donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Lamhaye Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Mosharraf Alam Zauqi
Title :
   2002 Ki Dayari : Bajpa,America Aur Musalman Part-3


قسط ۔3
 
۲۰۰۲ 
کی ڈائری: بھاجپا، امریکہ اور مسلمان
 
— مشرف عالم ذوقی
 
جب صرف مودی کا مسئلہ اٹھایا جاتا ہے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ہم بھاجپا کو اس کے گناہوں سے آزاد کررہے ہوں۔ یعنی مودی تو مسلمانوں کے دشمن ہیں لیکن بھاجپا کے ساتھ ایسا نہیں ہے۔ دیکھا جائے تو یہ میڈیا ہی ہے، جس نے عام ذہنیت میں برسوں میں یہ بات بیٹھانے کی کوشش کی ہے کہ مودی تو ہندو تو کے ترجمان ہیں لیکن بھاجپا کی سیاسی روش مختلف ہے۔ یہ وہی میڈیا ہے، جس کو بھاجپا نے آج اپنے قبضے میں کیا ہوا ہے اور میڈیا کا ایک بڑا طبقہ بھاجپا کو سیکولر ثابت کرنے میں لگا ہوا ہے۔ دراصل اسی تصویر کے کئی پہلو ہیں۔ مودی کے ذریعہ مسلم مخالف یعنی اکثریتی ووٹ پر مضبوطی سے قبضہ کرنا۔ اور بھاجپا کے باقی چہروں کو سیکولر ثابت کرتے ہوئے یہ بتانے کی کوشش کرنا کہ اگر مودی پرائم منسٹر بن بھی جاتے ہیں تو مسلمانوں کو گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے۔ بھاجپا کے دیگر اراکین تو مسلمانوں کی حمایت میں کھڑے ہیں۔ دراصل یہ وہ سفید جھوٹ ہے، جس کی سیاست کرتا ہوا بھاجپا آج بھی پرامید ہے کہ اسے مسلمانوں کی ذرا بھی حمایت حاصل ہوگئی تو اسے حکومت بنانے سے کوئی نہیں روک سکے گا— یعنی ہر حال میں بھاجپا کو مسلمانوں کی حمایت بھی چاہئے۔ اس کے لیے بھاجپا پہلے بھی یہی موقف اپنا تی رہی ہے کہ مسلم سیاستدانوں کے ووٹ کو تقسیم کردو اور اپنا ووٹ بینک مضبوط کرلو۔ دیکھا جائے تو اگر ایک ہی جگہ سے کئی مسلم امیدوار کھڑے ہوتے ہیں تو اس کا فائدہ بہر حال بھاجپا کو تو ملتا ہی ہے۔ ایک حقیقت اور بھی ہے، اس بار راج ناتھ کے سہارے آر ایس ایس، ہندو راشٹریہ کے خواب کا اپنا گیم کھیل رہی ہے۔ یہ ا ٓر ایس ایس کا صدیوں پرانا خواب ہے، جسے کبھی اس نے ایل کے اڈوانی کے سہارے سچ ہوتے ہوئے دیکھا تھا— لیکن اڈوانی کے سیکولرزم کا لباس پہنتے ہی آر ایس ایس کا خواب بھی چکنا چور ہوگیا تھا۔ اب اسی خواب کو آر ایس ایس نے مودی کے سہارے دیکھنا شروع کیا ہے۔ حکمت عملی کے طور پر کمیٹی کی تشکیل ہوچکی ہے۔ اور ان میں سے کچھ لوگوں کو، مسلمانوں کو فیور میں کرنے کی ذمہ داری بھی سونپ دی گئی ہے۔
 
بھاجپا کے دور اقتدار کی تصویریں ذہن ودماغ میں اب بھی تازہ ہیں۔ اور ان دنوں کی یاد اس لیے بھی ضروری ہے کہ آج جو فتنے سامنے آرہے ہیں، دراصل وہ اسی دور کی پیداوار ہیں۔ یہ وہ دور تھا جب مسلمان نام کا ہونا ہی شک ، خوف اور دہشت کی علامت بن گیا تھا۔ یہ وہ دور تھا بھاجپا نے زندگی کے ہر دروازے مسلمانوں کے لیے بند کردیے تھے۔ اس لیے پرانی ڈائری کے صفحوں سے ان خوفناک یادوں کو آپ کے سامنے رکھنا ضروری سمجھتا ہوں۔
 
