donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Lamhaye Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Modassir Ahmad
Title :
   Jinhe Sehar Nigal Gayi Woh Khwab Dhoondta Hoon Main

جنہیں سحر نگل گئی وہ خواب ڈھونڈتا ہوں میں


از:۔مدثراحمد:کرناٹک،شیموگہ

:9986437327


میڈیا اور مسلمان یہ دونوں ایسے الفاظ ہیں جو دنیا پر راج کرسکتے ہیں،میڈیا تو آج دنیا پر راج کررہا ہے لیکن مسلمان اس دنیا پر راج کرنے سے رہ گئے ہیں۔تاریخ بتاتی ہے کہ مسلمانوں کی سلطنتیں شما ل سے لیکر جنوب تک قائم تھیں،لیکن آج شمال و جنوب تو کیا ان کے پاس محدود ممالک کی حکمرانی بھی نہیں ہے،اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ مسلمان آج اپنے حقیقی ذمہ داریوں سے دور ہوتے جارہے ہیں۔ایک طرف مغربیت،فسطائیت،یہودی و صیہونی طاقتیں مضبوط ہوتے جارہے ہیں اور ان کے مقابلوں میں مسلمان کمزور ہورہے ہیں۔ان کی کمزوری اخلاق کی گراوٹ کی وجہ سے ہورہی ہے۔یہ اخلاق اسی وقت بہتر ہوسکتے ہیں جب ان کی ذہن سازی ہوسکے۔اخلاق کی ذہن سازی کیلئے یوں تو ہمارے پاس مسجدیں و مدرسے ہیں لیکن ان مسجدوں و مدرسوں سے آواز نکل رہی ہے وہ محدود ہوتی جارہی ہے۔اگر اس آواز کو بڑھانا ہے یا پھر دنیا کے سامنے عام کرنا ہے تو ہمارے پاس ایک ہی طریقہ ہے کہ مسلمان اپنے میڈیا کا قیام کریں۔دنیا کے تمام ممالک میں اگر جغرافیائی لحاظ سے سب سے چھوٹا ملک تلاش کیا جائے تو وہ اسرائیل ہے اور اسرائیل میں بسنے والے یہودیوں کی تعداد ہندوستان میں مقیم یادو سماج لوگوں کے قریب قریب ہے۔اس محدود قوم نے آج دنیا پر اپنا اثر جمع رکھا ہے۔یہودیوںنے اپنی قوم کو بڑھانے کیلئے پہلے تعلیم یا فتہ بنایا پھر ا سکے بعد انہوںنے نہ تو صنعتوں میں ہاتھ ڈالا نہ ہی زراعت و دستکاری کو اپنا ذریعہ معاش بنایا تھا۔بلکہ اس قوم نے اپنی پوری طاقت میڈیا میں جھونک دی۔ان کے نوجوان میڈیا کے نمائندے بنیں لگے،ان کی مال ودولت کا بہت بڑا حصہ میڈیا میں سرمایہ کے طور پر لگایا گیا،اس کے بعد انہوںنے اس میڈیا کو ایسا اپنا غلام بنا لیا کہ وہ علاوالدین کے چراغ سے بڑھ کر ان کے سامنے غلامی کرنے لگا۔آج دنیا بھر کے 90؍ فیصد میڈیا میں یہودی کا تسلط قائم ہے۔براہ راست نہ صحیح ان کی سرمایہ کاری و حصہ داری میڈیا میں ہونے کی وجہ سے ایک بھی میڈیا ان کے خلاف بولنے کی طاقت نہیں رکھتا۔ہم نے حدیثوں و قرآن میں پڑھی ہے کہ قیامت کے قریب دجال آئیگا۔اس سے پہلے دجال کا فتنہ کھڑا ہوگا،مسلمان اس فتنے سے لڑنے کے قابل نہیں رہیں گے،جس دجال کے فتنہ کی بات ہم نے کتابوں میں پڑھا ہے وہ فتنہ یہی ہے جو آج ہم میڈیا کی شکل میں دیکھ رہے ہیں۔دراصل دجال یہ چاہتا ہے کہ اس کی آمد سے قبل دنیا کے تمام لوگوں کی ذہن سازی یہودیوں کے ایجنڈے کے مطابق ہوسکے تاکہ اس کی آمد پر اس کی مخالفت میں کوئی نہ رہے۔آج ہم جس میڈیا کو دیکھ رہے ہیں وہ یہی فتنہ ہے۔