donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Lamhaye Fikr
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Mosharraf Alam Zauqi
Title :
   2002 Ki Dayari : Bajpa,America Aur Musalman Part-4


قسط ۔4
 
۲۰۰۲ 
کی ڈائری: بھاجپا، امریکہ اور مسلمان
 
— مشرف عالم ذوقی
 
بھاجپا یہ بھول گئی ہے کہ اس کی سیاست نہ صرف مسلم مخالف ہے بلکہ وہ ملک کی تہذیبی اور ملی جڑوں کو بھی کھوکھلا کررہی ہے۔ ایک تہذیب یافتہ دور میں جہاں سائنسی فتوحات کی کہانیاں روشن ہیں، دنیا ایک نئے ارتقائی انقلاب کا سامنا کررہی ہے، اور ایسے میں بھاجپا کی سیاست مذہب کی بنیاد پر جس فرقہ وارانہ تنگ نظری کو بڑھاوا دے رہی ہے، اس سے یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ اپنے دور اقتدار میں انڈیا شائننگ کا نعرہ دینے والی یہ پارٹی اس ملک کو کہاں لے جارہی ہے؟ امت شاہ کو اتر پردیش کی کمان سونپ کر بھاجپا نے یہ اشارہ تو دے ہی دیا ہے کہ اب لڑائی کی سمت وہی ہوگی جو ۱۹۹۰ میں تھی۔ اڈوانی جی کی رتھ یاترائوں نے نفرت،دہشت اور فسادات کے منہ کھول دیئے تھے۔ بھاجپا اگلے انتخاب کی تیاری میں پورے ملک میں فساد برپا کرکے فتح حاصل کرنے کا خواب دیکھ رہی ہے۔ ابھی حال میںچوتھی دنیا نے بھی اپنی کور اسٹوری میں تحریر کیا تھا کہ بھاجپا پورے ملک میں فساد کرانے جارہی ہے۔ ابھی حال میں لکھنؤ میں ہونے والے شیعہ سنی دنگے بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہوسکتے ہیں۔ ابھی حال میں سبرامینم سوامی کا ایک شرانگیز بیان آیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ مسلمانوں کی ملت کو تقسیم کرکے ووٹ بینک پر قبضہ کیا جاسکتا ہے۔ یہ غور کرنا ضروری ہے کہ اس بیان کے ایک ہفتہ کے اندر ہی لکھنؤ میں فساد ہوگیا۔ اترپردیش کے لیے اب یہ فسادات عام ہوچکے ہیں۔ مختلف جگہوں سے مسجد کی دیوار گرانے، نفرت بھرا ماحول پیدا کرنے کی خبریں بھی عام ہوچکی ہیں۔ گجرات مسلم کلنگ کا ماسٹر مائنڈ امت شاہ مودی کے اشارے پر اس کام کو خوش اسلوبی سے انجام دے رہا ہے، جسے کبھی وہ گجرات میں انجام دے چکا تھا۔ اوربطورایڈ منسٹریٹر، مودی بھی اس کے فن کا لوہا مانتے ہیں۔ امت شاہ سے ٹکر لینے کے لیے سماج وادی پارٹی بھی اکثریتی ووٹ بینک کو کھونا نہیں چاہتی۔ امت شاہ کے آنے سے قبل ہونے والے دنگے اس بات کے گواہ ہیں کہ اکھیلیش کی حکومت دوطرفہ سیاست کے درمیان تقسیم ہوچکی ہے۔ ایک طرف وہ مسلم اقلیتوں کا ووٹ بینک بھی سنبھال کر رکھنا چاہتے ہیں اوردوسری طرف اکثریتی طبقے کو ان فسادات کی روشنی میں یہ پیغام دینے کی کوشش بھی کررہے ہیں کہ سماج وادی پارٹی تو آپ کے ساتھ ہے۔ اور اسے صرف مسلمانوں سے منسوب کرنا غلط ہے۔ امت شاہ اور اکھیلیش کی اس سیاست میں تلوار صرف اور صرف مسلمانوں پر لٹک رہی ہے۔
کہتے ہیں تاریخ ہربار اپنے آپ کو دہراتی ہے۔ تاریخ اپنے آپ کو ایک بار پھر دہرانے جارہی ہے۔ اور اسی لیے بھاجپا کے اس دوراقتدار کو دیکھنے کی ضرورت محسوس ہوئی، جس نے ہندستان کے مسلمانوں سے اس کا سکھ چین اور امن چھین لیا تھا۔
نہ سمجھو گے تو مٹ جائو گے اے ہندستاں والو
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں
 