۲۰۰۲ کی ڈائری ، ناموں کا چکر اور خوفناک مسلمان
 
کہتے ہیں جرم کا کوئی مذہب، ایمان نہیں ہوتا… مجرم نہ ہندو ہوتا ہے، نہ مسلمان… مجرم کسی بھی ملک کی عدالت میں صرف مجرم ہی ہوتا ہے… مجرم کی اس نئی سائیکی کے بارے میں دنیا کے سب سے بڑے مصنف شیکسپیئر کی بھی پہنچ نہیں تھی____ شاید اسی لئے شیکسپیئر کو کہنا پڑا تھا… نام میں کیا رکھا ہے؟ آج نام میں بہت کچھ رکھا ہے۔
 
دہشت گردی کی تعریف آج بالکل ہی بدل دی گئی ہے۔ جو بھی ہے، سب کچھ نام میں ہے… دوبئی کا دائود ہو… یا پرتگال میں پکڑا گیا ابوسالم… مافیا اور انڈرورلڈ کے یہ مسلم نام اسلامی دہشت گردی کی علامت بن گئے ہیں۔
 
کیسی عجیب…مضحکہ خیز حقیقت ہے…مافیا سرغنہ چھوٹا راجن، چھوٹا راجن رہتے ہیں____ لیکن چھوٹا شکیل، ابوسالیم یا دائود مسلمان بن جاتے ہیں۔ ’نشیڑی‘ اور ’ٹیپ کانڈ‘ میں پکڑا گیا سنجے دت صرف ایک ایکٹر رہتا ہے____ اور جے پور کے ہرن تنازعہ یا کار ایکسیڈنٹ کرنے والا سلمان خاں ایکٹر سے مسلمان بن جاتا ہے۔کرکٹ سٹّہ اور جوئے میں ہندوستان سے سائوتھ افریقہ تک بے شمار نام اُچھالے جاتے ہیں لیکن کلونزرسے جڈیجہ اور مونگیا تک تنازعہ میں الجھے چہرے محض کرکٹرہی رہتے ہیں۔ لیکن اسی سٹہ بازار کا شکار اظہرالدین مسلمان قرار دیا جاتا ہے____ کیوں؟
 
دیکھا جائے تو نام میں بہت کچھ رکھا ہے____ جرم اور دہشت گردی کو قوم، برادری اور مذہب سے جوڑنا مناسب نہیں… ایسا کرنا اپنے آپ میں جرم ہے____ اس سے پہلے کہ ناموں کا یہ چکّر بڑھتے بڑھتے نفرتوں کی نئی تاریخ لکھنا شروع کردے، ان چھوٹی چھوٹی ’غلطیوں‘ کی تلافی کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ جرم کو صرف جرم سمجھنے کی ذہنیت کو بڑھاوا ملنا چاہئے… اخلاقیات سے ’مذہب کے ہاتھی دانت‘ نکال کر یہ بتانے کی کوشش ہونی چاہئے کہ اظہر ایک کرکٹر ہے۔ سلمان ایکٹر۔ دائود یا کشمیر اور پاکستان انسپانسرڈ دہشت گرد، مسلمان یا اسلام سے جڑے لوگ نہیں ہیں۔ صرف مجرم ہیں۔
 
گجرات ہو یا بھاگلپور… ملیانہ یا 1984ء کا سکھ ہندو دنگا… دہشت گردی کیسے پیدا ہوتی ہے____ ہم دیکھ چکے ہیں۔ ناموں کے تنازعہ میں پھنس کر، بگڑتی ہوئی صورت حال اتنی خطرناک ہو جائے گی کہ مستقبل میں اس پر قابو پانا مشکل ہوجائے گا۔
 
دنیا کی دوسری بڑی قوم نشانے پر ہے… اور دہشت گرد ٹھہرائی جاچکی ہے… 10برسوں میں ’مسلمان‘ ہونے کا احساس کچھ زیادہ ہی زور پکڑتا چلا گیا ہے اور اب اُسامہ بن لادن اور صدام کے نام کے ساتھ دوسرے ’مسلمان‘ نام کچھ ایسے خوفناک ہوچکے ہیں کہ آسٹریلیا، امریکہ اور انگلینڈ میں آئے دن ان دہشت گرد داڑھی والوں کو بیچ بازار میں پکڑ کر جان سے مارنے کی کارروائی چل رہی ہے… مقصد صاف ہے… دہشت گرد… کو ماردو____ دہشت گردی خود ختم ہو جائے گی۔ لیکن دہشت گرد کون؟
مسلمان اور کون…؟ مطلب پہلی گولی اسلام پر چلائو۔ مسلمان خود مر جائے گا۔
 