جب ہم کوئی خبر دیکھتے ہیں کہ ایک مسلم نوجوان دہشت گرد بن گیا ہے اور اس دہشت گرد مسلم نوجوان کا قصور یہ ہوتا ہے کہ اس کے چہرے پر سنت اور سر پر ٹوپی ہوتی ہے،اس کی داڑھی و ٹوپی کو لیکر میڈیا میں بہترین کہانیاں بنائی جاتی ہیں۔اگر یہ کہانی ایک ٹیلی ویژن پر دکھائی دے تو پہلے ہمیں اس کا کوئی خاص اثر نہیں پڑتا۔اگر تمام ٹی وی چینلوں میں اس کہانی کو دہرایا جاتا ہے تو ہمارا ذہن یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ کہیںنہ کہیں اس داڑھی ٹوپی والے نوجوان نے کوئی دہشت گردی کا کام کیا ہی ہوگا،اس لئے میڈیا اسے اتنا بدنام کررہا ہے۔جبکہ داڑھی ٹوپی والے نوجوان کی حقیقت کچھ بھی نہ ہو اور وہ حق بیانی کرنا چاہے تو کوئی میڈیا اس کیلئے راضی نہیں ہوتا،اسے حق چھپ جاتا ہے اور باطل جیت جاتا ہے۔ذہن سازی کی ایک چھوٹی سی مثال ہے۔اور ایک مثال یہ بھی ہے کہ آج کل ٹیلی ویژن پر ایک سیریل نہایت مقبول ہورہا ہے اور اس کا نام ’’قبول ہے‘‘،شروعات میںاس سیریل کے اندر ہر کام پردہ کے اندر رہ کر کی جاتی تھی،نام مسلمانوں کے، تہذیب مسلمانوں کی،کردار پوری طرح سے مسلمانوں جیسا ہی دکھائی دیتا تھا۔شروعات کے کچھ دنوں تک پردہ میں رہ کر سب کچھ قبول کیا جاتا تھالیکن اب اس قبول ہے سیریل میں ایسی فحاشی و غیر اسلامی مناظر دکھائی جارہے ہیں جس میں ایک بیوی کے کئی کئی شوہر،ناجائز رشتوں کی بھرماراور دیوی دیوتائوں کیلئے بھی ان مسلم کرداروں میں ادب و احترام کو خوب بڑھا چڑھا کر دکھایا جارہا ہے۔جس سے ہماری خواتین کا دماغ اس قدر گمراہ ہورہا ہے کہ وہ بھی ناجائز رشتوں کو صحیح ماننے پر مجبور ہیں اور کئی شوہروں کا کانسپٹ بھی صحیح دکھائی دے رہا ہے۔عورتیں یہ سوچنے پر مجبور ہورہی ہیں کہ ایک شوہر کے کئی بیویاں ہوں تو ایک بیوی کے کئی شوہر کیوں نہ ہوں؟۔اسی بات کو لیکر عدالتوں میں مقدمہ پر چل رہے ہیں ،اور کامن سیول کوڈکو ترمیم کرنے کی بات کی جارہی ہے۔مسلم عورتیں ایسے فحاش سیریلو ں کو دیکھنے کے بعد مسلم پرسنل لاء پر بھی انگلی اٹھانے کی قابل بن گئی ہیں۔یہ ہے میڈیا کا کمال۔اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب میڈیا اتنے گھنوانے کام انجام دے رہا تو کیوں نہ اس کا جواب دینے کیلئے ہمارے پاس بھی میڈیا کو قائم کرنے کی پہل کی جائے۔مسلم میڈیا ہائوز کا قیام کرنا بہت مشکل کام نہیں ہے،یہاں صرف پیسوں کا کھیل ہے،اگر ہمارے پاس بھی پیسے ہوں تو اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جاسکتا ہے۔اس کیلئے سب سے پہلے ہم اپنے آپ کو ذہنی طور پر تیار کریں۔جس طرح سے ہمارا مالدار طبقہ مسجدوں و تعمیر کیلئے کروڑوں روپئے قربان کردیتا ہے اور ان مراکز سے دین کے چراغ روشن کرنے کی فکر کرتا ہے،ایک ایسے کامن میڈیا کا قیام بھی کیا جاسکتا ہے جس میں دنیا داری سے ہی ذہن سازی کی جاسکے۔