سن 2003
سن 2003ء کی آندھی گزر چکی ہے… نئی الفی کی شروعات نے زخم پر زخم دیئے جانے کا جو سلسلہ شروع کیا تھا، وہ جاری ہے… گجرات حادثہ اور مودی کے ’جشن‘ کا طوفان ابھی تھما نہیں ہے۔ مسلمانو ںکو پریشان یا مشتعل ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہاں، یہ محاسبہ کا دور ہے… خوش فہمیوں کے جنگل سے باہر نکل کر ہمیں آنے والے وقت کو سمجھنا ہے… گجرات کی فتح سے توگڑیا جیسے جاہلوں کو حوصلہ ملے گا، اس میں شک نہیں… ہمیں، انہی لوگوں کے درمیان سے راستہ بنانا ہے۔ یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ اچھے لوگوں سے دنیا کبھی خالی نہیں ہوئی ہے… ہم سچے اور کھڑے ہیں تو لوگ ہماری حمایت میں ضرور آگے بڑھیں گے…
 
ارن دھتی رائے اور کچھ نئے پہلو
اردو میں تاریخی ناولوں کی ایک بڑی دنیا ہے۔ مغل بادشاہوں سے لے کر ان کے عروج،ان کے زوال، میر جعفر، میر قاسم اور سراج الدولہ تک____ تاریخی ناولوں کی کمی نہیں۔ (ابھی حال میں مصطفی کریم کا ناول ’’طوفانوں کی آہٹ‘‘ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے)یہاں ایسے تاریخی ناولوں کا تذکرہ میں نے جان بوجھ کر کیا ہے۔ ایسے ناولوں کے سہمے سہمے ہوئے ہندو کردار بار بار ایک محدود دائرہ کھینچ کر میرے سامنے بیٹھ جاتے ہیں۔ وہ چاہے اکبر بادشاہ کے دربار سے نکلے ہوئے کردار ہوںیا سراج الدولہ کے قریبی… مجھے چاپلوسی میں ڈوبے، ان کرداروں کو بار بار پڑھتے ہوئے الجھن سی محسوس ہوئی ہے۔
 
مدتّ مدید کی تھکن اُڑھنے کے بعد، ایک انتہائی مہذب دنیا میں پہنچنے تک، توگڑیا اور مودی جیسوں کی ’’نگہبانی‘‘ میں ایسا لگتا ہے جیسے ایک بار پھر وہی پرانی کہانی شروع ہوگئی ہے۔ یہ جنگ اب صرف دو لوگوں کے درمیان ہے۔ ایک تاناشاہ ہے اور دوسرا مظلوم و محکوم… ایک طرف اقلیت ہے تو دوسری طرف اکثریت۔ طاقتور اور کمزور کی لڑائی میں تمام دلیلیں، قائدے قانون، اقوام متحدہ کے قیام کا مقصد، سب کچھ جیسے طاق پر رکھا جاچکا ہے۔گلوبلائیزیشن کے اس عہد میں، سامراج واد کی آڑ میں اب یہی کھیل بُش اور بلئیر مل کر کھیل رہیں ہیں۔
۱۳؍مئی ۲۰۰۳ء نیویارک کے ریور سائڈ چرچ میں ارن دھتی رائے نے جو بیان دیا وہ خاصا اہمیت کا حامل ہے۔
 