پچھلے دس برسوں میں دنیا کی اس سب سے بڑی قوم نے کسی بھی ملک میں، کسی بھی سطح پر کچھ بھی کہا یا کیا ہو، میڈیا نے ہر بار ’مسلمان ‘ اور اسلام کو کچھ ایسے رنگوں میں پیش کیا ہے کہ پڑھے اور لکھتے ہوئے ہر بار مسلمان ہونے کی حیثیت سے تکلیف کا سامنا کرنا پڑا ہے۔تکلیف کا احساس تو ایک الگ بات ہے۔ ہندوستان کی اس 25کروڑ مسلمان آبادی کو، سامنے والے کی آنکھوں میں شک کی پرچھائیاں بھی نظر آنے لگی ہیں۔
…آپ مسلمان ہو؟
ہاں بھائی ہاں،
…تو مسلمان ایسے بھی ہوتے ہیں؟
’یعنی‘ مسلمانوں کو کیسے ہونا چاہئے؟
…’نہیں! میرا مقصد‘…
میں سمجھاتا ہوں۔ میزائلیں…راکٹ لانچرس، اے کے 47- وغیرہ ہر وقت ہاتھوں میں لے کر گھومنا چاہئے… تاکہ دور سے ہی انہیں دیکھ کر زمین جوتتا ہوا کسان تک چیخ اُٹھے____ وہ جارہا ہے مسلمان… دہشت گرد… ہے نہ؟ نیوز ویک ٹائمس سے لے کر انڈیا ٹوڈے جیسی میگزین دیکھ لیجئے۔ ہتھیار اٹھایا ہوا مسلمان… توپ کے گولوں کے درمیان کھڑا مسلمان… آگ لگاتا ہوا مسلمان۔ افغانی پہاڑیوں پر چوکس ہتھیار بند مسلمان… چلاّتا ہوا مسلمان۔ پاکستان میں آئے دن خطرناک جلوسوں کی قیادت کرتا ہوا مسلمان… کچھ عرصے پہلے ایک میگزین میں معصوم 16سال کی ایک بچی کی تصویر شائع ہوئی تھی۔ طالبان کے خلاف مورچہ پر، 14برس کی یاسمین…  بندوق اٹھائے ہوئے یاسیمین کی تصویر مسلمانوں کی نئی سمت کو صاف صاف بیان کرتی نظر آتی ہے۔ چھوٹے چھوٹے ہاتھوں میں کلاشنکوف اور گرینیڈ… یہ تصویر سب کی نظروں میں آچکی ہے۔ یعنی کل ملاکر طالبان بھی ہے مسلمان… اور جو طالبان کے خلاف ہیں یا کھڑے کئے گئے ہیں وہ بھی مسلمان… ناردن الائنس سے لے کر پاکستان اور عرب ملکوں تک مسلمان شک اور سوالوں کے گھیرے کھڑا ہے۔ امریکہ میں… انگلینڈ میں… ہندوستان میں… پاکستان میں…’وہ اسامہ اور صدام سے پہلے بھی شک کے گھیرے میں تھا اور اسامہ اور صدام کے بعد اس کا (مسلمان کا) چہرا اتنا بگاڑ دیا گیا ہے کہ وہ اب دور سے ہی دہشت گرد نظر آنے لگا ہے۔
 
 مسلمانوں کی مخالفت اور زہر اگلنے کی کارروائی آج ایک بھیانک روپ لے چکی ہے۔ میڈیا نے ہر بار مسلمان اور اسلام کو غلط رنگوں میں پیش کیا ہے۔ پاکستان میں ’زانی‘ کو سنگسار، کرنے کا مسئلہ ہو… بابری مسجد سے لے کر جنون یا مذہب کی کوئی بھی کارروائی ہو… میچ فکسنگ یا اظہر کی بے ایمانیوں کی شہرت ہو… ممبئی کا فساد ہو یا حاجی مستان… کریم لالہ کی باتیں… میڈیا کی سرخیوں میں اسلام آجاتا ہے… اور آدمی غائب ہوجاتا ہے۔ سماج اور مذہب پر انگلیاں اٹھنے لگتی ہیں۔ دہشت گرد تنظیموں کا ذکر ہو تو سیمی سے القاعدہ تک… ان تنظیموں کو میڈیا، اسلام سے کچھ اس انداز سے جوڑتاہے کہ سڑک سے گزرنے والا معمولی مسلمان بھی دہشت گرد لگنے لگتا ہے____ دوسرے کے پھٹے میں پائوں ڈالنے والا امریکہ خود اپنے ملک کا سروے کیوں نہیںکرتا، جہاں بلیک لبریشن آرمی، میچروز، دی آرڈر، جیوشن ڈفنس لیگ، پوج اومیکا 7 جیسی کتنی ہی دہشت گرد تنظیمیں سر اٹھائے اپنی کارروائیاں کئے جارہی ہیں۔ پچھلی صدی ختم ہونے تک اور نئی صدی کے پہلے سورج طلوع ہونے تک ____فضا اسلام اور مسلمانوں کو لے کر خوفناک حد تک خراب ہوچکی تھی۔ 
 