اور یہ دنیا داری ایسی ہوگی جو قرآن و حدیث میں جائز ہے،ویسے ہمارے پاس اسلامک چینلوں کی کمی نہیں ہے،لیکن جتنے فرقے اتنے ہی چینل بن رہے ہیں،ہر مسلک کا الگ الگ چینل اور ان چینلوں میں اپنا ہی گھوڑا آگے کیا جارہا ہے۔موجودہ حالات پر تبصرے،حکومتوں کی سازشوں کی مخالفت،فسطائی طاقتوں کی حماقت اور یہودیوں و سنگھویوں کی چالوں کا جواب دینے کیلئے ان چینلوں میں دور دور تک کوئی موقع نہیں ہے۔ذرا بتائیے کہ کونسے گھر میں24؍ گھنٹے دینی چینل سے استفادہ کیا جارہا ہے؟۔ بچپن میں میںنے ایک صاحب کو دیکھا وہ ہمارے پڑوس میں رہتے تھے،وہ صاحب فجر کی اذان کے بعد ٹیپ ریکارڈر میں قرأت کی کیاسٹ ڈالا کرتے تھے،اس کے بعد اگلی کیاسٹ نعت و حمد کی ہوتی تھی،پھر اس کے بعد قوالیوں کا سلسلہ چلتا تھا،چند ہی منٹ کے بعد محمدرفیع کے گانے ٹیپ ریکارڈر میں سنائی دیتے تھے،آخر میں تو چیز بڑی ہے مست مست کے گانے ڈال کر وہ گھر سے نکل جاتے تھے۔آج یہی چل رہا ہے،صبح جب ٹی وی آن کیا جاتا ہے تو پہلے Qٹی وی یا پیس ٹی وی ڈالی جاتی ہے،قرأت اور حمدو نعت پر دل اکتا جاتا ہے تو زوم ٹی وی یا ذی ٹی وی گھرمیں چلنے لگتی ہے،اس سے کونسی ذہن سازی ہوگی۔اس کے بعد اگر نیوز چینل کا سلسلہ چلتا ہے تو اس میں گائو کشی،لوجہاد،مسلم دہشت گردی،داعش کا ظلم و ستم ،عرب سلطانوں کی عیاشی کی خبریں دکھائی دیتی ہیں،اگر کچھ مسلمانوں کی خبریں آرہی ہیںتو یہ دکھایا جاتا ہے مسلمانوں نے گنیش کی پوجا کی ہے،مسلم عورتوں نے کروا چائوت کا ورت رکھا ہے،برسوں سے کوئی مسلمان راون کے پتلے کو جلا رہا ہے توبرسوں سے کوئی مسلمان گائے کو اپنی ماں مان رہا ہے ۔یہی مسلمانوں کے تعلق سے خبریں ہونگی۔یہ سب اس وجہ سے ہورہا ہے کہ ان منحوس و مکار ٹی وی چینلوںکا جواب دینے کے واسطے ہمارے پاس متبادل ذرائع نہیں ہیں۔اگر ہمارے پاس بھی صحیح ٹی وی چینل ہوتا ہے تو ان کی اتنی جرأت نہیںہوتی کہ کسی مشرک کو مسلمان کے طور پر پیش کیا جائے،مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ڈسکشن میں شاہ رخ خان و سیف علی خان کو مہمانان کے طور پر بٹھا تے،بلکہ جسے مسلم پرسنل لاء کا علم ہو اسی شخص کو بحث کیلئے مدعو کیا جاتا۔مختارعباس نقوی،حامد انصاری،شہانواز حسین اور سلمان خان جیسے لوگ مسلم آئی کان نہیں ہیں بلکہ مولانا توقیر رضا، مولانا ارشد مدنی،مولانا جلال الدین عمری،مولانامحمود مدنی،مولانااشرف علی باقوی جیسے لوگ مسلم آئی کان ہیں،ٹیپوسلطان پر بحث کرنے کیلئے کل پرسوں کے بچوں کو نہیں بٹھایا جاتا بلکہ پروفیسر و دانشور پروفیسر بی شیخ علی جیسے لوگوں کو مدعو کیا جاتا ۔ہم بار بار ہزار باریہ کہہ رہے ہیں کہ مسلم میڈیا ہائوز کا قیام کیا جائے اور جھوٹے میڈیا کا منہ کالاکیا جائے۔اسی لئے عامر عثمانی نے کہا ہے کہ’’ جنہیں سحر نگل گئی وہ خواب ڈھونڈتا ہوں میں،برہنگی کے شہر میں لباس ڈھونڈتا ہوں میں‘‘

(یو این این)

**************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 716