سوا دنیا میں موجود مذاہب یا نظریات قوانین کیلئے مستعمل ہی نہیں ،یہ تو خالصتًا اسلامی اصطلاح ہے جو اپنے مفہوم سے ہی پہچانی جا سکتی ہے۔ شر یعت میں ظلم، نقصان یا خواہش نام کی کوئی چیز ہی نہیں۔ اس میں ایجابی اور سلبی احکام ہیں۔ وہ امر ونہی کرتی ہے۔ ترغیب وترہیب بھی کرتی ہے۔شریعت میں عام عقائد، ایمان باللہ،وبالرسل، عالم الغیب، عبد کا اپنے رب سے تعلق، اخلاق مومن اور مختلف نظامہائے حیات کے اصول موجود ہیں۔دل مسلم میں اس کا احترام ووقار ہے۔ اس میں دنیاوی واخروی جزا ہے۔اور داخلی وخارجی عمل کا احتساب بھی ہے ۔ اس لئے حضرت انسان کو خود بدلنا ہو گانہ کہ شریعت کو۔چاہے حالات و زمانہ میں کتنی ہی تبدیلی کیوں نہ آجائے۔ Natural Laws جس طرح اٹل ہیں اسی طرح اللہ کی یہ نازل کردہ شریعت بھی تمام لوگوں ، گروہوں اور حکومتوں کیلئے ایک مکمل اور ناقابل تغیر قانون ہے۔موجود ہ وقت میںمسلمانوں اور ملک کی دیگر اقلیتوں کے عائلی قانون پر آج صرف اس وجہ سے رخنہ اندازی کی جارہی ہے کہ یہاں بلااختصاص تمام ہندوستانیوں پر آر ایس ایس کے نظریات کو جبراً تھوپنے کی منظم سازشیں زیر عمل ہیں۔اگر ملک کی اقلیتوں نے اس مرحلے میں آپسی اتحاد کا ثبوت دیتے ہوئے اپنے اپنے عائلی قوانین کے تحفظ کیلئے آواز نہیں بلند کی تو وہ دور نہیں جب تمام اقلیت مذاہب کو ہندو مذہبی نظریات کے تابع فرمان ہونا پڑے گا۔(یو این این)

09911587378


***************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 551