سن 2002 تک صورت حال اتنی بھیانک ہے کہ آج کا مسلمان گویا بارود کے ڈھیر پر کھڑا ہے… بُش سے مودی تک سب ایک ہی زبان بول رہے ہیں… اسلام کو ختم کردو۔ مسلمانوں کو مارڈالو۔
 
اسلام، اسلام اور مسلمان
امریکہ سوچتا ہے کہ وہ تانا شاہ بن چکا ہے۔ یعنی ایسی طاقت جس پر فتح حاصل نہیں کی جاسکتی… ایسی طاقت جسے کسی کے بھی خلاف استعمال کرسکتے ہیں____ شعلوں میں گھرے ورلڈ ٹریڈ سنٹر کی طرف اچانک اپنے چھوٹے سے کیمرے کا رخ کرنے والے کے ہونٹوں سے ایک لفظ نکلا تھا… شِٹ____ جلتے اور دھوئیں اگلتے ٹاور کی تصویر اپنے اپنے ٹی وی اسکرین پر جس کسی نے بھی دیکھی ہو، اس نے یہ لفظ ضرور سنا ہوگا… یہ لفظ امریکہ کی اب تک کی غیر مفتوح طاقت پر ایک ایسا غیر جانبدارانہ تبصرہ ہے، جس پر امریکہ کو غور ضرور کرنا چاہئے۔ پہلی بار امریکی عوام کو بھی اس بات کا احساس ہوا____ کہ وہ بھی دوسرے ملکوں کے لوگوں کی طرح ہی معمولی انسان ہیں۔ جن پر حملے ہوسکتے ہیں۔
امریکہ جس کی ’فرعونیت‘ جاپان، کیوبا، ویت نام، نکرگوا، سومایہ، کوریا، عراق… فلسطین سے نکل کر افغانستان تک پھیل گئی تھی____ ورلڈ ٹریڈ سینٹرپر حملے کے بعد اسی امریکہ کا سروے کیجئے تو اُسامہ اور اینتھریکس کے خوف نے اس کی اصلیت کو ظاہر کردیا ہے۔اس کی طاقت کے چیتھڑے اڑچکے ہیں۔ امریکہ جو دوسرے کے گھروں میں سیندھ لگاتا پھرتا تھا اور دوسرے ملکوں میں ہونے والی ہر کارروائی کے بعد اس کی پہلی یہی تنقید ہوتی تھی کہ مجھے پہلے ہی سے سب کچھ پتہ تھا____ اس کی خفیہ ایجنسیوں کی پول بھی کھل چکی ہے۔
 
بُکر انعام یافتہ اروندھتی رائے نے اپنی ایک کتاب میں یہ سوال اٹھایا تھا کہ امریکہ کے فوجی اور معاشی مرکز ورلڈ ٹریڈ سینٹر اور پنٹاگن پر حملے کیوں ہوئے۔ آزادی کا نشان اسٹیچو آف لبارٹی کو کیوں چھوڑ دیا گیا؟ یعنی یہ غصہ جمہوریت کی مخالفت میں نہیں ہے۔ بلکہ امریکی عوام کو سمجھ لینا چاہئے کہ دنیا ان سے نفرت نہیں کرتی… وہ امریکی حکومت کے طرز عمل سے نفرت کرتے ہیں۔
 
دیکھا جائے تو یہی بات اسلام پر عائد ہونی چاہئے… دہشت گردی کی مخالفت ضرور ہونی چاہئے۔ لیکن اسلام کی نہیں۔ مذہب، عقیدے سے وابستہ ایسا خزانہ ہے جس پر کھلے حملہ سے صورت حال بھیانک ہوسکتی ہے… امریکہ کے ساتھ ساتھ باقی ملکوں کو بھی یہ بات اب سمجھ لینی چاہئے۔
 
zauqui2005@gmail.com
 
*******************
Comments


Login

You are Visitor Number : 566