’’ہم وقت کے ایسے دوڑ سے گزر رہے ہیں جب ہمیں یہ جاننے کے لئے بھی ایک دور میں شامل ہونا پڑرہا ہے کہ کتنی تیزی سے ہماری آزادی چھینی جارہی ہے۔ ایسے دور میں کچھ وقت کے لئے ہی سہی، اس دوڑ سے الگ ہونے اور اس طرح کے تمام واقعات، حادثات سے مکمل ’پولیٹیکل‘ تھیسس لے کر لوٹنے کا جوکھم چند لوگ ہی اٹھاسکتے ہیں۔ میں آج کی رات بھلا آپ کو کیا تحفہ دے سکتی ہوں۔ ہم ایک مشکل دور سے دوسرے مشکل دور کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ جنہیں سیٹلائٹ اور ٹی وی میڈیا لگاتار ہمارے دماغوں میں بھرنے کا کام کررہی ہے۔ لیکن ہمیں اپنی زمین کے بارے میں غور کرنا ہے ، سوچنا ہے____ ہم جنگ کے ملبے سے ہوتے ہوئے تاریخ کے دروازے میں داخل ہوتے ہیں۔ کتنے شہر ختم ہوگئے____کھیت سوکھ گئے، جنگل کٹتے جارہے ہیں کتنی ہی ندیاں تاریخ کا حصہ بنتی جارہی ہیں۔ کتنی ہی عظیم الشان لائبریریوں پر ظلم وستم کے پہاڑ ڈھائے گئے… تو بھلا آج کی رات میں آپ کو کیا تحفہ دے سکتی ہوں۔ دولت، جنگ، سامراج، نسل کشی اور جمہوریت کے بارے میں کچھ منتشر خیالات… کچھ ایسی فکر جو پتنگوں کی طرح میرے دماغ کے ارد گرد گھومتی ہیں اور مجھے راتوں کو جگائے رکھتی ہیں۔ ممکن ہے میری بات آپ کو اچھی نہیں لگے، ممکن ہے مہذب دنیا کو یہ پسند نہیں آئے کہ ایک بھارتی شہری یہاں آکر امریکی سامراج واد پر تنقید کرے۔ میں اپنے بارے میں نہ کوئی پرچم لہرانے آئی ہوں، نہ ہی کوئی حب الوطنی کا گیت گانے… میں اچھی طرح جانتی ہوں کہ ہر ملک، ہر صوبہ اور ہر ریاست کی مرتی ہوئی آتما پر آج ظلم اور دوغلے پن کا راج ہے____ لیکن جب ایک ملک صرف ایک ملک نہ رہ کر سامراج بن جائے تو تحریک کا معیار ڈرامائی طریقے سے بدل جاتا ہے____ میں بتانا چاہتی ہوں کہ آج میں____ امریکی سامراج کے، ایک غلام کی حیثیت سے بول رہی ہوں____ ایک ایسا غلام جو اپنے بادشاہ کا قصیدہ نہیں پڑھنا چاہتا بلکہ اس کے ظلم کے خلاف احتجاج کرنا چاہتا ہے۔‘‘
 
____ ارن دھتی رائے
حقیقتاً جب ایک ملک،ایک ملک نہ رہ کر، عظیم الشان سامراج بن جائے تو تحریک کا معیار ہی ڈرامائی انداز سے تبدیل ہوجاتا ہے۔ مجھے کچھ یہی حال اپنے یہاں مسلمانوں کا نظر آتا ہے۔منطق مت دیجئے____ ابھی حال میں ہندی کے مشہور رسالہ ’’کتھا دیش‘‘میں، دیئے گئے ایک انٹرویو میں مشہور ہندی افسانہ نگار  پرینود نے اس دکھ کو گہرائی سے محسوس کیا ہے…
’’آپ اقلیت میں ہوتے تو جانتے کہ اقلیت میں ہونا کیا ہوتا ہے۔‘‘
 
جی ہاں!…بہت بھیانک____ جیسے کسی بھی موسم میں ترشول لئے سنگھیوں کا آپ کی پیشانی پر مسلمان ہونا پڑھ لیا جانا… بسوں میں اردو کتابوں چھپاتے ہوئے…پاکستان پر بار بار غیرضروری طریقوں سے اپنا بچائو کرنا____ ہندوپاک کرکٹ کا میچ ہویا کہیں بھی ہونے والا فدائین حملہ… آپ نہیں جانتے کہ اقلیت میں ہونا کیا ہوتا ہے؟ آپ نہیں جانتے کہ غلام ہونا کیا ہوتا ہے؟ ارن دھتی نیویارک کے ریورس سائیڈ چرچ میں غلام بن گئی تھیں، مسلمان گودھرا سے پیدا شدہ سچ کے بعد کچھ ایسا ہی محسوس کررہے ہیں۔
 
تقسیم ایک پڑائو تھا… اب ایک اہم پڑائو گودھرا بن گیا ہے۔مسلمان آنے والے وقت میں بھی اس پڑائو سے گزرے بغیر آگے نہیں جاسکتے… مہیش مانجریکر کی حالیہ فلم ’’پران جائے پر شان نہ جائے‘‘ میں ایک مسلم غریب کردار ایک ہندو کے منہ سے بار بار پاکستانی کہے جانے پر چیختا ہے… ’’سالے ۔۔۔ورلڈ ٹریڈٹاور میں ہوائی جہاز گھستا ہے تب بھی یہاں آکر ہم سے پوچھتے ہو جیسے ہم نے ہی گھسایا ہے۔‘‘
 
اصلیت یہی ہے کہ آپ اقلیت میں ہوتے تو جانتے کہ اقلیت ہونا کیا ہوتا ہے۔ تقسیم کے بعد سے لے کر اب تک میں نے پتہ نہیں اپنے کتنے مضامین میں اس لفظ اقلیت کے خلاف اپنا احتجاج درج کرایا ہے۔مجھے شروع سے ہی اقلیتی کمیشن جیسے اداروں سے خداواسطے کا بیر رہا ہے۔ میری اپنی منطق تھی کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی 20کروڑ سے کم نہیں اور اتنی بڑی آبادی اقلیت نہیں ہوسکتی۔ اسے دوسری بڑی اکثریت کا نام دینا چاہئے۔مجھے احساس تھا کہ محض دوسری بڑی اکثریت کے اعلان کے انجکشن سے، ہمارے بہت سارے مسائل حل ہوسکتے ہیں لیکن شائد میں غلطی پر تھا۔
 
گودھرا کانڈ کے بعد جیسے ساری حقیقتیں بدل گئی۔ مودی کا ہندوتو چمکا… گجرات ہندوتو کی پہلی لیبارٹری بنا… وی ایچ پی، بجرنگ دل جیسی ہندو تنظیموں کی نفرتیں کھل کر سامنے آئیں… توگڑیا کا ترشول گھر گھر پہنچا… ملک میں اس سے پہلے بھی فسادہوتے رہے لیکن نفرت کی ایسی کہانی کا جنم پہلی بار ہوا تھا… کیا تاریخ خود کو دھرا رہی تھی؟ تہذیبوں کی تاریخیں بدلی تھی… نئی دنیا میں مہذب ہونے کا ایک ہی مطلب تھا… طاقتور ہونا__ ہم نے یہ بھی جانا کہ اصول ،قائدے قانون اقلیتوں کے پاس نہیں ہوتے__ طاقتوروں کے پاس ہوتے ہیں۔ ہزاروں چشم دید گواہوں کے باوجود مودی یا توگڑیا پر کوئی پوٹا کوئی قانون نافذ نہیں ہوتا__ چاروں طرف بارش کی طرف برستے ہوئے مکالمے ایک نئی نفسیاتی کہانی کا سبب بن جاتے ہیں جس کے پہلے صفحے پر لکھا ہوتا ہے__ کہ ’’آپ کو بزدل بن کر جینا ہے‘‘… یہی نفسیات ارن دھتی کو نیویارک میں غلام بنا دیتی ہے اور اسی نفسیات سے گزرتے ہوئے مسلمان بدلے بدلے سے ماحول میں خود کو غلامی کے گہرے کنویں میں قید محسوس کرتا ہے۔
 
zauqui2005@gmail.com
***********************
Comments


Login

You are Visitor Number : 540